• 5 مئی, 2024

جلسہ سالانہ کی اغراض و برکات

اسلام نے مسلمانوں کے اتحاد اور آپس میں بھائی چارہ پیدا کرنے کے لئے بہت سے مواقع فراہم کئے ہیں۔ نہ صرف مواقع فراہم کئے بلکہ آپس میں ایک دوسرے سے ملنے اور اجتماعی طور پر ترقی کرنے کے لئے ملنے کو ضروری قرار دیا ہے۔ ہم اپنی زندگی میں روز مرہ کی مثال لے کر ہی سمجھ سکتے ہیں کہ آپس میں ملنا کس قدر انسان کی دینی اور دنیاوی ترقی کے لئے ضروری ہے۔ ایک دنیا دار تاجر ہو یا کوئی دکاندار یا کوئی کسی بھی پیشے سے تعلق رکھتا ہو، اسکا سوشل ہونا اسکی ظاہری ترقی کے لئے کم و بیش ضروری ہے اس طرح ہمارا مسلمان بھائیوں سے ملنا ہماری دینی ترقی کے لئے ضروری ہے۔

پنج وقتہ نمازیں باجماعت رکھنے میں جہاں یہ غرض ہے کہ ایک امام کی اطاعت کے ذریعہ آپس میں اتحاد پیدا ہو وہاں ایک غرض یہ بھی ہے کہ اپنے دوسرے بھائیوں سے مل کر ایمان کو تازہ کریں۔ اگر ایک بھائی تھوڑا کمزور ہے تو ممکن ہے کہ وہ دوسرے بھائی سے مل کے اپنی کمزوریوں پر غور کرے اور اپنےایمان کو بڑھائے۔

پھر جمعہ کی نماز کا اہتمام ہے، جہاں روز پانچ وقت قریب کی مسجد میں ملنے کا موقعہ ملتا ہے وہاں جمعہ کے روز دیگر ایسے بھائیوں سے ملنے کا موقع بھی ملتا ہے جو کسی مجبوری سے مسجد روز تو نہ آسکے، یا جو دور دراز کے علاقوں میں رہتے ہیں ان سے کم سے کم جمعہ کے روز ہی ملاقات ہو سکے۔ اسی طرح عید کی نمازوں میں بھی ایک غرض یہی نظر آتی ہے کہ پورے شہر کے لوگ ایک جگہ اکٹھے ہوں اور ایک دوسرے سے مل کر ایمانی ترقی کا باعث بنیں اور ایک دوسرے سے تعارف ہو سکے۔ پھر حج کا موقع رکھا گیا جہاں دور درازکے علاقوں سے مسلمان اکٹھے ہو کر ایک خدا کی عبادت میں مشغول ہوں اور آپس میں بھائی چارہ قائم ہو۔

غرض اسلام نے ہر جگہ اس بات کا لحاظ رکھا کہ مسلمانوں کی ایک مضبوط جماعت قائم کرنے کے لئے آپس میں ایک دوسرے سے ملنے کے مواقع پیدا کئے جائیں چنانچہ جیسے بیان کیا گیا، اجتماعی عبادات میں ایک غرض یہ ہی نظر آتی ہے۔

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ انسانوں کے اس باہمی اتحاد اور تعارف کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے:

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقۡنٰکُمۡ مِّنۡ ذَکَرٍ وَّاُنۡثٰی وَجَعَلۡنٰکُمۡ شُعُوۡبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوۡا ؕ اِنَّ اَکۡرَمَکُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ اَتۡقٰکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیۡمٌ خَبِیۡرٌ ﴿۱۴﴾

(الحجرات: 14)

اے لوگو! یقیناً ہم نے تمہیں نر اور مادہ سے پیدا کیا اور تمہیں قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بلا شبہ اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ متّقی ہے۔ یقیناً اللہ دائمی علم رکھنے والا (اور) ہمیشہ باخبر ہے۔

اس آیتِ قرآ ن کریم سے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ انسان کے رنگوں، اقوام، تہذیب میں اختلاف کا مقصد یہ ہے کہ ایک دوسرے کو ملیں، دیکھیں، پرکھیں اور سمجھ کر آپس میں اخلاقی برتاوٴکو رواج دیا جائے، نیز یہ کہ کسی قوم یا رنگ کی وجہ سے کسی کو بھی افضلیت حاصل نہیں بلکہ افضل وہی ہے جو متقی ہے۔ ایک متقی نہ صرف اپنی اندرونی حالت کو بدلتا بلکہ اعلیٰ اخلاقیات کا بھی نمونہ پیش کرتا ہے، اُس کے سامنے خواہ کوئی کسی قوم سے تعلق رکھنے والا شخص ہو۔ یہ سب اس صورت میں ہوسکتا ہے کہ انسان اپنے بھائیوں سے ملے۔ پھر اس کے علاوہ انسان دوسروں سے تعارف کے ذریعہ اُن مختلف عادات اور اخلاقیات کو بھی سیکھتا ہے جو دیگر لوگوں میں پائے جاتے ہیں۔ اور جیسا کہ آیت میں ذکر ہے، ایک متقی اللہ تعالیٰ کی نظر میں افضل ہے، اسکی افضلیت سے دوسرے ملنے والے انسان بھی ضرور سیکھیں گے، حصہ پائیں گے اور فائدہ اٹھائیں گے۔

اسی وجہ سے اسلام میں اچھی صحبت میں رہنے کی تلقین کی گئی ہے کہ انسان کی طبیعت پر دوسرے انسانوں کا اثرہوتا ہے۔

حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ بیان فرماتے ہیں:
’’شاہ جی عبد الرزاق صاحب ایک بزرگ تھے میں ان کی خدمت میں اکثر جایا کرتا تھا ایک زمانہ میں مجھ سے سستی ہوئی اور کچھ دنوں کے بعد ان کی خدمت میں پہنچا تو انہوں نے فرمایا کہ نور الدین! تم بہت دنوں میں آئے۔ اب تک کہاں تھے؟ میں نے عرض کیا کہ حضرت ہم طالب علموں کو اپنے درس تدریس کے اشغال سے فرصت بھی کم ہی ملتی ہے۔ کچھ سستی بھی ہوئی۔ فرمانے لگے: ’’کبھی تم نے قصاب کی دکان بھی دیکھی ہے؟ میں نے عرض کیاکہ ’’ہاں اکثر اتفاق ہوا ہے۔‘‘ فرمایا کہ ’’تم نے قصاب دیکھا ہوگا کہ گوشت کاٹتے کاٹتے جب اس کی چھریاں کند ہو جاتی ہیں تو وہ دونوں چھریاں لے کر ایک دوسری سے رگڑتا ہے چھریوں کی دھار پر جو چربی جم جاتی ہے اس طرح رگڑنے سے وہ دور ہو جاتی ہے اور قصاب پھر گوشت کاٹنے لگتا ہے اور اسی طرح تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد چھریوں کو آپس میں رگڑ رگڑ کر تیز کرتا رہتا ہے۔‘‘ میں نے عرض کیا کہ ہاں حضرت یہ سب کچھ دیکھا ہے مگر آپ کا اس سے کیا مطلب ہے؟ فرمایا ’’کچھ ہم پر غفلت کی چربی چھا جاتی ہے کچھ تم پر، جب تم آجاتے ہو تو کچھ تمہاری غفلت دور ہو جاتی ہے کچھ ہماری اور اس طرح دونوں تیز ہو جاتے ہیں۔پس ہم سے ملتے رہا کرو اور زیادہ عرصہ جدائی اور دوری میں نہ گزارا کرو‘‘

حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ بیان فرماتے ہیں کہ ان کی اس بات نے مجھے بہت ہی بڑے بڑے فائدے پہنچائے اور ہمیشہ مجھ کو یہ خواہش رہی کہ نیک لوگوں کے پاس آدمی کو جا کر ضرور بیٹھنا چاہئے اس سے بڑی بڑی سستیاں دور ہو جاتی میں۔

(مرقات الیقین فی حیات نور الدین صفحہ79-80)

غرض جلسہ سالانہ کے قیام کی بنیاد رکھنے کی وجہ جہاں دیگر اہم امور بھی ہیں، وہاں یہ امر بھی نہات ضروری ہے جس کی مثال حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کی زندگی سے بیان کی گئی۔

جلسہ سالانہ کی غرض بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا:
’’اس جلسہ کے اغراض میں سے بڑی غرض تو یہ ہے کہ تا ہر ایک مخلص کو بالواجہ دینی فائدہ اٹھانے کا موقع ملے اور ان کے معلومات وسیع ہوں اور خدا تعالیٰ کے فضل و توفیق سے ان کی معرفت ترقی پذیر ہو۔ پھر اس کے ضمن میں یہ بھی فوائد ہیں کہ اس ملاقات سے تمام بھائیوں کا تعارف بڑھے گا اور اس جماعت کے تعلقات اخوت استحکام پذیر ہوں گے۔‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلد1 صفحہ340)

جلسہ کی اغراض جو یہاں بیان کی گئی ہیں ان میں دینی ترقی، علمی ترقی، معرفت میں ترقی اور باہم تعارف و تعلقات میں ترقی ہے۔

اس سال جہاں افراد جماعت مختلف ممالک میں جلسوں میں شامل ہو رہے ہیں وہ اس بات کو خوب یا رکھیں کہ ان جلسوں کا مقصد کیا ہے۔ بعض اوقات افراد جماعت جلسوں کی تقاریر سے وہ فائدہ نہیں اٹھاتے جو اٹھانا چاہیئے۔ اور آپس میں صرف بات چیت میں وقت گزر جاتا ہے۔ گو جیسے کہ بیان ہوا آپس میں تعلقات کو پختہ کرنا بھی ان جلسوں کا مقصد ہے مگر ہر مقصد کو اپنے وقت اور محل پر حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے نہ یہ کہ ایک کی قربانی کر دی جائے۔

تقاریر سننے سے انسان کے علم، معرفت، اور اخلاقیات میں ترقی ہوتی ہے جس کا فائدہ نہ صرف خود کو ہوتا ہے بلکہ ملنے والے دیگر انسانوں کو بھی ہوتا ہے۔

پھر یہ کہ ان جلسوں میں جہاں خدا تعالیٰ کا ذکر ہو، قبولیت دعا کا وقت بھی ہوتا ہے۔ کیونکہ ایسی مجالس جہاں اللہ تعالیٰ کا ذکر ہو، ان مجالس کو فرشتے اپنے پروں کے نیچے لے لیتے ہیں، اور شاملین کے لئے مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔ لمبی حدیث ہے مگر اس کے ہر پہلو کو اگر ہم جلسہ سالانہ کو سامنے رکھ کر غور کریں تو ضرور ہم اپنے آپ کو خوش نصیب تصور کریں گے۔

آنحضرت ﷺ نے فرمایا:

إِنَّ لِلّٰهِ تَبَارَكَ وَتَعَالٰى مَلَآئِكَةً سَيَّارَةً فُضُلًا يَّتَتَبَّعُونَ مَجَالِسَ الذِّكْرِ فَإِذَا وَجَدُوا مَجْلِسًا فِيهِ ذِكْرٌ قَعَدُوا مَعَهُمْ وَحَفَّ بَعْضُهُمْ بَعْضًا بِأَجْنِحَتِهِمْ حَتّٰى يَمْلَئُوا مَا بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ السَّمَآءِ الدُّنْيَا فَإِذَا تَفَرَّقُوا عَرَجُوا وَصَعِدُوا إِلَى السَّمَآءِ قَالَ فَيَسْأَلُهُمْ اللّٰهُ عَزَّ وَجَلَّ وَهُوَ أَعْلَمُ بِهِمْ مِنْ أَيْنَ جِئْتُمْ فَيَقُولُونَ جِئْنَا مِنْ عِنْدِ عِبَادٍ لَكَ فِي الْأَرْضِ يُسَبِّحُونَكَ وَيُكَبِّرُونَكَ وَيُهَلِّلُونَكَ وَيَحْمَدُونَكَ وَيَسْأَلُونَكَ قَالَ وَمَاذَا يَسْأَلُونِي قَالُوا يَسْأَلُونَكَ جَنَّتَكَ قَالَ وَهَلْ رَأَوْا جَنَّتِي قَالُوا لَآ أَيْ رَبِّ قَالَ فَكَيْفَ لَوْ رَأَوْا جَنَّتِي قَالُوا وَيَسْتَجِيرُونَكَ قَالَ وَمِمَّ يَسْتَجِيرُونَنِي قَالُوا مِنْ نَارِكَ يَا رَبِّ قَالَ وَهَلْ رَأَوْا نَارِي قَالُوا لَا قَالَ فَكَيْفَ لَوْ رَأَوْا نَارِي قَالُوا وَيَسْتَغْفِرُونَكَ قَالَ فَيَقُولُ قَدْ غَفَرْتُ لَهُمْ فَأَعْطَيْتُهُمْ مَا سَأَلُوا وَأَجَرْتُهُمْ مِمَّا اسْتَجَارُوا قَالَ فَيَقُولُونَ رَبِّ فِيهِمْ فُلَانٌ عَبْدٌ خَطَّآءٌ إِنَّمَا مَرَّ فَجَلَسَ مَعَهُمْ قَالَ فَيَقُولُ وَلَهٗ غَفَرْتُ هُمُ الْقَوْمُ لَا يَشْقٰى بِهِمْ جَلِيسُهُمْ

کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے کچھ فضیلت رکھنے والے فرشتے چکر لگاتے رہنے والے ہیں جو ذکر کی مجالس تلاش کرتے رہتے ہیں۔ جب وہ کوئی ایسی مجلس پاتے ہیں جس میں (اللہ تعالیٰ کا) ذکر ہو رہا ہو تو ان کے ساتھ بیٹھ جاتے ہیں اور اپنے پروں سے انہیں گھیر لیتے ہیں یہانتک کہ جو کچھ ان کے اور ور لے آسمان کے درمیان ہے اس کو بھر دیتے ہیں۔ پھر جب لوگ منتشر ہو جاتے ہیں تو وہ (فرشتے) بھی اوپر چڑھتے اور آسمان تک جا پہنچتے ہیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا پھر اللہ عز وجل ان سے سوال کر تا ہے۔ حالانکہ وہ ان سے زیادہ جانتا ہے۔ تم کہاں سے آئے ہو ؟ تب وہ کہتے ہیں ہم تیرے بندوں کے پاس سے آئے ہیں جو زمین میں ہیں وہ تیری تسبیح اور تیری بڑائی بیان کر رہے تھے۔ تیری تہلیل (لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کا ورد) اور تیری حمد بیان کر رہے تھے اور تجھ سے مانگ رہے تھے۔ اللہ فرماتا ہے وہ مجھ سے کیا مانگ رہے تھے؟ وہ (فرشتے) عرض کرتے ہیں وہ تجھ سے تیری جنت مانگ رہے تھے۔ وہ (اللہ) فرماتا ہے کیا انہوں نے میری جنت دیکھی ہے؟ وہ (فرشتے) عرض کرتے ہیں نہیں اے میرے رب! اللہ فرماتا ہے کیا حال ہواگر وہ میری جنت دیکھ لیں۔ وہ عرض کرتے ہیں وہ تجھ سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔ وہ (اللہ) فرماتا ہے وہ کس چیز سے پناہ چاہتے ہیں۔ وہ (فرشتے) عرض کرتے ہیں یا رب! تیری آگ سے۔ اللہ فرماتا ہے کیا انہوں نے میری آگ دیکھی ہے؟ وہ (فرشتے) عرض کرتے ہیں نہیں۔ وہ (اللہ) فرماتا ہے کیا حال ہو اگر وہ میری آگ دیکھ لیں۔ تب وہ (فرشتے) عرض کرتے ہیں وہ تجھ سے بخشش طلب کرتے ہیں۔ حضور ﷺفرماتے ہیں پھر اللہ فرماتا ہے میں نے انہیں بخش دیا اور جو انہوں نے مانگا میں نے انہیں عطا کیا اور جس چیز سے انہوں نے پناہ طلب کی میں نے انہیں پناہ دی۔ حضور ﷺ فرماتے ہیں اس پر وہ (فرشتے) عرض کرتے ہیں یارب! ان میں فلاں سخت خطا کار شخص بھی تھا جو وہاں سے گذرا تو ان کے پاس بیٹھ گیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا وہ (اللہ) فرمائے گا میں نے اسے بھی بخش دیا کیونکہ یہ ایسے لوگ ہیں ان کی بدولت ان کے پاس بیٹھنے والا بے نصیب نہیں رہتا۔

(مسلم کتاب الذکر)

اسی طرح ایک اور حدیث میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا:

اِرْتَعُوا فِی رِیَاضِ الْجَنَّةِ قَالُوا:یَا رَسُولَ اللّٰهِ (صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ)! وَ مَا رِیَاضُ الْجَنَّةِ؟ قَالَ مَجَالِسُ الذِّکْرِ اغْدُوا وَ رَوِّحُوا وَ اذْکُرُوا وَ مَنْ کَانَ یُحِبُّ أَنْ یَّعْلَمَ مَنْزِلَتَهٗ عِنْدَ اللّٰهِ فَلْیَنْظُرْ کَیْفَ مَنْزِلَهُ اللّٰهِ عِنْدَهٗ فَإِنَّ اللّٰهَ تَعَالَی یُنْزِلُ الْعَبْدَ حَیْثُ أَنْزَلَ الْعَبْدُ اللّٰهَ مِنْ نَفْسِهٖ وَ اعْلَمُوا أَنَّ خَیْرَ أَعْمَالِکُمْ عِنْدَ مَلِیکِکُمْ وَ أَزْکَاهَا وَ أَرْفَعَهَا فِی دَرَجَاتِکُمْ وَ خَیْرَ مَا طَلَعَتْ عَلَیْهِ الشَّمْسُ ذِکْرُ اللّٰهِ تَعَالٰی فَإِنَّهٗ تَعَالٰی أَخْبَرَ عَنْ نَفْسِهٖ

فرمایا جنت کے باغوں میں چرنے کی کوشش کرو ہم نے عرض کیا۔ یار سول اللہ! جنت کے باغ سے کیا مراد ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا ذکر کی مجالس۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ صبح اور شام کے وقت اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو۔ جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اسے اس قدر و منزلت کا علم ہو جو اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی ہے تو وہ یہ دیکھے کہ اللہ تعالیٰ کے متعلق اس کا کیا مقام و مرتبہ ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی ایسی ہی قدر کر تا ہے جیسی اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی ہے۔

(رسالہ فشریعہ باب الذکر)

پھر جلسہ سالانہ کی اغراض میں سے ایک غرض یہ بھی ہے کہ اسلام کا پیغام دنیا میں پہنچایا جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جہاں جلسہ سننے سے افراد جماعت کو فائدہ ہوتا ہے وہاں دین اسلام کا پیغام بھی دوسروں تک پہنچتا ہے۔ خاص طور پر ایسے مہمان جن کو اس جلسہ میں مدعو کیا جاتا ہے یا ٹی وی اور اخبارات کے ذریعہ اس جلسہ کی تشہیر کے ذریعہ لوگوں تک اسلام احمدیہ کا پیغام پہنچایا جاتا ہے۔

حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا:
’’اور مکرر لکھا جاتا ہے کہ اس جلسہ کو معمولی انسانی جلسوں کی طرح نہ خیال کریں۔ یہ وہ امر ہے جس کی خالص تائید حق اور اعلائے کلمہ اسلام پر بنیاد ہے۔‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلد1 صفحہ341)

پس ان جلسوں میں شامل ہونا اورپر جوش طریق پر ان جلسوں کو سننا، یقینا ہمارے لئے فلاح کا موجب ہے۔ جہاں علمی، اخلاقی، معرفتی اور روحانی ترقی ہو رہی ہو گی وہاں حدیث کی رو سے یہ کہنا بھی درست ہوگا کہ ان میں شامل ہونا ہمارے لئے مغفرت کا باعث ہے، بشرطیکہ ان میں ہم پورے دل سے شامل ہوں اور نیت اور دعا یہ ہو کہ اللہ تعالیٰ ہماری ان جلسوں کے ذریعہ مغفرت فرمائے۔ نیز ہم اپنے جن بھائیوں کو مل رہے ہیں ان کے ساتھ بھی ایک عمدہ تعلق اور بھائی چارہ قائم رہے۔ نیز کوشش یہ بھی ہونی چایئے کہ ایسے بھائیوں سے بھی ملیں جن کو ہم نہیں جانتے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان جلسات سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

(اسفند سلیمان احمد۔ مبلغ سلسلہ کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 اگست 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ