• 6 مئی, 2024

’’بنیادی مسائل کے جوابات‘‘ (قسط 20)

‘‘بنیادی مسائل کے جوابات’’
قسط 20

تسلسل کے لئے دیکھیں قسط 19 الفضل آن لائن مورخہ 28؍ستمبر 2021ء

سوال:۔ ایک دوست نےحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ایک خطبہ جمعہ میں بیان جمعۃ المبارک کے دن قبولیت دعا کی خاص گھڑی کے وقت کے بارہ میں حضور انور کے ارشاد، اسی طرح جلسہ سالانہ یوکے کے آخری دن کے خطاب میں نماز تراویح میں پورا سپارہ پڑھنے کی بجائے چھوٹی سورتیں پڑھنے کے بارہ میں حضور انور کے ارشاد کے بارہ میں مزید وضاحت چاہی؟ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 04 فروری 2020ء میں ان دونوں امور کی مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:۔

جواب:۔ میں نے اپنے خطبہ جمعہ میں جمعہ کے روز آنے والی قبولیت دعا کی خاص گھڑی کے بارہ میں احادیث اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ارشادات کی روشنی میں بیان کیا تھا کہ ایک تو یہ بہت مختصر گھڑی ہوتی ہے اور دوسرا اس کے مختلف وقت بیان ہوئے ہیں۔ علمائے حدیث اور فقہاء نے بھی اس گھڑی کا وقت زوال آفتاب سے لیکر سورج غروب ہونے تک مختلف وقتوں میں بیان کیا ہے۔

میرے نزدیک اس گھڑی کے مختلف وقت بیان ہونے میں حکمت یہ ہے کہ جمعہ کا سارا دن ہی بہت برکت والا ہے اس لئے یہ سارا دن ہی انسان کو دعاؤں میں گزارنا چاہئے۔

جہاں تک نماز کو مختصر کرنے کی بات ہے تو اس بارہ میں آپ نے میری دو باتوں کو آپس میں الجھا دیا ہے۔ حدیث کے حوالہ سے ایک بات میں نے یہ بتائی تھی کہ حضورﷺ کی خدمت میں کسی نے ایک امام کی شکایت کی جو بہت لمبی نماز پڑھاتا تھا۔ اور اس پر حضورﷺ نے ناراضگی کا اظہار فرمایا۔

پھر میں نے یہ بات کی تھی کہ نماز کے مختصر کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ جلدی جلدی ٹکریں مار کر نماز پڑھی جائے اور اس ضمن میں بطور مثال میں نے سوشل میڈیا پر دکھائی جانے والی ایک نماز تراویح کا ذکر کیا تھا جس میں امام چند منٹوں میں نماز تراویح کی ساری رکعتیں پڑھا دیتا ہے۔

پس اصل بات یہ تھی کہ نہ نماز کو اتنا لمبا کرنا چاہئے کہ مقتدی اکتا جائیں اور ان کے دل میں نماز کیلئے نفرت پیدا ہو اور نہ ہی نماز کو اس قدر مختصر کرنے کی اجازت ہے کہ وہ نماز نہیں بلکہ ٹکریں مارنا دکھائی دے۔

پھر اس کے ساتھ یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ حضورﷺ نے جس نماز کے مختصر کرنے کی ہدایت فرمائی ہے وہ فرض نماز ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ فرض نمازیں تمام مردوں پر باجماعت ادا کرنا لازم ہیں۔ اور حضورﷺ نے فرمایا کہ چونکہ مقتدیوں میں بیمار، بوڑھے، کمزور اور کام کاج پر جانے والے بھی ہوتے ہیں، اس لئے امام کی ذمہ داری ہے کہ ان سب کا خیال رکھتے ہوئے نماز کو مناسب وقت میں پڑھائے۔

لیکن نماز تراویح چونکہ نفلی نماز ہے اور اس کیلئے کوئی ایسی شرط نہیں کہ تمام لوگ ضرور اس میں شامل ہوں۔ بلکہ جو آسانی سے اس میں شامل ہو سکے اسے شامل ہونا چاہئے اور جسے کوئی عذر ہو وہ بے شک شامل نہ ہو۔ اس میں کوئی حرج نہیں۔ دوسرا نماز تراویح کا آغاز حضرت عمر ؓ کے عہد خلافت میں ہوا اور آپ نے خاص طور پر قرآن کریم کی قرأت کیلئے ہی اس کو جاری فرمایا تھا۔ اس لئے اس میں نسبتاً لمبی قرأت ہونی چاہئے اور اگر ممکن ہو تو رمضان المبارک میں نماز تراویح میں قرآن کریم کی تکمیل کرنی چاہئے۔

سوال:۔ ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں اپنے بھائی کی وفات کا ذکر کر کے بیوہ کے سوگ نیز باقی لوگوں کے سوگ خصوصاً بھائی کی وفات پر بہن کے سوگ کے بارہ میں اسلامی احکامات دریافت کئے؟ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 04 فروری 2020ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطاء فرمایا۔ حضور نے فرمایا:۔

جواب:۔ اسلام نےاپنے متبعین کی خوشی و غمی کے ہر معاملہ میں راہنمائی فرمائی ہے۔ چنانچہ کسی پیارے کی وفات پر صبر کرنے کی تلقین کے ساتھ اس کی جدائی کے غم کے اظہار کی بھی اجازت دی اور تمام عزیزوں کو جن میں وفات پانے والے کے والدین، بہن بھائی اور اولاد وغیرہ سب شامل ہیں، زیادہ سے زیادہ تین دن تک سوگ کی اجازت دی ہے۔ جبکہ بیوی کو اپنے خاوند کی وفات پر چار ماہ دس دن تک سوگ کی ہدایت فرمائی ہے، جس کا قرآن کریم کی سورۃ البقرہ میں ذکر ہے۔ نیز احادیث میں بھی حضورﷺ نے مختلف مواقع پر اس کا ارشاد فرمایا ہے۔ چنانچہ حضرت زینب بنت ابی سلمہؓ (جو حضورﷺ کی ربیبہ تھیں) سے روایت ہے کہ میں حضورﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت ام حبیبہ ؓ کے پاس گئی تو انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ کسی ایسی عورت کیلئے جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتی ہو جائز نہیں کہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرے سوائے شوہر کی وفات کے کہ اس پر وہ چار مہینے دس دن سوگ کرے گی۔ (راویہ کہتی ہیں) پھر جب حضرت زینب بنت جحشؓ کے بھائی کی وفات ہوئی تو میں ان کے پاس گئی۔ (اور جب ان کے بھائی کی وفات پر تین دن گز ر گئے تو) انہوں نے خوشبو منگوائی اور اسے اپنے پر لگایا اور پھر کہا کہ مجھے خوشبو کی حاجت نہیں تھی مگر میں نے رسول اللہﷺ کو منبر پر فرماتے ہوئے خود یہ سنا ہے کہ اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھنے والی کسی عورت کیلئے جائز نہیں کہ تین دن سے زیادہ کسی میت پر سوگ کرے۔ سوائے اپنے شوہر کی وفات پر، کہ اس پر وہ چار ماہ دس دن تک سوگ کرے گی۔

(بخاری کتاب الجنائز بَاب إِحْدَادِ الْمَرْأَةِ عَلَى غَيْرِ زَوْجِهَا)

پس بیوہ کے علاوہ باقی تمام عزیزوں کیلئے خواہ وہ والدین ہوں، اولاد ہو یا بہن بھائی ہوں، سب کو صرف تین دن تک سوگ کی اجازت ہے، اس سے زیادہ نہیں۔

جہاں تک بیوہ کے (چار ماہ دس دن کے) سوگ کی حدود کا تعلق ہے تو اسلام نے اس میں نہ تو کسی قسم کا کوئی استثناء رکھا اور نہ ہی اس حکم میں عمر کی کوئی رعایت رکھی ہے۔ پس بیوہ کیلئے ضروری ہے کہ وہ عدت کا یہ عرصہ حتی الوسع اپنے گھر میں گزارے۔ اس دوران اسے بناؤ سنگھار کرنے، سوشل پروگراموں میں حصہ لینے اور بغیر ضرورت گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں۔

عدت کے عرصہ کے دوران بیوہ اپنے خاوند کی قبر پر دعا کیلئے جاسکتی ہے بشرطیکہ وہ قبر اسی شہر میں ہو جس شہر میں بیوہ کی رہائش ہے۔ نیز اگر اسے ڈاکٹر کے پاس جانا پڑے تو یہ بھی مجبوری کے تحت آتا ہے۔ اسی طرح اگر کسی بیوہ کے خاندان کا گزارا اس کی نوکری پر ہے جہاں سے اسے رخصت ملنا ممکن نہیں، یا بچوں کو سکول لانے لے جانے اور خریداری کیلئے اس کا کوئی اور انتظام نہیں تو یہ سب امور مجبوری کے تحت آئیں گے۔ ایسی صورت میں اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ سیدھی کام پر جائے اور کام مکمل کر کے واپس گھر آ کر بیٹھے۔ مجبوری اور ضرورت کے تحت گھر سے نکلنے کی بس اتنی ہی حد ہے۔ کسی قسم کی سوشل مجالس یا پروگراموں میں شرکت کی اسے اجازت نہیں۔

سوال:۔ اکیلی عورت کے حج پر جانے کے بارہ میں محترم ناظم صاحب دارالافتاء کے جاری کردہ ایک فتویٰ کے بارہ میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 04 فروری 2020ء میں درج ذیل ارشاد فرمایا۔ حضور نے فرمایا:۔

جواب:۔ میرے نزدیک حج اور عمرہ کیلئے عورت کے ساتھ محرم کی شرط ایک وقتی حکم تھا بالکل اسی طرح جس طرح اُس زمانہ میں اکیلی عورت کیلئے عام سفر بھی منع تھا، کیونکہ اُس وقت ایک تو سفر بہت مشکل اور لمبے ہوتے تھے، راستوں میں کسی قسم کی سہولتیں میسر نہیں تھیں اور الٹا سفروں میں راہزنی کے خطرات بہت زیادہ تھے۔ چنانچہ ایک موقعہ پر جب حضورﷺ کی خدمت میں راہزنی کی شکایت کی گئی تو آپ نے آئندہ زمانہ کے پر امن سفروں کی بشارت دیتے ہوئے حضرت عدی بن حاتم کو فرمایا فَإِنْ طَالَتْ بِكَ حَيَاةٌ لَتَرَيَنَّ الظَّعِينَةَ تَرْتَحِلُ مِنْ الْحِيرَةِ حَتَّى تَطُوفَ بِالْكَعْبَةِ لَا تَخَافُ أَحَدًا إِلَّا اللّٰهَ۔ یعنی اگر تمہاری زندگی زیادہ ہوئی تو یقینا تم دیکھ لوگے کہ ایک ہودج نشیں عورت حیرہ سے چل کر کعبہ کا طواف کرے گی، اللہ کے علاوہ اس کو کسی کا خوف نہ ہوگا۔

اسی حدیث کے آخر پر حضرت عدی بن حاتم بیان کرتے ہیں فَرَأَيْتُ الظَّعِينَةَ تَرْتَحِلُ مِنْ الْحِيرَةِ حَتَّى تَطُوفَ بِالْكَعْبَةِ لَا تَخَافُ إِلَّا اللّٰهَ یعنی میں نے ہودج نشین عورت کو دیکھا ہے کہ وہ حیرہ سے سفر شروع کرتی ہے اور کعبہ کا طواف کرتی ہے اور اللہ کے سوا اس کو کسی کا ڈر نہیں ہوتا۔

(صحیح بخاری کتاب المناقب)

حیرہ اس زمانہ میں ایرانی حکومت کے تحت ایک شہر تھا جو کوفہ کے قریب واقع تھا۔ اس لحاظ سے اُس زمانہ میں یہ کئی دنوں کا سفر بنتا ہے۔ پس اگر اُس زمانہ میں ایک عورت حیرہ سے چل کر کئی دنوں کا سفر کر کے مکہ خانہ کعبہ کا طواف کرنے آ سکتی ہے تو اِس زمانہ میں چند گھنٹوں کا ہوائی جہاز کا سفر کر کے ایک عورت عمرہ اور حج وغیرہ کیلئے کیوں نہیں جا سکتی؟

سوال:۔ ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا ہے کہ میں نے پڑھا ہے کہ ایک مومن کیلئے ہمیشہ بھلائیاں ہی آتی ہیں لیکن دوسری طرف یہ بھی ہے کہ یہ دنیا مومن کیلئے جہنم ہے۔ اس میں کونسی بات ٹھیک ہے۔ نیز یہ کہ کیا یہ درست ہے کہ اگر ایک نماز رہ جائے تو پچھلی چالیس سال کی نمازیں ضائع ہو جاتی ہیں؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 20 فروری 2020ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطاء فرمایا۔ حضور نے فرمایا:۔

جواب:۔ درحقیقت ایک سچے مومن کو دنیاوی چیزوں میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی، وہ انہیں اللہ کے حکم پر صرف عارضی سامان کے طور پر ضرورت کی حد تک استعمال کرتا ہے۔ اور ہر وقت اس کی نظر اللہ تعالیٰ کے رضا اور اس کی خوشنودی پر ہوتی ہے۔ پس ایک مومن چونکہ دنیوی چیزوں کے پیچھے نہیں بھاگتا کہ وہ اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی یاد کو محو نہ کر دیں اس لئے دنیاوی لحاظ سے اس پر بظاہر تنگی آتی ہے لیکن وہ اس سے تکلیف محسوس نہیں کرتا بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر وہ اس دنیاوی تنگی کو بھی خوشی سے برداشت کر لیتا ہے۔ جس طرح حضرت یوسف علیہ السلام نے دعا کی کہ اے میرے ربّ! قید خانہ مجھے ان دنیاوی آسائشوں اور آلائشوں سے زیادہ محبوب ہے جس کی طرف یہ خواتین مجھے بلاتی ہیں۔ (یوسف: 34)

اس کے مقابلہ پر ایک کافر چونکہ اس دنیا کو ہی اپنا سب کچھ خیال کرتا اور ہر وقت اسی کے پیچھے بھاگتا رہتا ہے اور دنیاوی سامانوں سے خوب حظ اٹھاتا اور وہی اس کا اوڑھنا بچھونا ہوتے ہیں۔ پس اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے حضورﷺ نے فرمایا ہے کہ دنیا مومن کیلئے قید خانہ اور کافر کیلئے جنت ہے۔

نماز کے بارہ میں آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر بھول کر کوئی نماز رہ جائے تو حضورﷺ نے فرمایا ہے کہ جب وہ نماز یاد آئے اسی وقت اسے پڑھ لیا جائے یہی اس نماز کے بھولنے کا کفارہ ہے۔ لیکن اگر جان بوجھ کر کوئی نماز چھوڑ دی جائے تو یہ بہت بڑا گناہ ہے اور اس کی معافی توبہ، استغفار اور آئندہ ایسی غلطی نہ کرنے کے عہد سے ہی ہو سکتی ہے۔

سوال:۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مربیان سلسلہ جرمنی کی Virtual ملاقات مؤرخہ 15 نومبر 2020ء میں اس سوال پر کہ ہم کس طرح حضور انور کے سلطان نصیر بن سکتے ہیں؟ حضور انور نے فرمایا:۔

جواب:۔ خلیفۂ وقت کا اگر سلطان نصیر بننا ہے تو دعاؤں کے بغیر نہیں بنا جا سکتا۔ اور دعاؤں کیلئے، سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کیلئے نفل ہیں۔ فرائض تو آپ لوگ ادا کرتے ہی ہیں۔ اگر نہیں ادا کریں گے تو پھر ایک مسلمان کی جو ایک بنیادی Category ہے اس میں بھی نہیں آتے۔ لیکن فرائض ادا کرنے کے بعد جو نوافل ہیں وہ اصل چیز ہیں جو آپ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کا قرب بھی دلائیں گے۔ اور خدمت کے موقعے بھی زیادہ میسر آئیں گے۔ اور ان میں برکت بھی پڑے گی۔ اور خلیفۂ وقت کے سلطان نصیر بننے کی بھی توفیق ملے گی۔ اس لئے ہر مربی کا فرض ہے کے کم از کم (ایک گھنٹہ تہجد پڑھے) آج کل تو ویسے بھی ایک گھنٹہ تہجد پڑھنا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ آجکل تو دو گھنٹے بھی پڑھی جا سکتی ہے۔ لیکن عام حالات میں بھی ہر ایک کو کم از کم ایک گھنٹہ تو تہجد پڑھنی چاہئے۔ سوائے اس کے کہ کوئی مجبوری ہو، کوئی بیمار ہے، کوئی بوڑھا ہوگیا ہے اس کی تو اور بات ہے ناں۔ باقی تو اس کے بغیر گزارا ہی نہیں ہے۔ اس طرف خاص توجہ دیں۔ذکر الہٰی کی طرف بھی زیادہ توجہ ہونی چاہئے۔ بجائے اس کے کہ یہ سوچتے رہیں کہ آج ہم نے فلاں سٹور میں جانا ہے، فلاں جگہ فلاں اچھی چیز آئی ہوئی ہے۔ یا میں نے فلاں دنیاوی کام کرنا ہے۔ یا فلاں جگہ مجلس جمی ہوئی ہے وہاں بیٹھنا ہے۔ اپنا وقت ضائع کرنے کی بجائے اپنی روحانیت کو بڑھانے کی طرف توجہ دیں۔ اور یہ بڑھے گی تو تبھی آپ انقلاب لا سکتے ہیں۔ نرے ترانے پڑھنے سے اور نعرے لگانے سے کبھی دنیا میں انقلاب نہیں آیا کرتے اور نہ آپ کے کاموں میں برکت پڑ سکتی ہے۔ اس لئے پہلی بات تو یہ ہے کہ اپنی روحانی حالت کو بہتر بنا ئیں۔ اور آپ لوگ جومربیان ہیں اپنی جماعت کے افراد کیلئے نمونہ بننے کی کوشش کریں اور ایک Role Model ہوں۔ ہر ایک آپ کو دیکھ کر کہہ سکے کہ ہاں واقعی مربی صاحب کا تعلق باللہ بھی ہے، اور توجہ بھی ہے، اور ہمدردی خلق بھی ہے، اور افراد جماعت سے پیار اور محبت کا سلوک بھی ہے۔ یہ چیزیں پیدا کریں گے تو تبھی آپ لوگوں کو کامیابیاں ملیں گی۔اپنے لوگوں کی تربیت کرلیں تو آپ کو جماعت میں ایسے ایسے کام کرنے والے مل جائیں گے جو آپ کے مدد گار ہوں گے، معاون ہوں گے اور پھر آپ کے کام میں آسانیاں پیدا ہوں گی۔

سوال:۔ اسی ملاقات میں ایک مربی صاحب نے عرض کیا کہ حضور نے شروع میں نماز تہجد کا ذکر فرمایا ہے۔ سردیوں میں تو انسان آسانی سے تہجد کیلئے اٹھ سکتا ہے لیکن مستقل طور پر اور ان ممالک میں گرمیوں میں اس کی عادت ڈالنے کا بہترین ذریعہ کیا ہے؟ حضور انور نے اس سوال کے جواب میں فرمایا:۔

جواب:۔ یہ تو Depend کرتا ہے کہ کتنا اللہ تعالیٰ سے آپ کا تعلق ہے۔ کتنی اللہ سے محبت ہے۔ باقی کاموں کیلئے وقت نکال لیتے ہیں ناں؟ اگر جرمنی میں رہتے ہوئے رات کو دس بجے عشاء کی نماز ہوتی ہے یا ساڑھے دس بجے ہوتی ہے اور صبح ڈھائی بجے، پونے تین بجے یا تین بجے ہوتی ہے۔ (یہاں بلکہ یوکے میں اس سے جلدی سحری ہوجاتی ہے۔ وہاں پھر ایک گھنٹہ لیٹ سحری ہوتی ہے۔آدھا پونا گھنٹے کا فرق ہوتا ہے۔) تو دو گھنٹے سوئیں، ڈیڑھ گھنٹہ سوئیں۔ پھر اٹھ کے نماز پڑھیں۔ اس کے بعد نماز فجر کے بعد پھر ایک دو گھنٹے سو جائیں۔ یہ تو اپنا پروگرام خود بنانا پڑتا ہے۔ اگر کسی کام کے کرنے کی دل میں تڑپ ہو تو سب رستے نکل آتے ہیں۔ جب جامعہ میں آپ کے امتحان ہورہے ہوتے تھے اور پڑھنے کا شوق ہوتا تھا تو رات کو اٹھ کے پڑھتے تھے ناں؟ یا کوئی فکر پیدا ہوئی ہو تو تہجد پڑھتے ہیں ناں؟ یہ تو سوچ کی بات ہے۔ اگر آپ سوچ کو اس طرح ڈھال لیں گے کہ میں نے یہ کام کرنا ہے تو اللہ تعالیٰ مدد کرتا ہے۔ تو لوگ تو رات کو گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ سوتے ہیں۔ اس کے بعد اٹھ کے تہجد پڑھ لیتے ہیں۔پھر صبح نماز فجر کے بعد جب باقی وقت ہوا سو گئے۔ یہ تو وقت نکالنا پڑتا ہے۔اس کے بعدسارا دن بھی تو آپ کو مل جاتا ہے۔ دوپہر کو نیند پوری کرنے کیلئے ایک گھنٹہ سو لیا کریں۔ یہ تو کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے۔ جوانی میں ہی عبادت ہوتی ہے جو ہوتی ہے۔ آپ تو نوجوان لوگ ہیں آپ لوگوں کا ہی وقت ہے۔ یہی وقت ہے اس وقت سے فائدہ اٹھا لیں۔ اور عبادات کا جتنا حق اد اکرسکتے ہیں کرنے کی کوشش کریں۔

در جوانی توبہ کردن شیوه پیغمبری
وقت پیری گرگ ظالم میشود پرہیزگار

سوال:۔ اسی ملاقات میں ایک مربی صاحب نے حضور انور کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ دیکھنے میں آتا ہے کہ نوجوان نسل کا زیادہ وقت باہر کے معاشرہ کے زیر اثر گزرتا ہے، انہیں ہم جماعت کے قریب کیسے لا سکتے ہیں؟ حضور انور نے اس سوال کے جواب میں فرمایا:۔

جواب:۔ تو ٹھیک ہے نوجوان مربیان جو ہیں یہ ان کا کام ہے۔ آپ لوگ یہیں پلے ہیں، یہیں بڑھے ہیں، یہیں آپ نےگریجویشن کی ہے یا جو بھی تعلیم حاصل کی ہے، سیکنڈری سکول کی جو تعلیم حاصل کی ہے یا Abitur کیا یا جو بھی کیا تو آپ لوگوں کو اس ماحول کا پتہ ہے۔ آپ بھی یہاں رہتے ہیں۔ اس کے مطابق دیکھیں کہ کس طرح ان لوگوں کی تربیت کر سکتے ہیں۔ اور اسی لئے میں کہتا ہوں کہ دوستیاں بنائیں، اسی لئے ذیلی تنظیمیں بھی ہیں۔ ذیلی تنظیموں کا بھی کام ہے کہ اپنے لڑکوں کو اپنے ساتھ Involve کریں۔ اور نوجوان مربیان جتنے بھی ہیں ان کا کام ہے کہ ان کی مدد کریں۔ اس طرح کریں گے تو ان شاء اللہ تعالیٰ ٹھیک ہو جائے گا۔ یہ تو کوشش ہے، ٹھیک ہے ماحول یہ ہے۔ ماحول ہی تو ہمارے لئے چیلنج ہے۔ اس ماحول میں ہی ہم نے ان کے حالات کے مطابق کوشش کرنی ہے۔ کوئی نئی چیز تو نہیں ہے، کوئی نیا فارمولا تو نہیں ایسا بن جائے گا کہ آپ اس کو اپلائی کریں گے تو سارے لوگوں کی اصلاح ہو جائے گی اور وہ ولی اللہ بن جائیں گے، کوئی نہیں بنے گا۔ نہ ایک دن میں آپ لوگ اپنے سارے ٹارگٹ Achieve کر سکتے ہیں۔ یہ تو ایک مسلسل کوشش ہے تا کہ ان کا جماعت کے افراد کے ساتھ تعلق پیدا رہے اور ان کو یہ احساس ہوتا رہے کہ ہاں ہماری ایک اور ذمہ داری بھی ہے کہ جو ہم نے دین کو دنیا پہ مقدم رکھنے کا عہد کیا ہوا ہے اس کو بھی ہم نے پورا کرنا ہے۔ یہ احساس آہستہ آہستہ دلاتے رہیں۔ آپ کی تنظیموں کا افراد جماعت سے یا ذیلی تنظیموں کے ممبران جو ہیں، خدام سے، لجنہ سے، انصار سے، ان کا جتنا رابطہ ہو گا،اتنا زیادہ اثر ہو گا۔ مربیان ان سے تعلق رکھنے کا اپنے آپ کو جتنا زیادہ وقت دیں گے اتنا زیادہ اثر ہو گا۔یہ تو ایک مسلسل کوشش ہے اور یہ جاری رکھنی ہے۔ اس کیلئے کوئی Hard and fast فارمولا نہیں بنایا جا سکتا۔ہر ایک کے حالات کے مطابق، ہر ایک شخص کی نفسیات کے مطابق یہ فیصلے کرنے ہوں گے۔ اور آپ نوجوان مربیان پہ یہی Trust کیا گیا ہے کہ آپ لوگ جو وہاں کے پڑھے لکھے ہیں وہ زیادہ بہتر طور پہ یہ تربیت کا کام کرسکتے ہیں۔ اگر آپ کی اپنی تربیت صحیح ہو جائے گی اور جیسا کہ میں نے شروع میں کہہ دیا تھا کہ تعلق باللہ پیدا ہو جائے گا تو پھر آپ دیکھیں گے کہ آپ لوگ انقلاب لانے والے بھی بن جائیں گے ان شاء اللہ تعالیٰ۔ اور مجھے امید ہے کہ ان شاء اللہ نوجوان مربیان اگر ا یک عزم سے اٹھیں گے تو ایک انقلاب پیدا ہو سکتا ہے۔ کیونکہ آپ لوگ یہاں کے ماحول میں پلے بڑھے ہیں۔ پہلے تو ہوتا تھا کہ کوئی پاکستان سے آیا، کوئی باہر سے مربیان آئے، ان کو صحیح طرح سے پتہ نہیں تھا، زبان پہ پوری طرح گرفت نہیں تھی۔ آپ کو تو زبان پہ بھی پوری طرح Grasp ہے، Comprehension ہے اور اس کو آپ اچھی طرح ادا کر سکتے ہیں۔یہاں کے ماحول میں رہے ہوئے ہیں، ماحول کا بھی پتہ ہے۔ اسی طرح آپ لوگ خود نئے نئے راستے Explore کریں کہ کس طرح ہم نے ان کی تربیت کرنی ہے، کس طرح ان کو Attach کرنا ہے، کس طرح ہم نے نئی نسل کو ضائع ہونے سے بچانا ہے۔

سوال:۔ اسی Virtual ملاقات مؤرخہ 15 نومبر 2020ء میں ایک مربی صاحب نے حضور کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ بعض دوسری قومیں جو جماعت میں شامل ہو رہی ہیں، وہ جماعت کے علم الکلام سے تو بہت متاثر ہوتی ہیں لیکن جماعتی نظام اور خصوصاً مالی قربانی میں وہ پوری طرح شامل نہیں ہو پاتیں اور مقامی جماعت کے ساتھ بھی ان کے مستحکم رابطے نہیں ہو پاتے، اس بارہ میں حضور انور کی خدمت میں راہنمائی کی درخواست ہے؟ اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔

جواب:۔ بات یہ ہے کہ جماعتی نظام کو بھی ان کیلئے اتنا مشکل نہ کریں۔ اسی لئے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نےشروع میں یہی کہا تھا، اور ان سے پہلے بھی خلفاء یہی کہتے رہے اور میں بھی یہی کہتا ہوں کہ جو نئے آنے والے نو مبائعین ہیں وہ جب آتے ہیں اور آپ کے ساتھ شامل ہوتے ہیں تو ان کو پہلے تین سال کے عرصہ میں سمجھائیں کہ سسٹم کیا ہے نہ کہ ان سے اس طرح سلوک کریں کہ وہ کوئی ولی اللہ ہیں یا صحابہ کی اولاد میں سے ہیں یا پیدائشی احمدی ہیں۔ پیدائشی احمدی تو بلکہ کم جانتے ہیں وہ جو نئے آنے والے ہیں وہ دینی علم بھی آپ سے زیادہ جانتے ہیں۔ اکثر میں نے دیکھا ہے جو صحیح طرح سوچ سمجھ کے جماعت میں شامل ہوتا ہے وہ نمازوں کی طرف بھی توجہ دینے والا زیادہ ہوتا ہے، وہ استغفار کرنے والا بھی ہوتا ہے، وہ تہجد پڑھنے والا بھی ہوتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں کو سمجھنے کی کوشش بھی کرنے والا ہوتا ہے۔ تو بہرحال ہمارا یہ کام نہیں کہ جو بھی شامل ہوتا ہے اس کو پہلے دن سے ہی (تمام چیزوں کا پابند) کریں۔ اسی لئے تین سال کیلئے ان کے اوپر چندہ کا نظام لاگو نہیں کیا جاتا ہے۔ تین سال کا عرصہ ان کی ٹریننگ کاہوتا ہے تا کہ ا س میں تربیت ہوجائے۔ ان کو بتائیں کہ یہ جماعت کا نظام ہے لیکن تم ابھی نئے ہو تم اس کو پہلے غور سے دیکھو، سمجھو۔ لیکن پھر مثلاً مالی قربانی ہے، اللہ تعالیٰ نے کیونکہ مالی قربانی کی طرف توجہ دلائی ہے تو تم وقف جدیداور تحریک جدید کا چندہ جو ہے اس میں جتنا تمہاری حیثیت ہے تم دے سکتے ہو چاہے سال کا ایک یورو دو تاکہ تمہیں احساس پیدا ہو کہ جماعت سے تمہاری کوئی Attachment ہے۔ اسی طرح نمازوں کے بارہ میں ان کو بتائیں کہ نماز سیکھو۔ اب جب غیر مسلموں سے ایک مسلمان ہوتا ہے، احمدی مسلمان ہوتا ہے۔ اس کو سورۃ فاتحہ سکھانی شروع کریں۔ جب اس کو سورۃ فاتحہ آ جائے،یاد ہو جائے۔ تو جب نماز اس نے پڑھنی ہے تو نماز کے فرائض اس کو بتائیں کہ دیکھو اللہ تعالیٰ نے نماز فرض کی ہے۔ پہلی بنیادی چیز تو نما ز ہےناں؟ تو نماز اللہ تعالیٰ نے جب فرض کی ہے تو اس میں آنحضورﷺ نے فرمایا کہ سورۃ فاتحہ پڑھنی ضروری ہے۔ نماز کی جو بنیادی چیز ہے وہ سورۃ فاتحہ ہے۔ اور سورۃ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی اس لئے اس کو پہلے سورۃ فاتحہ یاد کرائیں۔پھر اس کو کہیں کہ اچھا تم ترجمہ یاد کرو۔یا اسے کہہ دیں کہ تم ترجمہ یاد کر لو تا کہ جو بالجہر نمازیں ہیں ان میں جب امام سورۃ فاتحہ پڑھ رہا ہے تو ساتھ ساتھ تمہیں دل میں پتہ لگتا رہے کہ امام کیا پڑھ رہا ہے۔ پھر اس کو خود شوق پیدا ہوگا کہ سورۃ فاتحہ یاد کرلے۔ یہاں کئی انگریز احمدی ہوئے ہیں میں نے ان کو دیکھا ہے کہ انہوں نے بڑے شوق سے اسے یاد کیا۔ یا کسی بھی ملک کے میرے سے جو کوئی بھی ملتے ہیں ان کو جب میں کہتا ہوں تو وہ سورۃ فاتحہ یاد کرتے ہیں اور بڑی اچھی طرح اللہ کے فضل سے یاد کرلیتے ہیں اور سمجھتے بھی ہیں۔تو تین سال کا عرصہ ان کو ایک ٹریننگ دینے کا عرصہ کا ہے۔ جب ان کی تین سال میں وہ ٹریننگ ہو جائے گی تو پھر ان کو جماعت کے سسٹم‎میں Integrate ہونا مشکل نہیں لگے گا۔

اگر آپ پہلے دن سے ان سے توقع رکھیں کہ وہ ولی اللہ بن جائیں تو وہ نہیں ہو سکتا۔ (یہ توقع رکھنا) پھر آپ لوگوں کا قصور ہے۔ تین سال کا عرصہ رکھا ہی اس لئے گیا ہے کہ نہ ان سے چندہ لینا ہے، نہ ان کو زیادہ زور دینا ہے۔ ان کی صرف تربیت کرنی ہے کہ جماعت کا نظام کیا ہے۔ اور نہ ان کیHarshly ‎ تربیت کرنی ہے بلکہ پیار سے، محبت سے سمجھانا ہے کہ نماز کیا چیز ہے؟ نماز کیوں فرض ہے؟ نماز پڑھو۔ تم ایک نماز پڑھو گے، دو پڑھو گے، تین پڑھو گے چار پڑھو گے۔ جو پکا مومن ہے اس پر پانچ نمازیں فرض ہیں اور اس کی وجوہات کیا ہیں ؟ نمازجب پڑھتے ہیں اس کی حکمت کیا ہے؟ تو علم الکلام سے جو متاثر ہوتے ہیں ان کو پھر نماز کی حکمت سمجھائیں۔ اگر اس میں اتنی عقل ہے کہ اس کو علم الکلام کی باتیں پتہ لگ گئیں۔ فلسفہ پتہ لگ گیا۔ گہرائی پتہ لگ گئی۔ تو پھر اس کو یہ کہنا کہ نماز نہیں پڑھو گے تو جہنم میں چلے جاؤ گے۔ یہ نہیں کہنا اس کو۔ اس کو پیار سے یہ کہیں کہ نماز کی حکمت کیا ہے۔ پانچ نمازیں کیوں فرض کی گئی ہیں۔ جب اس کو حکمت سمجھ آجائے گی تو آپ سے زیادہ نمازیں پڑھنے لگ جائے گا۔ میں نے تو تجربہ کر کے یہی دیکھا ہے۔ اسی طرح چندہ ہے۔ چندہ کی حکمت کیا ہے؟ اور اللہ تعالیٰ پہ ایمان کی حکمت کیا ہے؟ تو صرف علم الکلام سے متاثر ہونا بات نہیں ہے اس علم الکلام کو ہی لے کے آگے اس کو حکمت سمجھائیں۔ جس علم الکلام سے وہ متاثر ہوئے ہیں اسی علم الکلام کو ذریعہ بنائیں۔ مثلاً اسلامی اصول کی فلاسفی ہے۔ لوگ متاثر ہو کر اسے پڑھتے ہیں۔اب اسلامی اصول کی فلاسفی سےہی اللہ تعالیٰ کے وجود کا پتہ لگ جاتا ہے۔ اسلامی اصول کی فلاسفی سے ہی عبادت کی حقیقت پتہ لگ جاتی ہے۔ اسلامی اصول کی فلاسفی سے ہی قربانی کا معیار پتہ لگ جاتا ہے۔ اسلامی اصول کی فلاسفی سے ہی جنت اور دوزخ کا نظریہ پتہ لگ جاتا ہے۔ تو یہ ساری چیزیں جب ان کے علم الکلام سے ہی ان کو سمجھائیں گے تو ان کو سمجھ آ جائے گی۔ تو آپ جو بات کر رہے ہیں اس کی دلیل تو آپ کے پاس خود موجود ہے اسی دلیل کو استعمال کریں۔

(مرتبہ:۔ ظہیر احمد خان۔انچارج شعبہ ریکارڈ دفتر پی ایس لندن)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 جون 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ