• 26 اپریل, 2024

تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے (قسط 25)

تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے
ذاتی تجربات کی روشنی میں(قسط 25)

الانتشار العربی نے اپنی 16 مارچ 2006ء کی اشاعت میں صفحہ 9 پر حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطبۂ  جمعہ کا خلاصہ شائع کیا ہے۔ حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی تصویر کے ساتھ۔ تصویر کے نیچے حضور کا نام اس طرح لکھا ہے:

حضرت مرزا مسرور احمد امام جماعت اسلامیہ احمدیہ عالمگیر

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے یہ خطبۂ جمعہ 10 مارچ 2006ء کو مسجد بیت الفتوح لندن میں ارشاد فرمایا تھا اور اس کا مرکزی نقطہ: ’’آنحضرت ﷺ کی پاک ذات پر بیہودہ حملوں کے جواب میں اسلام کی خوبصورت اور پاکیزہ تعلیم کا تذکرہ تھا۔‘‘

اسلام حسن اخلاق سے اور آزادی ٔضمیر و مذہب کے اظہار سے پھیلا ہے۔ آنحضرت ﷺ مجسم رحم تھے اور آپ کے سینہ میں وہ دل دھڑک رہا تھا کہ جس سے بڑھ کر کوئی دل رحم کے وہ اعلیٰ معیار اور تقاضے پورا نہیں کر سکتا جو آپ ﷺ نے کئے۔

حضورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
’’آنحضرت ﷺ کی ذات پر غیرمسلموں کی طرف سے جو یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ آپؐ نعوذ باللہ ایسا دین لے کر آئے جس میں سوائے سختی اور قتل و غارت گری کے کچھ اور ہے ہی نہیں اور اسلام میں مذہبی رواداری، برداشت اور آزادی کا تصور ہی نہیں ہے اور اسی تعلیمات کے اثرات آج تک مسلمانوں کی فطرت کا حصہ بن چکے ہیں۔ اخبار نے لکھا کہ امام (یعنی حضورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز) نے فرمایا کہ بدقسمتی سے مسلمانوں میں سے ہی بعض طبقے اور گروہ یہ تصور پیدا کرنے اور قائم کرنے میں ممد و معاون ہوتے ہیں اور بدقسمتی سے ان کے اسی نظریے اور عمل نے غیراسلامی دنیا میں اور خاص طور پر مغرب میں ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے بارے میں لغو اور بیہودہ اور انتہائی نازیبا اور غلیظ خیالات کے اظہار کا موقع پیدا کیا ہے جبکہ ہم جانتے ہیں کہ بعض طبقوں اور گروہوں کے عمل مکمل طور پر اسلامی تعلیم اور ضابطہ اخلاق کے خلاف ہیں۔ اسلام کی تعلیم تو ایک ایسی خوبصورت تعلیم ہے جس کی خوبصورتی اور حسن سے ہر تعصب سے پاک شخص متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔

آج کل کی جہادی تنظیموں نے بغیر جائز وجوہات کے اور جائز اختیارات کے اپنے جنگجوانہ نعروں اور عمل سے غیرمذہب والوں کو یہ موقع دیا ہے اور ان میں اتنی جرأت پیدا ہو گئی ہےکہ انہوں نے نہایت ڈھٹائی اور بے شرمی سے آنحضرت ﷺ کی پاک ذات پر بیہودہ حملے کئے اور کرتے رہے ہیں جبکہ آپ مجسم رحم تھے۔ آپ نے تو یہ اعلان فرمایا تھا کہ ’’لااکراہ فی الدین‘‘ یعنی مذہب تمہارے دل کا معاملہ ہے۔ میری خواہش تو ہے کہ تم سچے مذہب کو مان لو اور اپنی دنیا و عاقبت سنوار لو، اپنی بخشش کے سامان کر لو لیکن کوئی جبر نہیں۔ آپؐ کی زندگی رواداری اور آزادیٔ مذہب و ضمیر کی ایسی بے شمار روشن مثالوں سے بھری پڑی ہے۔

مکہ میں آپؐ کی دعویٰٔ نبوت کے بعد کی 13 سالہ زندگی کتنی سخت اور کتنی تکلیف دہ تھی۔ آپ نے اور آپ کے صحابہ نے کتنے دکھ اور تکالیف اور مصیبتیں برداشت کیں۔ دوپہر کے وقت تپتی گرم ریت پر لٹائے گئے، کوڑوں سے مارے گئے، عورتوں کی ٹانگیں چیر کر مارا گیا، طائف کے سفر میں بچے آپ پر پتھراؤ کرتے رہے۔ پھر آپ نے مدینہ ہجرت فرمائی لیکن یہاں بھی دشمن نے نہیں چھوڑا اور مدینہ پر حملہ آور ہوئے لیکن ہمارے نبی ﷺ نے ان حالات میں بھی نرم دلی اور رحمت کے اعلیٰ معیار قائم فرمائے۔

حضورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ آج دیکھ لیں۔ بعض مغربی ممالک جن سے جنگیں لڑرہے ہیں ان سے کیا کچھ نہیں کرتے لیکن اس کے مقابلہ میں آپؐ کا اسوہ دیکھیں جس کا تاریخ میں یوں ذکر ملتا ہے کہ جنگ بدر کے موقع پر جس جگہ اسلامی لشکر نے پڑاؤ ڈالا تھا وہ کوئی اچھی جگہ نہیں تھی۔ ایک صحابی نے مشورہ دیا کہ جہاں پر پانی کا چشمہ ہے وہاں ہمیں قبضہ کرنا چاہئے اور اس سے دشمن کو پانی نہیں دیں گے۔ جب آپ وہاں تشریف لے گئے اور دشمن پانی لینے کے لئے آئے تو صحابہ نے انہیں روکا۔ آپ نے فرمایا کہ نہیں ان کو پانی لینے دو۔ تو یہ اعلیٰ معیار تھا آنحضرت ﷺ کے اخلاق کا۔ حالانکہ دشمن نے اس سے قبل مسلمانوں کے بچوں کا دانہ پانی تک بند کر دیا ہوا تھا مگر آپ نے انہیں پانی لینے سے نہ روکا۔

ایک اور واقعہ حضورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بیان فرمایا جو اخبار نے لکھا ہے کہ ابوجہل کا بیٹا عکرمہ اپنے باپ کی طرح عمر بھر رسول کریم ﷺ سے جنگیں کرتا رہا۔ فتح مکہ کے موقع پر بھی یہ حرم میں خون ریزی کا باعث بنا جس کی وجہ سے یہ واجب القتل ٹھہرا۔ چنانچہ وہ یمن کی طرف بھاگ گیا۔ اس کی بیوی رسول کریم ﷺ سے اس کی معافی کی طلبگار ہوئی تو آپ نے بڑی شفقت سے اسے معاف فرما دیا۔ حضورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ اسلام اس طرح حسن اخلاق سے اور آزادی ٔ ضمیر و مذہب کے اظہار کی اجازت سے پھیلا ہے۔

حضورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا۔کہ آنحضرت دعویٰٔ  نبوت سے پہلے بھی آزادی ٔضمیر اور آزادیٔ مذہب اور زندگی کی آزادی پسند فرماتے۔ اس ضمن میں حضورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت خدیجہؓ سے شادی کا ذکر فرمایا اور انہوں نے اپنا سارا مال و متاع اور غلام آنحضرت ﷺ کی خدمت میں پیش کر دئیےجن میں ایک غلام زیدؓ بھی تھا۔ اسے بھی آزادی کر دیا۔ مگر اس کے والدین جب اسے لینے آئے تو زیدؓ نے اپنے والدین کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا اور کہا کہ میں تو اب آنحضرت ﷺ کا غلام ہو چکا ہوں۔ ماں باپ سے زیادہ محبت مجھے آپ ﷺ سے ہے۔

غیروں کے ساتھ بھی آپ نے ہمیشہ رحیمانہ اور شفیقانہ سلوک رکھا۔ ایک مسلمان اور یہودی کے درمیان جھگڑا ہوا تو مسلمان نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو سب جہانوں پر فضیلت دی ہےجواباً یہودی نے بھی کہا کہ حضرت موسیٰ ؑکو اللہ تعالیٰ نے سب جہانوں پر فضیلت دی ہے۔ اسپر مسلمان نے یہودی کو تھپڑ مار دیا۔ یہودی نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں شکایت کی۔ آپ نے دونوں سے بات پوچھ کر فرمایا کہ مجھے موسیٰؑ پر فضیلت نہ دو۔

اسی طرح حضورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ آپؐ ایک دفعہ ایک یہودی کے جنازہ کو دیکھ کر احتراماً کھڑے ہو گئے۔ پس یہ احترام مذہب بھی ہے اور احترام انسانیت بھی۔

اس ضمن میں حضورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نجران کے عیسائیوں کا واقعہ بھی بیان فرمایا کہ انہیں آپؐ نے مسجد نبوی میں اپنے طریق کے مطابق عبادت کرنے کی اجازت عطا فرمائی جبکہ بعض صحابہ کا خیال تھا کہ اجازت نہیں دینی چاہئےلیکن جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نےفیصلہ فرما دیا تو انہوں نے بھی سرتسلیم خم کردیا۔

اہل نجران کو جو امان نامہ آپؐ نے دیا اس کا بھی ذکر ملتا ہے۔ اس میں آپ نے اپنے اوپر یہ ذمہ داری قبول فرمائی کہ مسلمان فوج کے ذریعہ سے ان عیسائیوں کی (جو نجران سے آئے تھے) سرحدوں کی حفاظت کی جائے گی۔ ان کے گرجے، ان کے عبادت خانے، مسافر خانے، خواہ وہ کسی دور دراز علاقے میں ہوں یا شہروں میں ہوں یا پہاڑوں میں ہوں یا جنگلوں میں ان کی حفاظت مسلمانوں کے ذمہ ہے۔ ان کو اپنے مذہب کے مطابق عبادت کرنے کی آزادی ہو گی۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا چونکہ اب یہ مسلمان حکومت کی رعایا ہیں اسلئے اس اس کی حفاظت مجھ پر فرض ہے کہ اب یہ میری رعایا بن چکے ہیں۔

نیز فرمایا کہ پس ہزاروں درود اور سلام ہوں آپ ﷺ پر جنہوں نے اپنے یہ اعلیٰ نمونے قائم فرمائے اور ہمیں بھی اس کی تعلیم عطا فرمائی۔

الانتشار العربی نے اپنے انگریزی سیکشن میں 16 مارچ 2006ء کے شمارے کے صفحہ 26 پر ہماری ایک خبر دی جس کا عنوان ہے:
’’جماعت احمدیہ مسلمہ کا وفد وکٹر وِل کے محکمۂ پولیس کو لٹریچر پیش کرتا ہے۔‘‘

اخبار نے لکھا کہ حال ہی میں جماعت احمدیہ مسلمہ کے ایک وفد نے جو لاس اینجلس سے امام شمشاد احمد ناصر کی قیادت میں آیا تھا وکٹر وِل کے پولیس کے محکمہ کو ملا۔ وفد میں مسٹرمونس چوہدری صاحب مسٹر غفارصاحب اور مسٹر علیم صاحب شامل تھے۔

امام شمشاد نے جماعت احمدیہ کا تعارف کروایا اور کہا کہ جماعت احمدیہ ایک پرامن جماعت ہے جو قانون کا احترام کرتی ہے۔ نیز بتایا کہ جماعت احمدیہ ہر قسم کے تعاون کے لئے تیار ہے جس سے کہ کمیونٹی میں امن کا قیام ممکن ہو سکتا ہو۔

اس کے بعد امام شمشاد نے Lt.Cliff Raynolds کو قرآن کریم مع انگریزی ترجمہ اور شارٹ کمنٹری، آنحضرت ﷺ کی سیرت طیبہ، اسلامی اصول کی فلاسفی، اسلام کی حقیقی تعریف و معانی (Understanding Islam) جہاد، اور عصر حاضر کے مسائل کا حل کا تحفہ پیش کیا۔

امام شمشاد نے یہ بھی کہا کہ آجکل مغرب میں آنحضرت ﷺ کے خاکوں کی اشاعت پر ہمیں بہت زیادہ دکھ پہنچا ہے اور اس پر جو مسلمانوں کی طرف سے ردعمل آیا ہے اس سے بھی بہت نقصان ہوا ہے۔

لیفٹیننٹ کلف رےمولڈ نے اسلام کے بارے میں کچھ سوالات بھی کئے اور وفد کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ بھی ادا کیا کہ اتنی دور سے (مسجد بیت الحمید چینو) سے پولیس کے محکمہ کو ملنے آئے ہیں اوران کے سوالوں کے جواب بھی دیئے۔ اور کہا کہ امام شمشاد کسی وقت بھی ہمارے پولیس کے دفتر آسکتے ہیں اور ہمارے پولیس کے افسران کے ساتھ ان کو بریفنگ کے دوران اسلام کے بارے میں ان کے سوالوں کے جواب دے سکتے ہیں۔ اخبار نے آخر میں لکھا کہ وکٹر وِل پولیس کے محکمہ سے ملاقات کے بعد امام شمشاد نے کتب کا تحفہ وکٹر وِل لائبریری میں بھی پیش کیا۔

الانتشار العربی کے عربی سیکشن میں مسجد بیت الحمید کی تصویر کےساتھ ہمارا ایک تبلیغی اشتہار بھی شائع ہوا۔ اس تبلیغی اشتہار کا عنوان یہ تھا کہ عصر حاضر کے مسائل کا حل اسلام میں۔ معلومات کے لئے مسجد بیت الحمید فون کریں۔ اشتہار کے اوپر مسجد بیت الحمید میں جو پروگرام ہوتے ہیں ان کی تفصیل دی گئی ہے مثلاً پانچ نمازوں اور نماز جمعہ کا وقت، سنڈے کلاس، اسلام کے بارے میں کتب اور لٹریچر، مسجد کا وزٹ اور مجلس سوال وجواب۔

اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اسلام کے بارے میں درج ذیل کتب بھی خاص طور پر دستیاب ہیں:
اسلام عصر حاضر کے مسائل کا حال، مذہب کے نام پر خون، القول الصریح فی ظہور المہدی و المسیح، بہت بڑی خبر (نبأ عظیم)

اگر آپ جہاد کے بارے میں، مسیح موعودؑ کی آمد ثانی کے بارے میں اور مسیح موعودؑ کے بارے میں، معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو مسجد کے دیئے گئے فون نمبرز پر کال کریں یا مسجد وزٹ کریں۔ ہر قسم کے سوال کا شافی جواب دیا جائے گا۔

ڈیلی بلٹن نے 18 مارچ 2006ء کےشمارےکےصفحہ A3 پر ایک مختصراً خبر دی ہے کہ

Chino Imam leads Delegation to Desert

چینو کا امام اپنے وفد کو صحرا میں لے جاتا ہے۔

اوپر جو خبر گزری ہے کہ جماعت احمدیہ کا وفد وکٹروِل محکمۂ پولیس کو ملنے گیا تھا، یہ وہی خبر ہے۔ وکٹر وِل چونکہ صحرا کا علاقہ ہے اوریہاں کافی گرمی پڑتی ہے جس کی وجہ سے انہوں نے یہ سرخی لگائی ہے ۔

اخبار نے یہ خبر Mr. Mason Stockstill کے حوالہ سے دی ہے۔

اخبار نے لکھا کہ امام سید شمشاد احمد اور جماعت احمدیہ کا وفد اس ہفتے وکٹر وِل میں پولیس کے محکمہ سے ملاقات کرنے گیا تھا۔ امام شمشاد اور Lt. Cliff Raynolds نے آپس میں باہمی تبادلہ خیالات کیا اور اسلام کے بارے میں بات چیت کی۔اسی طرح سوالوں کے جواب بھی دیئے گئے نیز آپس میں تعلقات بڑھانے کی پیشکش کی گئی۔ امام ناصر کی مسجد اس علاقے میں جماعت احمدیہ کی روحانی عبادت گاہ ہے ۔ احمدیہ مسلم جماعت مسلمانوں کی ایک شاخ ہے۔ وکٹر وِل وہ جگہ ہے جہاں ماضی میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پائی جاتی ہے۔ ایک دفعہ یہاں پر مسلمانوں کی مسجد کو آگ لگائی گئی تھی اور دو سال پہلے یہاں پر قبرستان میں بھی توڑ پھوڑ کی گئی تھی۔

نوٹ: وکٹروِل جانے اور پولیس کے محکمہ سے ملنے کی ایک بڑی وجہ تو احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی تبلیغ تھی اور دوسرے جیسا کہ اخبار ڈیلی بلٹن نے لکھا کہ یہاں پر عوام میں مسلمانوں کے خلاف نفرت اور غم و غصہ کا اظہار پایا جاتا تھااس لئے ہم نے سوچا کہ یہاں جا کر اسلام کے بارے میں غلط فہمیوں کا ازالہ کیا جائے اور اس کے لئے سب سے بہتر جگہ پولیس کا محکمہ تھا۔ پولیس کے محکمہ نے اس سلسلہ میں بہت تعاون کیا۔ خاکسار نے اس شہر کے متعددوزٹ کئے اور پولیس کےا فسران سے اسلام کے بارے میں، جہاد، عورتوں کے حقوق وغیرہ امور پر کھل کر باتیں ہوئیں اور ان کے خدشات اور شکوک و شبہات کا ازالہ کرنے کا موقع ملا۔ اسی طرح وہاں کی لائبریرین سے بھی ملے۔ انہوں نے بھی ہماری کتب تحفہ میں لے کر لائبریری میں رکھیں اور وہاں پر ہم نے اسلام کے بارے میں نمائش بھی لگائی تھی جس میں قرآن کریم اور آنحضرت ﷺ کے بارے میں پوسٹر بھی تھے۔ اس موقعہ پر بھی سوالوں کے جوابات دیئے گئے۔ خداتعالیٰ کے فضل سے علاقہ میں بہت اچھا اثرہوا۔ اور تیسرے اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ان دنوں حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ہدایت تھی کہ تبلیغ کے لئے چھوٹے چھوٹے گاؤں میں جانا چاہئے۔ اس لحاظ سے یہاں کا وزٹ ہوا اور علاقہ کے لوگوں میں احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا پیغام پہنچانے کی توفیق ملی۔ الحمد للہ علیٰ ذالک

انڈیا ویسٹ نے اپنی 24 مارچ 2006ء کی اشاعت کےصفحہ B-18 پر ہماری یہ خبر شائع کی :
تمام مذہبی لیڈروں نے اسلام کے نبی (ﷺ) کے خاکوں کی اشاعت کی مذمت کی ہے ۔

اخبار لکھتا ہے کہ کیلیفورنیا کی مسجد کے لیڈر نے (اس سے مراد جماعت احمدیہ کی مسجد ہے) تمام مذہبی لیڈروں سے کہا ہے کہ حال ہی میں ڈنمارک میں جو اخبار نے بانیٔ اسلام کے خاکے شائع کئے ہیں مسلمانوں کی دل آزاری ہوئی ہے، اس لیے سب کو اس کی مذمت کرنی چاہئے۔

امام شمشاد آف مسجدبیت الحمید نے ان خیالات کا اظہار جماعت احمدیہ عالمگیر کے روحانی پیشوا حضرت مرزا مسرور احمد ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کےبارےمیںکو ہی سب کے سامنے پیش کیا ہے۔ امام شمشاد نے حضرت مرزا مسرور احمد کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ ان خاکوں کی اشاعت کے لئے انہوں نے پریس کی آزادی کا عذر پیش کیا ہے لیکن انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ آزادی کی بھی ’’حد‘‘ ہے۔ ہم ایسی سوسائٹی میں رہ رہے ہیں جہاں دیگر مذاہب والے بھی ہیں اور ہمیں ایک دوسرے کو سمجھنا چاہئے۔ ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہئے اور آپس میں امن اور بھائی چارے کی فضا کو قائم رکھتے ہوئےرہنا چاہئے۔ شمشاد نے مزید کہا کہ اسلام ہمیں اس قسم کی حرکتوں سے منع کرتا ہے۔

اخبار نے لکھا کہ گزشتہ ہفتے ایک گروپ جس کا نام ’’پاکستان کا دوست‘‘ نے ایک میٹنگ کا اہتمام کیا جس میں مسلمان، ہندو اور عیسائی مدعو تھے۔ انہوں نے آنحضرت ﷺ کے خاکوں کی اشاعت پر مذمت کی ہے۔

نوٹ: یہ اللہ تعالیٰ کا محض فضل و احسان ہے کہ جب بھی اسلام کے خلاف اور آنحضرت ﷺ کے خلاف یہاں امریکہ میں یا دنیا کے کسی ملک میں کوئی اعتراض شائع ہوا یا اسلام کے خلاف کسی بھی موضوع پر آواز اٹھائی گئی تو سب سے پہلے جماعت احمدیہ کو اس محاذ پر خلافت کی برکت اور خلافت کی رہنمائی میں دفاع کرنے کی توفیق ملی۔ یہی قصہ جو ڈنمارک میں اور دیگرمغربی ممالک میں آنحضرت ﷺ کے خاکوں کی اشاعت کا ہواتھا۔ اس پر سب سے اول حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے خطبۂ جمعہ ارشاد فرمایا اور تفصیل کےساتھ ان امور پر روشنی ڈالی اور جماعت کے سامنے لائحہء عمل رکھا اور پھر ساری عالمگیر جماعت نے اس پر فوری توجہ دی۔

یہاں آپ نے پڑھا ہے کہ خداتعالیٰ کےفضل سے مختلف شہروں کے مختلف اخبارات میں انہی نکات کو لے کر جو حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ارشاد فرمائے تھے، اخبار پریس اور میڈیا میں دیئے گئے اور اس کی برکت سے ہمیں واضح کوریج ملی اور اسلام کا صحیح نقطہ ٔنظر بیان کرنے کا موقع ملا۔ لیکن اس کے مقابل پر اگر غیراحمدیوں کے بیانات دیکھے جائیں تو اخبارات میں سوائے توڑ پھوڑ کے، ایمبیسیوں کو جلانے یا ان ملکوں کے جھنڈوں کو جلانے کے علاوہ اور کچھ نہ ملے گا۔

اس لحاظ سے ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمیں بروقت ہدایت ملتی ہے اور اسلام کے دفاع اور آنحضرت ﷺ کی ذات مقدسہ و مطہرہ کے دفاع کی بروقت کارروائی ہوجاتی ہے اور اسے شائع کرایا جاتا ہے۔ فالحمد للہ علیٰ ذالک

الاخبار نے اپنے انگریزی سیکشن میں اپنی اشاعت مؤرخہ 29 مارچ 2006ء کےصفحہ 25 پر ہماری خبردو تصاویر کے ساتھ شائع کی ہے۔ ایک تصویر میں خاکسار وکٹروِل کے محکمۂ پولیس کے انچارج کو اسلامی کتب کا تحفہ پیش کر رہا ہے اور دوسری تصویر میں جماعت احمدیہ کا وفد Lt. Cliff Raynolds کے ساتھ ہے۔ تصویر میں (دائیں سے بائیں) مکرم برادر علیم صاحب، خاکسار سید شمشاد احمد ناصر، مسٹر کلف، مکرم مونس چوہدری صاحب، سیکرٹری تبلیغ لاس اینجلس اور برادر غفارصاحب شامل ہیں۔

خبر یہ ہے :
احمدیہ مسلمانوں کا وفد وکٹروِل کے محکمۂ پولیس کو اسلامی کتب کا تحفہ پیش کرتا ہے۔

اخبار لکھتا ہے کہ حال ہی میں لاس اینجلس کیلیفورنیا کی مسجد بیت الحمید سے ایک وفد امام شمشاد احمد ناصر کی قیادت میں وکٹر وِل پولیس کے محکمہ سے ملا۔ وفد میں امام شمشاد ناصر کے علاوہ مسٹر مونس چوہدری، مسٹر علیم احمد اور مسٹر محمد عبدالغفار شامل تھے۔ وفد کا استقبال لیفٹیننٹ مسٹر کلف اے نولڈ نے کیا۔ امام شمشاد نے احمدیہ مسلم جماعت کا تعارف کرواتے ہوئے مسٹر کلف اے نولڈ کو بتایا کہ ہماری جماعت ایک پرامن اور قانون کی پابندی کرنے والی جماعت ہے اور ہم آپ کو ہر قسم کے تعاون اور مدد کی آفر پیش کرتے ہیں جس سے علاقہ میں امن کو استحکام ملے۔ اس موقعہ پر امام شمشاد نے لیفٹیننٹ کلف کو اسلامی کتب کا تحفہ بھی پیش کیاجن میں خصوصاً قرآن کریم مع انگریزی تفسیر، سیرت النبی ﷺ، اسلامی اصول کی فلاسفی، اسلام اور عصر حاضر کے مسائل اور جہادشامل تھیں۔

امام شمشاد نے یہ بھی کہا کہ اس وقت مسلمانوں کی بہت دل آزاری ہوئی ہے جو یہ آنحضرت ﷺ کے خاکے شائع ہوئے ہیں۔

اسی طرح امام شمشاد نے یہ بھی کہا کہ اس موقعہ پر بعض مسلمانوں کا ردعمل بھی مناسب نہیں تھا۔ اس موقعہ پر لیفٹیننٹ کلف اے نولڈ نے کچھ سوالات بھی کئے جن کے امام شمشاد نے جواب دیئے۔ لیفٹیننٹ کلف نے وفد کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا کہ وہ لاس اینجلس سے یہاں آئے اور کتب کا تحفہ پیش کیا۔ لیفٹیننٹ کلف نےیہ بھی کہا کہ وہ امام سے اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ جب بھی ان کا ادھر آنا ہو وہ ہمارے پولیس کے افسران کو بریفینگ کے دوران اسلام سے متعلق سوالات کا جواب دیں۔

اخبار نے آخر میں لکھا کہ اس کے بعد امام شمشاد نے اپنی کتب کا سیٹ وکٹروِل کی لائبریری میں بھی بطور تحفہ پیش کیا۔

ہفت روزہ اردو لنک نے اپنی اشاعت 7سے 13اپریل 2006ء کے صفحہ 6 پر خاکسار کا مضمون قرآن کریم کے محاسن، فضائل و برکات اور اگلی قسط خاکسار کی تصویر اور پورے نام کے ساتھ ’’دین کی باتیں‘‘ کے تحت شائع کی۔ اس مضمون میں خاکسار نے اسلام کے دوسرے رکن اقامت الصلوٰۃ کے معانی بیان کئے ہیں اور حضرت مصلح موعودؓ کی تفسیر کبیر سے اس کے چوتھے معانی لکھے ہیں۔ جس میں حضورؓ نے فرمایا ’’ہم نے تمہیں صرف اتنا حکم نہیں دیا کہ تم نمازیں پڑھو، بلکہ ہمارا حکم یہ ہے کہ تم لوگوں کے ساتھ مل کر نمازیں پڑھو اور اپنی ہی حالت کو درست نہ کرو بلکہ ساری قوم کو سہارا دے کر اس کی روحانیت کو بلند کرو اور قوم سے دور نہ بھاگو بلکہ اس کے ساتھ رہو اور ہوشیار چوکیدار کی طرح اس کے اخلاق اور روحانیت کا پہرہ دو‘‘ (تفسیر کبیر صفحہ 385) اس کے علاوہ اس مضمون میں خاکسار نے نماز کے بارے میں درج ذیل امور بھی بیان کئے۔ نماز کیوں پڑھی جائے اس ضمن میں قرآن کریم کی سورۃ العنکبوت کی آیت 46 لکھ کر حضرت مسیح موعودؑ کا ملفوظات سے حوالہ بھی نقل کیا۔ آپؑ نے فرمایا بعض لوگ باوجود نماز پڑھنے کے پھر بدیاں کرتے ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ نمازیں پڑھتے ہیں مگر نہ روح اور راستی کے ساتھ۔ وہ صرف رسم اور عادت کے طور پر ٹکریں مارتے ہیں ان کی روح مردہ ہے۔ وہ نماز بدیوں کو دور کرتی ہے جو اپنے اندر سچائی کی روح رکھتی ہے اور فیض کی تاثیر اس میں موجود ہے۔

قرآن کریم میں جو عاجزی وانکسار ی کے حصول کے لئے ترغیب دی ہے وہ نماز سے ہی حاصل ہو سکتی ہے۔ اس میں احادیث نبویہ ﷺ اور حضرت مسیح موعودؑ کے ملفوظات سے اقتباسات پیش کئے ہیں۔

ڈیلی بلٹن کی 5 اپریل 2006ء کی اشاعت میں دو خطوط شائع ہوئے۔ ایک خط Christine Cudington آف اپ لینڈ کا ہے اور دوسرا خط Frank Crapson آف آلٹالوماکا ہے۔ پہلے مذکورہ خط میں معترض نے لکھا کہ ڈیلی بلٹن میں ایک خط شائع ہو اہے جس میں رائٹر نے عیسائیوں پر اعتراض کیا ہے کہ وہ اسلام کے خلاف نفرت انگیز مواد شائع کرتے اور نفرت کو ہوا دیتے ہیں۔ ان کا کام بس یہی ہے کہ وہ ثابت کریں عیسائیت صرف ’’حمل ضائع کرنے‘‘ اور ’’ہم جنس تعلقات‘‘ کے پیچھے ہی پڑے رہتے ہیں۔ بعض اس کی حمایت میں اور بعض اس کی مخالفت میں لگے ہوئے ہیں۔ معترض مزید لکھتا ہے کہ میں ان سے پوچھتا ہوں کہ یہ لوگ کیا کر رہے ہیں کیا انہوں نے کوئی ہسپتال بنایا؟ کیا غرباء کے لئے ہوم لیس شیلٹر بنایا؟ جب کہ عیسائی اور یہودی اس کام میں لگے ہوئے ہیں۔ جب نیویارک میں 9/11 میں حملہ ہو ااس وقت عیسائی خوشی سے ڈانس کر رہے تھے یا مسلمان؟ یہ کس طرح ممکن ہے کہ جو مذہب ایک طرف امن کا دعوے دار ہو اور دوسری طرف اتنی تباہی و بربادی کرے اور لوگوں کے قتل کے درپے ہو جو ان کے مذہب کا انکار کرے یا نہ مانے۔ تم نے کتنی مرتبہ سنا ہے کہ کسی عیسائی نے صرف اپنے سیاسی عزائم کے حصول کی خاطر سکول کے بچوں پر حملہ کیا ہو۔

خط میں مزید لکھا گیا ہے کہ ایک شخص عبدالرحمن جو افغانستان سے تعلق رکھتا تھا جس کی عمر 41سال ہے اسے قتل کیا جارہا ہے کیونکہ اس نے اسلام سے عیسائیت اختیار کر لی ہے۔ مجھے بتائیں کہ امریکہ میں کتنے لوگوں کو پھانسی دی جارہی ہے جو عیسائیت چھوڑ کر مسلمان ہوئے ہیں۔ خط کے آخر میں وہ لکھتے ہیں کہ:
میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو ہدایت دے۔ آخر ایک دن وہ اس حقیقت کو جان لیں گے کہ وہ (نعوذ باللہ) غلط قسم کے ’’خدا‘‘ کی عبادت کر رہے ہیں۔ بائبل کا خدا تو محبت کا خدا ہے۔ جس نے عیسیٰ کو بھیجا تا ان کے گناہوں کا کفارہ ادا کرے۔ ایک دن انہیں پتہ لگ جائے گا کہ عیسائیت سچی ہے اور بائبل بھی سچی ہے اس وقت مسلمانوں کے لئے یہ بہت دیر ہو چکی ہو گی۔

دوسرے شخص نے اپنے خط میں لکھا کہ مجھے پتہ لگ رہا ہے کہ امام شمشاد نے اپنے ’’مہمان کالم‘‘ میں اپنے مذہب اسلام کی دفاع کرنے کی کوشش کی ہے لیکن انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ بعض مسلمان بھی دہشت گردی کو فروغ دیتے ہیں جیسے کہ حال ہی میں کارٹونوں کی اشاعت پر مسلمانوں نے ردعمل ظاہر کیا ہے۔ یہ تو ہمارے ملک میں پریس کی آزادی کی علامت ہے اور ہمارا ملک کسی مذہب کی بنیاد پر حکومت نہیں کرتا۔ انہوں نے مزید لکھا کہ عیسائی پادری ڈیوڈ رسل کو ایسا بیان نہیں دینا چاہئے تھا۔ لیکن ’’ناصر‘‘ (خاکسار کو) کو معلوم ہونا چاہئے کہ اس کا خط جو شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے اسلام کا دفاع اور اسلام کی تعلیمات بیان کی ہیں یہ بھی تو پریس کی آزادی سے ہی انہوں نے فائدہ اٹھایا ہے۔ شمشاد ناصر نے جو عیسائیت کے بارے میں بیان دیا ہے اس سے شاید وہ دہشت گرد مسلمانوں کو تقویت دینا چاہتے ہیں۔ ہمارا پریس تو مسلمانوں کے خلاف کارٹون شائع کر کے فکرمندی اور خوف کی حالت میں ہے لیکن عیسائیوں کے خلاف شائع کر کے اسے وہ خوف نہیں ہے۔

نوٹ: خاکسار نے تفصیل کےسا تھ ہر دو خطوط میں مندرج نکات بیان کئے ہیں جیسا کہ قبل ازیں لکھا جا چکا ہے کہ مسلمانوں کے غلط ردعمل کی وجہ سے لوگوں نے یہ خطوط شائع کئے۔ جس میں انہوں نے اپنے ملک (امریکہ) میں صحافت اور پریس کی آزادی کے بارے میں بتایا اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جب بھی خاکسار نے اسلام کی تعلیمات پر مبنی خط یا مضمون یا خبریں دیں انہوں نے اسے شائع کیا۔ لیکن ساتھ ہی خاکسار نے آزادی صحافت کی ذمہ داریوں کو بھی اجاگر کیا۔

دونوں خطوط میں معترضین نے اپنے مذہب کی خوبیوں کے بارے میں اور مسلمانوں پر اعتراض کئے ہیں۔ خاکسار نے قبل ازیں اس اخبار اور امریکہ کے دوسرے اخبارات میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطبہ جمعہ جو آپ نے مغربی ممالک میں آنحضرتﷺ کے (نعوذ باللہ) خاکوں کے بارے میں شائع ہوئے تھے کے بارے میں لکھا وہ خدا کے فضل سے شائع ہوئے۔ ان کے جواب میں انہوں نے یہ دو خط شائع کئے تھے۔ خاکسار نے جو مضامین اسلام کے بارے میں لکھے تھے وہ آئندہ بھی بعض اخبارات میں ان کا تذکرہ آئے گا۔ ان شاء اللہ

الاخبار عربی اخبار نے اپنی اپریل کی اشاعت کے انگریزی سیکشن میں ہمارے خدام و اطفال کے دوسرے سالانہ اجتماع کی خبر دو تصاویر کے ساتھ شائع کی ہے۔ ایک تصویر میں تمام خدام و اطفال ہیں اور دوسری تصویر میں خاکسار پوڈیم پر ہے اور ایک طفل کو انعام دے رہا ہے۔

اس خبر میں بتایا گیا ہے کہ خدام و اطفال کا دوسرا سالانہ اجتماع جس میں قریباً 100 کی حاضری تھی اس میں لاس ویگاس، فی نکس، سان ڈیگو، طوسان اور لاس اینجلس سے خدام و اطفال نے شرکت کی۔ اجتماع میں مکرم ڈاکٹر حمید الرحمٰن صاحب صدر جماعت لاس اینجلس نے اپنی تقریر میں سب کو خوش آمدید کہا اور انہیں ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی۔ امام شمشاد ناصر آف ساؤتھ ریجن نے خدام و اطفال کو سوسائٹی میں بہترین رنگ میں زندگی گزارنے کے طریق اسلامی تعلیمات کے مطابق بیان کئے اور اس سلسلہ میں انہوں نے کہا کہ اس کے لئے بہترین طریق آنحضرت ﷺ کی زندگی کے واقعات ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہیں۔ ہمیں سوسائٹی میں شرافت، صبر و تحمل، عزت اور احترام کے ساتھ اور ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور ادب کے ساتھ پیش آنا چاہئے۔ شام کی نماز کے بعد امام شمشاد ناصر نے خدام و اطفال کے ساتھ سوال و جواب کی مجلس بھی لگائی جو 45 منٹ تک جاری رہی۔جس میں جہاد کا غلط نظریہ، نماز کے آداب، وغیرہ امور پر جوابات دیئے۔ اتوار کے دن صبح کو دن کا آغاز نماز تہجد سے ہوا۔ نماز فجر کے بعد پھر ورزشی مقابلہ جات ہوئے۔ آخری سیشن نیشنل نائب صدر خدام الاحمدیہ یو ایس اے مکرم چوہدری محمد احمد صاحب کی صدارت میں ہوا۔ انہوں نے بھی خدام و اطفال کو کامیاب زندگی گزارنے کے اصول بتائے۔ امام شمشاد ناصر نے دعا کرائی اور اجتماع اختتام کو پہنچا۔

خدام و اطفال میں انعامات بھی تقسیم ہوئے۔ مکرم امجد محمود خاں صاحب، مکرم رانا ناصر صاحب، مکرم انس چوہدری صاحب کی ٹیم نے اس اجتماع کو کامیاب کرنے کی کوشش اور محنت کی۔ اخبار نے لکھا۔

ڈیلی پریس۔ ہائی ڈیزرٹ نے اپنی یکم اپریل 2006ء کی اشاعت میں خاکسار کی وجہ سے ایک نیا سلسلہ سوال و جواب کا شروع کیا۔ جس کانام انہوں نے

Ask the Clergy

یہ سلسلہ مسٹر جسٹن باگس نے جو ڈیلی پریس کے ایک مذہبی سیکشن کے انچارج تھے نے شروع کیا۔

خاکسار یہاں پر ڈیلی پریس اور وکٹروِل شہر جہاں سے یہ اخبار نکلتا ہے کے بارے میں بھی چند معلومات دینا چاہتا ہے۔ یہ شہر ایک گھنٹہ سے زائد کی مسافت پر مسجد بیت الحمید سے واقع ہے۔ خاکسار نے اس شہر کا متعدد مرتبہ دورہ کیا اور خاکسار کے ساتھ اکثر مونس چوہدری صاحب سیکرٹری تبلیغ لاس اینجلس، برادر علیم اور محمد عبدالغفار صاحب ہوتے تھے۔

طریق یہ تھا کہ ہم پہلے اس شہر کے محکمہ پولیس سے جاکر ملتے تھے اور انہیں اپنے آنے کا مقصد بیان کرتے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کی طرف سے ہمیں مکمل تعاون حاصل رہا پھر ہم شہر کی لائبریری میں جاتے، لائبریرین سے ملتے اور وہاں پر بھی متعدد مرتبہ لائبریری کے اندر قرآن کریم اور آنحضرت ﷺ کی تعلیمات کے بارے میں پوسٹر لگائے جو لوگوں کی کشش کا باعث بنتے تھے۔ بعض اوقات لائبریرین سے پوچھ کر ان سے پارکنگ لاٹ میں لٹریچر بھی تقسیم کیا ہے۔

خاکسار متعدد مرتبہ ڈیلی پریس کے دفتر بھی گیا۔ انہیں انٹرویوز دیئے اور اپنے اس شہر میں آنے کا مقصد بھی بیان کیا۔

ایڈیٹر نے بھی بہت تعاون کیا۔ اس کےعلاوہ ایڈیٹر نے اپنے اخبار کے مذہبی سیکشن کے رائٹر سے بھی ملاقات کرائی۔ خاکسار نے انہیں یہ آفر کی کہ انہیں جب بھی اسلام کے بارے میں، قرآن کریم کے بارے میں یا آنحضرت ﷺ کے بارے میں کوئی خبر شائع کرنی ہو، کوئی بیان دینا ہو یا کوئی اعتراض ہو تو ہمیں پہلے بتا دیں تاکہ ان کی تسلی کرا دی جائے۔ تاکہ اخبار میں کسی کی طرف سے کوئی بیان جو قرآن کریم یا آنحضرت ﷺ اور اسلام پر اعتراض پر مبنی ہو شائع نہ ہو جائے۔ اخبار نے بہت حد تک اس میں تعاون کیا۔

(باقی آئندہ بدھ ان شاء اللہ)

(مولانا سید شمشاد احمد ناصر ۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 مارچ 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 مارچ 2021