گزشتہ دنوں برادرم مکرم چوہدری نصیر احمد سیکرٹری مال، خلافت کے سچے وفادار، عاشق و سپاہی، دیرینہ خادم نماز فجر کی ادائیگی کے دوران خاموشی سے اس جہان فانی سے رخصت ہوگئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔ یہ خبر میرے لئے اتنی اچانک تھی کہ دلی صدمہ پہنچا۔
مرحوم چوہدری نصیر احمدصاحب بہت سی خوبیوں کے مالک تھے۔ نہایت پیار کرنے والے، بڑی شفقت سے ملنے والے اور دوسروں کو عزت دینے والے انسان تھے۔ جماعت کے ہر فرد سے بڑی محبت اور چاہت سے ملتے ہر ایک کے لئے آپ کے انداز میں اپنائیت محسوس ہوتی تھی۔ آپ کی اسی محبت سے میں نے بھی حصہ پایا۔ میرے لئے اور میرے اہل خانہ کے لیے دعا گو رہتے۔ جب بھی ملاقات ہوتی اہل خانہ کا احوال دریافت کرتے۔ آپ اپنی ذات میں میرے لیے تین حیثیتیں رکھتے تھے۔ اول سیکرٹری مال، دوم قائد مجلس، تیسرا ذاتی دوستی کا۔ اور آپ ان تینوں حیثیتوں پر پورا اترتے تھے۔
وفات سے قریباً ایک ہفتہ قبل مجھ سے فون پر بات ہوئی۔ یہ بات بھی اتفافیہ تھی۔ میں موڈرن اسٹیشن سے گزر رہا تھا کہ محترم شیخ طارق احمد ملے جو فون پر کسی سے بات کرتے نظر آئے۔ میں نے جب انہیں بات کرتے دیکھا تو میں بھی وہیں رک گیا۔ معلوم کرنے پر علم ہوا کہ آپ چوہدری نصیر احمد سے محو گفتگو تھے جس میں انہوں نے مجھے بھی شامل کرلیا اس طرح میری بھی بات ہوگئی۔ میں ان سے فون پر رابطے میں تاخیر پر معذرت کر رہا تھا جبکہ وہ مجھے جواباً تسلی اور دعا دئیے جارہے تھے اور ملاقات کی خواہش اسکے سوا تھی۔
ہم سب سے بے لوث محبت کرنے والے، جماعت کے لیے وقف، جماعت کے ہر دلعزیز شخصیت اور مقامی صدر جماعت کے دست راست آج ہم میں نہیں ہیں۔
؎ دنیا بھی اک سرا ہے بچھڑے گا جو ملا ہے
گر سو برس رہا ہے آخر کو پھر جدا ہے
مرحوم سے میرا باقاعدہ تعلق مکرم محمد طارق سجاد کے قائد خدام الاحمدیہ کے عہدہ پر فائز ہونے کے بعد ہوا، جب 1997ء میں چوہدری صاحب کی منظوری بطور سیکرٹری مال کے مرکز سے آئی۔ اسی طرح مجھے بھی آپ کی سرپرستی میں مجھے بھی بطور نائب سیکرٹری مال خدمت بجا لانے کی توفیق ملی۔ الحمدللہ۔
یوں 1997ء سے اپریل 2004ء تک جو کہ 7 سال کا عرصہ بنتا ہے خاکسار نے ان کے ساتھ گزارا۔ جبکہ بطور سیکرٹری مال ان کی خدمت کا دورانیہ 24 سال بنتا ہے۔ ہم نے ہمیشہ انہیں ایک وفا شعار اور محبت کرنے والا انسان پایا۔ صحبت صالحین سے فیضیاب ہونے والے تھے اور صحبت صالحین کی انکے کردار سے خوشبو آتی تھی۔
سیکرٹری مال بننے سے قبل بھی آپ جماعت کے انتہائی مخلص مالی قربانی میں پیش پیش اور ہردلعزیز شخصیت کے مالک تھے یہاں میں نے ذاتی مشاہدے سے یہ بھی نوٹ کیا کہ مرحوم نے اپنا ہر معاملہ ہر ایک شخص کے ساتھ صاف اور سیدھا رکھا ہوا ہے۔
شعبہ مال کے حوالے سے چند باتیں
جب آپ کی باقاعدہ سیکرٹری مال کے لیے منظوری آئی تو مجھے کہنے لگے کہ منظوری تو میرے نام کی آئی ہے آپ دعا کریں کہ توفیق مل جائے۔ دوسرا آپ نے تعاون اور مدد کرنی ہے۔ اور دفتری حساب رجسٹر ریکارڈ وغیرہ سب یہاں آپ کے پاس ہی رہیں گے۔ اس جگہ یہ ذکر بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ طارق سجاد صاحب نے میرے کراچی سے جانے تک یعنی اپریل 2004ء تک اپنا دفتر اور فون اس خدمت کے لیے وقف کر رکھا تھا جس طرح سے ان کے دور میں جاری تھا ویسی ہی آزادی کے ساتھ جاری رکھا اللہ تعالیٰ ان کی اس خدمت کو قبول فرمائے آمین اور انہیں جزائے خیر عطا فرمائے ان کی عمر و صحت میں برکت عطا فرمائے آمین۔
چوہدری صاحب کی بطور سیکرٹری مال ابتدائی میٹنگ میں چند باتیں طے پائیں کہ کس طرح سے چندہ دہندگان کو آسانی دی جائے اورزیادہ سے زیادہ احباب کے پاس چندے کی وصولی کا اختیار ہو چنانچہ اس پر کام ہوا کل 8 ممبران کو رسید بکس دی گئیں جن میں سے 3رسید بکس لجنہ کے پاس بھی تھیں۔ اس طرح سے بہت اچھارزلٹ ہماری وصولی کا سامنے آیا۔ آپ اس ٹیم کی حوصلہ افزائی بھی فرماتے تھےاور مزید خدمت کی ترغیب دیتے تھے۔ انکا اس طرح سے جماعت کے لیے کوششوں میں حصہ لینے پر انکا شکریہ ادا کرتے تھے۔
پہلی ملاقات یعنی بطور سیکرٹری مال منظور ی کے بعد مجھے فرمانے لگے کہ اپنا کوئی تجربہ بیان کریں کہ کس طرح سے چندہ وصولی کا ٹارگٹ حاصل کیا جاسکتا ہے؟ اس پر خاکسار نے عرض کیا چندہ وصول کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ کرنا چاہیے جس کے لیے خدام الاحمدیہ، انصاراللہ، اور لجنہ اماء اللہ کی مدد لی جاسکتی ہے اور پھر اس تجویز پر ٹیم ترتیب دی گئی۔
جیسا کہ پہلے بھی ذکر آ چکا ہے۔ اس طرح سے کام میں مزید بہتری آئی اور خدام الاحمدیہ کا اس میں اہم رول رہا۔ دوسرا خاکسار نے احتیاطی پہلو کا بھی ذکر کیا جس کو چوہدری نصیر احمد صاحب نے بڑے اچھے رنگ میں لیا اور اس پر عمل بھی شروع کردیا وہ یہ تھا کہ میں نے بتایا کہ جب بھی میں رسید کاٹتا ہوں تو جس کی رسید ہو اس کو دینے سے قبل اور بک سے پھاڑنے سے پہلے کاربن ہٹا کر ضرور چیک کرتا ہوں کہ نیچے بھی ٹھیک آگیا ہے کہ نہیں۔ پھر دیتا ہوں اور یہ عمل رسید کنندہ کے سامنے کرتا ہوں۔ اور دوسرا اگر کہیں کٹٹنگ کرنی پڑے تو سب سے بہتر یہ سمجھتا ہوں کہ یہ رسید cancel کردی جائے اور نئی بنا دی جائے۔ ان دونوں باتوں کو انہوں نے پسند فرمایا اور عمل شروع کردیا۔ چندہ کی وصولی کے لئے یوں تو ہر وقت تیار رہتے تھے مگر ان کی نظر میں اچھی وصولی کے لئے تین دن بہت اہم تھے جمعہ، ہفتہ اور اتوار اور وصولی کی رقم اور رسید بکس سوموار کو مجھے دے کر جاتے کہ ریکارڈ تیار کرلیں تاکہ چندہ جمع کروا سکیں۔ اکثر احمدیہ ہال اور کبھی کبھار میرے اصرار کرنے پر گھر پر قہوہ بھی پی لیتے زیادہ تر میرے وقت کا خیال رکھتے کہ کہیں زیادہ وقت نہ لگے۔ چندہ کی وصولی کے لئے اور دوسرے جماعتی کاموں کے لیے اپنی چھوٹی گاڑی سوزوکی استعمال کرتے جس کو میں انکا دوسرا دوست بھی کہتا تھا۔
مکرم چوہدری صاحب کو اپنے کام بروقت بجا لانے کی عادت تھی لیکن کبھی بھی جلد بازی نہیں کرتے تھے۔ چندہ کی وصولی کو آسان کرنے کے لیے چندہ میں کمزور افراد جماعت سے انتہائی رازداری کے ساتھ اکیلے میں ملتے اور مجھے بھی یہی تلقین کرتے اور مشکل معاملات اپنے اور میرے درمیان ہی رکھتےاور کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچائے بغیر وصولی کی پلاننگ کرتے۔
سابق صدر جماعت شیخ عبد الحمید صاحب کی نظر میں آپ کی بہت قدر تھی اور انہیں عزت و احترام کی نظر سے دیکھتے۔ اکثر جماعتی مشورہ جات میں انہیں شامل رکھتے ہر قسم کی معاونت بھی لیتے اکثر مشکل کام انکے سپرد کرتے۔
شیخ صاحب مرحوم سے یہاں یوکے آنے سے قبل 2015ء میں مرکز میں ملاقات ہوئی۔ جہاں ان سے ذاتی اور جماعتی امور پر بہت سی باتیں ہوئیں اس ملاقات میں چوہدری نصیر احمد صاحب کا ذکر بڑی محبت سے کرتے رہے اور فرماتے تھے کہ چوہدری نصیر صاحب نے میرا بوجھ اٹھایا ہوا ہے۔ پہلے کی طرح چندہ اور دوسرے امور میں میرے معاون و مددگار ہیں۔ اللہ تعالیٰ انکو صحت و جزا دے۔
مہمان نوازی
چوہدری صاحب کے سیکرٹری مال کے عہدہ کے ساتھ ہی ان کی مہمان نوازی میں بھی اضافہ ہوگیا۔ چندہ دینے والے اور وصولی میں مدد کرنے والے جب گھر آتے تو چائے اور دوسری اشیاء سے تواضع کرتے اور کوشش کرتے کہ کچھ خدمت ہوجائے اس مہمان نوازی میں ان کی بیگم ان کا بھر پورساتھ دیتی تھیں۔ وہ ایک خدمت دین کرنے والے گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں اور اس خدمت دین کرنے والے کی بیوی تھیں اللہ تعالیٰ ان کو بھی جزا دے آمین۔
بیمار پرسی
چوہدری صاحب کا معمول تھا کہ حلقہ کے بیمار احباب خاص طور پر انصار کے گھر ضرور جاتے۔ جس کا ان کو علم ہوتا کہ وہ بیمار ہے اس کی تیمارداری کرتے۔ بعض اوقات مجھے بھی ساتھ لے جاتے۔ جن کو جو ضرورت ہوتی مدد بھی کرتے۔
مرکزی نمائندگان کی عزت و تعاون
مرکزی نمائندگان کا بے انتہا احترام تھا ان کے حلقہ کے دورہ جات سے قبل ان سے میٹنگ کرتے اور ٹارگٹ تیار کرکے دورہ جات کرتے۔ اکثر اس مقصد کیلئے اپنی ذاتی گاڑی استعمال کرتے۔اور واپسی پر انہیں جماعتی گیسٹ ہاؤس پہنچاتے ان کی ریفریشمنٹ کا انتظام بھی خود ہی کرتے اور انہیں ہر سہولت بہم پہنچانے کی کوشش کرتے۔
اپنی ٹیم کے ساتھ حسن سلوک
مالی سال کا اختتام ہو یا تحریکات کا سال ختم ہو رہا ہو ہمیشہ سال کے اختتام پر اپنے ساتھیوں کی کسی ریسٹورنٹ میں دعوت کرتے۔ ایک دفعہ خاکسار نے کھانے کا بل ادا کردیا تو کہنے لگے آپ خدمت ہی بہت کرتے ہیں اس لئے مالی معاملات میرے ذمّہ ہی رہنے دو پھر مجھے وہ رقم واپس کردی اپنے ساتھیوں کی خوب حوصلہ افزائی فرماتے۔ آغا محمد داؤد صاحب کو بھی انکے ساتھ چندہ کی وصولی کی توفیق مل چکی ہے اور بعض اور امور میں آپکے مددگار رہے ہیں انہوں نے بتایا کہ چوہدری صاحب کا میرے اور اپنے تمام ساتھیوں کے ساتھ بہت احترام اور احساس کا تعلق تھا۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ اکثر اوقات نماز جمعہ و دیگر پروگرامز اور دورہ جات میں میری مدد کرتے اور مجھے پک اینڈ ڈراپ سروس بھی مہیا کرتے یہ انکا معمول تھا اور انکا یہ سلوک اپنے ہر مخلص ساتھی کے ساتھ تھا۔
سپورٹس کی ابتداء
مسجد میں جب بیڈ منٹن کا نیٹ اور ٹیبل ٹینس کا انتظام مجلس خدام الاحمدیہ کی جانب سے کیا گیا تو خاکسار اس وقت قائد مجلس تھا۔ اس وقت سابق صدر حلقہ حضرت اللہ پاشا صاحب اور چوہدری صاحب و دیگر احباب کی خواہش تھی کہ خدام الاحمدیہ کی گیمز کا اگر انتظام ہو جائے تو مسجد میں رونق ہوگی اور خدام و اطفال کا نمازوں میں بھی آنا رہے گا اس طرح حاضری کی صورت حال میں بہتری آسکتی ہے۔ اس میں حضرت اللہ پاشا صاحب اور چوہدری نصیر احمد صاحب نے میری رہنمائی فرمائی اور مالی معاونت کی بھی یقین دہانی کروائی اور بعد میں امیر صاحب محترم نواب مودود احمد خان نے بھی اس اقدام کو بہت سراہا۔
گیمز شروع ہونے کے بعد مکرم چوہدری نصیر احمد بعض دوسرے انصار کو بھی ساتھ لاتے۔جس میں غلام سرور صاحب، حکیم منور صاحب، کمانڈر عبد المؤمن صاحب اور مبشر احمد صاحب وغیرہ کی ہمارے اجلاس عام، کلو جمیعاً،نماز تہجد اور سپورٹس کے پروگرامز میں شمولیت کو یقینی بناتے اور ہمیشہ کامیابی دیکھ کر خدام الاحمدیہ زندہ باد کہتے تھے۔ ہمارے ساتھ ناشتہ اور دوسری ریفریشمنٹ کرتے اور حوصلہ افزائی فرماتے تھے۔ اور جس خادم کے پاس سواری کا انتظام نہ ہوتا تھا اسے کہتے کہ میرے ساتھ آ جائے اور پھر کسی کی بھی مدد کے لیے تیار رہتے تھے۔
خاکسار جب قائد تھا اس دور میں مکرم چوہدری نصیر احمد کے والد مکرم چوہدری نذیر احمد تقریباً 5دن کے لیے اغوا ہوگئے تھے۔ اس موقع پر خدام الاحمدیہ کے عہدے داروں نے دن رات ان کی تلاش میں ہر جگہ کوششیں کیں اور محترم امیر صاحب کی ہدایت پر عمل کرتے رہے۔ اس ساری کوشش کی رپورٹ شام کو چوہدری صاحب کو دیتا اور امیر صاحب کو بھی۔ اس طرح چوہدری صاحب بھی ہر طرح مدد کر رہے تھے۔ خاکسار خدام الاحمدیہ مرکزیہ کی مجلس شوریٰ میں شرکت کیلئے مرکز جا رہا تھا اس اہم ذمہ داری پر روانگی سے قبل چوہدری صاحب سے اجازت و ملنے کے لئے ان کے گھر حاضر ہوا حسب معمول چوہدری نصیر احمد صاحب اپنے دروازے کی سیڑھیوں پر کھڑے تھے اور میں باہر کھڑا تھا۔ میری زبان پر یہ الفاظ تھے کہ اللہ تعالیٰ ہی آپ یعنی (والد صاحب) کی حفاظت فرمائے اور واپس لائے ہم نے تو بڑی کوشش کرلی۔ آپ کے لیے تو بڑا امتحان ہے اور صبر کا مقام ہے اللہ تعالیٰ ہی مدد فرمائے خاکسار ابھی یہ الفاظ کہہ رہا تھا کہ اجازت لوں کہ مجھے ان کی والد مکرم چوہدری نذیر احمد کمزور جسم کے ساتھ لڑکھڑاتے ہوئے آتے دکھائی دئیے ۔ میں نے کہا چوہدری صاحب وہ دیکھیں آپ کے والد واپس آ گئے ہیں ہم دونوں نے انہیں آگے بڑھ کر سہارا دیا اور اوپر لائے کپڑے وغیرہ تبدیل کیے اور گرم دودھ وغیرہ پلایا امیر صاحب اور ملک مبشر احمد صاحب کو اطلاع دی۔
چوہدری صاحب ان کی واپسی پر بہت خوش تھے اور اس واقعہ کے بات جب بھی خدام الاحمدیہ سے ملتے تھے اور انداز میں اور بھی محبت اور چاہت کا اظہار ہوتا۔ ہمیشہ انکی کوششوں کو سراہتے ہوئے شکریہ ادا کرتے۔ خاکسار بھی اپنی ٹیم کے ساتھ خوش تھا۔ جنہوں نے دن رات چوہدری صاحب کے والد کی بازیابی کے لیے کوششیں کیں۔
چوہدری صاحب کے ساتھ بیتا ہوا وقت یاد آیا تو وہ ساری یادیں جو ماضی کا قصہ بن چکی تھیں ایک دستاویز کی شکل میں نمودار ہوگئیں خاکسار نے ان ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں دلی کیفیات بیان کرنے کی کوشش کی ہے اس دعا کے ساتھ خدا تعالیٰ میرے اس بھائی کے درجات بلند فرمائے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کی ان خدمات اور خوبیوں اور قربانیوں کو قبول فرمائے ان سے مغفرت اور پیار کا سلوک فرمائے اور اپنے قرب میں جگہ عطا فرمائے آمین، انکی اہلیہ کو صبر دے اور ان کا خود حامی و ناصر ہو اور مقامی جماعت کو چوہدری صاحب جیسا خدمات گار و مخلص سیکرٹری مال عطا فرمائے آمین۔
تعزیتی پیغام (خط) بسلسلہ چوہدری نصیر احمد
ایک نو مبائع کی شادی شمولیت
یہ 2002ء کی بات ہے کہ خاکسار کے ذمہ 2 نومبائع تھے۔ جن کا خاکسار کو نگران مقرر کیا گیا تھا اور یہ ذمہ داری رانا محمد خان صاحب امیر ضلع نے دی تھی۔ ان میں سے ایک خادم مکرم محمد اشرف ڈھڈی صاحب بھی تھے۔ مکرم محمود احمد شاہ سیکرٹری مال اور رشید الدین صاحب سیکرٹری رشتہ ناطہ کے ذریعے انکا رشتہ طے پا گیا۔بارات اور ولیمہ کے پروگرام کیلئے خاکسار نے مکرم چوہدری نصیر احمد اور ملک سعید احمد صاحب سے وقت، گاڑیاں، باراتی اور ولیمہ میں کھانے اور مہمانوں کو بلانے کے لیے مشورہ کیا۔
مکرم چوہدری نصیر نے حسب عادت اور حسب ضرورت قیمتی مشورہ جات سے نوازا، اپنی گاڑی اور وقت کی پیشکش کی اور ہر قسم کی مدد کی یقین دہانی کروائی۔اور اسی طرح بارات کے لیے مکرم ملک سعید محمود نے مرسڈیز گاڑی پیش کی۔ حلقہ کے دوسرے احباب میرے محترم معزز ملک رشید احمد خان، ملک سعید محمود ،مکرم میجر رشید احمد خان طارق، مکرم حکیم منور، مکرم مبشر احمد بارات میں شامل ہوئے اور پھر ولیمہ والے دن مکرم شیخ عبد الحمید، مجلس عاملہ کے ممبران اور خدام الاحمدیہ کے ممبران و مرکزی نمائندگان جو کہ تحریک جدید کے دورے پر آتے تھے جن میں حافظ عبد العلی، مکرم لئیق احمد عابد ان سب کو دیکھ کر اور اچھے طریق پر دونوں تقریبات کی کامیابی دیکھ کر مکرم چوہدری نصیر احمد نے مجھے اس اہم کام پر مبارکباد دی اور آئندہ بھی اپنے ہر قسم کے تعاون کے لیے یقین دہانی کروائی اور اس قسم کے نیک کاموں کو جاری رکھنے کی نصیحت فرمائی اور ہر دو تقریبات میں خود شامل ہوکر دولہا کے ساتھ قریبی تعلق بنایا جو ان کی وفات تک ان کے ساتھ بھی قائم رہا جب تعلق بن گیا تو ہمیشہ اسکی لاج رکھی اپنی وفات سے تقریباً دو ماہ قبل اس خادم کا حال احوال پوچھ رہے تھے وہ خادم یعنی محمد اشرف ڈھڈی بھی چوہدری صاحب کی وفات پر افسردہ ہے اور غمگین ہے اور ان کے لیے دعا گو ہے۔
(قدیر احمد ناصر۔ لندن)