• 19 مئی, 2024

تبدیلی اندر سے پیدا ہوتی ہے

أَلَا وَاِنَّ فِیْ الْجَسَدِ مُضْغَۃً اِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ کُلُّہٗ وَاِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ کُلُّہٗ أَلَا وَھِیَ الْقَلْبُ۔

(صحیح البخاری کتاب الایمان حدیث نمبر 52)

صحیح بخاری میں ایک حدیث درج ہے جس میں پیارے آقا آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ہےکہ انسان کے جسم کے اندر گوشت کو ایک ٹکڑا ہے۔ اگر وہ درست ہو تو پورا جسم درست رہتا ہے۔ اور اگر اُس میں بگاڑ آ جائے تو سارا جسم بگڑ جاتا ہے۔ اور وہ قلب( دل) ہے۔

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ زندگی کی اصلاح کادار و مدار ’’قلب‘‘ کی اصلاح پر ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہر قسم کی تبدیلیوں کی شروعات اندرونی تبدیلی میں ہے یعنی سوچ و فکر کی تبدیلی میں نہ کہ بیرونی تبدیلی سے۔

اس حدیث کو ملحوظ رکھتے ہوئے دو پہلوؤں پر غور کریں۔ پہلا رُخ ہے بیرونی تبدیلی اور اُس کے نتائج۔ جب کہ دوسرا رُخ ہے اندورنی تبدیلی اور اُس کے نتائج۔

جب ہم تصویر کے پہلے پہلو پر غور کرتےہیں تواس حدیث کی روشنی میں موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کی بڑی بڑی تحریکیں غیر فطری نظر آتی ہیں۔ کیوں کہ ان کا مقصد اور نشانہ دوسری چیزوں کی تبدیلیاں تھانہ کہ اندرونی تبدیلی۔ کسی کا نشانہ تبدیلی حکومت تھا اور کسی کا نشانہ تبدیلی نظام، کسی کا نشانہ تبدیلی قیادت تو کسی کا نشانہ تبدیلی جغرافیہ۔ یہی وجہ ہےکہ اکثر تحریکیں کامیابی سے ہمکنار نہ ہوئیں۔

تاریخ پر نظر ڈالیں تو یہ بات صاف نظر آتی ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور اُن کے پیروؤں نے کہا کہ سکھ اور مرہٹہ سے اسلام کو خطرہ ہے سکھ اور مرہٹہ راستہ سے ہٹا دئے گئے۔ مگر اسلام بدستور خطرہ میں رہا۔ شاہ عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ اور اُن کےپیروؤں نے کہا کہ انگریز سے اسلام کو خطرہ ہے ۔ انگریز کا اقتدار ختم ہو گیا مگر اسلام پر خطرہ بدستور قائم رہا۔

محمد علی جناح اور دوسرے مسلم لیڈروں نے کہا کہ ہندوؤں سے اسلام کو خطرہ ہے ہندوؤں سے کٹ کر مسلمانوں کی الگ ریاست قائم ہو گئی مگر اس کے باوجود اسلام مسائل سے گھرا رہا اور اُن کا خطرہ بدستور قائم رہا۔ مولانا مودودی ابو الاعلیٰ مودودی اور اُن کےہم خیال لوگوں نے کہا کہ ایوب اور بھٹو سے اسلام کو خطرہ ہے۔ ایوب اور بھٹو کا اقتدار ختم ہو گیا۔ مگر اسلام کا خطرہ ختم نہیں ہوا۔ ہر وہ طاقت جس کو مسلمانوں نے اسلام کا دشمن قرار دیا وہ راستے سے ہٹائی جاتی رہی مگر اسلام اور مسلمان بدستور خطرے میں گھرے رہے۔

50 سے زائد مسلم ممالک روئے زمین پرموجود ہیں کوئی ان کا پرسان حال نہیں۔ عالمی دنیا میں ان کو کوئی وقعت حاصل نہیں۔ اخلاقی لحاظ سے انتہائی گری حالت میں ہیں۔ دجالی طاقتیں جب چاہیں جس حکومت کو گرا دیں۔ عوام کے حالات کسی سے پوشیدہ نہیں۔ دنیاوی رہنماؤں کی اکثریت مال و دولت کے حصول کے لئے خودغرضیوں میں ملوّث ہیں۔ نام نہاد مذہبی رہنماؤں کاحال بھی اس سے کچھ کم نہیں ہے۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ بڑی بڑی درگاہیں اور گدّیاں لاکھوں، کروڑوں میں سالانہ آمد کر رہی ہیں۔ چڑھاوے اور نیاز کی تقسیم کے لئے لڑائی جھگڑا معمول کی بات ہے۔

اس کے مقابل ایک دوسری تبدیلی یعنی اندورنی تبدیلی پر نظر ڈالیں۔ جس کی طرف مندرجہ بالا حدیث میں اشارہ کیا گیا تھا کہ اگر وہ درست ہو جائے تو پورا جسم درست ہو جاتا ہے۔ انسانوں کے مجموعہ کا نام قوم ہے۔ لہٰذا اس کے معنی ہوئے جب صالح انسانوں کی اکثریت ہو جائے گی تو قوموں میں تبدیلی پید اہو جائے گی۔ یہ اندرونی تبدیلی تعمیری ہوتی ہے نہ کہ تخریبی۔ اُمت محمدیہ میں اس تعمیری اور تجدیدی کاموں کے لئے ایک اندرونی مصلح اور مامور کی خبر خود آنحضرت ﷺ نے بیان فرمائی ہے۔

چنانچہ اس بارے میں ایک دوسری حدیث میں اشارہ موجود ہے۔ آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ

كَيْفَ أَنْتُمْ إذَا نَزَل ‏ ‏إبْنُ مَرْيَمَ ‏ ‏فِيْكُمْ وَإمَامُكُمْ مِنْكُمْ

(صحیح بخاری کتاب الانبیاء)

یعنی اے مسلمانوں تمہارا کیا حال ہو گا جب تم میں عیسیٰ ابن مریم کا نزول ہو گا اور وہ تم میں سے تمہارا امام ہوگا۔

منکم کے الفاظ نے بتا دیا کہ وہ تجدید دین کرنے والا اندر سے ہوگا نہ کہ باہر سے ۔ اس کے معروف معنی تو یہ ہیں کہ وہ امت مسلمہ کا ایک فرد ہو گا نہ کہ امت موسوی کا کوئی فرد۔ لیکن اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ وہ آنے والا موعود انسانوں کا تزکیہ نفس کرکے اُن کی اندرونی کثافتوں اور غلاظتوں کو دور کرے گا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک مقام پر اس حوالہ سے بیان فرماتے ہیں کہ
’’خدا تعالیٰ نے زمانہ کی موجودہ حالت کودیکھ کر اور زمین کو طرح طرح کے فسق اور معصیّت اور گمراہی سے بھرا ہوا پا کر مجھے تبلیغ حق اور اصلاح کے لئے مامور فرمایا۔ اور یہ زمانہ بھی ایسا تھا کہ ۔۔۔۔ اس دنیا کے لوگ تیرھویں صدی ہجری کو ختم کر کے چودھویں صدی کے سر پر پہنچ گئے تھے۔ تب مَیں نے اُس حکم کی پابندی سے عام لوگوں میں بذریعہ تحریری اشتہارات اور تقریروں کے یہ ندا کرنی شروع کی کہ اس صدی کے سر پر جو خدا کی طرف سے تجدید دین کے لئے آنے والا تھا وہ مَیں ہی ہوں تا وہ ایمان جو زمین پرسے اُٹھ گیا ہے اس کو دوبارہ قائم کروں۔ اور خدا سے قوت پا کر اُسی کے ہاتھ کی کشش سے دنیا کو صلاح اور تقویٰ اور راستبازی کی طرف کھینچوں اور ان کی اعتقادی اور عملی غلطیوں کو دُور کروں۔‘‘

(تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد20 صفحہ3)

اسی طرح فرمایا کہ
’’سو اسی بنا پر یہ عاجز اس سِلسلہ کے قائم رکھنے کے لئے مامور کیا گیا ہے اور چاہتا ہے کہ صحبت میں رہنے والوں کا سِلسلہ اور بھی زیادہ وسعت سے بڑھا دیا جائے اور ایسے لوگ دن رات صحبت میں رہیں کہ جو ایمان اور محبت اور یقین کے بڑھانے کے لئے شوق رکھتے ہوں اور ان پر وہ انوار ظاہر ہوں کہ جو اس عاجز پر ظاہر کئے گئے ہیں۔ اور وہ ذوق ان کو عطا ہو جو اس عاجز کو عطا کیا گیا ہے تا اسلام کی روشنی عام طور پر دنیا میں پھیل جائے اور حقارت اور ذلّت کا سیہ داغ مسلمانوں کی پیشانی سے دھویا جائے۔‘‘

(فتح اسلام، روحانی خزائن جلد3 صفحہ22،23)

ایک اور مقام پر اس اندونی تبدیلی اور اخلاق کے قیام کے مقصد کو بیان کرتےہوئے فرماتےہیں
’’اِس تاریکی کے زمانہ کا نور مَیں ہی ہوں۔ جو شخص میری پیروی کرتا ہے وہ ان گڑھوں اور خندقوں سے بچایا جائے گا جو شیطان نے تاریکی میں چلنے والوں کے لئے تیار کئے ہیں۔ مجھے اس نے بھیجا ہے کہ تا مَیں امن اورحلم کے ساتھ دنیا کو سچّے خدا کی طرف رہبری کروں اور اسلام میں اخلاقی حالتوں کو دوبارہ قائم کر دوں۔‘‘

(مسیح ہندوستان میں، روحانی خزائن جلد15 صفحہ13)

امام الزمان سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قوت قدسیہ کی برکت سے جن لوگوں نے آپ کی بیعت کی اور آپ کی پاک جماعت میں شامل ہو کر اندورنی تبدیلی کی وہ سچے امانت دار، امین و محنتی بنتےچلےگئے۔ تاریخ احمدیت میں ایک دو نہیں سینکڑوں مثالیں ملتی ہیں۔ جب احمدیت قبول کرنے کے نتیجہ میں ایک شخص کلیتاً تبدیل ہو کر نئی زندگی حاصل کرنے والا ہو گیا۔ اس اندرونی تبدیلی کی گواہیاں دوسروں نے بھی برملا دی ہیں۔ چنانچہ تاریخ سے ایسی چند گواہیاں درج ہیں:۔

(1) علامہ اقبال کہتے ہیں:
’’پنجاب میں اسلامی سیرت کا ٹھیٹھ نمونہ اس جماعت کی شکل میں ظاہر ہوا ہے جسے فرقہ قادیانی کہتے ہیں۔‘‘

(ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر اردو ترجمہ از مولوی ظفر علی خاں صفحہ 18)

(2) علامہ نیاز فتح پوری لکھتے ہیں کہ
’’اس میں کلام نہیں کہ انہوں (مرزا صاحب) نے یقیناً اخلاقِ اسلامی کو دوبارہ زندہ کیا اور ایک ایسی جماعت پیدا کر کے دکھا دی جس کی زندگی کو ہم یقیناً اسوہ نبی کو پرتَو کہہ سکتے ہیں۔‘‘

(ماہنامہ نگار لکھنؤ نومبر 1965)

(3) سردار دیوان سنگھ مفتون لکھتے ہیں:
’’ایڈیٹرریاست کو اپنی زندگی میں سینکڑوں احمدیوں سے ملنے کا اتفاق ہوا اور ان سینکڑوں میں سے ایک بھی ایسا نہیں دیکھا گیا جو اسلامی شعار کا پابند اور دیانت دار نہ ہو۔ ہمارا تجربہ یہ ہے کہ ایک احمدی کے لئے بد دیانت ہونا ممکن ہی نہیں۔‘‘

( اخبار ریاست دہلی 13 نومبر1952ء)

(4) اخبار اسٹیسٹس مین:
’’اس (بانئی جماعت) نے اپنے گرد پیش کو نیکی اور بلند ااخلاقی سے بھر دیا۔ یہ اچھی صفات اس کے لاکھوں ماننے والوں میں بھی منعکس ہیں۔ احمدیہ جماعت کانقطہ نظر تعمیری اور اس کا رویہ پابند ِ قانون ہے۔ یہی ایک واحد جماعت ہے جو عدالتی ریکارڈ کی رو سے جرم سے پاک ثابت ہوتی ہے۔‘‘

(اخبار Statesman دہلی 12 فروری 1949ء)

(شیخ مجاہد احمد شاستری۔ قادیان)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 جولائی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 جولائی 2021