• 26 اپریل, 2024

اللہ تعالیٰ بعض اوقات مومن متقی کی کوشش کو زیادہ پھل لگاتا ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
بہر حال یہاں یہ بات واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر ایک کے لئے اپنا جو قانونِ قدرت ہے وہ ایک رکھتا ہے۔ لیکن یہاں مَیں اس بات کی بھی وضاحت کر دوں کہ اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کا جلوہ دکھانے کے لئے ایک ہی قسم کے حالات میں بعض دفعہ، بعض اوقات مومن متقی کی کوشش کو زیادہ پھل لگاتا ہے۔ مثلاً زمیندارہ میں بظاہر ایک جیسی نظر آنے والی فصل دعاؤں کی وجہ سے زیادہ پیداوار دے جاتی ہے۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب سندھ میں زمینیں آباد کیں تو نگرانی کے لئے شروع شروع میں بعض بزرگوں کو بھی بھیجا۔ اُن میں ایک حضرت مولوی قدرت اللہ صاحب سنوری تھے۔ ایک دفعہ پہلے بھی مَیں بیان کر چکا ہوں کہ ایک دفعہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ دورہ پر تشریف لے گئے۔ کپاس کی فصل دیکھ رہے تھے تو انہوں نے حضرت مولوی صاحب سے پوچھا، یہ صحابی بھی تھے کہ کیا اندازہ ہے، اس میں سے کتنی فصل نکل آئے گی۔ انہوں نے اپنا جو اندازہ بتایا وہ، حضرت مرزا بشیر احمد صاحب وغیرہ جو ساتھ تھے، اُن کے خیال میں یہ غلط تھا۔ تو وہ یا غالباً درد صاحب دونوں باتیں کرنے لگے کہ حضرت مولوی صاحب کچھ زیادہ اندازہ بتا رہے ہیں۔ حضرت مولوی صاحب نے اُن کی باتیں سُن لیں۔ انہوں نے کہا کہ میاں صاحب! جو اندازہ مَیں بتا رہا ہوں انشاء اللہ تعالیٰ کم از کم اتنا ضرور نکلے گا کیونکہ میں نے ان کھیتوں کے چاروں کونوں پر نفل ادا کئے ہوئے ہیں۔ مجھے اس بات پر یقین ہے کہ میرے نفل اس پیداوار کو بڑھائیں گے۔ چنانچہ اُتنی پیداوار نکلی۔

(ماخوذاز سیرت احمد از حضرت قدرت اللہ صاحب سنوری ؓ صفحہ2 مطبوعہ 1962ء)

تو اللہ تعالیٰ ایک ہی طرح کے موسمی حالات میں، ایک ہی طرح کے فصلوں میں جو اِن پُٹس (Inputs) ڈالے جاتے ہیں، جو کھاد، بیج وغیرہ چیزیں ڈالی جاتی ہیں، اُن کے باوجود دعاؤں کے طفیل اپنے ہونے کا ثبوت دیتا ہے اور پیداوار میں اضافہ کرتا ہے۔

دنیا کے معاملات میں بھی ایک متقی کو اللہ تعالیٰ کی معیت کا ثبوت مل جاتا ہے۔ لیکن اس مادّی دنیا کے علاوہ خدا تعالیٰ پر یقین رکھنے والے، اُس پر کامل ایمان رکھنے والے شخص کی ایک روحانی دنیا بھی ہے جس کے فائدے، جس کی لذات دنیا والوں کو نظر نہیں آتیں اور نہ آ سکتی ہیں۔ ان لوگوں کی سوچ بہت بلند ہوتی ہے جو تقویٰ پر چلنے والے ہیں۔ وہ اس دنیا سے آگے جا کر بھی سوچتے ہیں۔ غیب پر ایمان لاتے ہیں۔ آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ خدا تعالیٰ کے وعدوں پر کامل ایمان اور یقین ہوتا ہے۔ جب دعا کے لئے ہاتھ اُٹھاتے ہیں تو قبولیت کے نشان دیکھتے ہیں۔ اس زمانے میں خدا تعالیٰ سے سچا تعلق جوڑنے کے یہ طریق اور اسلوب ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے سکھائے۔ بہت سے احمدی ہیں جو اللہ تعالیٰ سے اپنے تعلق کا تجربہ رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے سچے تعلق کی وجہ سے خواب، رؤیا، کشف وغیرہ کی صورت میں اللہ تعالیٰ اُنہیں بتاتا ہے کہ اس طرح ہو گا اور اُس طرح بالکل ویسے ہو جاتا ہے۔ پھر اس معیت کا یہ مطلب بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مرنے کے بعد کی زندگی کے انعامات کے جو وعدے فرمائے ہیں وہ بھی پورے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تقویٰ پر قائم رہے تو اس دنیا کے انعامات بھی حاصل کرو گے اور اخروی زندگی کے بھی۔ پس یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ متقی اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے جب کوئی عمل کرتا ہے تو دنیا و آخرت کی حسنات اُسے ملتی ہیں۔

(خطبہ جمعہ 3 فروری 2012ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 اگست 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 اگست 2021