• 3 مئی, 2024

خطبہ جمعہ مؤرخہ 24؍دسمبر 2021ء (بصورت سوال و جواب)

خطبہ جمعہ حضور انور ایّدہ الله مؤرخہ 24؍دسمبر 2021ء
بصورت سوال و جواب

سوال: بیعتِ عقبۂ ثانیہ کے موقع پر نبیٔ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ہمراہ کون کون سے اصحابؓ تھے؟

جواب: حضرت ابوبکرؓ ، حضرت علیؓ اور آپؐ کے چچا حضرت عبّاسؓ

سوال: بیعتِ عقبۂ ثانیہ کی تقریب اور میٹنگ کے منتظمِ اعلیٰ کون تھے جنہوں نے حضرت علیؓ کو ایک گھاٹی پر بطور پہرہ دار نیز ایک دوسری گھاٹی پر حضرت ابوبکرؓ کو پہرہ اور حفاظت کے لیئے کھڑا کیا تھا؟

جواب: حضرت عبّاسؓ

سوال: نبیٔ اکرمؐ کی ہجرتِ مدینہ میں کن کی مصاحبت کا ذکر ہے؟

جواب: حضرت ابوبکر صدّیقؓ

سوال: کفّار مکّہ کا مکّہ میں مقیم مسلمانوں پر ظلم و ستم مسلسل بڑھتا جا رہا تھا کہ اِسی دوران آنحضرتؐ کو ایک خواب میں کیادکھایا گیا؟

جواب: دومسلمانوں کو وہ جگہ دکھائی گئی جدھر اب ہجرت کرنا تھی وہ جگہ شور زمین والی کھجوروں میں گھری ہوئی تھی لیکن اُس کا نام نہ دکھایا اور نہ بتایا گیا تھا۔

سوال: جگہ کا جغرافیہ اور نقشہ دیکھتے ہوئےاِس کے متعلق آنحضرتؐ نے ذاتی اجتہاد کیا فرمایا نیز صحیح بخاری کی ایک روایت میں اِس کی بابت کیا ذکر ملتا ہے؟

جواب: ہَجَر یا یمامہ ہوگی؍ آپؐ نے فرمایا! فَذَھَبَ وَھَلِیْ اِلٰی اَنَّھَا الْیَمَامَةُ اَوْ ھَجَرُ فَاِذَا ھِیَ الْمَدِیْنَةُ یَثْرِبُ؛ میرا خیال اِس طرف گیا کہ یہ جگہ یمامہ یا ہَجَر ہے مگر کیا دیکھتا ہوں کہ وہ تویثرب شہر ہے۔

سوال: جب مکّہ کم و بیش ہر اُس مسلمان سے خالی ہو گیا جو ہجرت کر سکتا تھا وہ ہجرت کر گیا، اب کچھ انتہائی کمزور اور بے بس مسلمان ہی پیچھے رہ گئے تھے اِن کا ذکر قرآنِ کریم نے کس طرح سے کیا ہے؟

جواب: اِلَّا الۡمُسۡتَضۡعَفِیۡنَ مِنَ الرِّجَالِ وَ النِّسَآءِ وَ الۡوِلۡدَانِ لَا یَسۡتَطِیۡعُوۡنَ حِیۡلَةً وَّ لَا یَھْتَدُوۡنَ سَبِیۡلًا (النّسآء: 99) سوائےاُن مَردوں اور عورتوں اور بچوں کے جنہیں کمزور بنا دیا گیا تھا، جن کو کوئی حیلہ میسر نہیں تھا اور نہ ہی وہ (نکلنے) کی کوئی راہ پاتے تھے۔

سوال: کفّار مکّہ کو دوسرے لوگوں کی نسبت رسولِ کریمؐ سے فطرتًا زیادہ بُغض و عداوت کیوں تھی؟

جواب: کیونکہ وہ دیکھتے تھے کہ آپؐ ہی کی تعلیم کی وجہ سے لوگوں میں شرک کی مخالفت پھیلتی جاتی ہے، وہ جانتے تھے کہ اگر وہ آپؐ کو قتل کر دیں تو باقی جماعت خود بخود پراگندہ ہو جائے گی، اِس لیئے بہ نسبت دوسروں کے وہ آنحضرتؐ کو زیادہ دُکھ دیتے اور چاہتے کہ کسی طرح آپؐ اپنے دعاوی سے باز آ جائیں۔

سوال: رسولِ کریمؐ نے صحابہؓ کو تو ہجرت کا حکم دے دیا مگر خود دُکھوں اور تکلیفوں کے باوجود مکّہ سے ہجرت کیوں نہ فرمائی؟

جواب: خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی اِذن نہ ہوا تھا۔

سوال: جب حضرت ابوبکرؓ نے پوچھا کہ مَیں ہجرت کر جاؤں تو آنحضرتؐ کیا نے کیا ارشاد فرمایا؟

جواب: عَلٰی رِسْلِكَ فَاِنِّیْ اَرْجُوْ اَنْ یُّؤْذَنَ لِی کہ آپؓ ابھی ٹھہریں، امید ہے کہ مجھے اجازت مل جائے۔

سوال: کفّار نبیٔ کریمؐ کے خلاف خفیہ مشورے کرنے کے لیئے کہاں اکٹھے ہوئے نیزجس روز کا اُنہوں نے عہد و پیمان کیا تھاوہ کیا کہلاتا ہے؟

جواب: دارا لنّدوہ؛ یَوْمُ الزَّحْمَہ

سوال: دارا لنّدوہ کی وجۂ تسمیہ کیا ہے؟

جواب: یہ قُصَیّ بن کِلاب کا وہ گھر تھا کہ قریش کا جو بھی فیصلہ ہوتا تھا وہ اِسی میں ہوتا تھا جب بھی اُنہیں آپؐ کے بارہ میں خدشہ محسوس ہوتا تو لوگ یہاں مشورہ کے لئے آیا کرتے تھے۔

سوال: کفار مکّہ نے آنحضرتؐ کے قتل کرنے کا اِرادہ کیا تو کس نےاپنے پاک نبیؐ کو اِس بد اِرادہ کی خبر دے دی اور مکّہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کر جانے کاحکم فرمایا نیز بفتح و نصرت واپس آنے کی بشارت دی؟

جواب: الله جلّ شانُہٗ

سوال: آنحضرتؐ نے فرمایا! ابوبکرؓ مجھے ہجرت کی اجازت مِل گئی، حضرت ابوبکرؓ نےبے ساختہ عرض کیا یارسول اللهؐ! آپؐ کی رفاقت یعنی مَیں بھی آپؐ کے ساتھ ہوں گا؟ رسول اللهؐ نےفرمایا! ہاں۔ اِس پر حضرت ابوبکرؓ خوشی سے رو پڑے، کون بیان فرماتی ہیں کہ اِس دن پہلی بار مجھے معلوم ہؤا کہ خوشی سے بھی کوئی روتا ہے؟

جواب: حضرت عائشہ رضی الله تعالیٰ عنہا

سوال: ہجرت کی ساری منصوبہ بندی اور لائحہ عمل کے تناظر میں پہلی منزل نیز وہاں کتنے دن قیام طے کیا گیا؟

جواب: غارِ ثور؛ تین

سوال: کس کے حوالہ تین اونٹنیاں کی گئیں اور طے کیا گیا کہ وہ ٹھیک تین دن بعد غازِ ثور پر علی الصبح چلا آئے؟

جواب: عبدالله بن اُرَیْقِط

سوال: حضرت عبداللهؓ بن ابوبکرؓ جو ایک ہوشیار نوجوان تھے اِن کے سپرد کیا ڈیوٹی لگائی گئی؟

جواب: وہ روزانہ مکّہ کی مجالس میں گھوم پھر کر جائزہ لیں گے کہ کیا کچھ ہو رہا ہے اور پھر رات کو غارِ ثور پہنچ کر ساری رپورٹنگ کریں گے۔

سوال: حضرت ابوبکرؓ کے کس دانا اور ذمہ دار غلام کے سپرد یہ ڈیوٹی ہوئی کہ وہ اپنی بکریاں غارِ ثور کے ارد گرد ہی چَرائے گا اور رات کے وقت دُودھ دینے والی بکریوں کا تازہ دُودھ فراہم کرے گا؟

جواب: عامرؓ بن فُہَیرہ

سوال: غارِ ثور روانگی سے قبل حضرت ابوبکرؓ کی دو با وفاء بہادر بیٹیوں حضرت عائشہؓ اور حضرت اسماءؓ نے سفر کے لئےکھانا بھی جلدی جلدی تیار کر دیا تھا جس میں بھنی ہوئی بکری کا گوشت بھی تھا۔ حالات کی نزاکت اور جلدی میں کھانے کا برتن جو چمڑے کا تھا باندھنے کو کچھ نہ ملا تو حضرت اسماءؓ نے اپنا نِطاق یعنی کمربند کھولا اور اِس کے دو حصّے کئے اور کھانا باندھا، ایک سے توشہ دان اور دوسرے سے مشکیزہ کا مُنہ باندھ دیا۔ نبیٔ اکرمؐ جو عشق و وفا کے اِن لمحات کو بغور دیکھ رہے تھے، کیا فرمانے لگے؟

جواب: اَے اسماءؓ ! الله تمہارے اِس نِطاق کے بدلہ میں تمہیں جنّت میں دو نِطاق عطاء کرے گا، آنحضرتؐ کے اِس ارشاد کی وجہ سے بعد میں حضرت اسماءؓ کو ذَاتُ النِّطَاقَیْنِ کہا جانے لگا۔

سوال: کن کا ارشادِ مبارک ہے کہ جب آنحضرتؐ ایک ناگہانی طور پر اپنےقدیمی شہر کو چھوڑنے لگے اور مخالفین نے مار ڈالنے کی نیّت سے چاروں طرف سے اِس مبارک گھر کو گھیر لیا تب ایک جانی عزیز جس کا وجود محبّت اور ایمان سے خمیر کیا گیا تھا جانبازی کے طور پر آنحضرتؐ کے بستر پر بااِشارۂ نبویؐ اِس غرض سے مُنہ چھپا کر لیٹ رہا کہ تا مخالفوں کے جاسوس آنحضرتؐ کے نکل جانے کی کچھ تفتیش نہ کریں اور اِسی کو رسول اللهؐ سمجھ کر قتل کرنے کے لیئے ٹھہرے رہیں۔

کس بہرِ کَسے سَر نَدِہَد جان نَفِشَانَد عِشق
اَست کہ اِیں کار بَصَدْ صِدق کُنَانَد

یعنی کوئی شخص کسی دوسرے کے لئے سَر نہیں دیتا نہ ہی جان چھڑکتا ہے، یہ عشق ہے جو یہ کام انسان سے بصَد صدق کرواتا ہے؟

جواب: سیّدنا حضرت اقدس مسیحِ موعود علیہ الصّلوٰۃ والسّلام

سوال: باارشادِ نبویؐ حضرت علیؓ کتنے دن مکّہ میں ٹھہرے یہاں تک کہ رسول اللهؐ کی طرف سے لوگوں کو امانتیں واپس کر دیں نیزجب آپؓ اِس سے فارغ ہو گئے تو آپؐ سے کہاں جا مِلے؟

جواب: تین؛ قُبا

سوال: خانۂ کعبہ کے پیچھے سے گزرتے ہوئے نبیٔ اکرمؐ نے مکّہ کی طرف اپنا رُخ مبارک فرمایا اور اِس بستی سے کن الفاظ میں مخاطب ہوئے؟

جواب: بخدا اَے مکّہ! تُو الله کی زمین میں سے مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے اور تُو الله کی زمین میں سے الله کو بھی سب سے زیادہ محبوب ہے اور اگر تیرے باشندے مجھے زبردستی نہ نکالتے تو مَیں کبھی بھی نہ نکلتا۔

سوال: غازِ ثور کے سفر کے دوران حضرت ابوبکرؓ کبھی آنحضرتؐ کے آگے چلتے، کبھی پیچھے اور کبھی آپؐ کے دائیں ہو جاتے اور کبھی بائیں۔ نبیٔ اکرمؐ نے پوچھا توکیا عرض کرنے لگے؟

جواب: یا رسول اللهؐ! مجھے خیال آتا ہے کوئی سامنے سے نہ آ رہا ہو تو مَیں آپؐ کے آگے ہو جاتا ہوں اور جب اندیشہ ہوتا ہے کوئی پیچھے سے حملہ نہ کر دے تو آپؐ کے پیچھے ہو جاتا ہوں اور کبھی دائیں اور کبھی بائیں کہ آپؐ ہر طرف سے محفوظ و مامون رہیں۔

سوال: سفر ِ ہجرت میں نبیٔ کریمؐ زیرِ لب کس آیت کا وِرد فرماتے ہوئے چلے جا رہے تھے نیز ایسا ہی کس دعا کا بھی ذکر ملتا ہے؟

جواب: وَ قُلۡ رَّبِّ اَدۡخِلۡنِیۡ مُدۡخَلَ صِدۡقٍ وَّ اَخۡرِجۡنِیۡ مُخۡرَجَ صِدۡقٍ وَّ اجۡعَلۡ لِّیۡ مِنۡ لَّدُنۡكَ سُلۡطٰنًا نَّصِیۡرًا (بنی اسرائیل: 81) اور تُو کہہ اَے میرے ربّ! مجھے اِس طرح داخل کر کہ میرا داخل ہونا سچائی کے ساتھ ہو اَور مجھے اِس طرح نکال کہ میرا نکلناسچائی کے ساتھ ہو اَور اپنی جناب سے میرے لیئے طاقتور مددگار عطاء کر؛ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ خَلَقَنِیْ وَ لَمْ اَكُ شَیْئًا اَللّٰھُمَّ اَعِنِّیْ عَلٰی ھَوْلِ الدُّنْیَا وَ بَوَائِقَ الدَّهْرِ وَمَصَائِبِ الْلِّيَالِیْ وَالْاَيَّامِ اَللّٰھُمَّ الصْحَبْنِیْ فِیْ سَفَرِیْ وَ اخْلُفْنِیْ فِیْ اَھْلِیْ وَ بَارِكْ لِیْ فِیْمَا رَزَقْتَنِیْ وَلَكَ فَذَ لِّلْنِیْ وَ عَلٰی صَالِحِ خَلْقِیْ فَقَوِّمْنِیْ وَ اِلٰی رَبِّ فَحَبِّبْنِیْ وَ اِلَی النَّاسِ فَلَا تَکِلْنِیْ اَنْتَ رَبُّ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ وَ اَنْتَ رَبِّیْ اَعُوْذْ بِوَجْھِكَ الْکَرِیْمِ الَّذِیْ اَشْرَقَتْ لَهُ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ وَکُشِفَتْ بِهِ الظُّلُمٰتُ وَ صَلُحَ عَلَیْهِ اَمْرُ الْاَوَّلِیْنَ وَ الْاٰخَرِیْنَ اَنْ یَّحِلَّ بِیْ غَضَبُكَ اَوْ یَنْزِلَ اِلَیَّ سُخْطُكَ اَعُوْذُبِكَ مِنْ زَوَالِ نِعْمَتِكَ وَ فُجَاءَۃِ نِقْمَتِكَ وَ تَحَوُّلِ عَاقِبَتِكَ وَ جَمِیْعِ سُخْطِكَ لَكَ الْعُتْبٰی خَیْرَ مَا اسْتَطَعْتُ وَ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِكَ؛ تمام تعریفیں الله کے لیئے جس نے مجھے پیدا کیا اور مَیں کچھ بھی نہیں تھا۔ اَے الله! دنیا کے خوف پر اور زمانہ کے مصائب پر اور رات اور دن کے مصائب پر میری مدد فرما۔ اَے الله! میرے سفر میں تُو میرا ساتھی ہو جا اور میرے اہل میں میرا قائم مقام ہو جا اَور جو تُو نے مجھے دیا ہے اُس میں میرے لیئے برکت رکھ دے اور مجھے اپنے ہی تابع کر دے اور میری عمدہ تخلیق پر مجھے مضبوط کر دے اور میرے ربّ کا مجھے محبوب بنا دے اور مجھے لوگوں کے سپرد نہ کرنا۔ تُو کمزوروں کا ربّ ہے اور تُو میرا بھی ربّ ہے تیرا وجہِ کریم جس سے آسمان و زمین روشن ہوئے اور جس سے اندھیرے چَھٹ گئے اور جس سے پہلوں اور بعد میں آنے والوں کا معاملہ درست ہو گیا۔ مَیں اِس کی پناہ میں آتا ہوں اِس بات سے کہ مجھ پر تیرا غضب اُترے یا مجھ پر تیری ناراضگی نازل ہو۔ مَیں تیری پناہ میں آتا ہوں تیری نعمت کے زائل ہونے سے اور تیرے انتقام کے اچانک آنے سے اور تیرے آخری فیصلہ کے میرے بارہ میں بدل جانے سےاور تیری ہر قسم کی ناراضگی سے۔ تیری ہی رضا مندی ہی ہے ہر اِس بھلائی میں جو مَیں کر سکا، نہ گناہ سے بچنے کا کوئی حِیلہ ہے اور نہ ہی نیکی کرنے کی کوئی طاقت ہے مگر تیرے ہی ذریعہ۔

سوال: غارِ ثور کے مُنہ پر کھڑے لوگوں کی باتیں سننے کے تناظر میں حضرت ابوبکر صدّیقؓ کیا بیان فرماتے ہیں؟

جواب: مَیں اُن کے پاؤں بھی دیکھ رہا تھا اور خدا کی قسم! اگر اُن میں سے کوئی ایک بھی اندر جھانک کر دیکھ لیتا تو ہم پکڑے جاتے۔

(قمر احمد ظفر۔نمائندہ روزنامہ الفضل آن لائن جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 مارچ 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ