• 30 اپریل, 2024

شریعت کے دو ہی بڑے حصے اور پہلو ہیں جن کی حفاظت انسان کو ضروری ہے (حضرت مسیح موعودؑ)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
پھر ایک صاحب ہیں خالد صاحب، کہتے ہیں کہ ایک روز ایک غیر احمدی دوست نے جماعت کے بارے میں بتایا کہ یہ لوگ ہندوستان میں مسیح موعود کے ظہور کے قائل ہیں۔ بعض دیگر عقائد بھی بتائے۔ مجھے شروع سے ہی اطمینانِ قلب نصیب ہونے لگا۔ پھر ایم۔ ٹی۔ اے دیکھا تو مزید تسلی ہوئی اور مَیں نے اس دوست کو بتایا کہ میں بیعت کرنا چاہتا ہوں۔ اُس نے تعجب سے کہا کہ کیا تم پاگل ہو گئے ہو۔ مَیں نے کہا کہ میرا دل مطمئن ہے اور میں بیعت کرنا چاہتا ہوں۔ قبل ازیں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صرف تصویر دیکھ کر آپ کی صداقت کا قائل ہو چکا تھا۔ ایم۔ ٹی۔ اے سے اسلام کی صحیح تصویر کا علم ہوا۔ الحمدللہ کہ اس کے ذریعے امام الزمان کا پتہ ملا۔ تقریباً ایک سال قبل خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے چہرے پر بوسہ دیا تھا۔ خاکسار نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنی حکومت اور حاکموں اور خراب حالات کا شکوہ کیا۔ پھر لکھتے ہیں کہ آپ لوگوں نے ہماری آنکھیں کھولیں اور اندھیروں سے نکال کر حق دکھایا ہے۔ جزاکم اللہ۔ پھر مجھے لکھتے ہیں کہ میری تمنا ہے کہ مَیں آپ کی دستی بیعت کروں۔ ایسے بہت سارے واقعات اَور ہیں سب کی تفصیل تو بیان نہیں ہوسکتی۔ پھر ایک واقعہ افریقہ سے مَیں نے لیا ہے۔ امیر صاحب گیمبیا لکھتے ہیں کہ بارہ ایریا میں وہاں کے مقامی جماعت کے صدر صاحب کی نگرانی میں تبلیغی پروگرام تشکیل دیا گیا۔ اس پروگرام کے ذریعے ایک دوست علیو کمارا صاحب سے رابطہ ہوا۔ (افریقہ میں اکثر ایسا ہے کہ نام کے ساتھ آخر میں ’’واؤ‘‘ یا ’’پیش‘‘ لگا دیتے ہیں۔ علیو کا مطلب ہے ’’علی‘‘۔ علی کمارا صاحب۔ یہ مسلمان تھے) ان کو جماعت کے عقائد کے بارے میں بتایا گیا۔ ان کے ساتھ دو ہفتے تک مسلسل تبادلہ خیال ہوتا رہا۔ پھر صدر صاحب نے اُن سے کہا کہ آپ خدا تعالیٰ سے ہدایت طلب کریں اور مَیں بھی آپ کے لئے دعا کروں گا۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ اُسی دن پچیس اور چھبیس مئی 2011ء کی درمیانی رات انہوں نے خواب دیکھا کہ ایک پگڑی والے بزرگ ہیں جو اُن کو اپنی طرف بلا رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ادھر آؤ ہدایت یہاں ہے۔ صبح اُٹھ کر انہوں نے خواب بتائی تو کہنے لگے کہ جس بزرگ کو مَیں نے خواب میں دیکھا ہے وہی امام مہدی ہیں کیونکہ ان کی تصویر وہ ایک میگزین جو اُنہیں دورانِ تبلیغ دیا گیا تھا اُس میں پہلے دیکھ چکے تھے۔ اس پر انہیں بیعت فارم دیا گیا اور کہا گیا کہ اس کو پُر کرنے سے پہلے اس کا اچھی طرح مطالعہ کر لیں۔ علیو کمارا صاحب نے جب بیعت فارم پڑھا۔ کہنے لگے کہ میں اب مزید انتظار نہیں کر سکتا۔ چنانچہ اُسی وقت بیعت فارم پُر کر کے جماعت میں داخل ہو گئے۔

پھر امیر صاحب آئیوری کوسٹ لکھتے ہیں کہ وواقے ریجن کے گاؤں نیاکارہ میں ایک مارابو یعنی وہ شخص مولوی جو تعویذ گنڈے کیا کرتا تھا، اُن کا نام کونے ابراہیم تھا۔ اُنہوں نے خواب دیکھا کہ ایک بزرگ اُسے ملتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ میں عیسیٰ نبی ہوں۔ ایک دن وہ احمدیہ مشن ہاؤس آیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تصویر دیکھ کر حیران ہو گیا اور کہا کہ یہی وہ بزرگ ہیں جو اپنا تعارف نبی عیسیٰ کروا رہے تھے۔ اور اُس نے اُسی وقت بیعت کر لی اور یہ جو کام تھا تعویذ گنڈے کا اس سے بھی توبہ کر لی۔
غرض کہ ایسے بہت سے واقعات ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ باوجود مخالفتوں اور راہِ راست سے گمراہ کرنے کی کوششوں کے جو مولوی اور دوسرے لوگ کرتے رہتے ہیں اللہ تعالیٰ کس طرح نیک فطرت لوگوں کی مختلف طریقوں سے رہنمائی فرماتا رہتا ہے اور فرما رہا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا پیغام سُن کر یا تصویر دیکھ کر ایک کشش کی کیفیت اُن میں پیدا ہو جاتی ہے۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کی ترقی اُن کوششوں سے کئی گنا زیادہ ہے جو ہم کر رہے ہیں۔ پس یہ الٰہی کام ہے جس نے تکمیل کو تو ان شاء اللہ تعالیٰ اب پہنچنا ہی ہے لیکن یہ ترقی ہمیں اس طرف بھی توجہ دلاتی ہے کہ ہم جن کو ایک عرصہ ہو گیا ہے احمدیت پر قائم ہوئے ہوئے یا ہم اُن لوگوں کی اولادیں ہیں جنہوں نے احمدیت قبول کی تھی، ہم نے اپنی حالتیں کیسی بنانی ہیں؟ ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ ہمارے معیار کیا ہونے چاہئیں؟ جیسا کہ میں نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ اگر تم نیکیوں میں پیچھے جا رہے ہو تو فکر کرو کہ اس سے انسان پھر گرتا چلا جاتا ہے اور بہت دور چلا جاتا ہے۔ بیعت میں آ کر کیا باتیں ہیں جو ہم نے کرنی ہیں، اس پر ہمیں غور کرتے رہنا چاہئے۔ بعض توجہ طلب امور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زبانِ مبارک سے نکلے ہوئے مبارک الفاظ میں مَیں بیان کرتا ہوں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’شریعت کے دو ہی بڑے حصے اور پہلو ہیں جن کی حفاظت انسان کو ضروری ہے۔ ایک حق اﷲ، دوسرے حق العباد۔ حق اﷲ تو یہ ہے‘‘ (اللہ تعالیٰ کا حق تو یہ ہے) ’’کہ اﷲ تعالیٰ کی محبت، اس کی اطاعت، عبادت، توحید، ذات اور صفات میں کسی دوسری ہستی کو شریک نہ کرنا۔ اور حق العباد یہ ہے کہ اپنے بھائیوں سے تکبر، خیانت اور ظلم کسی نوع کا نہ کیا جاوے‘‘۔ (کسی بھی قسم کا نہ کیا جائے)۔ ’’گویا اخلاقی حصہ میں کسی قسم کا فتور نہ ہو۔ سننے میں تو یہ دو ہی فقرے ہیں‘‘۔ فرماتے ہیں ’’سننے میں تو یہ دو ہی فقرے ہیں لیکن عمل کرنے میں بہت ہی مشکل ہیں‘‘۔

اور یہی کام ہے جو آج احمدیوں کے سپرد ہے۔ آسان کام تو نہیں۔ مولویوں کی طرح پکے پکائے حلوے تو ہم نے نہیں کھانے۔ یہ اپنی اصلاح کا کام ہی ہے جو ہم نے کرنا ہے، ہر احمدی کواس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ فرماتے ہیں: ’’اﷲ تعالیٰ کا بڑا ہی فضل انسان پر ہو تو وہ ان دونوں پہلوؤں پر قائم ہو سکتاہے‘‘۔ پس ہر وقت اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتے ہوئے اُس کا فضل مانگیں کہ ہمارے قدم کبھی پیچھے نہ ہٹیں، نیکیوں میں ہم پیچھے نہ جائیں، تقویٰ میں ہم ترقی کرنے والے ہوں اور ہر وقت اللہ تعالیٰ کا فضل ہمارے شاملِ حال ہو۔

فرمایا ’’کسی میں قوتِ غضبی بڑھی ہوئی ہوتی ہے‘‘ (یعنی غصے میں بہت جلدی آ جاتا ہے)۔ ’’جب وہ جوش مارتی ہے تو نہ اس کا دل پاک رہ سکتا ہے اور نہ زبان‘‘۔ (جب انسان غصے میں آتا ہے، غضب میں آتا ہے تو پھر فرمایا کہ نہ دل اُس وقت پاک ہے، نہ اُس کی زبان پاک ہے اور یہی ہمیں دیکھنے میں آیا ہے۔ بہت سارے مسائل، بہت ساری لڑائیاں، بہت ساری رنجشیں اسی لئے پیدا ہوتی ہیں، یا دلوں میں کینے پلتے ہیں اور بدلے لئے جاتے ہیں یا پھر زبان اس طرح چلائی جاتی ہے کہ وہ لگتا ہی نہیں کسی ایک مومن کی زبان ہے جس سے شریفانہ الفاظ ادا ہو رہے ہوں )۔ پھر فرمایا ’’دل سے اپنے بھائی کے خلاف ناپاک منصوبے کرتا ہے اور زبان سے گالی دیتا ہے۔ اور پھر کینہ پیدا کرتا ہے۔ کسی میں قوت شہوت غالب ہوتی ہے اور وہ اس میں گرفتار ہو کر حدود اﷲ کو توڑتا ہے‘‘۔ (ان ملکوں میں گندی فلمیں دیکھنا، بے حیائی کی باتیں سننا، ان لغویات کو دیکھنا یہ سب اسی لئے پیدا ہوتی ہیں کہ دل میں تقویٰ نہیں ہوتا اور یہی قوتِ شہوت ہے جو غالب ہو جاتی ہے۔ نوجوانوں کو خاص طور پر اس کا خیال رکھنا چاہئے)۔ فرمایا ’’غرض جب تک انسان کی اخلاقی حالت بالکل درست نہ ہو وہ کامل ایمان جو منعم علیہ گروہ میں داخل کرتا ہے اور جس کے ذریعہ سچی معرفت کا نور پیدا ہوتا ہے اس میں داخل نہیں ہو سکتا‘‘۔ پس بہت قابلِ فکر بات ہے کہ عہد تو ہم یہ کر رہے ہیں کہ ہم ایمان میں بڑھیں گے۔ آپ فرما رہے ہیں کہ کامل ایمان پیدا ہی نہیں ہو سکتا اگر یہ باتیں تمہارے اندر ہیں۔

(خطبہ جمعہ 16؍ ستمبر 2011ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 جولائی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 جولائی 2021