• 19 اپریل, 2024

سرمئی شام ہے موسم ہے سہانا آنا

سرمئی شام ہے موسم ہے سہانا آنا
اس سے پہلے کہ میں ہو جاؤں فسانہ آنا
مجھ سے پہلے ہی کئی لوگ خفا رہتے ہیں
مجھ سے جل جائے ذرا اور زمانہ آنا
اک ترا حسن گلابوں سا غزل صورت ہے
اک یہ ساون کا مہینہ ہے سہانا آنا
روز کہتے ہو مجھے آج تو یہ ہے وہ ہے
آج دنیا سے کوئی کر کے بہانہ آنا
آخری جنگ میں لڑنے کے لئے نکلا ہوں
پھر رہے یا نہ رہے تیرا دیوانہ آنا
لوگ کہتے ہیں تجھے بھول کے بھی زندہ رہوں
میں نے پوچھا تھا مگر دل نہیں مانا آنا
لوگ تو لوگ ہیں جو چاہے وہ کہہ سکتے ہیں
تو تو میرا ہے مرے دل کو دکھا نہ آنا
تو بھی شمشیر بدن مست ادا تیر نگاہ
میں بھی بیٹھا ہوں کہ ہو جاؤں نشانہ آنا
دشمن جان سمجھتا ہے کہ تنہا ہوں میں
میں نے دشمن کو بتانا ہے کہ نا نا آنا
مسکراتا ہوں مگر ڈر ہے کسی محفل میں
اشک آنکھوں سے نہ ہو جائیں روانہ آنا
وہ جو معصوم سا شاعر ہے مبارکؔ احمدؔ
اس کا دنیا میں فقط تو ہے خزانہ آنا

(مبارک صدیقی۔لندن)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 جون 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 جون 2021