• 6 مئی, 2024

ماں کی جائے نماز

مکرم سید شمشاد احمد ناصر مبلغ سلسلہ امریکہ نے گذشتہ دنوں کسی شاعر کی ایک نظم بھیجی ۔ خاکسار نے جب پڑھی تو مجھے اپنے بزرگ والدین کے جائے نماز نظر کے سامنے گھومنے لگے جو گھروں میں فراخی نہ ہونے کی وجہ سے سالہا سال ابا کی ایک ہی جائے نماز ہوتی اور امی کی الگ جائے نماز۔ اور یہ دونوں جائے نماز سالوں کے استعمال کی وجہ سے بوسیدہ ہو چکے تھے۔ پاؤں والے حصہ اور سجدہ گاہ سے شنیل غائب ہو چکا تھا۔ تب بھی وہ بہت خوبصورت لگا کرتے اور جب کبھی ان جائے نمازوں پر نماز پڑھنے کا موقع ملتا تو امی ابا کے سانسوں کی خوشبو اور آنسوؤں سے بھیگی جگہ بول بول کر گواہی دے رہی ہوتی کہ یہ جگہ جہاں اور بہت سے بزرگوں جیسے خلفائے کرام، اپنے والدین، عزیزواقارب اور احباب و خواتین کے لیے دعا کرتے بھیگ گئی ہے ۔

وہاں سب بہن بھائیوں کے لیے دعائیں کرتے آنسوؤں سے یہ جگہ بھیگی ہے ۔ بسا اوقات وہ جگہ آنسو سے بار بار تر ہونے کی وجہ سے سخت ہوگئی ہوتی ۔ مگر اس پر سجدہ کرنے کا الگ ہی مزہ اور لطف آتا۔ اور والدین کی درازی عمر کے لیے دعا کا موقع میسر آتا۔

آج یہ آرٹیکل تحریر کرتے وقت اپنے والدین کی جائے نماز کو دیکھا اور غور کیا تو میرا دھیان مجھے سورہ یوسف کی آیت 94 کی طرف گیا جس میں حضرت یوسف علیہ السلام کا اپنے بھائیوں کے ساتھ معاملے میں آپ علیہ السلام نے اپنی قمیض اپنے بھائیوں کے ہاتھ اپنے والد حضرت یعقوب علیہ السلام کو بھجوائی۔ جس کو سونگھ کر حضرت یوسف علیہ السلام کی زندگی کے آثار کا بھی پتہ چل گیا اور ان پر حقیقت بھی واضح ہو گئی۔

حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے اس کا ترجمہ یوں کیا ہے۔ میری قمیض ساتھ لے جاؤ اور میرے باپ کے سامنے اسے ڈال دو، اس پر حقیقت واضح ہوجائے گی۔

اس قمیض کی وجہ سے حضرت یعقوبؑ نے فرمایا اِنِّیۡ لَاَجِدُ رِیۡحَ یُوۡسُفَ کہ مجھے تو اب یوسف کی خوشبو آرہی ہے۔

اس بیان سے یہ حقیقت توعیاں ہوتی ہے کہ انسان کے جسم کے پسینے کی خوشبو اس کے کپڑوں میں رچ بس جاتی ہے۔ اس لیے تو عموماً بزرگوں بالخصوص والدین کی وفات کے بعد ان کے کپڑوں کو پکڑ کے ان کے بچے اس امر کا اظہار کرتے ہیں کہ مجھے اس میں ابو یا امی کی خوشبو آتی ہے۔ ہم روحانی دنیا میں بھی آئے روز ملاحظہ کرتے ہیں کہ ہم میں سے کوئی حضرت صاحب سے ملاقات کی سعادت حاصل کرے تو وہ خود بھی یا اس کے دوست احباب اس سے مل کر خوشی کا اظہار کر کے کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ہمیں تو آپ کے ہاتھوں سے یا کپڑوں سے خلیفۃ المسیح کی خوشبو آتی ہے۔ میں جب سیرالیون میں بطور مبلغ سلسلہ گیا ایک newcomer مربی جو پاکستان سے آئے تھے (اور خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ ابھی ربوہ میں ہی تھے) کو دیکھ کر ایک بزرگ افریقن نے اپنے پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کو بلوا کر کہا کہ یہ مولوی صاحب میرے خلیفہ کی بستی سے آئے ہیں اور ان کے کپڑوں سے مجھے خلیفہ کے کپڑوں کی خوشبو آرہی ہے اس لیے اس سے برکت لے لو۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کے 1998ء کے دورہ سیرالیون پر اس بزرگ کو خصوصی طور پر بلوا کر براہ راست کپڑوں سے برکت حاصل کرنے کے سامان مہیا کئے۔

ماں کا اپنی اولاد اور اولاد کا اپنی ماں سے ایک لاثانی تعلق ہے۔ جس کی مثال کسی دوسرے رشتے میں نہیں ملتی ۔ اب جب سوشل میڈیا عام ہوا ہے اور mother days منانے کا رواج ہوا تو ماں کے پیار بھرے تعلق کو مختلف اچھوتے انداز میں بیان کیا جاتا ہے جو سبق آموز نصیحت آموز بھی ہوتے ہیں۔

ماں کا اپنی اولاد سے جو محبت بھرا تعلق ہے اس حوالے سے بہت مثالیں دی جاسکتی ہیں مگر اس مثال سے حسین مثال نہیں دی جا سکتی جب کسی بادشاہ نے اپنے مرید سے کہا کہ یہ کام تب ہوگا جب آپ اپنی ماں کا سر قلم کر کے ایک ٹرے میں میرے سامنے پیش کرو۔ وہ نا خلف بیٹا اپنے کام کی خاطر ماں کا سر قلم کر کے لارہا تھا کہ اسے ٹھوکر لگ گئی اور ماں کا سر ٹرے سمیت نیچے گر گیا۔ تب ماں کے کٹے سر سے یہ آواز بلند ہوئی کہ ’’بیٹا چوٹ تو نہیں لگی۔

ماں اور بیٹے کے تعلق کا ایک قصہ ملتا ہے۔ اس کا ذکر تعلیم و تربیت کے انداز کے حوالے سے کرنا ضروری ہے۔ ایک مشہور سائنسدان تھامس ایڈیسن ایک دن اسکول سے واپس گھر آیا۔ اور ایک پرچہ بند لفافہ میں ماں کو دیتے ہوئے کہا کہ استاد نے کہا تھا کہ صرف ماں کو دینا۔ ماں اسے کھول کر بلند آواز سے پڑھنے لگی کہ تمہارا بیٹا بہت (genius) ہے ہمارے اسکول میں اتنا اچھا استاد نہیں جو اس کی تربیت کرسکے اس لیے اسے خود ہی پڑھاؤ۔

یہ نکما بیٹا جب سائنسدان بن گیا اور اس کی ماں بھی وفات پا گئی تو اسے گھر کے کاغذات تلاش کرنے پر ایک پرچہ ملا۔ جو اسکول سے آیا تھا ۔ جس کے متعلق استاد نے ایڈیسن کو کہا تھا کہ صرف اپنی ماں کو دینا ہے اس پر لکھا تھا کہ تمہارا بیٹا تو ذہنی معذور ہے۔ ہم اسے اسکول میں برداشت نہیں کر سکتے۔ مگر ماں نے بچے کا دل رکھنے اور اس کی حوصلہ افزائی کرکے اسے ایک عظیم انسان بنانے کے لئے اپنے بچے کے متعلق بُرا سننا برداشت نہ کیا اور دعاؤں کے ساتھ اسے زیرو سے ہیرو بنا دیا۔ چنانچہ کہتے ہیں کہ تھا مس ایڈیسن نے اپنی ڈائری میں لکھا کہ بیشک تھامس ایک معذور بچہ تھا جسے ایک ہیرو ماں نے genius بنا دیا۔ جسے دنیا والوں نے ذہنی معذور کہہ ڈالا مگر اس کی محبت نے سب کچھ غلط ثابت کر دیا اور اس مقام تک پہنچا دیا جس کے لیے لوگ صرف خواب دیکھتے ہیں۔

ایک تصنیف ’’مشترکہ خاندانی نظام‘‘ میں قرآن و حدیث کی روشنی میں ماں اور پھر باپ کا بلند مقام بیان کیا ہے ۔ اور لکھا ہے کہ ماں کے لفظ میں ’’میم‘‘ دنیا بھر کی تمام زبانوں میں ماں کے لیے استعمال ہونے والے الفاظ میں سانجھا ہے۔ جس سے یہ بخوبی کہا جا سکتا ہے کہ تمام مذاہب اور معاشروں میں ماں کا مقام مسلم ہے۔ سانجھا ہے۔ جسے ہر وقت ہر موقع پر خیال رکھنا ضروری ہے۔ یہ نہ ہو کہ ماں کی زندگی میں تو اسے نہ سکون، نہ سانس لینے دیں۔ مگر اس کی وفات کے بعد اس کے کپڑوں سے خوشبو تلاش کریں۔ یہ مناسب نہیں۔ ماں کی عزت ،اس کے مقام اور عالی مرتبہ کو سامنے رکھ کر ماں سے عزت سے پیش آنا ضروری ہے۔

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 جولائی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 جولائی 2021