• 19 مئی, 2024

نزولِ ابن مریمؑ۔حقیقت یا تمثیل

چوں مرا حکم از پئے قومِ مسیحی دادہ اند
مصلحت را ابن مریم نامِ من بنہادہ اند

غیر احمدی علماء اور اُن سے سیکھ کر عام لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ احادیث میں جس وجود کے آنے کی خبر ہے وہ ’’ابن مریم‘‘ یعنی مریم کا بیٹا ہے اور وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہی ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ مرزا صاحب، جو مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، کی والدہ کا نام مریم نہیں بلکہ ’’چراغ بی بی‘‘ تھا ۔ لہٰذا مرزا صاحب کسی طور بھی ’’ابن مریم‘‘ نہیں ہوسکتے۔

اس اعتراض سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ معترضین احادیث کے الفاظ کو ظاہری طور پر مراد لیتے ہیں اور باوجود اس کے کہ قرآنِ کریم میں واضح طور پر اس بات کا اعلان کیا جاچکا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوچکے ہیں اور اب کبھی اس دنیا میں واپس نہیں آئیں گے۔ اس کے باوجود غیر احمدی مسلمانوں کا ایک طبقہ اس بات پر مُصر ہے کہ احادیث میں جس ابن مریم کے آنے کی خبر ہے وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہی ہیں۔ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام تو ابن چراغ بی بی ہیں وہ ابن مریم کیسے ہوسکتے ہیں۔

اس اعتراض کے جواب میں یا اس کے رد میں مندرجہ ذیل نکات ملحوظِ خاطر رکھنے چاہئیں:

وفاتِ مسیؑح کا قرآنی اعلان

جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے کہ قرآنِ کریم واضح طور پر اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ حضرت عیسیٰ ابنِ مریم علیہ السلام فوت ہوچکے ہیں۔ اس حقیقت کو اب بڑے بڑے علماء بھی تسلیم کرچکے ہیں اور غیر احمدی مخالف علماء اپنے لوگوں کو اس بات کی نصیحت کرتے ہیں کہ احمدیوں سے اس مسئلہ میں بحث نہ کریں کیونکہ اس بارے میں احمدیوں کے پاس اتنے قطعی اور واضح دلائل ہیں کہ کوئی بھی غیر احمدی عالم یا عام آدمی اس بات کو رد نہیں کرسکتا اور حیاتِ مسیؑح کا کوئی ثبوت پیش نہیں کرسکتا۔ یہاں یہ دلائل دہرانے کی ضرورت نہیں۔

ابن مریم کی احادیث۔درست یا غلط

لہٰذا جب یہ ثابت ہوگیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوچکے ہیں تو پھر یہ دیکھنا پڑے گا کہ وہ احادیث جن میں ’’ابن مریم‘‘ کے آنے کی خبر ہے کیا وہ صحیح ہیں یا غلط۔ ان احادیث کی جرح و تعدیل سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ وہ احادیث درست ہیں اور امام بخاری و امام مسلم نے انہیں صحیح قرار دیتے ہوئے اپنے مجموعہ میں درج کیا ہے۔

عرب محاورہ

وفاتِ مسیؑح ثابت ہونے اور ابن مریم کی احادیث صحیح ثابت ہونے کے بعد یہ بات پایہ ٔ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ ان احادیث میں جس ابن مریم کا ذکر ہے وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نہیں ہیں بلکہ کوئی اور ہے۔اور وہ جو کوئی بھی ہوگا ا سے تمثیلی طور پر ’’ابن مریم‘‘ قرار دیا گیا ہے نہ کہ حقیقی طور پر۔ اس بات کو مزید ثابت کرنے کے لئے ہم عرب محاورہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ عربی زبان میں کسی شخص کے لئے تشبیہ ، استعارۃ ، اور کسی دوسرے شخص کے ساتھ نسبت ظاہر کرنے کے لئے کسی نام یا صفت کے ساتھ ’’ابن‘‘ ’’ابو‘‘ اور ’’اُم‘‘ کے الفاظ لگائے جاتے ہیں۔ اور جب ایسا کیا جاتا ہے تو اس سے عرب یہ مراد لیتے ہیں کہ یہ اس شخص کا اصل اور حقیقی نام نہیں جو اُس کے ماں باپ نے رکھا تھا بلکہ اُس کی صفت ہے۔عربی زبان میں اسے ’’کنیت‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔

قرآنِ کریم میں اس محاورہ کا استعمال

قرآنِ کریم میں مسافر کے لئے ’’اِبْنُ السَّبِیْلِ‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ اب اگر اس کے لغوی معنی پر اصرار کیا جائے جس طرح ’’ابن مریم‘‘ کی آمد کی خبر میں اصرار کیا جاتا ہے کہ ابن مریم سے مراد مریم کا جسمانی بیٹا یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہی مراد لئے جائیں گے تو پھر اس لفظ کا مطلب بنے گا ’’راستے کا بیٹا‘‘ جو ایک مہمل اور بے معنی بات ہے۔ اِس کی مزید وضاحت میں قرآنِ کریم کی چند مثالیں بیان فرماتے ہوئے سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’اس قسم کی بہت سی آیات قرآن شریف میں موجود ہیں کہ جو مرگیا وہ ہرگز پھر دنیا میں واپس نہیں آئے گا۔ اور یہ تو ظاہر ہوچکا کہ حضرت مسیح فی الواقعہ فوت ہوچکے ہیں۔ پھر باوجود اس قرینہ صریحہ بیّنہ کے اگر حدیثوں میں ابن مریم کے نزول کا ذکر آیا ہے تو کیا یہ عقلمندی ہے کہ یہ خیال کیا جائے کہ ابن مریم رسول اللہ آسمان سے اتر آئے گا۔ مثلًا دیکھئے کہ اللہ جلشانہ سورہ بقرہ میں فرماتا ہے کہ اے بنی اسرائیل ہماری اس نعمت کو یاد کرو کہ ہم نے آل فرعون سے تمہیں چھڑایا تھا جب وہ تمہارے بیٹوں کو ذبح کرتے تھے اور تمہاری بیٹیوں کو رکھ لیتے تھے۔اور وہ زمانہ یاد کرو جب دریا نے تمہیں راہ دیا تھا اور فرعون اس کے لشکر سمیت غرق کیا گیا تھا اور وہ زمانہ یاد کرو جب تم نے موسیٰ کو کہا تھا کہ ہم بغیر دیکھے خدا پر ہرگز ایمان نہیں لائیں گے اور وہ زمانہ یاد کرو جب ہم نے تمہیں بدلی کا سایہ دیا اور تمہارے لئے من و سلویٰ اتارا اور وہ زمانہ یاد کرو جب ہم نے تم سے عہد لیا اور کوہ طور تمہارے سر کے اوپر ہم نے رکھا تھا پھر تم نے سرکشی اختیار کی۔ اور وہ زمانہ یاد کرو جب ہم نے تم سے عہد لیا تھا کہ تم خون نہ کرنا اور اپنے عزیزوں کو ان کے گھروں سے نہ نکالنا اور تم نے اقرار کرلیا تھا کہ ہم اس عہد پر قائم رہیں گے لیکن تم پھر بھی ناحق کا خون کرتے رہے اور اپنے عزیزوں کو ان کے گھروں سے نکالتے رہے۔ تمہاری یہی عادت رہی کہ جب کوئی نبی تمہاری طرف بھیجا گیا تو بعض کو تم نے جھٹلایا اور بعض کے درپے قتل ہوئے یا قتل ہی کردیا۔

اب فرمائیے کہ اگر یہ کلمات بطور استعارہ نہیں ہیں اور ان تمام آیات کو ظاہر پر حمل کرنا چاہئے تو پھر یہ ماننا پڑے گا کہ جو لوگ درحقیقت ان آیات کے مخاطب ہیں جن کو آل فرعون سے نجات دی گئی تھی اور جن کو دریا نے راہ دیا تھا اور جن پر من و سلویٰ اتارے گئے تھے وہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ تک زندہ ہی تھے یا مرنے کے بعد پھر زندہ ہوکر آگئے تھے۔ کیا آپ لوگ جب مسجدوں میں بیٹھ کر قرآنِ کریم کا ترجمہ پڑھاتے ہیں تو ان آیات کے معنی یہ سمجھایا کرتے ہیں کہ ان آیات کے مخاطبین ہی آنحضرت ﷺ کے عہد رسالت تک بقید حیات تھے یا قبروں سے زندہ ہوکر پھر دنیا میں آگئے تھے۔ اگر کوئی طالب العلم آپ سے سوال کرے کہ ان آیات کے ظاہر مفہوم سے تو یہی معنی نکلتے ہیں کہ مخاطب وہی لوگ ہیں جو حضرت موسیٰ اور دوسرے نبیوں کے وقت موجود تھے کیا اب یہ اعتقاد رکھا جائے کہ وہ سب آنحضرت ﷺ کے وقت میں زندہ تھے یا زندہ ہوکر پھر دنیا میں آگئے تھے۔ تو کیا آپ کا یہی جواب نہیں کہ بھائی وہ تو سب فوت ہوگئے اور اب مجازی طور پر مخاطب ان کی نسل ہی ہے جو ان کے کاموں پر راضی ہے گویا انہی کا وجود ہے یا یوں کہو کہ گویا وہی ہیں۔ تو اب سمجھ لو کہ یہی مثال ابن مریم کے نزول کی ہے۔‘‘

(ازالہ اوہام حصہ دوم ص۔446,447)

لقب،نام اور صفت

سورۃ آل عمران کی آیت ۔46 میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ فرشتہ نے حضرت مریم کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کی خوشخبری دیتے ہوئے کہا: اِسمُہُ الْمَسِیْحُ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ اس کا نام المسیح عیسی ابن مریم ہوگا۔اس لحاظ سے اُن کے تین نام ہوئے: المسیح عیسیٰ اور ابن مریم۔ لیکن عربی زبان کا اصول ہے کہ اسم ِ معرفہ کے ساتھ ’’ال‘‘ نہیں لگتا۔ اس لئے المسیح نام نہیں لقب ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ جس شخص کی والدہ کا نام ’’مریم‘‘ ہوگا وہ لامحالہ ’’ابن مریم‘‘ ہوگا۔ اور یہ نام تو کثرت سے رکھا جاتا ہے اس لحاظ سے ابن مریم کوئی نام نہیں بلکہ ایک صفت ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ مخالفینِ احمدیت ایک بے بنیاد اعتراض یہ بھی کرتے ہیں کہ نبی کا نام مرکب نہیں ہوتا اس لئے ’’مرزا غلام احمد قادیانی‘‘ نام والا شخص نبی نہیں ہوسکتا، جبکہ اس محولہ بالا آیت میں ایک نبی کا مرکب نام بیان کیا گیا ہے۔ امام فخر الدین رازیؒ نے تفسیر کبیر میں سورۃ آل عمران کی آیت۔46 کی تفسیر کرتے ہوئےاس کے متعلق لکھا ہے:
’’پانچواں سوال: یہ کیوں کہا کہ اُس کا نام المسیح عیسی بن مریم ہے جبکہ نام تو صرف عیسیٰ ہے ، المسیح لقب ہے اور ابن مریم صفت ہے۔

جواب۔ نام مسمی کی علامت اور اس کی پہچان ہوتا ہے اور یہ ان تینوں (اسم، لقب، صفت) کا مجموعہ ہے۔‘‘

اُردو زبان کے مشہور شاعر مرزا غالب نے بھی اس بات کو اپنے ایک شعر میں اس طرح بیان کیا ہے

؎ابن مریم ہوا کرے کوئی
میرے دُکھ کی دوا کرے کوئی

یعنی کوئی ایسا ہو جو ابن مریم ہو کر میرے دُکھ کی دوا کرے۔ یہ نہیں کہا کہ خود یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام آکر میرے دُکھ کی دوا کریں۔

احادیث میں اس محاورہ کا استعمال

کفّارِ مکہ نبی اکرم ﷺ کو ’’ابن ابی کبشہ‘‘ کہہ کر پکارا کرتے تھے حالانکہ سب کو معلوم تھا کہ نبی اکرم ﷺ کا نام محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب ہے۔ ابوسفیان نے قیصرِ روم کے دربار میں نبی اکرم ﷺ کے خط کی عزت ہوتی دیکھ کر کہا ’’لَقَدْ أَمِرَ أَمْرُ ابْنِ أَبِیْ کَبْشَۃَ إِنَّہُ یَخَافُہُ مَلِکُ بَنِی الْأَصْفَرِ (ابوکبشہ کے بیٹے کا معاملہ تو بہت بڑھ گیا۔ اس سے تو بنی اصفر (روم) کا بادشاہ بھی ڈرتا ہے۔‘‘

(بخاری کتاب کیف کان بدء الوحی)

نبی اکرم ﷺ کو اس صفت سے موصوف کرنے کی وجہ یہ تھی کہ نبی اکرم ﷺ سے پہلے مکہ میں ابی کبشہ نام کا ایک شخص تھا جو بت پرستی سے بیزار تھا اور علانیہ ان کا انکار کیا کرتا تھا۔ جب نبی اکرم ﷺ نے بھی وہی طریق ظاہر فرمایا تو لوگوں نے آپؐ کو ابی کبشہ سے منسوب کرتے ہوئے ’’ابن ابی کبشہ‘‘ کہنا شروع کر دیا یعنی ایسا شخص جو ابی کبشہ جیسی باتیں کرتا ہے گویا صفاتی طور پر اس کا بیٹا ہے۔

بخاری کتاب الانبیاء علیہم السلام اور مسلم کتاب الفضائل میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے تذکرہ میں ایک حدیث کے آخر میں حضرت ہاجرہ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت ابوہریرۃ ؓ کہتے ہیں: ’’تِلْکَ أُمُّکُمْ یَا بَنِیْ مَآءِ السَّمَآءِ‘‘ (اے آسمان کے پانی کے بیٹو! یہ ہے تمہاری ماں) یہاں عربوں کو استعارۃ کے طور پر آسمان کے پانی کے بیٹے کہا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس اصطلاح کو لفظی معنی میں نہیں لے سکتے بلکہ استعارۃ اور تشبیہ سمجھنے پر مجبور ہیں۔

حضرت علیؓ کو ابو تراب کہا جاتا تھا۔ اس کا مطلب ہے مٹی کا باپ۔ ظاہر ہے کہ یہ بھی صفاتی طور پر سمجھا جائے گا نہ کہ لفظی طور پر۔

حضرت ابوہریرۃ ؓ کے اس لقب کا مطلب ہے بلیوں کا باپ۔ ظاہر ہے کہ وہ خود انسان تھے اور ان کی جسمانی اولاد بھی انسان تھی نہ کہ بلی۔

أَنْتُمْ ۔فِیْکُم ْْ۔مِنْکُمْ کااستعمال

’’وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَیُوْشِکَنَّ أَنْ یَّنْزِلَ فِیْکُمُ ابْنُ مَرْیَمَ‘‘ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے وہ زمانہ قریب ہے کہ ابن مریم تمہارے اندر نازل ہوں گے۔

(بخاری کتاب الانبیاء ؑ اور مسند احمد بن حنبل (مسند ابوہریرۃ ؓ))

کَیْفَ أَنْتُمْ إِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْیَمَ فِیْکُمْ وَ إِمَامُکُمْ مِنْکُمْ تمہارا اس وقت کیا حال ہوگا جب مریم کے بیٹے تمہارے اندر نازل ہوں گے اور وہ تم میں سے تمہارے امام ہوں گے۔

(صحیح بخاری)

إِنِّیْ لَاَرْجُوْٓا أَنْ طَالَ بِیْ عُمْرٌ أَنْ أَلْقٰی عِیْسیٰ ابْنَ مَرْیَمَ عَلَیْہِ السَّلَامُ، فَإِنْ عُجِلَ بِیْ مَوْتٌ فَمَنْ لَقِیَہٗ مِنْکُمْ فَلْیَقْرَئْہُ مِنِّی السَّلَامَ میں امید کرتا ہوں کہ اگر میری عمر طویل ہوئی تو میں عیسیٰ بن مریم علیہ السلام سے ملاقات کرلوں گا، اگر مجھے جلدی موت آگئی تو تم میں سے جو بھی ان سے ملاقات کرے تو انہیں میرا سلام پہنچادے۔

(مسند احمد بن حنبل)

یُؤْشَکُ مَنْ عَاشَ مِنْکُمْ أَنْ یَّلْقٰی عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ قریب ہے کہ جو تم میں سے جیتا رہے وہ عیسیٰ ابن مریم سے ملاقات کرے گا

(مسند احمد بن حنبل)

یُؤْشَکُ مَنْ عَاشَ مِنْکُمْ أَنْ یَّرٰی عِیْسٰی ابْنَ مَرْیَمَ قریب ہے کہ تم میں سے جو شخص جیتا رہے تو وہ عیسیٰ ابن مریم کو دیکھ لے گا

(المعجم الصغیر الطبرانی)

ان تمام احادیث میں صحابہ کرامؓ سے خطاب فرماتے ہوئے صیغۂ مخاطب ،أَنْتُمْ (تم سب)، فِیْکُمْ (تمہارے اندر ؍ درمیان)، مِنْکُمْ (تم میں سے) استعمال کیا گیا ہے اور یہ کہا گیا ہے کہ تم میں سے جو بھی زندہ رہے گا وہ عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام سے ملاقات کرلے گا ۔ تمام صحابہ کرام ؓ وفات پاگئے لیکن کسی ایک کی بھی عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام سے ملاقات نہیں ہوئی حالانکہ یہ بات قسم کھا کر اور زور دے کر کہی گئی تھی کہ قریب ہے کہ تم میں سے جو بھی زندہ رہے گا اس کی ملاقات عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام سے ہوگی اور یہ کہ اُن کا نزول تمہارے درمیان ہوگا ۔لیکن قسم کھا کر اور زور دے کر کہی گئی بات پوری نہیں ہوئی۔اس کا ، نعوذ باللہ، یہ مطلب نہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی بات غلط ثابت ہوئی ۔بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کا فہم غلط ہے۔ اگر ان تمام احادیث میں، قرآنِ کریم کی واضح آیات کے خلاف ’’ابن مریم‘‘ سے مراد حضرت عیسیٰ علیہ السلام لئے جانے پر ہی اصرار ہے تو أَنْتُمْ (تم سب)، فِیْکُمْ (تمہارے اندر؍ درمیان)، مِنْکُمْ (تم میں سے)سے مراد وہ صحابہ کرام ؓ کیوں نہیں لئے جاتے جن سے صیغۂ مخاطب میں خطاب کیا گیا ہے۔ ایسا نہیں کہ جہاں چاہا کسی اصطلاح کے لفظی معنی اختیار کرلئے اور جہاں چاہا اسے استعارہ قرار دے دیا۔ اس لئے ’’ابن مریم‘‘ کے نزول سے تمثیلی طور پر سیّدنا حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ظہور مراد ہے جن کی صداقت قرآن و حدیث سے روزِ روشن کی طرح ثابت ہو چکی ہے اور یہ نزول صحابہ کرام ؓ میں نہیں، جن سے خطاب کیا گیا تھا، بلکہ اُن میں ہوا جو صحابہ کرام ؓ کے مثیل ہیں۔ حضور ؑنے فرمایا:

؎مبارک وہ جو اب ایمان لایا
صحابہؓ سے ملا جب مجھ کو پایا
وہی مے اُن کو ساقی نے پلادی
فَسُبْحَانَ الَّذِیْٓ اَخْزَی الْاَعَادِیْ

(انصر رضا ۔ واقفِ زندگی۔ کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 جولائی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 جولائی 2021