• 18 اپریل, 2024

خطبہ عید فرمودہ حضرت مصلح موعودؓ بتاریخ 2 مئی 1957ء بمقام مسجد مبارک- ربوہ

حضورؓ نے اپنی صحت کے حوالے سے بیان کے بعد فرمایا۔
میں دوستوں سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہماری عید دراصل وہی ہو سکتی ہے جو محمد رسول اللہ ﷺ کی عید ہو- اگر ہم تو عید منائیں لیکن محمد رسول اللہ ﷺ نہ منائیں تو ہماری عید قطعاً عید نہیں کہلا سکتی بلکہ وہ ماتم ہوگا جیسے کسی گھر میں کوئی لاش پڑی ہو، ان کا کوئی بڑا آدمی فوت ہو گیا ہو تو لاکھ عید کا چاند نکلے، ان کے لئے عید کا دن ماتم کا ہی دن ہوگا- اسی طرح ایک مسلمان کے لئے چاہے محمد رسول اللہ ﷺ کی وفات پر 1300 سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے اگر اس کی عید میں محمد رسول اللہ ﷺ شامل نہیں اور اگر وہ اس ظاہری عید پر مطمئن ہو جاتا ہے تو اس کی عید کسی کام کی نہیں- بیشک اس دن خدا تعالیٰ نے ہمیں خوش ہونے کا حکم دیا ہے اور ہم خوشی منانے پر مجبور ہوتے ہیں لیکن پھر بھی ہمارے دلوں کو چاہئے کہ وہ روتے رہیں کہ ابھی محمد رسول اللہ ﷺ اور اسلام کی عید نہیں آئی- محمد رسول اللہ ﷺ اور اسلام کی عید سویاں کھانے سے نہیں آتی نہ شیر خرما کھانے سے آتی ہے بلکہ ان کی عید قرآن اور اسلام کے پھیلنے سے آتی ہے- اگر قرآن اور اسلام پھیل جائیں تو ہماری عید میں محمد رسول اللہ ﷺ بھی شامل ہو جائیں گے اور آپؐ خوش ہوں گے اگرچہ مجھے فوت ہوئے 1300 سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے لیکن جس مشن کو لے کر میں دنیا میں آیا تھا ابھی تک میری امت نے اسے قائم رکھا ہوا ہے-

پس کوشش یہی کرو کہ اسلام کی اشاعت ہو، قرآن کی اشاعت ہو، تاکہ ہماری عید میں محمد رسول اللہ ﷺ بھی شامل ہوں اگر آج کی عید محمد رسول اللہ ﷺ کی بھی عید ہے تو پھر سارے مسلمانوں کی عید ہے لیکن اگر آج کی عید میں محمد رسول اللہ ﷺ  شامل نہیں تو پھر آج سارے مسلمانوں کے لئے عید نہیں بلکہ ان کے لئے ماتم کا دن ہے-

پس اس نکتہ کو یاد رکھو بےشک ایک حد تک ہماری جماعت کو تبلیغ اسلام کا موقع ملا ہے مگر ہم نہیں کہہ سکتے کہ یہ چیز ہمارے اندر اس قدر گھر کر گئی ہے کہ ہماری اولادوں میں بھی سینکڑوں سال تک چلی جائے گی- ابھی ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ بعض لوگوں کی اولاد میں اگرچہ ان پر سینکڑوں سال نہیں گزرے ابھی سے اپنے باپ دادوں والا اخلاص نہیں پایا جاتا حالانکہ ہماری اصل عید تبھی ہو سکتی ہے جب قیامت تک محمد رسول اللہ ﷺ کا جھنڈا کھڑا رکھا جائے- اگر ہمیں یہ نظر نہ آئے اور ہماری اولادوں میں اتنا جوش نہ ہو کہ ہمارے مرنے کے بعد بھی وہ محمد رسول اللہ ﷺ کے نام اور اسلام کی تعلیم کو دنیا میں پھیلاتی رہیں گی تو پھر ہمیں ڈر ہی رہنا چاہئے کہ اس وقت اگر عارضی طور پر ہمارے لئے عید ہے تو تھوڑے ہی عرصہ کے بعد کہیں خدانخواستہ ہمارے لئے ماتم نہ ہوجائے-

پس میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنی اور اپنے اہل و عیال کی ایسی اصلاح کریں کہ ان کو یقین ہو جائے کہ وہ قیامت تک اسلام کا جھنڈا کھڑا رکھیں گے اور محمد رسول اللہ ﷺ کی تعلیم کو دنیا میں پھیلائیں گے تاکہ ہماری زندگی ہی عید والی نہ ہو بلکہ ہماری موت بھی عید والی ہو- کسی شاعر نے کہا ہے کہ اے انسان! جب تُو دنیا میں پیدا ہوا تھا تو اس وقت تو رو رہا تھا اور لوگ ہنس رہے تھے- درحقیقت بچہ کا سانس رکا ہوا ہوتا ہے جب وہ پیدا ہوتا ہے تو پہلی دفعہ اس کے پھیپھڑوں میں ہوا جاتی ہے اس وجہ سے بچہ پیدائش کے بعد ضرور چیخ مارتا ہے- پس وہ کہتا ہے کہ جب تو پیدا ہوا تھا تو اس وقت تُو رو رہا تھا اور لوگ ہنس رہے تھے کہ ہمارے گھر میں بچہ پیدا ہو گیا ہے- اب تجھے چاہئے کہ تُو ایسے نیک اعمال کر اور دنیا کے ساتھ ایسا نیک سلوک اور معاملہ کر کہ جب تُو مرے تو تُو ہنس رہا ہو اور لوگ رو رہے ہوں- تُو اس لئے ہنس رہا ہو کہ اب میری خدمات اور نیک اعمال کا نتیجہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ملے گا اور لوگ رو رہے ہوں کہ ایسا اچھا آدمی ہم سے جدا ہو گیا ہے-

(حاشیہ میں یہ عربی شعر یوں درج ہے

انت الذی ولدتک امک باکیا
و الناس حولک یضحکون سرورا
فاحرص علی عمل تکون اذا بکوا
فی وقت موتک ضاحکا مسرورا
)

(مجانی الادب 3 بحوالہ دروس الادب صفحہ 90)

تو ہم اگر اپنی اولادوں کو اسلام پر قائم کر جائیں اور ہمیں یقین ہو کہ وہ اس کا جھنڈا کھڑا رکھیں گی تو یقیناً ہماری موتیں ایسی حالت میں ہوں گی کہ ہم ہنس رہے ہوں گے اور لوگ رو رہے ہوں گے اور یہی وہ موت ہے جس کی ایک مومن کو تمنا ہونی چاہئے- مرنا تو ہر ایک نے ہے مگر ایسی موت کہ انسان کو خدا تعالیٰ کے فرشتے خوشخبری دے دیں کہ تُو خدا تعالیٰ کی گود میں جائے گا اور فرشتے تیرے محافظ ہوں گے اور تیری اولاد تیرے بعد اسلام کا جھنڈا کھڑا رکھے گی موت نہیں ہوتی بلکہ خوشی کی گھڑی ہوتی ہے-

پس ایسا رویہ اختیار کرو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے لئے اور تمہاری اولادوں کے لئے ہمیشہ ہمیش کے لئے عید بنائے- اولادوں کی بات تو بہت دور کی ہے ہم تو چاہتے ہیں کہ یہ سال ختم بھی نہ ہونے پائے اور ہمارے لئے سچی عید آ جائے کیونکہ آج سے 50-60 سال کے بعد دیکھنا بوڑھوں کو کب نصیب ہوگا- یوں تو جوان آدمی کے لئے بھی ایک دن زندہ رہنے کی امید نہیں ہوتی لیکن بہرحال اس کی عمر کو دیکھ کر خیال کیا جا سکتا ہے کہ وہ اتنا عرصہ زندہ رہ سکے گا مگر بوڑھا آدمی تو پانچ دس سال زندہ رہنے کی بھی امید نہیں کر سکتا-

پس ہمیں تو چاہئے کہ دعائیں کریں کہ خدا ہمیں ایسی عید نصیب کرے کہ ابھی یہ دن بھی ختم نہ ہو کہ ہمارے لئے سچی عید آ جائے اور اسلام کی فتح کی خبریں ہمیں چاروں طرف سے آنے لگ جائیں- پس تم دعاؤں میں لگے رہو تا وہ عید جو سچی اور حقیقی عید ہے ہمارے قریب آ جائے- اب کی دفعہ خدا تعالیٰ نے دو عیدوں کو جمع کر دیا ہے- آج بھی عید ہے اور کل جمعہ ہے جو مسلمانوں کے لئے عید کا دن ہے (سنن ابی داؤد باب اذا وافق یوم الجمعۃ یوم عید) گویا دو عیدیں جمع ہو گئی ہیں- خدا تعالیٰ ان دو ظاہری عیدوں کے ساتھ باطنی عید بھی ملا دے تو اس کے فضل سے یہ کوئی بعید بات نہیں-

(الفضل 8 مئی 1957ء از خطبات محمود جلد اوّل489۔491)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 مئی 2022

اگلا پڑھیں

عید مبارک