• 26 اپریل, 2024

اترا تھا چاند شہرِ دل و جاں میں ایک بار

اترا تھا چاند شہرِ دل و جاں میں ایک بار
(کلام چوہدری محمد علی مضطر مرحوم)

کانٹے ہیں اور پاؤں میں چھالے پڑے ہوئے
پیاسوں کے درمیاں ہیں پیالے پڑے ہوئے

آندھی بھی ہے چڑھی ہوئی، نازک ہے ڈور بھی
کچھ پیچ بھی ہیں اب کے نرالے پڑے ہوئے

یہ مقبرے نہیں ہیں شہیدانِ عشق کے
ایفائے عہد کے ہیں حوالے پڑے ہوئے

اترا تھا چاند شہرِ دل و جاں میں ایک بار
اب تک ہیں آنگنوں میں اجالے پڑے ہوئے

رہزن کو بھی فرار کا رستہ نہ مل سکا
چاروں طرف تھے قافلے والے پڑے ہوئے

تیرے لیے ہی اترے ہیں یہ آسمان سے
جو غم بھی راہ میں ہوں اٹھا لے پڑے ہوئے

آمادگی کا نور غزل خواں ہے آنکھ میں
فرطِ حیا سے لب پہ ہیں تالے پڑے ہوئے

اشکوں میں ہیں اَنا کی چٹانیں چھپی ہوئی
جیسے سمندروں میں ہمالے پڑے ہوئے

رہزن کا یوں پڑاؤ ہے رادھا کے کنڈ پر
جنگل میں جس طرح ہوں گوالے پڑے ہوئے

دل سربہ مہر، کانوں میں روئی بھری ہوئی
آنکھوں میں اختلاف کے جالے پڑے ہوئے

باہر اٹھا کے پھینک دیے بت غرور کے
کب سے تھے یہ مکان میں سالے پڑے ہوئے

مضؔطرکو فکرِ عصمتِ ایمان و آگہی
یاروں کو اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے

پچھلا پڑھیں

انڈیکس مضامین اپریل 2022ء الفضل آن لائن لندن

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ