• 3 مئی, 2024

سورۃ التحریم، الملک اور القلم کا تعارف (حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ)

سورۃ التحریم، الملک اور القلم کا تعارف
ازحضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ

سورۃ التحریم

یہ مدنی سورت ہے اور بسم اللہ سمیت اس کی تیرہ آیات ہیں۔

گزشتہ سورت میں جن عظیم الشان اَسرار ِ کائنات کا ذکر ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی کتاب میں کھولے گئے اب اس سورت میں بعض چھوٹے چھوٹے اسرار کا بھی ذکر ہے۔ گویا بڑے اَسرار بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر عالم الغیب کی طرف سے کھولے گئے اور چھوٹے چھوٹے اَسرار بھی عالم الغیب کی طرف سے آپؐ پر کھولے گئے۔ پس ان معنوں میں اس سورت کا پچھلی سورت سے یہ تعلق قائم ہوتا ہے کہ مَا لِھٰذَاالْکِتَابِ لَا یُغَادِرُ صَغِیْرَۃً وَلَا کَبِیْرَۃً اِلَّا اَحْصٰھَا کہ یہ عجیب کتاب ہے کہ چھوٹے چھوٹے رازوں کا بھی احاطہ کئے ہوئے ہے اور بڑے سے بڑے اَسرا رکا بھی۔

اس سورت میں توبۃ النصوح کا ذکر فرما کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں کو یہ تاکید فرمائی گئی ہے کہ اگر وہ سچے دل سے توبہ کریں گے تو اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ ان کے تمام صغیرہ اور کبیرہ گناہوں کو معاف فرما دے۔ اس توبہ کے قبول ہونے کی یہ علامت بیان فرمائی گئی ہے کہ ایسی توبہ کرنے والوں کی اصلاح کا آغاز ہو جائے گا اور دن بدن وہ گناہ ترک کرنے کی صلاحیت محسوس کریں گے اور ان کی تمام برائیاں اللہ تعالیٰ اُن سے دور فرما دے گا۔ یہ برائیوں کو دُور کرنے کا دَور دراصل اس نور کے نتیجہ میں حاصل ہو گا جو انہیں عطا کیا جائے گا جیسے اندھیروں میں چلنے والا روشنی سے معلوم کر لیتا ہے کہ کیا کیا خطرات در پیش ہیں۔ پس نُوْرُ ھُمْ یَسْعٰی بَیْنَ اَیْدِیْھِمْ سے مراد یہ ہے کہ وہ ان کی رہنمائی فرماتا چلا جائے گا۔ اور وَ بِاَیْمَا نِھِمْ کے الفاظ میں یہ اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ ان برائیوں والے لوگوں کو کوئی نور عطا نہیں کیا جاتا جو بائیں ہاتھ والے لوگ کہلاتے ہیں۔ صرف انہی کو نور عطا ہوتا ہے جو ہمیشہ ہر بدی کے مقابل پر نیکی کو ترجیح دیتے ہیں اور یہی لوگ ہیں جن کو نیکی پر قائم رہنے کے لئے وہ نور ملے گا جو انہیں اسقامت عطا فرمائے گا۔

اس سورت کے آخر میں ان دو بد قسمت عورتوں کی مثال بیان کی گئی ہے جو انبیاء کے اہل میں بظاہر داخل تھیں مگر عملاً وہ اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے میں خیانت سے کام لیتی رہیں۔ پھر ان دونوں کے برعکس دو انتہائی پاکدامن عورتوں کا بھی ذکر ہے۔ ان میں سے ایک اللہ کے انتہائی ظالم اور سفاک دشمن کی بیوی تھی۔ پھر بھی اس نے اپنے ایمان کی حفاظت کی۔ اور دوسرے حضرت مریم علیہا السلام کا ذکر ہے کہ ان کو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح علیہ السلام کی صورت میں جو اعجازی وجود بخشا وہ کسی نفسانی خواہش کی بنا پر نہیں تھا۔ پھر آخری آیت میں فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ امتِ محمدیہ میں پیدا ہونے والے ایک سچے اور پاکباز وجود کو بھی یہی اعجاز دکھائے گا کہ باوجود اس کے کہ اس کو اعلیٰ درجہ کے روحانی مناصب حاصل کرنے کا کوئی شوق نہیں ہو گا بلکہ وہ انکسار کا پُتلا ہو گا، اللہ تعالیٰ اس میں اپنی روح پھونکے گا اور اس کے نتیجہ میں اسے ایک اور روحانی وجود بخشا جائے گا جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مشابہ ہو گا۔ چنانچہ فرمایا فَنَفَخْنَا فِیْہِ مِنْ رُّ وْ حِنَا کہ اللہ تعالیٰ اس مردِ مومن میں اپنی روح پھونکے گا۔

(قرآن کریم اردو ترجمہ مع سورتوں کا تعارف از حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ، صفحہ1047-1048)

سورۃ الملک

یہ سورت مکی ہے اور بسم اللہ سمیت اس کی اکتیس آیات ہیں۔

اس سورت کا آغاز اس آیت سے ہوتا ہے تَبٰرَکَ الَّذِیۡ بِیَدِہِ الۡمُلۡکُ کہ اللہ تعالیٰ مالکِ کُل ہے اور جو چاہتا ہے اس پر قادر ہے۔ پس گزشتہ سورت میں جو انتہائی تعجب انگیز مضمون بیان ہوا ہے اسی کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے۔ کیونکہ اس کے بعد موت سے زندگی پیدا کرنے کا مضمون شروع ہوا ہے اور یہ اعلان ہے کہ جیسے اللہ تعالیٰ قادر ہے کہ جسمانی مُردوں سے زندہ پیدا کر دے، اسی طرح قادر ہے کہ روحانی مُردوں کو بھی دوبارہ زندہ کر دے۔ اس میں امّتِ محمدیہ کے لئے ایک عظیم الشان خوشخبری ہے۔

اس کے معاً بعد فرمایا کہ ساری کائنات پر غور کر کے دیکھ لو وہ ایک ہی خالق کی گواہی دے گی اور اس میں کوئی نقص دکھائی نہیں دے گا۔ اگر یہ کائنات از خود پیدا ہوئی ہوتی تو کہیں کسی رخنہ کے آثار دکھائی دینے چاہئے تھے بلکہ اکثر فتور ہی دکھائی دینا چاہئے تھا۔ اگر اللہ تعالیٰ کے علاوہ اس کے کسی مزعومہ شریک نے یہ کائنات بنائی ہوتی تو لازماً اس کے بنائے ہوئے قوانین کا اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے قوانین سے ٹکراؤ ہونا چاہئے تھا۔ پس اس پہلو سے تمام بنی نوع انسان کو دعوت ِ فکر دی گئی ہے کہ کائنات کے اَسرار پر نظر ڈالیں اور پھر نظر ڈالیں تو اُن کی نظر تھکی ماندی اور حسرت زدہ ہو کر ان کی طرف واپس لَوٹے گی مگر وہ کائنات میں کہیں بھی کوئی خامی دریافت نہیں کر سکیں گے۔

اس سورت میں ایسے روحانی پرندوں کا بھی ذکر ہے جو آسمان کی وسیع اور بسیط فضا میں بلند پروازی کا شرف پاتے ہیں۔ جس طرح ظاہری پرندوں کو اللہ تعالیٰ ہی نے قوت پرواز بخشی ہے اور زمین و آسمان کے درمیان مسخر کر دیا ہے اسی طرح اپنے مومن بندوں کو بھی وہی قوت پرواز عطا فرماتا ہے۔ اس کے مقابل پر اوندھے منہ چلنے والے جانوروں کو کوئی روحانی بلندی عطا نہیں ہو تی، نہ ظاہری معنوں میں، نہ روحانی معنوں میں۔

اس سورت کی آخری آیت میں فرمایا گیا کہ زندگی کا پانی جو آسمان سے اترتا ہے اس سے تم ہمیشہ استفادہ کرتے ہو مگر کبھی یہ بھی غور کیا کہ اگر وہ مسلسل خشک سالیوں کے نتیجہ میں تمہاری پہنچ سے دُور زمین کی گہرائیوں میں ڈوب جائے تو تم شفاف پانی کہاں سے لاؤ گے؟ پس جسمانی پانی کی طرح روحانی پانی بھی اللہ تعالیٰ کے خاص فضل ہی سے انسان کی رسائی میں رہتا ہے۔

(قرآن کریم اردو ترجمہ مع سورتوں کا تعارف از حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ، صفحہ1053)

سورۃ القلم

یہ سورت ابتدائی مکی دور میں نازل ہوئی اور بسم اللہ سمیت اس کی ترپّن آیات ہیں۔

یہ سورت حروف مقطعات سے شروع ہونے والی آخری سورت ہے۔ یہ سورت لفظ ’’ن‘‘ سے شروع ہوتی ہے جس کا ایک معنی دوات کا ہے اور قلم سے لکھنے والے تمام اس کے محتاج رہتے ہیں۔ اور انسان کی تمام ترقیات کا دَور قلم کی بادشاہی سے شروع ہوتا ہے۔ اگر انسانی ترقی میں سے تحریر کو نکال دیا جائے تو انسان جہالتوں کی طرف لَوٹ جائے اور پھر کبھی اسے علمی ترقی نصیب نہیں ہو سکتی۔

دوسرا ’’ن‘‘ سے مراد اللہ تعالیٰ کے وہ نبی ہیں جنہیں ’’ذوالنون‘‘ کہا جاتا ہے یعنی حضرت یونس علیہ السلام ان کا بھی اس سورت میں ذکر ملتا ہے کہ وہ کیا واقعہ گزرا تھا جس کے نتیجہ میں وہ اپنی قوم پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل نہ ہونے کے باعث، جس کا انہیں وعید دیا گیا تھا، اپنے دل پر بہت بوجھ اٹھائے ہوئے اس نیّت سے اس بستی کو چھوڑ گئے کہ آئندہ کبھی وہ اس قوم کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔ تب اللہ تعالیٰ نے حضرت یونس علیہ السلام کو یہ سبق سکھایا کہ اس کے وعید بسا اوقات توبہ و استغفار سے ٹل جاتے ہیں اور اس پر اُن کو یہ دعا بھی سکھائی کہ لآ اِ لٰہ اِلَّا اَنْتَ سُبْحَا نَکَ اِنِّی کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْن۔

(سورۃ الانبیاء: 88)

کہ تُو تو ہر کمزوری سے پاک ہے۔ میں ہی ظالم تھا جو ایک توبہ کرنے والی قوم پر عذاب کا متمنّی رہا۔

اس سورت میں حرف ن کا تکرار کے ساتھ ذکر ہے جو اس سورت کے مضامین سے کامل مطابقت رکھتا ہے اور ایک جگہ بھی مضمون اور حرفِ ن میں کوئی بے جوڑی دکھائی نہیں دیتی۔

(قرآن کریم اردو ترجمہ مع سورتوں کا تعارف از حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ، صفحہ966)

(عائشہ چودہری۔جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 مارچ 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ