جماعت احمدیہ کے ذریعہ
اسلام کی نشاۃ ثانیہ میں خلافت خامسہ کا عظیم الشان کردار
قسط 4
خلافت خامسہ کے بابرکت دور میں حضرت مسیح موعودؑ کی قائم فرمودہ پانچ شاخوں چار دانگ عالم میں پھلنے پھولنے کے حوالہ سے ایک مضمون بعنوان ’’جماعت احمدیہ کے ذریعہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ میں عہد خلافت خامسہ کا عظیم الشان کردار‘‘ میں پیش کیا جاچکاہے جو محض شاہراہ ترقی اسلام کی طرف گامزن جماعت کے جائزہ کا ایک پیمانہ تھا، ورنہ یہ بابرکت دور جس میں جماعت کو قائم ہوئے 134سال ہونے کو آئے ہیں اور غلبہ اسلام و احمدیت کا موعودہ تین صدیوں کا زمانہ اپنے نصف کو پہنچنے کے قریب ہے اور اس کے آثار اکناف عالم میں نظر آرہے ہیں۔ اور حضرت مسیح موعودؑ کا الہام ’’انی معک یا مسرور‘‘ ایک نئی آب وتاب کے ساتھ آپ کے پڑپوتے حضرت مرزا مسرور احمد صاحب کے حق میں پورا ہوکر آسمانی تائیدیں ظاہر فرمارہا ہے۔نیزحضورانور کے بزرگ دادا حضرت مرزا شریف احمد صاحب رضی اللہ عنہ کے بارہ میں ’’وہ بادشاہ آیا‘‘ کاالہام بھی ہمارے موجودہ امام کی ذات میں نئی آن بان کے ساتھ پورا ہورہا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کےذریعہ عالمی ایوانوں میں اسلام کا پیغامِ امن عالم پہنچنا اور قیام امن کے لئے دور حاضر کے تمام عظیم شاہان مملکت کو خطوط بھی عہد خلافت خامسہ کی تابناک تاریخ کا ایک سنہری باب ہے۔
زیر نظر مضمون میں عہد خلافت خامسہ کے غیرمعمولی کارہائے نمایاں یا اس عہد کی خصوصی ترقیات کا ذکر مقصود ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح خدا کے فضل کا سایہ قدم قدم پرحضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے سر پر رہا اور یہ سلسلہ پوری آب وتاب کے ساتھ جاری و ساری ہے اور رہے گا۔ان شاء اللہ
امن کانفرنسز (Peace Symposium)
اور عالمی ’’امن انعام‘‘ کا بابرکت اجراء
خلافت خامسہ کے عہد میں 2004ء سے امن کانفرنس (Peace Symposium) کا آغاز ہوا جس میں دنیا بھر سے مختلف نمائندے شامل ہوتے ہیں اورحضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ اپنے خطاب میں حالات حاضرہ کے پیش نظر دنیا کو امن کا پیغام دیتے ہیں جو اسلام اور جماعت احمدیہ کے تعارف کے علاوہ عالمی امن کے قیام کے لئے نہایت مفید ثابت ہو رہا ہے چنانچہ حضور کے بابرکت عہد میں سولہ16 مرکزی امن کانفرنسز کا انعقاد کیا جا چکا ہے ۔امن کانفرنسز میں ہر سال دنیا بھر میں قیام امن کے لئے نمایاں کام کرنے والوں کو احمدیہ امن پرائز سے بھی نوازا جا تا ہے ۔احمدیہ امن انعام کا آغاز 2009ء سے ہوا اوراب تک جن دس10منتخب افراد کو جماعت احمدیہ کی طرف سے عالمی سطح پر یہ انعام دیا جا چکا ہے ان کے اسماء حسب ذیل ہیں :
1۔مکرم ڈاکٹر لارڈ ایرک ایوبری صاحب
(Lord Eric Avebury) آف یوکے
2۔مکرم عبدالستار ایدھی صاحب
(Abdul Sattar Edhi) آف پاکستان
3۔ایس او ایس چلڈرن ولیج
(SOS children’s villages UK)
4۔ مکرم ڈاکٹر اہنبا بوچی ایڈجی
(Dr. Oheneba Boachie-Adjei) آف غانا
5۔ مکرم میگنس میک فرلانس بارو صاحب
(Magnus-MacFarlane-Barrow) آف سکاٹ لینڈ
6۔مکرمہ سندھوتی سپکل
(Sindhutai Sapkal) آف انڈیا
7۔مکرمہ حادیل قاسم
(Hadeel Qasim) آف عراق
8۔ مکرمہ سٹوسکو تھرلو
(Mrs Setsuko Thurlow) آف جاپان
9۔ مکرم ڈاکٹر لیونڈ روشل
(Dr Leonid Roshal) آف روس
10۔مکرم ڈاکٹر فریڈ میڈنک
(Dr Fred Mednick) آف امریکہ
ان کانفرنسز کے ذریعہ ساری دنیا میں حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکا تعارف ’’سفیرِ امن‘‘ کے طور پرہوا، اب دنیا کی بڑی بڑی پارلیمنٹس آپ کو اپنے خطاب کی دعوت دینے میں فخر محسوس کرتی ہیں۔
عالمی ایوانوں میں پیغام امن و اسلام
اللہ تعالیٰ نے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ کو جو ایک اور نیا اہم مفید اور مؤثر تاریخی کام کرنے کی توفیق بخشی وہ آپ کے خطابات ہیں جو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کے بڑے اور طاقتور ملکوں کے ایوانوں میں امن کے موضوع پر ارشاد فرمائے جن کے ذریعہ جماعت کا مثبت تعارف اور پیغام بھی پہلی دفعہ دنیا کے بااثر طبقہ میں پہنچا۔ ان خطابات کا مختصر ذکر یہاں کیا جاتا ہے۔
برطانوی پارلیمنٹ کے ہاؤس آف کامنز میں خطاب
22 اکتوبر 2008ء کو امام جماعت احمدیہ عالمگیر سیدنا حضرت مرزا مسرور احمد نے برطانوی پارلیمنٹ کے ہاؤس آف کامنز میں خطاب فرمایا۔ یہ استقبالیہ جماعت احمدیہ کے ہیڈکوارٹرز واقع مسجد فضل، پٹنی کی M.P جسٹن گریننگ (Justine Greening) کی طرف سے خلافت احمدیہ صد سالہ جوبلی کے موقعہ پر دیا گیا۔ جس میں برطانوی پارلیمنٹ کے ممبران، پریس کے معزز ممبران، سیاستدان اور مختلف شعبہ جات کے ماہرین شامل تھے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے اس خطاب کا عنوان ’’عالمی بحران پر اسلامی نقطۂ نظر‘‘ کے موضوع پر خطاب فرمایا۔
ملٹری ہیڈکوارٹرز کوبلنز جرمنی سے خطاب
30 مئی 2012ء کو حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے ملٹری ہیڈکوارٹرز کوبلنز جرمنی میں حضور کے خطاب کا موضوع ’’وطن سے محبت کے متعلق اسلامی تعلیمات‘‘ تھا۔
کیپیٹل ہل واشنگٹن ڈی سی امریکہ میں خطاب
27 جون 2012ء کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے امریکہ میں کیپیٹل ہل واشنگٹن ڈی سی میں تاریخی خطاب فرمایا۔ جس میں اہم اراکین کانگریس وسینٹ، سفیروں، وائٹ ہاؤس اور سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے سٹاف، غیر سرکاری تنظیموں کے مذہبی قائدین، اساتذہ کرام، مشیران، سفارتی نمائندے، تھنک ٹینکس ، پینٹاگان کے نمائندے اور میڈیا کے افراد شامل تھے۔اس خطاب کا موضوع ’’عالمی بحران اور امن کی راہ‘‘ تھا۔
یورپین پارلیمنٹ سے خطاب
4 دسمبر 2012ء کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یورپین پارلیمنٹ سے وہ تاریخی خطاب فرمایاجس میں تیس30 ممالک کے 350 نمائندگان شامل ہوئے۔ ہال یورپی نمائندوں سے بھرا ہوا تھا۔خطاب کا موضوع ’’امن کی کنجی۔ بین الاقوامی اتحاد‘‘ تھا۔
برطانوی پارلیمنٹ سے دوسرا خطاب
11 جون 2013ء کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ ایک بار پھر برطانوی پارلیمنٹ ہاؤس لندن میں خطاب فرمایا۔ اس میں اڑسٹھ 68 نمایاں شخصیات نے شمولیت کی جن میں تیس 30 ممبران پارلیمنٹ بارہ 12ممبران ہاؤس آف لارڈز اور چھ6 وزراء، شامل تھےاس خطاب کا موضوع ’’اسلام۔ امن اور محبت کا مذہب‘‘ تھا۔
نیوزی لینڈ کی نیشنل پارلیمنٹ
4 نومبر 2013ء کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ولنگٹن میں نیوزی لینڈ کی نیشنل پارلیمنٹ سے ’’امن عالم۔ وقت کی ضرورت‘‘ کے عنوان پر خطاب فرمایا۔ اس اجلاس میں ممبر آف پارلیمنٹ کے علاوہ مختلف ممالک کے سفارت کار، محققین اور دیگر معزز مہمان شامل ہوئے۔
ڈچ نیشنل پارلیمنٹ
6 اکتوبر 2015ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے ہالینڈ میں ڈچ نیشنل پارلیمنٹ میں ان کی امور خارجہ کی سٹینڈنگ کمیٹی کے اجلاس سے خطاب فرمایا جوسو 100 سے زائد معزز مہمانوں نے سنا، جن میں مختلف ممالک کے سفیر اور نمائندگان بھی شامل تھے۔ اس خطاب کاموضوع ’’حالات حاضرہ اور اسلام کی پُر امن تعلیم‘‘ تھا۔
پارلیمنٹ آف کینیڈا
17 اکتوبر 2016ءکو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کینیڈا کی پارلیمنٹ میں خطاب کے لئے تشریف لے گئے۔ جس میں دوسوپچیس225 سے زائد افراد نے شمولیت کی۔ ان میں چھ6 وزراء،ستاون57 ممبران نیشنل پارلیمنٹ گیارہ11 ممالک کے سفراء کرام، مختلف NGOs کے سربراہان، مذہبی راہنماوں، میڈیا کے افراد اور دیگر معزز ممبران شامل تھے۔ خطاب کا موضوع ’’دنیا میں امن قائم کرنے کے لئے اسلامی تعلیم‘‘ تھا۔
عالمی تنظیم یونیسکو میں خطاب
8 اکتوبر 2019ء کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز یونیسکو بلڈنگ پیرس تشریف لے گئے جہاں حضور انور نے ’’دنیا کی سائنسی اور علمی ترقی‘‘ کے عنوان پر خطاب فرمایا۔
الغرض حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ عالمی سطح پردرجنوں ایسے پروگرامز میں شرکت فرما چکے ہیں جن میں مختلف ممالک کے سربراہان، سفارتکار، سیاستدان، پریس و میڈیا کے نمائندے ودیگر شعبہ ہائے زندگی کے لوگ شامل ہوتے رہے ہیں۔
مذاہب عالم کانفرنس
گلڈ ہال (Guild Hall)
لندن 11؍فروری 2014ء
مذاہب عالم کی یہ کانفرنس عہد خلافت خامسہ کا ایک ایسا تاریخ ساز واقعہ بن گئی جس کی معدودے چند مثالیں جماعت احمدیہ کی تاریخ میں ملتی ہیں۔ جلسہ مذاہب عالم 1896ء کے بعد خلافت ثانیہ میں 1924میں ویمبلے کانفرنس اور خلافت ثالثہ میں 1977ءمیں کسر صلیب کانفرنس یورپ کی سطح پرہوئی۔مگر الہی تقدیر کے موافق 2014ء کی گلڈہال کانفرنس کوعالمی سطح پرغیرمعمولی وسعت، ہمہ گیری اور اثر انگیزی کے نتیجہ میں حضرت مسیح موعودؑ کی دیرینہ خواہش پوری ہونے کے سامان ہوگئے۔
چنانچہ جماعت احمدیہ کے قیام کے سو سال پوراہونے پربرطانیہ میں اظہار تشکر کے لئے منعقد ہونے والی یہ عظیم الشان تقریب حضرت اقدس مسیح موعود ؑ کی خواہش کے مطابق لندن میں ایک عالمی نوعیت کے ’’جلسہ مذاہب‘‘ کی صورت میں منعقدہوئی جس میں 11فروری 2014ء کو گلڈ ہال میں چھبیس26 ممالک سے مختلف نو مذاہب (مسلمان، یہودی، عیسائی، بدھ مت، دروزی، ہندومت، زرتشتی، سکھ اور بہائی مذہب) کے دوسواسّی280 نمائندگان کے علاوہ سیاسی لیڈرز، حکومتی و سفارتی اہلکاروں، علمی و ادبی حلقوں کے افراد، میڈیا نیز مذہبی آزادی کے لئے کام کرنے والے اداروں سے تعلق رکھنے والے چارسوپچاسی485 افراد نے شرکت کی۔ کانفرنس کا عنوان ’’اکیسویں صدی میں خدا کا تصور‘‘ تھا۔یہ اہتمام لنڈن کے گلڈ ہال کی اس مشہور و معروف عمارت میں تھا جہاں یاجوج ماجوج نام کے دو مجسمے بھی ہیں۔ گزشتہ کئی صدیوں سے اس عمارت میں ملکہ برطانیہ کے شاہی خاندان کے علاوہ دیگر اہم ترین ملکی و عالمی تقریبات کا انعقاد ہوتارہا ہے۔عمارت کے نچلے حصہ East and West Crypt میں جماعت احمدیہ کے تعارف پر مشتمل ایک تعارفی نمائش کا بھی انتظام تھا۔
مشہور شخصیات کے پیغامات
دنیا کی اہم ترین شخصیات نے کانفرنس کے لئےاپنے پیغامات بھجوائے۔ ملکہ برطانیہ جو چرچ آف انگلینڈ کی سربراہ اور Defender of the Faith ہیں کے پرائیوٹ سیکرٹری نے لکھا کہ ملکہ عالیہ انگلستان کے لئے جماعت احمدیہ انگلستان کی طرف سے اپنے صد سالہ جشن کے موقع پر Guildhall میں اس عظیم الشان جلسہ ہائے مذاہب عالم کا انعقاد باعث مسرت ہے۔
عزت مآب وزیر اعظم برطانیہ David Cameron کایہ پیغام انگلستان کے اٹارنی جنرل Rt Hon Dominic Drieve QC MP نے پڑھا کہ ’’مَیں احمدیہ مسلم جماعت کو دنیا میں امن کے قیام کے لئے مختلف مذاہب کے نمائندگان کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کےلیے دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔‘‘
گھانا کے صدر مملکت John Dramani Mahama کا پیغام لندن میں گھانا کے ہائی کمشنر HE Prof Kwaku Danso Boafo نے پڑھتے ہوئےکہا کہ ’’ہمیں اس موقع پر ایک مرتبہ پھر یہ باور کرایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر دنیا میں بھیجے جنہوں نے دنیا میں موجود تمام رنگ و نسل کے لوگوں کو بلا تفریق یہ پیغام دیا کہ انسان کو پُر عزم، منظم اور باہمی رواداری کے طریقوں سے زندگی گزارنی چاہئے۔‘‘
عزت مآب جناب دلائی لاماکا پیغام ان کے نمائندہ Geshe Tashi Tsering نے پڑھتے ہوئے کہا کہ ’’میں جماعت احمدیہ کی طرف سے برطانیہ میں 11فروری 2014ء کو منعقد ہونے والی مذاہب عالم کی اس کانفرنس کو منعقد کرنے کے جرأت مندانہ اقدام کو سراہتا ہوں ،مین یقین رکھتا ہوں کہ اس قسم کے جلسے بہت دوررس نتائج کے حامل ہوتے ہیں۔‘‘
کانفرنس کی اہم تقاریر
چیف ربائی اسرائیل کے نمائندے Rabbi Professor Daniel Sperbe نے کہا کہ ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں وہاں ظاہری ترقی کو ایک بہت بلند کامیابی تصور کیا جاتا ہے۔ سینئر منسٹر آف اسٹیٹ Saeeda Warsi Rt Hon Baroness نے کہا کہ یہ کانفرنس جماعت احمدیہ کی وسعتِ حوصلہ، کشادہ دلی، کشادہ نظری اور اعلیٰ ظرفی کی آئینہ دار ہے کہ آپ لوگوں نے عالمی نوعیت کی ایک ایسی تقریب کا انعقاد کیا ہے جس میں صرف اپنی جماعت کے عقائد پیش کرنے کی بجائے تمام مذاہب کے نمائندگان کو اپنا اپنا نقطۂ نظر پیش کرنے کی دعوت دی ہے۔
امریکہ سے خاص طور پر اس کانفرنس میں شریک ہونے والی USCIRF کی وائس چئیرمین Dr Katrina Lanto Swett نے کہا کہ ’’آج آپ کے ساتھ شامل ہونے کا جو موقع مل رہا ہے اس پر میں بہت خوشی اور اعزاز محسوس کررہی ہوں۔‘‘
دروز کمیونٹی اسرائیل کے روحانی پیشوا Sheikh Muawafak Tareef نے کہا کہ ’’ہم ایک ایسی قوم ہیں جن کے ارضِ مقدس میں بسنے والے تمام مذاہب کے ساتھ مضبوط تعلقات ہیں۔ مَیں امام جماعت احمدیہ کا ممنون ہوں کہ انہوں نے اور اُن کی جماعت نے مجھے اس کانفرنس میں شمولیت کی دعوت دی۔‘‘
کیتھولک چرچ کے آرچ بشپ Kevin Mcdonald نے کہا کہ ’’مجھے مذاہبِ عالم کی اس کانفرنس میں شمولیت کر کے اور کیتھولک چرچ کی نمائندگی میں اپنی تقریر پیش کر کے انتہائی خوشی ہو رہی ہے۔‘‘ انہوں نے پوپ کی کیبنٹ میں شامل Council for justice and peace کے صدر Cardinal Peter Turkson کا پیغام سنایا کہ اس محفل کی خاص بات یہ ہے کہ دنیا بھر سے مختلف مذاہب کے نمائندگان اکٹھے ہو کر دنیا میں امن کے قیام کے لئے بات کر رہے ہیں۔
ہندو کونسل یو کے کے چئیرمین Umesh Chandar Sharma نے کہا کہ ’’آج کا عنوان بہت دلچسپ ہے۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہم سب اس پر متفق ہیں کہ اس کائنات میں خدا کا وجود ہے۔‘‘
سیکرٹری آف اسٹیٹ فار کمیونیٹیز Rt Hon Eric Pickles MP ، انگلستان میں قائم کردہ APPG on international religious freedom کی چئیرمین Borness Berridge نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
حضور انور کا صدارتی خطاب
جلسہ مذاہب عالم میں اسلام کے نمائندہ کے طور پرحضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے پینتیس35منٹ کے صدارتی خطاب میں اسلام کی پر امن تعلیم کو نہایت پر حکمت انداز میں پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلام کی تمام جنگیں دفاعی تھیں۔ کسی گروپ کی شدت پسندانہ سرگرمیوں کو اسلام سے منسوب کرنا درست نہیں۔ آج دنیا کی اہم ترین ضرورت امن کا قیام اور خدا کی معرفت حاصل کرنا ہے۔دنیا ایک ناقابل تصور تباہی کے دہانے پر ہے جس سے بچنے کا واحد حل صرف خدا کی طرف رجوع کرناہے۔ جلسہ مذاہب عالم میں حضورانور کے اس اہم دلنشین اور اثرانگیز خطاب کا خلاصہ پیش خدمت ہے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰٰ بنصرہ العزیز نے اس موقع پر فرمایا:
’’سب سے پہلے تو اس موقع پر میں تمام معزز مہمانان کا اس تقریب میں شامل ہونے پر شکریہ ادا کرنا چاہوں گا۔ بالخصوص ان مہمان مقررین کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نےنہایت قلیل وقت میں اپنے عقائد اور نظریات بیان کئے۔ میں سمجھ سکتا ہوں کہ اتنے کم وقت میں اپنے عقائد بیان کرنا ناممکن ہے اس لئے ہمارے معزز مہمان شائد وہ سب کچھ بیان نہ کرپائے جو وہ کرنا چاہتے تھے۔ بہرحال مختلف پس منظر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا ایک جگہ اکٹھا ہونا ثابت کرتا ہے کہ ہم سب جو مختلف مذاہب کے پیروکار ہیں مشترکہ مقصد اور آرزو کے باعث ایک دوسرے سے بندھےہوئے ہیں۔ اور یہ مشترکہ مقصد یہی ہے کہ زمین و آسمان کے خالق کی مخلوق جس میں انسان کو اشرف المخلوقات سمجھا گیا ہے کی زندگیوں میں بہتری پیدا کرنے کیلئے کام کیا جائے۔
گزشتہ سال جماعت احمدیہ یو کے کی صد سالہ جو بلی منانے کیلئے مختلف تقریبات کا انعقاد ہوتا رہا ہے لیکن آج کی تقریب تمام تقریبات میں سب سے بہتر ہے ۔ اس دور میں لوگوں کو خدا تعالیٰ کی اہمیت کے متعلق بات کرنے کیلئے ایک مشترک پلیٹ فارم مہیا کرنے کیلئے یہ تقریب ایک بہترین ذریعہ ہے۔ پس جنہوں نے اس تقریب کا انتظام کیا ہے وہ بھی ہمارے شکریہ کے مستحق ٹھہرتے ہیں ۔ میں بالخصوص ذاتی طور پر اس لئے بھی مشکور ہوں کیونکہ آج شام کی اس تقریب کے ذریعہ مجھے بہت سے نئے لوگوں کا تعارف حاصل ہوا ہے۔۔۔۔
تشکر کے یہ جذبات میری توجہ اس خدا کی طرف لے جاتے ہیں جس نے میرے مذہب کی تعلیمات کے مطابق انسان کو ہر موقع پر اپنے ساتھی کا شکر یہ ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ اگر کوئی آپ کے ساتھ رحمد لی کا سلوک کرے تو ضروری ہے کہ آپ تشکر کا اظہار کر یں کیونکہ خداتعالیٰٰ کی شکرگزاری کا ایک لازمی تقاضا انسان کا شکر یہ ادا کرنا ہے۔ پس اسلام خداتعالیٰ کا یہ تصور پیش کرتا ہے۔ یقینا وہ شخص جو اسلام کی حقیقی تعلیمات پر عمل پیرا ہے اور خدا تعالیٰ پر حقیقی ایمان رکھتا ہے اگر وہ مخلص ہو کر صرف اسی تعلیم پرعمل کرے تو اسے علم ہوگا کہ اس کا شکر یہ ادا کرنا معاشرہ میں پیار اور محبت پھیلانے کا ذریعہ ہے بالکل اسی طرح جیسے ایک شگفتہ پھول ہر آن اپنے گردو نواح میں خوبصورتی اور خوشبو بکھیرتا ہے۔ ۔۔
اگر ہم میں سے ہر یک اس طریق پر عمل کرے تو عین ممکن ہے کہ دنیا میں مختلف ادوار اور واقعات پر طرح طرح سے پیدا ہونے والی جلی کٹی نفرتیں اور اختلافات یکسر ختم ہو جائیں۔ اور محبت اور امن ہمیشہ کیلئے ان نفرتوں کی جگہ لے لے۔
بعض لوگ شاید گمان کر یں کہ جو کچھ میں کہہ رہا ہوں و و صرف خیالی باتیں ہی ہیں اور عملی طور پر اس کا حصول ناممکن ہے۔ لیکن جب ہم مذہب کی طویل تاریخ دیکھتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کس قدر محبت اور شفقت سے بھرپور معاشرہ دیکھنا چاہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تو چاہتا ہے کہ ہم انہی مقاصد کو حاصل کرنے والے بنیں اور اخلاق کی بلندیوں کو چھولیں۔ انہی باتوں کی وجہ سے خدا تعالیٰ دنیا میں ہر جگہ مسلسل اپنے راستباز انبیاء اور خلفاء بھیجتارہا ہے۔ یہ انبیاء بنی نوع انسان کی اصلاح اور تمام لوگوں کے بیچ محبت، پیار اور بھائی چارہ پیدا کر نے کیلئے بھیجے گئے۔ خدا تعالیٰ نے اپنے خلفاء اسی غرض سے بھیجے کہ لوگ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کریں۔۔۔
خداتعالیٰ کے انبیاء ،اور برگزیدہ لوگوں نے اپنے گرد ایسے لوگوں کی جماعتیں اکٹھی کیں جنہوں نے اللہ کی تعلیم کے مطابق اپنی زندگیاں گزارنے کی کوشش کی جبکہ ان انبیاء کو قبول نہ کیا ان کا افسوسناک انجام ہوا۔جب بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر مبعوث فرمائے تو ہر ایک نے انہیں قبول نہ کیا بلکہ بعض لوگ ایسے بھی تھے جنہوں نے مذہب کی مخالفت کی اور اس سے انحراف کیا۔ان کا کہنا تھا کہ نبوت کا مدعی صرف لوگوں کے دلوں میں خوف ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے جبکہ اصل میں کسی ایسے خدا پر ایمان لانے کی کوئی ضرورت نہیں جو تمام طاقتوں کا مالک ہے ۔ لیکن ایسے تمام لوگ جنہوں نے خدا تعالیٰ کا انکار کیا اور انبیاء کی مخالفت کی ہمیشہ کیلئے تباہ و بر با دکر دیے گئے ۔۔۔
قرآن کریم نے ایسے لوگوں کے واقعات بیان کئے ہیں جو اللہ تعالیٰ سے دور ہونے کی وجہ سے بے شمار مصائب و آلام میں گرفتار ہو گئے اور بالآخر تباہ و برباد ہو گئے لیکن اس کے مقابلہ پر وہ لوگ جنہوں نے خدا کے ساتھ قریبی تعلق پیدا کیاوہ ہمیشہ کامیاب و کامران رہے۔ ایسےواقعات کا بیان صرف قرآن کریم میں نہیں بلکہ دیگر مذاہب کے صحیفوں میں بھی موجود ہے ۔ان واقعات کو پڑھ کر یا سن کر ہم یہ سوچنے اور سوال کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ کیا یہ واقعات محض قصے اور کہانیاں ہی ہیں یا ان واقعات کی بنیا دواقعی حقیقت پرقائم ہے؟ کیا واقعی وہ نتائج سامنے آئے جن کے متعلق اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ لوگوں نے خبر دار کیا تھا؟ کیا وہ نشان پورےہوئےجن کا اللہ تعالیٰ کے انبیاء نے اعلان کیا تھا ؟ کیا اللہ تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ بندوں کو واقعی انعامات اور اپنی رحمتوں سے نوازا؟ کیا انبیاء کی تعلیمات کے نتیجہ میں وہ لوگ جو خدا پر ایمان لائے ایک ایسے راستہ پر گامزن ہوئےجو دوسروں کے لئے محبت اور شفقت سے مرصع تھا؟
میں اتنے مختصر وقت میں ہر ایک پہلو کو گہرائی میں جا کر تو بیان نہیں کر سکتا لیکن اس حقیقت کی گواہی دیتا ہوں کہ مذاہب کی تاریخ میں ان تمام سوالات کے جوابات حتمی طور پر ’’ہاں‘‘ میں دیے ہیں ۔ وہ مقدس کتاب جس پر میں ایمان رکھتا ہوں واضح طور پر ہمیں بتاتی ہے کہ یہ تمام واقعات سچے ہیں اور یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء کو ایک مقصد سونپ کر مبعوث فرماتا ہے کہ وہ بنی نوع انسان کا خدا تعالیٰ کے ساتھ ایک قریبی تعلق قائم کر کے انہیں ممکنہ اعلیٰ روحانی معیاروں پر فائز کردیں۔ تعلق باللہ کے ذریعہ انسان نہ صرف حقوق اللہ کی ادائیگی کرتا ہے بلکہ اعلیٰ اخلاقی اقدار کا مظاہرہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے حقوق بھی ادا کرتا ہے۔اور جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں انسان کو اشرف المخلوقات کہا ہے ۔۔۔
پس یہ دونوں بنیادی تعلیمات ایسی ہیں کہ جس معاشرہ میں بھی ان کا قیام ہوگا اور جولوگ ان پر عمل کر میں گے وہ نہ صرف اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے ہوں گے بلکہ پیار ،محبت اور بھائی چارہ کوفروغ دینے والے بھی ہوں گے۔ بطور مسلمان میرا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام دنیا کی اصلاح اور بنی نوع انسان میں ان عظیم اقدار کے قیام کیلئے مبعوث فرمایا ہے۔۔۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی اصلاح کی خاطر اس مقدس پیغام کی تبلیغ کیلئے دن رات ایک کر دیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوششیں صرف تبلیغ تک محدود نہ تھیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر رات اپنے خدا کے حضور سجدہ ریز ہوکر اس قدرگریہ وزاری کے ساتھ دعا کرتے کہ سجدہ گاہ آنسوؤں سے تر ہو جاتی۔ کیا وجہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر اخلاص کے ساتھ دعا مانگتے؟ اس کے پیچھے دولت اور طاقت کے حصول کی کوئی ذاتی غرض نہ تھی ۔ یہ دعائیں کسی حکومت کے انتظام و انصرام پر قابض ہونے کیلئے نہ تھیں بلکہ اللہ تعالیٰ سے کی جانے والی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر دعا میں یہی گر یہ وزاری ہوتی کہ کیا وجہ ہے کہ لوگوں کی روحانی و اخلاقی اصلاح نہیں ہورہی؟ لوگ گناہوں اور برائیوں کو کیوں ترک نہیں کرر ہے؟ اور ان برائیوں اور گناہوں کی وجہ سے لوگ کیوں اپنے آپ کو تباہی کے گڑھے میں دھکیل رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا اس قدر گہراغم اور صدمہ تھا ور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اضطراب اور بے چینی اتنی بڑھ چکی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوقرآن کریم میں براہ راست مخاطب ہوتے ہوئے پوچھا کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کے غم سے کہ لوگ آپ ؐکے پیغام کو سنتے نہیں اور اس کی طرف تو جہ نہیں کرتے اپنی جان کو ہلاک کر لیں گے؟ ۔۔۔
مگر اللہ تعالیٰ و ہ ذات ہے جو دل سے نکلی ہوئی اور خلوص سے بھری ہوئی دعاؤں کو سنتی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کو بھی سنا۔ تاریخ گواہ ہے کہ جاہل، گنوار، شرابی، زانی، قمار باز، چور اور ہرقسم کی برائی میں مبتلا لوگ ان تمام برائیوں سے چھٹکارا حاصل کرنے والے بن گئے اور اعلیٰ اخلاقی اقدار نے ان برائیوں کی جگہ لے لی۔ وہ تمام لوگ بدل گئے۔ انہوں نے خدا تعالیٰ کے ساتھ بھی نہ ٹوٹنے والا تعلق قائم کر لیا۔ کوئی بھی دنیا ی طاقت اس قسم کا روحانی انقلاب پیدا نہیں کر سکتی۔۔۔
دنیاوی اعتبار سے دیکھا جائے تو ابتدائی مسلمان نہایت کمزور تھے اور جوتھوڑی بہت طاقت حاصل کی بھی تو بہت بعد میں۔ ابتدائی دور میں مسلمان انتہائی غریب نادار اور بے سروسامان تھے لیکن اس کے باوجود اپنے پر جوش اور خالص ایمان اور خداتعالیٰ کے ساتھ قریبی تعلق کی وجہ سے اس کی راہ میں زندگیاں قربان کرنے کیلئے ہمیشہ تیار تھے۔ انہوں نے قربانی کے اعلی ٰمعیار قائم کئے اور ان کو خدمت انسانیت کا شوق اس قدر تھا کہ دوسروں کی مدد کے لئے اپنے گھروں میں موجود تمام تر ساز و سامان ان کو دینے کے لئے تیار ہے ۔۔۔
اگر ہم ان کی ایمان لانے سے قبل اور ایمان لانے کے بعد کی زندگیوں کا موازنہ کر میں تو بلاشبہ ان کے دلوں میں ایک عظیم الشان انقلاب رونما ہوا جو خدا کو سمجھنے اور اس کا ادر اک حاصل کرنے کی وجہ سے تھا۔ وولوگ خدا تعالیٰ کی تائید ونصرت کے واضح نشانات دیکھنے لگے۔ یہ روحانی انقلاب محض ایک اتفاق نہ تھا یا یہ کسی دنیادی مقصد کے حصول کی خاطر نہ تھا بلکہ انہوں نے از خود مشاہدہ کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں دوسروں کیلئے محبت کے فقید المثال جذبات موجود ہیں حتیٰ کہ اسلام کے شدید ترین اور سفاک ترین مخالف بھی اس سچائی پر ایمان لانے کیلئے تیار ہو گئے ۔وہ اس صداقت پر گواہ ٹھہرے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ظلم نفرت اور سفا کا نہ حملوں کا جواب صرف اور صرف عفو، رحم اور شفقت سے دیا۔ وہ اس صداقت پر گواہ ٹھہرے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کے ان مخالفین پر جنہوں نے اسلام کو نیست و نابود کرنے کیلئے کوئی کسر نہ چھوڑی تھی فتح حاصل کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انتہائی متانت اور در گزر کر تے ہوئے ان سے فرمایا کہ میری تم لوگوں سے کوئی ذاتی دشمنی نہ ہے ۔ میں تمہارے اس ظلم و ستم کا بدلہ نہیں چاہتا جو ماضی میں تم ہم پر کرتے رہے۔ اگر اس بات کی یقین دہانی کراؤ کہ امن و سکون کے ساتھ اپنی زندگیاں گزارو گے تو تمہیں مکہ میں رہنے کی کھلی آزادی ہے اور عقائد اور مذہبی اختلاف کی وجہ سے تم سے ظلم اور نا انصافی نہیں کی جائے گی۔۔۔
جب اسلام کے ان گنت مخالفین نے اس عدیم المثال سخاوت کو دیکھا تو ان کے پاس سر تسلیم خَم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔ صرف ایک مثال دیتا ہوں ۔ عکرمہ نامی اسلام کا ایک مخالف جس نے مسلمانوں پر بے انتہاظلم ڈھائے تھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کو دیکھ کر بے اختیار کہنے لگے کہ صرف وہی شخص اس قدر شفقت کا اظہار کر سکتا ہے جو فی الحقیقت خدا کی طرف سے ہواور جس کا پیار بنی نوع انسان کیلئے عدیم المثال ہو۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اسوہ کو دیکھ کر دشمنانِ اسلام نے بار بار اور کھلے عام اظہار کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی شریت بلاشک وشبہ سچی ہے اور قرآن کریم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو رحمۃ للعالمین کا خطاب دیا ہے وہ بالکل برحق ہے ۔انہوں نے تسلیم کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود کے ذرے ذرے سے انسانیت کیلئے محبت اور رحم چھلکتا ہے۔ انہوں نے کھلے عام اس بات کا اظہار کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل رحم کے اعلیٰ معیاروں کی تمثیل ہے اور خدا تعالیٰ کے کلام کی سچائی کا ثبوت ہے۔۔۔
رحم کی ان تعلیمات کے حوالہ سے ایک سوال یا اعتراض بھی پیدا ہوسکتا ہے بلکہ بعض غیر مسلموں کی طرف سے اکثر یہ اعتراض اٹھایا بھی جاتا ہے کہ اگر اسلام دوسروں سے ہمدردی اور پیار کرنے کی تعلیم دیتا ہے اور اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فی الحقیقت رحمۃ للعالمین تھے تو پھر مذہبی جنگیں کیوں لڑی گئیں؟ اس کا جواب جاننے کیلئے ضروری ہے کہ اسلام کی ابتدائی تاریخ سے واقفیت ہو ۔۔۔
اس حوالہ سے دواہم باتیں ذہن میں رکھیں۔ اول یہ کہ تاریخ اس حقیقت پر گواہ ہے جسے انصاف پسند مستشرقین بھی مانتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوی ٰکے بعد ابتدائی سالوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کومکہ میں لا مذہب اور بت پرستوں کی جانب سے انتہائی سفاکانہ اور بہیمانہ مظالم کا سامنا کرنا پڑا۔ بلکہ رسول کریم صلی اللہ کے صحابہ بشمول مرد، عورتوں اور بچوں نے اپنی زندگیاں گنوار دیں۔ بعض ایسی مثالیں ملتی ہیں جہاں مسلمان عورتوں کی ایک ٹانگ کو ایک اونٹ اور دوسری ٹانگ کو دوسرے اونٹ کے ساتھ باندھ کر ان اونٹوں کو مخالف سمتوں میں بھگایا گیا جس کی وجہ سے ان کے جسموں کوٹکرے کر کے دو علیحدہ علیحدہ حصوں میں کاٹ کر رکھ دیا۔ فی الحقیقت ان مظالم کی تو ایک لمبی فہرست ہے لیکن میں ان سب کا یہاں ذکر نہیں کر پاؤں گا۔ مگر مسلمانوں نے اس قدر بہیا نہ ظلم و بربریت سے گزرنے کے باوجود نہ تو کھلے عام اور نہ ہی پوشید طور پر کسی قسم کا بدلہ لینے کی کوشش کی ۔ بلکہ سالوں اس ناختم ہونے والے اور اذیت ناک مظالم سہنے کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اکثر صحابہ کرام مکہ سے ہجرت کر کے چلے گئے۔ بعض مسلمان رہنے کیلئے مدینہ چلے گئے اور بعض دوسری جگہوں کی طرف ہجرت کر گئے ۔ مدینہ میں جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے گئے ایک بڑی تعداد میں لوگوں نے اسلام قبول کرلیا۔ مگر کفار مکہ سے یہ بات بھی برداشت نہ ہوئی کہ مسلمان آرام و سکون سے رہنے لگ گئے ہیں ۔ چنانچہ ہجرت کے صرف اٹھارہ ماہ بعد ہی انہوں نے مدینہ کے مسلمانوں پر جنگی ساز و سامان سے لیس ایک ہزار فوجیوں کے لشکر کے ساتھ حملہ کر دیا۔ ان کے مقابلہ پر مسلمانوں کی فوج صرف تین سوافراد پر مشتمل تھی اور سوائے چند ایک تلواروں اور کمانوں کے ان کے پاس کچھ بھی سامان حرب نہ تھا ۔ اگر ان دونوں فوجوں کی طاقت کا باہمی موازنہ کیا جائے تو بلا شک و شبہ مسلمانوں کے پاس سب سے بہترین راستہ یہی تھا کہ وہ مقابلہ کرنے اور اپنادفاع کرنے کی بجائے پیچھے ہٹ جاتے اور اپنی زندگیوں کو بچاتے ۔ لیکن اس وقت اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دشمن سے لڑنے کا حکم دیا ۔ اس کا ذکر قرآن کریم کی سورۃ الحج کی آیات 40-41 میں ملتا ہے جہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’ان لوگوں کو جن کے خلاف قتال کیا جار ہا ہے (قتال کی) اجازت دی جاتی ہے کیونکہ ان پر ظلم کئے گئے ۔ اور یقینا اللہ کی مدد پر پوری قدرت رکھتا ہے۔ یعنی وہ لوگ جنہیں ان کے گھروں سے ناحق نکالا گیا محض اس بنا پر کہ وہ کہتے تھے کہ اللہ ہمارا رب ہے۔ اور اگر اللہ کی طرف سے لوگوں کا دفاع ان میں سے بعض کو بعض دوسرے سے بھڑا کر نہ کیا جا تا تو راہب خانے منہدم کر دیئے جاتے اور گر جےبھی اور یہود کے معاہد بھی اور مساجد بھی جن میں بکثرت اللہ کا نام لیا جا تا ہے۔ اور یقینا اللہ ضرور اس کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کرتا ہے۔ یقینا اللہ بہت طاقتور (اور) کامل غلبہ والا ہے۔‘‘۔۔۔
ان آیات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جب ان لوگوں کو جنہیں نہایت سنگدلی کے ساتھ نشانہ بنایا گیا تھا۔ جنگ کی اجازت دی گئی تو یہ اجازت صرف ان کے اپنے دفاع کیلئے تھی بلکہ تمام مذاہب کی حفاظت کیلئے تھی۔ یعنی دوسری وجہ جس کیلئے جنگ کی اجازت دی گئی تھی وہ یہ تھی کہ اگر ظالموں کوز بردستی روکا نہ جا تا تو مذہب کے مخالفین نہ تو عیسائیوں کو سکون سے رہنے دیتے، نہ یہودیوں کو، نہ مسلمانوں کو اور نہ ہی کسی اور مذہب کے ماننے والوں کو ۔سچ تو یہ ہے کہ اسلام کے مخالفین تمام امن پسند لوگوں کو ختم کرنا چاہتے تھے اور ذاتی اغراض کی بناء پر دنیا کو فتنہ و فساد میں ڈالنا چاہتے تھے۔ ۔۔
یہی وہ پس منظر تھا جس کی بناء پر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فرمایا کہ وہ خوف نہ کھائیں۔ مکہ کی طاقتو رفوج شکست کھا جائے گی کیونکہ اللہ تعالیٰ کی مددمسلمانوں کے ساتھ ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ چند ایک نہتے مسلمانوں نے اللہ تعالیٰ کی تائید سے اپنے ان مخالفین کو شکست سے دوچار کر دیا جو دنیا کا امن تباہ کرنا چاہتے تھے ۔ جہاں ایک طرف یہ مسلمانوں کی فتح تھی تو دوسری طرف یہ ہر اُس شخص کی بھی فتح تھی جو دنیا میں امن قائم کرنا چاہتا ہے۔ یہ ہر اُس شخص کی فتح تھی جو انسانی اقدار کو ہمیشہ قائم رکھنا چاہتا ہے اور بیان تمام لوگوں کی فتح تھی جو یقین رکھتے ہیں کہ مذہب دنیا میں قیام امن اور بھلائی کا محرک ہے ۔۔۔
تاریخ سے ثابت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے دوران اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چاروں خلفائے راشدین کے ادوار میں جو جنگیں لڑی گئیں وہ صرف ظلم کے خاتمہ اور دنیا میں امن کے قیام کی خاطر لڑی گئیں ۔ ان جنگوں کا مقصد ہر گز دوسروں پر ظلم وستم کرنا اور دوسروں کے ساتھ نا انصافی کرنا نہیں تھا۔ جب خلفائے راشد ین کا دور ختم ہوا تو ان کی جگہ بادشاہت قائم ہوگئی۔ ۔ بدقسمتی سے اس بادشاہت کے دور میں اکثر جنگیں سیاسی اور دنیاوی مقاصد کی خاطر لڑی گئیں ۔ لیکن یہ واضح رہے کہ ایسی جنگیں جو سلطنتوں کو وسعت دینے اور طاقت بڑھانے کیلئے لڑی گئیں وہ کسی بھی طور پر قرآن کریم میں دی گئی۔ اسلامی تعلیمات سے مطابقت نہ رکھتی تھیں ۔۔۔
اسی طرح آج کل مسلمان حکومتوں یا مخالف باغی گروہوں کی حرکتوں کے بارہ میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ کسی بھی طرح یا کسی بھی رنگ میں اسلامی تعلیمات کی عکاسی کرتی ہیں۔ میں بغیر کسی تر دّدکے کہہ رہا ہوں کہ آجکل بعض شدت پسند مسلمانوں کے اعمال جو وہ اسلام کے نام پر کرتے ہیں نہ صرف اسلام کا نام بلکہ مذہب کا نام بھی بدنام کرر ہے ہیں۔ اگر لوگ اس قسم کے مذہبی نظریات کو ماننےلگ جائیں تو پھر صاف ظاہر ہے کہ مذہب یا خدا کا نام دنیا میں قیام امن کیلئے مثبت کردار ادا نہیں کر سکتا۔ بلکہ ہمیں تو یہ ماننا پڑے گا کہ وہ لوگ صحیح ہیں جو کہتے ہیں کہ مذہب دنیا میں فساد پھیلانے کی وجہ ہے۔۔۔
تاہم جب میں آخری زمانہ کے متعلق پیشگوئیوں اور قرآن اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے دی گئی رہنمائی کو دیکھتا ہوں تو میرا اپنے مذہب پر یقین بڑھ جا تا ہے۔ قرآن کریم اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ ایک ایسا وقت آئے گا جب مسلمان اسلام کی اصل تعلیمات کو بھول جائیں گے اور قرآن کی پیروی نہیں کر لیں گے۔ مزید فرمایا کہ ایسے مسلمان جو اپنے آپ کو عالم اور رہنما کہتے ہوں گے وہ حقیقت میں فتنہ وفساد اور بدعنوانی کا ذریعہ ہوں گے۔ آج ہم بعینہ ٖیہ سب کچھ دیکھ رہے ہیں ۔جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ جب میں ان سب باتوں کو دیکھتا ہوں تو میرے ایمان میں کمی نہیں بلکہ اضافہ ہوتا ہے۔ میں نہ تو مایوس ہوتا ہوں اور نہ ہی ناامید ۔ کیونکہ قرآن کریم اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دور کی خوفناک حالت کی پیشگوئی فرمائی تھی تو اسکے ساتھ بشارت بھی دی تھی کہ حقیقی اسلام کے احیائےنو کیلئےمسلمانوں میں سے ہی ایک ایسا شخص مبعوث کیا جائے گا جو مسیح موعود اور امام مہدی ( یعنی ہدایت یافتہ )ہوگا۔ وہ ہرقسم کی مذہبی جنگ کو موقوف کرنے کیلئے بھیجا جائے گا اور وہ معاشرے کی ہرسطح پرموجود ہرقسم کے ظلم وستم کو امن اور ہم آہنگی سے بدل دے گا وہ ان عظیم مقاصد کے حصول کیلئے انتھک محنت کرے گا اور اپنے پیروکاروں میں اسلام کی سچی روح پھونکلے گا۔ اور وہ سچی روح قرآن کریم کی اس آیت میں بیان ہوئی ہے۔ چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے: ’’اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر مضبوطی سے نگرانی کرتے ہوئے انصاف کی تائید میں گواہ بن جاؤ اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہرگز اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو۔انصاف کرو یہ تقوی کے سب سے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرو۔ یقینا اللہ اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے جو تم کرتے ہو۔۔۔
پس یہ آیت ہمیشہ عدل و انصاف پر قائم رہنے کی ضرورت کو بیان کرتی ہے ۔ عدل وانصاف کے جس معیار کا تقاضہ کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اگر آپ کو اپنے خلاف یا اپنے والدین یا پیاروں کے خلاف بھی گواہی دینی پڑے تو آپ بغیر کسی تردّد کے دو کیونکہ انصاف ہی قیام امن کا ضامن ہے ۔ پس یہی دو معیار ہے جس کی اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں تعلیم دی ۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اتنا عظیم معیارواقعی حاصل کیا جاسکتا ہے؟۔۔۔
جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا ہے کہ قرآن کریم اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسے دور کے بارہ میں پیشگوئی فرمائی ہے جب فتنہ،فساد اور بدعنوانی دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی اور ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں کہ یہ پیشگوئی کس طرح من وعن پوری ہوچکی ہے۔ در حقیقت یہ ایک کھلا ثبوت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کلام کی صداقت واضح طور پر آشکار ہوگئی ہے ۔ پس اسی طرح جہاں مسیح موعود اور امام مہدی علیہ السلام کے ذریعہ ایمان کا احیائے نو ہوگا وہاں انصاف کا یہ اعلیٰ معیار بھی دنیا میں قائم ہو جائے گا جس کے مطابق کسی قوم کی دشمنی عدل و انصاف کے قیام میں کوئی روک ثابت نہ ہوگی ۔۔۔
ہم احمدی مسلمان خوش قسمت ہیں کہ ہم ان پیشگوئیوں پر نہ صرف یقین رکھتے ہیں بلکہ ہمارا پختہ ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جس شخص نے آنا تھا وہ بانی سلسلہ احمد یہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کی صورت میں آچکا ہے۔ ہمارا یہ بھی ایمان ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسلام کے احیائے نو کا جو آغازفرمایا تھاوہ نظام خلافت جوایک روحانی نظام ہے کے ذریعہ آج بھی جاری ہے۔۔۔
خداتعالیٰ کی تائید و نصرت اور آپ کے حق میں ان گنت آسمانی نشانوں کے ذریعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت ثابت ہو چکی ہے ۔ ان نشانوں میں ایک نشان یہ بھی تھا کہ انسان کے اپنے خالق کو بھلا دینے کی وجہ سے اور دنیا میں وسیع پیمانے پر فتنہ و فساد پھیلنے کی وجہ سے زلزلوں اور دیگر قدرتی آفات میں اضافہ ہوجائے گا۔ تاریخ سے ثابت ہوتا ہے کہ گزشتہ صدی میں آنے والی قدرتی آفات کی تعداد پہلی صدیوں میں آنے والی آفات کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔ ایک اور نشان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زارروس کے بارہ میں پیشگوئی کا تھا۔ یہ پیشگوئی کی گئی کہ زار کے ظلم وستم کی وجہ سے اس کا تختہ الٹ جائے گا۔
چنانچہ تاریخ نے ثابت کر دیا کہ یہ پیشگوئی بھی پوری ہوئی ۔ پھر تیسری پیشگوئی دنیا کی جنگوں کے بارہ میں تھی ۔ ہم دو عالمی جنگیں تو دیکھ چکے ہیں۔ پس اگر ہم نے اپنی حالتوں کو درست نہ کیا اور اپنے خالق کو نہ پہنچاتا تو ہم اس قسم کی مزید جنگیں اور ان کے ہولناک نتائج دیکھیں گے ۔ ان تمام پیشگوئیوں سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ | السلام خداتعالیٰ کی طرف سے ایک نذیر تھے جو انسان کی اصلاح اور اس کو صراط مستقیم پر چلانے کیلئے مبعوث ہوئے۔
پھر یہ بھی واضح ہے کہ ہندوستان کے ایک چھوٹے اور دور دراز قصبے میں رہنے والا ایک دعویدار ساری دنیا میں اللہ تعالیٰ کی نصرت کے بغیر شہرت حاصل نہ کر پا تا ۔ اور اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر وہ اپنے بعد اتنی کامیاب جماعت چھوڑ کر نہ جا تا۔ ایک ایسی جماعت جو نظام خلافت سے مضبوطی کے ساتھ جڑے ہونے کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشن کو ساری دنیا میں پھیلا رہی ہے۔ اور آپ علیہ السلام کامشن یہی تھا کہ اللہ تعالیٰ اور بنی نوع انسان کے درمیان ایک رشتہ قائم کیا جائے اور انصاف کے اعلیٰ معیار قائم کرتے ہوئےحقوق العباد کی ادائیگی کی جائے۔ احمد یہ مسلم جماعت کے پاس وسائل بہت محدود ہیں۔اس لیے اللہ تعالیٰ کی تائید کے بغیر یہ پیغام دنیا کے کناروں تک نہ پہنچ سکتا تھا۔
پس ایک طرف جہاں یہ ساری باتیں ہستی باری تعالیٰ کا ثبوت ہیں وہاں دوسری طرف ان باتوں سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ احمد یہ مسلم جماعت کو اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت عطا کی گئی ہے۔ آج یہ جماعت احمدیہ کے لوگ ہی ہیں جو دوسروں کی مدد کیلئے عظیم مالی قربانیاں کر رہے ہیں۔ بلکہ دنیا میں امن کے قیام کی کوشش میں اپنی جانیں بھی قربان کررہے ہیں۔ بعض ممالک میں ہماری جماعت پر شد ید ظلم کیا جا تا ہے اور ہم پر انتہائی سفاکانہ مظالم ڈھائے جاتے ہیں۔ لیکن ہم کسی طرح بھی ایسار دعمل نہیں دکھاتے یا بدلہ نہیں لیتے جس سے معاشرہ کا امن خطرہ میں پڑ جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سب صرف اس لئے ہے کہ ہم قرآن کریم کی الہٰی تعلیمات پر عمل کرتے ہیں جن کی تفصیل اور اہمیت ہماری جماعت کے بانی علیہ السلام نے انتہائی کمال کے ساتھ بیان فرمائی ہے۔
پس میری دعا ہے کہ دنیا وقت کی ضرورت کو سمجھے۔ مجھے امید ہے اور دعا کرتا ہوں کہ ہم جو اس وقت مختلف مذاہب اور عقائد کی نمائندگی کر رہے ہیں اور جو عملی طور پر ان تعلیمات کا مظاہرہ کرنے کیلئے جمع ہوئےہیں ایک خدا کی عبادت کریں گے اور انصاف کے ساتھ اس کی مخلوق کے حقوق کی ادائیگی کر یں گے ۔ یقینا تمام مذاہب کی یہی حقیقی تعلیم ہے۔
ہمیں اپنے تمام تر ذرائع اور قابلیتوں کو بروئےکارلاتے ہوئےایک بہتر معاشرہ کو فروغ دینا ہوگا ۔ خدا تعالیٰ کی مخلوق کی مدد کرنی ہوگی اور ہر سطح پر پیار، محبت اور امن کو عام کرنا ہو گا۔ آج دنیا کی اہم ترین اور فوری ضرورت یہی ہے کہ امن کا قیام کیا جائے اور خدا کو مانا جائے ۔ اگر دنیا نے اس حقیقت کو سمجھ لیا تو پھر تمام چھوٹے بڑے ممالک دفاع کے نام پر اپنی جنگی صلاحتیوں کو بڑھانے کیلئے لاکھوں کروڑوں ڈالرز نہ خرچ کریں گے بلکہ وہ یہ پیسہ بھوکے کو کھانا کھلانے تعلیم عام مہیا کرنے اور ترقی پذیر ممالک میں معیار زندگی کو بہتر بنانے کیلئے خرچ کر یں گے۔
اگر ہم موجودہ دور کا منصفانہ جائزہ لیں تو ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ ترقی یافتہ ممالک کی معاشیات بھی تذبذب اور غیر یقینی صورتحال کا شکار ہیں۔ عام لوگوں کی قوت خرید بہت کم رہ گئی ہے۔ حتی کہ یہاں مغربی ممالک یا ترقی یافتہ ممالک میں بھی ٹیلیویژن پر انٹر یوز نشر کئے جار ہے ہیں جس میں کہا جار ہا ہے کہ ماضی میں فیملیاں بڑی با قاعدگی کے ساتھ باہر جا کر کھانا کھاتی تھیں لیکن اب باہر جا کر کھانا دور کی بات، لوگ بعض اوقات اپنے گھروں میں بھی بھوکے رہنے پر مجبور ہیں ۔ ان کیلئے اب پہلے کی طرح کھانا پینا اور آرام دہ زندگی بسر کر ناممکن نہیں رہا اور میں سب اسی لئے کہ ممالک اپنے رفاہ عامہ کے بجٹ پر دفاعی اور جنگی بجٹ کو زیادہ اہمیت دے رہے ہیں۔ اپنے ہی گھر میں موجود مسائل اور اپنی قوم کے لوگوں کے مسائل حل کرنے پر توجہ دینے کی نسبت ہزاروں میل دور ممالک میں افواج بھجوانے کی طرف رغبت زیادہ ہے۔
چنانچہ میں سارا فساد مذہب نہیں پھیلا رہا بلکہ یہ تو سیاسی چالوں اور سیاسی مقاصد کے نتیجہ میں پھیل رہا ہے اور اس وجہ سے ہے کہ مختلف قو میں ایک دوسرے پر اپنی برتری ظاہر کرنے میں لگی ہوئی ہیں۔ پس یہ وقت کا اہم تقاضا ہے کہ تمام لوگ اور تمام قو میں اس طرف توجہ کر میں ورنہ دنیا ایک نا قابل تصور نقصان کے دہانہ پر کھڑی ہے ۔ جو تباہی آج ہم دیکھ رہے ہیں اس میں سے کچھ تو ہماری اپنی پیدا کردہ ہے اور کچھ قدرتی آفات کے ہولناک نتائج کی وجہ سے ہے ۔ پس اپنے آپ کو بچانے اور بنی نوع انسان کی حفاظت کی خاطر ہمیں خداتعالیٰ کی طرف رجوع کرنےکی ضرورت ہے اور اس زندہ خدا کے ساتھ تعلق جوڑنے کی ضرورت ہے جس نے نہ تو موسی ٰعلیہ السلام اور اس کی قوم کو فراموش کیا اور نہ عیسٰی علیہ السلام اور اس کے حواریوں کو فراموش کیا۔ اور نہ حقیقی مسلمانوں کو اللہ کی رحمتیں حاصل کرنے سے محروم رکھا گیا اور نہ قبولیت دعا کے مشاہدے سے محروم رکھا گیا۔
یہ ماضی کے قصے کہانیاں نہیں ہیں بلکہ خدا کی ہستی تو ہمیشہ رہنے والی ہے اور آج بھی زندہ ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں تعلیم دی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے برگزیدہ لوگوں کے ساتھ ہم کلام ہوتا ہے اور انہیں اپنے سچے نشانات دکھلاتا ہے۔ پس ہماری ذمہ داری ہے کہ اس دور کے امام کی باتوں کی طرف توجہ کر یں اور حقیقی رنگ میں اپنے خدا کو پہنچانے والے بنیں ۔ ہم اس بات کے گواہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ نشانات دکھلائے اور آج بھی دکھا رہا ہے۔
آخر پر میں یہ کہنا چاہوں گا کہ اپنی غلطیوں کا الزام اللہ اور اپنے مذاہب پر ڈالنے کی بجا ئے ہمیں آئینہ دیکھنا چاہئے اور اپنی خامیوں کی تشخیص کر نی چا ہئے۔ ان الفاظ کے ساتھ میں تمام مہمانوں کا ایک مرتبہ پھر شکر یہ ادا کرنا چاہوں گا جو وقت نکال کر اس تقریب میں شامل ہو ئے اور میری باتوں کو سنا۔ آپ سب کا شکر ہے۔‘‘
(الفضل انٹرنیشنل 11؍اپریل 2014ء صفحہ1-2 اور 10-11)
(باقی کل ان شاءاللہ)
(علامہ ایچ ایم طارق)