• 26 اپریل, 2024

خلاصہ خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 29؍اپریل 2022ء

خلاصہ خطبہ جمعہ

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 29؍اپریل 2022ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آبادٹلفورڈ یو کے

یاد رکھو وہ جماعت جو خدا تعالیٰ قائم کرنی چاہتا ہے وہ عمل کے بدوں زندہ نہیں رہ سکتی یہ وہ عظیم الشان جماعت ہے جس کی تیاری حضرت آدمؑ کے وقت سے شروع ہوئی،
کوئی نبی دنیا میں نہیں آیا جس نے اِس دعوت کی خبر نہ دی ہو، پس اِس کی قدر کرو اور اِس کی قدر یہی ہے کہ اپنے عمل سے ثابت کر کے دکھاؤ کہ اہل حق کا گروہ تم ہی ہو

حضور انور ایدہ الله نے تشہد، تعوذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کےبعد ارشاد فرمایا۔رمضان آیا اور تمام اُن لوگوں پر جنہوں نے اِس سے فیض پانے کی کوشش کی، برکتیں بکھیرتے ہوئے گزر گیا۔

لیکن باقی فرائض کی ادائیگی کے معیاروں کو اونچا رکھنے اور اُن میں ترقی کرتے چلے جانےکا وقت شروع ہو رہا ہے۔ اگر ہم اِس حقیقت کو بھول گئے کہ رمضان کے بعد ہم نے اپنے فرائض اور حقوق کی ادائیگی کے معیاروں کو کس طرح قائم رکھنا ہے تو ہم نے اپنا رمضان اُس طرح نہیں گزارا جس طرح آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔

اپنے مابین سرزد ہونے والے گناہوں کا کفارہ

آنحضرتؐ نےفرمایا! پانچوں نمازیں، ایک جمعہ دوسرے جمعہ اور ایک رمضان دوسرے رمضان تک اپنے مابین سرزد ہونے والے گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں بشرطیکہ کبیرہ گناہوں سے اجتناب کیا جائے۔ واضح یہاں ہو کہ اگر انسان اپنے چھوٹے چھوٹے گناہوں اور غلطیوں کی نشاندہی نہیں کرتا، اُن سے بچنے کی کوشش نہیں کرتا اور اُن کے سرزد ہونےپر توبہ استغفار نہیں کرتا تو وہی کبیرہ گناہ بن جاتے ہیں۔ پس یہاں مراد یہ ہے کہ انسان ہر وقت الله تعالیٰ کا خوف دل میں رکھے، استغفار کرتا رہے تاکہ اِن چیزوں سے بچتا رہے۔

تو ہم نے رمضان سے بھرپور فائدہ نہیں اُٹھایا

پس اگر ہم ایک رمضان کو دوسرے رمضان کے ساتھ نیکیاں اوراپنے فرائض کی ادائیگی، اپنے حق ادا کرتے ہوئے جو عبادتوں کے بھی حق ہیں اور لوگوں کے بھی حق ہیں، سال کے باقی مہینے نہیں گزارتے تو ہم نے رمضان سے بھرپور فائدہ نہیں اُٹھایا۔

ہماری خوش قسمتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے ہر معاملہ میں بڑی کھول کر ہماری رہنمائی فرمائی ہے، بار بار مسلسل ہمیں نصیحت فرمائی کہ اپنی عبادتوں کے بھی حق ادا کرو اور بندوں کے بھی حق ادا کرو، اپنی زندگیاں گزارنے کے لئے ایک لائحہ عمل ہمیں دے دیا ہے۔ اگر ہم اِس لائحہ عمل کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنا لیں، اِس طریق کے مطابق اپنی زندگیاں گزارنے کی کوشش کریں تو یقیناً ہم اُن راستوں پر چلنے والے بن جائیں گے جو نیکیوں میں بڑھنے اور ترقی کرنے، جو ایک رمضان سے دوسرے رمضان کو ملانے، جو اِس دوران کی جانے والی غلطیوں اور گناہوں سے بچانے، معاف کروانے کے راستے ہیں۔

جو ہمیں اسلام کی حقیقی تعلیم کے مطابق اپنی زندگیاں گزارنے کی بار بار تلقین اور کھول کر بیان فرماتے ہیں کہ اگر الله تعالیٰ کے فضلوں کے مستقل وارث بننا ہے تو اِن پر عمل کرو۔ حضور انور ایدہ الله نےمزید فرمایا کہ پس آپؑ کی نصائح میں سے چند مَیں اِس وقت بیان کروں گا۔

نمازوں کی فرضیت کسی خاص مہینہ
اور وقت کے لئے مخصوص نہیں

رمضان میں ہماری عبادت کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے، فرض نمازیں اور نوافل ہم خاص اہتمام سے ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن نمازوں کی فرضیت کوئی خاص مہینہ اور کسی خاص وقت کے لئے مخصوص نہیں ہے بلکہ دن میں پانچ نمازیں اپنے مقررہ وقت پر سال کے بارہ مہینوں میں ادا کرنی ضروری ہیں۔

آنحضرتؐ نے اِس بارہ میں مؤمنوں کو بار بار توجہ دلائی ہے، آپؐ نے ایک موقع پر فرمایا کہ نماز کو چھوڑنا انسان کو کفر اور شرک کے قریب کر دیتا ہے۔ پھر آپؐ فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن سب سے پہلے جس چیز کا بندوں سے حساب لیا جائے گا وہ نماز ہے، اگر یہ حساب ٹھیک رہا تو وہ کامیاب ہو گیا اور نجات پا گیا۔

نماز کیا ہے؟

حضرت مسیح موعود ؑ نے نمازوں کی اہمیت کی ہمیں بار بار تلقین کی اور نصیحت فرمائی ہے اور کھول کر بیان فرمایا کہ نماز کیا ہے، کس طرح ادا کرنی چاہئے، کس طرح ہم نماز سے لذت اُٹھا سکتے ہیں۔ آپؑ نے اِس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہ نماز کیا ہے فرمایا! یہ ایک خاص دعا ہے مگر لوگ اِس کو بادشاہوں کا ٹیکس سمجھتے ہیں۔ نادان اتنا نہیں جانتے کہ بھلاخدا تعالیٰ کو اِن باتوں کی نیز اِس کے غناءِ ذاتی کو اِس بات کی کیا حاجت ہے کہ انسان دعا، تسبیح اور تہلیل میں مصروف رہے بلکہ اِس میں انسان کا اپنا ہی فائدہ ہے کہ وہ اِس طریق پر اپنے مطلب کو پہنچ جاتا ہے۔

آج کل عبادات اور تقویٰ اور دینداری سے محبت نہیں ہے، اِس کی وجہ ایک عام زہریلا اثر رسم کا ہے۔ اِسی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی محبت سرد ہورہی ہے اور عبادت میں جس قسم کا مزا آنا چاہئے، وہ مزا نہیں آتا۔ دنیا میں کوئی ایسی چیز نہیں، جس میں لذت اور ایک خاص حظ اللہ تعالیٰ نے نہ رکھا ہو۔۔۔ وہ لوگ جو عبادات الٰہی میں حظ اور لذت نہیں پاتے وہ بھی بیماروں کی طرح ہیں اُن کو اپنی بیماری کی فکر کرنی چاہئے۔

پس مَیں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ سے نہایت سوز اور جوش کے ساتھ یہ دعا مانگنی چاہئے کہ جس طرح پھلوں اور اشیاء کی طرح طرح کی لذتیں عطاء کی ہیں نماز اور عبادت کا بھی ایک بار مزا چکھادے۔ پھر فرمایا! الله تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ الۡحَسَنٰتِ یُذۡہِبۡنَ السَّیِّاٰتِ (ھود: 115) نیکیاں بدیوں کو زائل کر دیتی ہیں۔ پس اِن حسنات کو اور لذات کو دل میں رکھ کر دعا کرے کہ وہ نماز جو کہ صدیقوں اور محسنوں کی ہے وہ نصیب کرے۔

نماز کا اصل مغز اور روح تو دعا ہی ہے

نماز سے نکل کر دعا کرنے سے وہ اصل مطلب کہاں حاصل ہو سکتا ہے، اِسی طرح ہے جس طرح ایک شخص بادشاہ کے دربار میں جائے اور اُس کو اپنا عرضِ حال کرنے کا موقع بھی ہو لیکن اُس وقت تو وہ کچھ نہ کہے لیکن جب دربار سے باہر آ جائے تو اپنی درخواست پیش کرے۔ ایسا ہی حال اِن لوگوں کا ہے جو نماز میں خشوع و خضوع کے ساتھ دعائیں نہیں مانگتے۔ تم کو جو دعائیں کرنی ہوں نماز میں کر لیا کرو اور پورے آداب الدعاء کو ملحوظ رکھو۔

نماز پڑھنے کا طریق آنحضرتؐ نے
ہمیں کس طرح سکھایا ہے

بمطابق ایک روایت آنحضرتؐ کے ایک شخص کو تین مرتبہ نماز پڑھوانے اور آخر اُس کی عرض کہ یا رسول اللهؐ مَیں اِس سے بہتر نماز نہیں پڑھ سکتا، اِس لئے آپؐ ہی اب مجھے صحیح طریق بتا دیں کہ کس طرح نماز پڑھنی ہے؟ اِس پر آپؐ نے فرمایا! جب تم نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہو جاؤ تو تکبیر کہو پھر حسبِ توفیق قرآن پڑھو، پھر پورے اطمنان کے ساتھ رکوع کرو، پھر سیدھے کھڑے ہو جاؤ، پھر پورے اطمنان کے ساتھ سجدہ کرو اور پھر سجدہ سے اُٹھ کر پوری طرح بیٹھو، اِس کے بعد دوسرا سجدہ کرو۔ اِس طرح ساری نماز ٹھہر ٹھہر کر سنوار کر ادا کرو۔

حضور انور ایدہ الله نے ارشاد فرمایا! پھر نماز کی حقیقت کو سمجھ کر اُس کو ادا کرنے کی توجہ کرنےکے بعد ایک مؤمن کا کام ہے کہ قرآن کریم کو بھی پڑھے اور سمجھے اور اُس کی طرف توجہ رکھے۔ جس طرح اکثر کی رمضان میں اِس طرف توجہ پیدا ہوتی ہے، تفسیر پر بھی غور کرو۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں۔ ہماری جماعت کو چاہئے کہ قرآن کریم کے شغل او ر تدبر میں جان و دل سے مصروف ہو جائیں اور حدیثوں کے شغل کو ترک کریں۔۔۔اِس وقت قرآن کریم کا حربہ ہاتھ میں لو تو تمہاری فتح ہے اِس نور کے آگے کوئی ظلمت نہیں ٹھہر سکے گی۔

حضور انور ایدہ الله نے ارشاد فرمایا! پس اگرہم نے حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت اِس یقین کے ساتھ کی ہے کہ آپؑ وہی مسیح و مہدی ہیں جن کے آنے کی پیشگوئی آنحضرتؐ نے فرمائی تھی تو ہمیں اپنے اندر ایک پاک تبدیلی پیدا کرنی ہو گی، ایک انقلاب پیدا کرنا ہو گا، دنیا کے لئے ایک نمونہ بننا ہو گا، حقوق الله اور حقوق العباد کے معیار قائم کرنے ہوں گے۔ رمضان میں جو ہم نے تربیت حاصل کی ہے اُس کو سال کے باقی مہینوں میں بھی جاری رکھنا ہو گا۔ یہ جو حضرت مسیح موعودؑ کے الفاظ میں ایک لائحہ عمل مَیں نے سامنے رکھا ہے اِس پر عمل کرنے کی بھی بھرپور کوشش کرنی ہو گی، اپنی نمازوں کو سنوار کر ادا کرنا ہو گا، قرآن کریم پر عمل کرنا ہو گا، ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے ہوں گے، توحید کے قیام کے لئے ہر قربانی دینی ہو گی تبھی ہم بیعت کا حق ادا کرنے والے ہوں گے۔

خطبۂ ثانیہ سے قبل دعائیہ تحریک نیز اعلان برائے نماز جنازہ حاضر حضور انور ایدہ الله نے دنیا کے حالات کی بہتری، احمدی اسیران، پاکستان میں احمدیوں نیز دنیا کے بعض اور ممالک کے جو حالات ہیں اُن کے لئے، اِسی طرح اسیران افغانستان و الجزائر کے لئے دعائیہ تحریک فرمائی۔ آخر پرمرحوم عبدالباقی ارشد صاحب آف یوکے؍ چیئرمین الشرکۃالاسلامیہ کا تفصیلی ذکر خیر کیا نیز بعداز نماز جمعۃ المبارک اُن کا جنازہ پڑھانے کا ارشاد فرمایا۔

(قمر احمد ظفر۔ نمائندہ روزنامہ الفضل آن لائن جرمنی)

پچھلا پڑھیں

انڈیکس مضامین اپریل 2022ء الفضل آن لائن لندن

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ