• 4 مئی, 2024

ناصرات الاحمدیہ کا قیام اور اس کے مقاصد

ربّ ذوالجلال کا بے انتہا احسان اور فضل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایسی مضبوط و مربوط جماعت سے نوازا کہ جو تنظیمی ڈھانچے کےلحاظ سے موتیوں کی ایک لڑی میں خوبصورتی سے پروئی گئی ہے۔ جماعت احمدیہ کا ہر بچہ جونہی ماں کی گود سے باہر کی دنیا سے متعارف ہوتا ہے تو جماعت کی تربیتی تنظیمیں اسے ایک باعمل انسان اور باوقار شہری بنانے کے لیے اپنی دینی و دنیاوی تربیت گاہ کا فرض ادا کرتے ہوئے ایک ماں کی طرح اپنی گود میں بھر لیتی ہیں کیونکہ بچے سب کے سانجھے ہوتے ہیں۔ ایک پرانی کہاوت ہے کہ ایک بچے کی اچھی تربیت صرف ماں باپ ہی نہیں بلکہ سارا گاؤں مل کر کرتا ہے۔

آنحضرتﷺ نے فرمایا ہےکہ جس کی دو بیٹیاں ہوں اور وہ ان کی بہترین تعلیم و تربیت کرے وہ اور میں جنت میں ایسے ساتھ ہوں گے، پھر آپ ﷺنے اپنی شہادت کی انگلی کے ساتھ دوسری انگلی کھڑی کر کے اشارہ کر کے کہا کہ ایسے۔ اتنی بڑی خوش خبری صرف بیٹیوں کے ماں باپ کو ہی سنائی گئی ہے وہ اس لیے کہ آقائے دو جہاںﷺ دنیا کے لیے جوروشنی کا پیغام لے کر آئے تھے اس نے عورت کو اس کااصل مقام دیا او ر ماں باپ کو اپنے فرائض ادا کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے اپنی اولاد خصوصاً لڑکیوں کے ساتھ بہترین برتاؤ اور اچھی تربیت دینے کا حکم دیا ہے کیونکہ آج کی کونپلیں کل کی آنے والی نسلوں کی درس گاہیں ہوں گی اور بچوں کی ابتدائی عمر میں ان کا ذہن خالی سلیٹ کی مانند ہوتا ہے جو کچھ اس میں ڈالا جائے گا پتھر کی لکیر کی طرح ان کے ذہنوں پر منقش ہو گا وہ زندگی بھر باقی رہے گا۔ جب معمار پہلی اینٹ ہی ٹیڑھی رکھے گا تو ساری عمارت ہی ٹیڑھی ہو گی اسی لیے حضرت مصلح موعودؓ نے 1944ء میں فرمایا کہ اگر پچاس فیصد عورتوں کی اصلاح کرلو تو دنیا میں اسلام کی فتح یقینی طور پر مقدر ہو گی۔ پھر آپؓ نے فرمایا کہ لڑکیوں کی تعلیم کے لئے از حد ضروری ہےاس کے لئے ان کی آواز بلند عزم اور طاقت سے بھر پور ہونی چائیے، ان کی آواز میں نرمی اور ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہیے۔

ناصرات الاحمدیہ کا آغاز، تعارف، قیام،
ایک خواب سے حقیقت تک کا سفر

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ المصلح الموعود نے جماعتی تنظیمات کی داغ بیل ڈال کر جماعت احمدیہ پر ایک عظیم احسان کیا۔ آپؓ نے عورتوں کی فلاح و بہبود نیز دینی ودنیاوی تعلیم میں ترقی دینے کے خیال سے جماعت کی ذیلی تنظیم لجنہ اما٫ اللہ کی بنیاد 15دسمبر 1922ءکو ڈالی جس کی پہلی صدر حضرت سیدہ ام ناصرؓ( حرم حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ) نامزد ہوئیں۔ اس طرز کی تنظیم کا خواب و خیال ہی اس وقت کی عورت کے لیے بہت دور کی کوڑی لانے کے مترادف تھا۔ لجنہ اماءاللہ کے قیام نے احمدی عورتوں میں علم اور عمل کے میدان میں ایک دوسرے سے بڑھ کر سبقت لے جانے کا وہ جذبہ پیدا کیا کہ انہیں دیکھ کر جماعت احمدیہ کی چھوٹی بچیوں کے دل میں نیکی کے میدانوں کو عبور کرنے کے خیالات اور اپنی علیحدہ تنظیم بنانے کی عملی خواہش نے جنم لینا شروع کردیا۔ اس بارہ میں حضرت مصلح موعودؓ کی صاحبزادی امۃالرشید صاحبہ فرماتی ہیں کہ لجنہ اماء اللہ کے قیام کے کچھ سالوں کے بعد ناصرات الاحمدیہ کی بنیاد ڈالی گئی جو کہ سات سے پندرہ سال تک کی بچیوں کی تنظیم ہے۔ جب لجنہ اماء اللہ کی تنظیم قائم ہوئی اور ان کے اجلاسات ہوتے تھے تو ہم بچیاں باہر کھیلتی رہتی تھیں۔ ایک دن میں نے ان کو اکھٹا کیا۔ اندر کمرے میں لجنہ کا اجلاس ہو رہا تھا میں نے باہر تخت پوش پر سب بچیوں کو بٹھایا اور کہا آؤ ہم بھی اجلاس کرتے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد حضرت مصلح موعودؓ  تشریف لائے ہمیں دیکھا تو پوچھا کیا ہو رہا ہے؟ میں نے کہا ہم چھوٹی لجنہ ہیں اور ہم اپنا اجلاس کر رہی ہیں۔ آپؓ بہت خوش ہوئے اور ہمیں ’’ناصرات الاحمدیہ‘‘ کا نام دیا جس کے لغوی معنی ’’احمدیت کی مددگار بچیاں‘‘ ہیں۔ ابتدائی طور پر جولائی 1928ء میں صاحبزادی امۃ الحمید صاحبہ بنت حضرت مرز ابشیر احمدؓ کی کوشش سے چھوٹی لجنہ قائم ہوئی اور کچھ عرصہ بعد صاحبزادی امۃ الرشید صاحبہ کی تحریک پر ناصرات الاحمدیہ کی تنظیم کی بنیاد پڑی۔ چوہدری خلیل احمد ناصر صاحب سابق انچارج احمدیہ مشن امریکہ کا بیان ہے کہ، صاحبزادی امة الرشید صاحبہ نے مجھ سے ایک سے زائد مرتبہ کہا کہ خدام الاحمدیہ کی تنظیم کی طرز پر احمدی لڑکیوں کی تنظیم قائم ہونی چائیے۔ چناچہ باہم مشورہ کے بعد طے پایا کہ صاحبزادی موصوفہ ایک خط کے ذریعہ سے حضور ؓسے سفارش کریں اور یہ بھی گذارش کریں کہ اس تنظیم کا نام بھی حضور خود تجویز فرمائیں۔ اس خط کا مسودہ تیار کرنے میں خاکسار کو خدمت کا موقع ملا۔ صاحبزادی امة الرشید صاحبہ کی کوششوں سے ہی ’’ناصرات الاحمدیہ‘‘ جو کہ لجنہ اماء اللہ کی تنظیم کا ہی ایک حصہ ہے کی بنیاد پڑی اس تنظیم کے مقاصد میں یہی شامل ہے کہ ایک بچی جب پندرہ سال کی عمر تک پہنچ کر لجنہ اماء اللہ کا حصہ بنے تو اسں کی بنیادی تربیت اس درجہ تک ہو کہ بالغ عمری میں وہ عورتوں کی دینی اور دنیاوی ترقی میں نمایاں کردار ادا کرے اور معاشرے میں ان کے کھوئے گئے حقوق کے حق میں آواز بھی بلند کرے اوراپنے کردار اور عمل سے ان کو ان کا وہ مقام و مرتبہ جو اسلام نے انہیں عطاء کیا ہے یاد دلائے۔ اس تنظیم کی سربراہ ملکی اور مقامی سطح پرسیکرٹری ناصرات کہلاتی ہے۔ ایک ناصرہ پندرہ سال کی شعوری عمر تک اپنی تنظیم سے منسلک رہنے کی تربیت پا کر وہ لجنہ اماء اللہ کی تنطیم میں قدم رکھ دیتی ہے۔

ناصرات الاحمدیہ عمر کے لحاظ سے تین درجوں میں منقسم ہے۔

  1. سات سے دس سال کی بچیاں۔قانتات، فرماں برداری اختیار کرنے والیاں۔
  2. دس سے بارہ سال کی بچیاں۔صادقات، سچ اور حق کا ساتھ دینے والیاں۔
  3. بارہ سے پندرہ سال کی بچیاں۔ محصنات، نیکیوں میں آگے بڑھنے والیاں۔

ناصرات الاحمدیہ کا نصب العین (Motto)

(Modesty) اپنے لباس، رہن سہن اور آداب زندگی میں ’’شائستگی‘‘ اختیار کرنا ہے۔

بخاری کی حدیث میں آیا ہے کہ شائستگی اختیار کرنا ایمان کا حصہ ہے۔

ناصرات الاحمدیہ کا عہد

اَشْھَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

میں اقرارکرتی ہوں کہ اپنے مذہب، قوم اور وطن کی خدمت کے لیے ہر وقت تیار رہوں گی اور سچائی پر ہمیشہ قائم رہوں گی۔ ان شاء اللہ

1945ء میں باقاعدہ تنظیم کا آغاز ہوا اور صاحبزادی طیبہ صدیقہ بیگم صاحبہ پہلی سیکرٹری ناصرات الاحمدیہ مقرر ہوئیں۔ 1955ء میں محترمہ امۃاللطیف خورشید صاحبہ سیکرٹری ناصرات مقرر ہوئیں کام کو آگے بڑھایا اور سال بھر کا مقررہ نصاب وضع کیا گیا۔ بیرونی مقامات اور ربوہ میں اس پر عمل کرنے کے لئے بذریعہ دورہ جات، خطوط، اعلانات، مصباح و الفضل و سر کلر توجہ دلائی جاتی رہی۔ متعدد مقامات پر ناصرات الاحمدیہ کا قیام عمل میں آیا اور کئی جگہ احیا٫ کیا گیا۔ اجلاسوں کے لیے تفصیلی پروگرام مقرر کیا گیا جس کی اہم شقیں یہ تھیں۔

  • تلاوت: قرآن کریم کی تلاوت ہر بچی کے لیے لازمی تھی اور قرآن کریم کا شروع سے آخر تک دور مکمل کیا جائے اور غلطیوں کی درستی کی جائے۔
  • نظم: درثمین اور کلام محمود سے نظمیں پڑھی جائیں اور ان کے معنی بتائیں جائیں۔
  • کہانی: حضرت مسیح موعودؑ کی زندگی کے واقعات کہانی کے رنگ میں سنائی جائیں۔
  • تقاریر: سادہ اور عام فہم انداز میں مختلف عناوین پر زبانی تقاریر کروائی جائیں۔
  • سوال و جواب: آسان اور دلچسپ رنگ میں سوالات اور ان کے جوابات بتائے جائیں۔
  • امتحانات: مقررہ نصاب میں سے کچھ حصہ مقرر کر کے اس کا امتحان لیا جائے مثلاً نماز سادہ و باترجمہ، چہل احادیث، ادعیۃ الرسول ﷺ کی مسنون دعائیں، درثمین، کلام محمود کی نظمیں، اور سیرت حضرت مسیح موعودؑ و مصلح موعودؓ۔
  • یوم مسیح موعود، یوم مصلح موعود اور سیرۃ النبیﷺ کے جلسے منعقد کروائے گئے۔

ناصرات الاحمدیہ کے سالانہ اجتماعات کا آ غاز

1958ء میں ناصرات الاحمدیہ کی سیکرٹری صاحبزادی امۃالباسط صاحبہ مقرر ہوئیں اور کام کو منظم کیا گیا اور سات حلقہ جات بنائے گئے۔ ناصرات الاحمدیہ نے دوسرے شعبہ جات میں بھی نمایاں ترقی کی اور اسی سال ناصرات الاحمدیہ کا کام نصرت گرلز اسکول کے سپرد کیا گیاجنہوں نے صاحبزادی امۃالباسط صاحبہ کی نگرانی میں نمایاں کام کیا۔

ناصرات الاحمدیہ کا پہلا اجتماع

تاریخ لجنہ اماء اللہ جلد دوم میں رقم ہے کہ 1955ء میں محترمہ امۃ اللطیف خورشید صاحبہ سیکرٹری ناصرات الاحمدیہ مرکزیہ ربوہ مقرر ہوئیں تو آپ کی تحریک پر مسجد احمدیہ دہلی دروازہ لاہور میں ناصرات الاحمدیہ کا پہلا اجتماع پاکستان بننے کے بعد منعقد ہوا چونکہ یہ اجتماع کا پہلا موقع تھا اس لیے موصوفہ نے دو دن قبل لاہور تشریف لا کر اپنی نگرانی میں ساری تیاری کروائی اور پروگرام مرتب کیا۔ اس اجتماع میں ناصرات الاحمدیہ کے تلاوت، نظم، اور تقریری مقابلوں کے علاوہ عام دینی معلومات کا بھی امتحان لیا گیا۔

1955ء میں جب ناصرات کا کام باقاعدگی کے ساتھ شروع ہو گیا تو جلسوں اور عام دینی معلومات کے مقابلوں میں بچیوں کی غیر معمولی حاضری اور دل چسپی اور شوق کو دیکھ کر فیصلہ کیا گیا کہ ان کا سالانہ اجتماع منعقد کیا جایا کرے۔ فیصلہ کیا گیا کہ 1956ء میں سالانہ امتحانوں کے بعد اجتماع منعقد ہو لیکن امتحانات کی طوالت کے باعث یہ اجتماع اکتوبر میں منعقد ہو سکا۔ اس اجتماع کی تیاری اور انتظامی امور کی سر انجام دہی میں محترمہ سیّدہ نصیرہ بیگم، محترمہ بیگم صاحبہ مرزا عزیز احمد صاحب، محترمہ بیگم صاحبہ مرزا منور احمد صاحب، محترمہ امۃالرشید شوکت صاحبہ، محترمہ استانی حمیدہ صابرہ صاحبہ نے تعاون کیا اور خاص مشورے دئیے۔ ناصرات کے لیے محلے دار بیٹھنے کی جگہ مقرر کی گئی۔ سب بچیوں کے لیے سفید یونیفارم اور دوپٹوں کے مختلف رنگ مقرر کئے گئے۔ اور ہر حلقے کا الگ الگ جھنڈا بنوایا گیا۔ تلاوت، نظم، اور تقریری مقابلوں کے ساتھ کھیلوں کے مقابلے کروائےگئے۔ حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ نے آخر میں انتظامات پر خوشنودی کا اظہار فرماتے ہوئے ناصرات سے خطاب میں عام فہم انداز میں بچیوں میں اطاعت و فرماں برداری کی روح پیدا کرنے کی اہمیت واضح فرمائی اور دعا فرمائی۔ دارالامان ربوہ مرکزیہ میں ہونے والا یہ پہلا اجتماع تھا۔

ہیں دیں کی ناصرات ہم، بہار کائنات ہم

جماعت احمدیہ کی آغوش میں پل کر بڑی ہونے والی ہر بچی کے بچپن کی حسین یادیں ’’ناصرات الاحمدیہ‘‘ کے جلسے، اجتماعات، علمی و دینی اور کھیلوں کےمقابلہ جات کے ساتھ جڑی ہوتی ہیں۔ ان بچیوں کی دینی تعلیم، تربیت، کردار، شخصیت کے اٹھان اور اعتماد میں بلا شبہ ناصرات الاحمدیہ کی تنظیم کا ایک بڑا ہاتھ ہوتا ہے جوان کی ساری زندگی کے بقیہ ادوار میں نظر آتا ہے۔ بچپن سے ہی اطاعت کے جذبے کے ساتھ جماعتی نظام میں تربیتی امور کی ٹریننگ حاصل کرنے کی وجہ سے لجنہ اما٫ اللہ میں پہنچنے تک ان کی شخصیت میں اعتماد اور وقار پیدا ہو جاتا ہے۔ خاکسار کو خود یہ تجربہ ہے کہ اپنے بچپن سے لڑکپن تک کے زمانہ میں ناصرات الاحمدیہ کے دینی علمی مقابلہ جات، اجلاسات میں تقاریر کی وجہ سے جو اعتماد عطا ہوا وہ اس تنظیم سے جڑے رہنے کے بغیر ناممکن تھا، بلکہ اسکول میں اکثر اوقات فوری طور پر بھی اسکول کی اسمبلی میں تقاریر کے لیے کھڑا کر دیا جاتا اور کہا جاتا کہ احمدی بچیوں کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا۔ ایک دفعہ چھوٹی کلاس میں ہی ربوہ میں اجتماع پر گئی تو واپس آ نے کے بعد اس موقع پر کی گئی تقریر ٹیچر نے کلاس میں کھڑا کر کے ساری جماعت کو سنوائی اور خوب شاباش دی۔مجھے یاد ہے کہ میری تقریر کا عنوان ’’پنڈت لیکھرام کی پیشگوئی‘‘ کے بارے میں تھا جو کہ زبانی فر فر یاد تھی۔ یہ جرأت، اعتماد، اور دین کے لیے کچھ بھی کر گزرنے کا جذبہ بلا شبہ ناصرات الاحمدیہ کی تربیت کا مرہون منت تھا۔ چھوٹی چھوٹی بچیوں میں جماعت کے ہر کام کے لیے ایک جوش اور جذبہ ہر وقت موجزن رہتا چاہے وہ چندہ اکھٹا کرنا ہو یا جماعتی پیغام رسانی کا کام ہو، ہر آواز کے لیے سب ہر وقت لبیک کہنے کو تیار رہتیں۔ صدر لجنہ اما٫ اللہ کھاریاں محترمہ ہاجرہ بیگم صاحبہ (اپنے دور کی عالم اور بے نفس خدمت دین کرنے والی خاتون تھیں) کبھی لڑکیو ں کو باری باری بغیر کسی تیاری کے اجلاس میں نظم، تقریر، تلاوت کرنے کا ارشاد بھی فرما دیتیں جو ہم سب فوراً سے پورا کر دیتیں۔ اس طرز طریق سے ہم سب میں بلا کا اعتماد آ گیا کہ فی البدیہہ تقا ریر میں بھی ہم ما ہر ہو گئیں۔یہ حکمت اسی مقصد کے تحت اختیار کی جاتی تھی کہ بولنے میں بلا جھجک مہارت حاصل ہو جائے۔

ناصرات الاحمدیہ کے عہد میں پہلی ترجیح یہ ہے کہ ’’اپنے مذہب ملک اور قوم کی خاطر کسی قربانی سے دریغ نہیں کروں گی‘‘

ناصرات الاحمدیہ نے ہمیشہ لجنہ اماء اللہ کے شانہ بشانہ ہر کام میں تعاون اور ہر مقصد کو پانے کے لیے اپنے وقت اور مال کی قر بانی پیش کی ہے اور کرتی رہے گی، ان شاء اللہ۔ مسجد مبارک ہیگ ہالینڈ، مسجد خدیجہ برلن، مسجد نصرت جہاں کوپن ہیگن، مسجد فضل لنڈن اس بات کی گواہ رہیں گی کہ ان کی تعمیر میں لجنہ اماء اللہ کے شانہ بشانہ جماعت احمدیہ کی ننھی کلیوں ناصرات الاحمدیہ کی پاکٹ منی اور عیدیوں کا حصہ شامل ہے۔ ہر قربانی اپنے ساتھ پھل پھول لاتی ہے جماعت احمدیہ کی یہ چھوٹی کلیاں جن کے ابھی کھیلنے اور کھانے کے دن ہوتے ہیں اپنے عہد کے ان بڑے الفاظ اور بڑی ذمہ داریوں کو جب مل کر دہراتی ہیں کو وہ اپنی آئندہ آنے والی زندگی کے اعلیٰ مقاصد کے نصب العین کا تعین کر رہی ہوتی ہیں اور یہ اعلیٰ مقاصد انہیں سوسائٹی کی بے راہ رویوں سے بچانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

سوسائٹی کے برے اثرات سے بچانے کے لیے حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ علیہ نے ایک دفعہ فرمایا کہ بچیوں کو ایک اعلیٰ نصب العین کی طرف آگے بڑھنے کی طرف راغب کریں تا کہ وہ اپنے اعلیٰ مقصد کو پانے کی خاطر سوسائٹی کے ادنیٰ تقاضوں کی ہر گز پرواہ نہ کریں۔

عہد دہراتے وقت ایک ناصرہ جب یہ کہتی ہے کہ ’’ہمیشہ سچائی پر قائم رہوں گی‘‘ تو وہ زندگی میں ہمیشہ سچ کے ساتھ کو قبول کر تی ہے۔ وہ ہرجھوٹی بات، جھوٹی گواہی، جھوٹی تعریف، جھوٹی نمود ونمائش سے ہر حال میں کلی اجتناب کرنے کا وعدہ کرتی ہے اور یہ وعدہ اپنے خدا کے ساتھ کرنے کے ساتھ اپنے آپ کے ساتھ کر رہی ہوتی ہے کہ میں نےایک سچے مذہب کو مانتے ہوئے زندگی کی ہر بات میں سچ کا ساتھ دینا ہے وہ اس طرح کہ میں کبھی جھوٹ نہیں بولوں گی نہ گھر میں نہ سہیلیوں سے نہ بہن بھائیوں سے پھر وہ اسلام کی سچائی کے نور پر قائم ہوتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے اپنے انعام یافتہ بندوں میں شامل ہو کر خلافت احمدیہ سے وفاداری کا تقاضا نبھانے کا اقرار کرتی ہے۔ زندگی کا کوئی مقصد ہر گز پوار نہیں ہو سکتا جب تک پہلے اپنے مذہب کے اندر باعمل انسان بنتے ہوئے اپنے ملک کے لیے ایک مفید شہری نہ بن جائیں۔ ایک اعلیٰ مفید شہری بننے کے لیے ہر جھوٹی بات اور لغو کام میں پڑنے سے لازماً رکنا ہوگا۔

ناصرات الاحمدیہ کا نصب العین انہیں ایک باوقار اور باکردار لجنہ کے روپ میں ڈھالنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ایک باوقار احمدی عورت یقیناً اپنی چال ڈھال اور لباس میں شائستگی کا نمونہ پیش کرتی نظر آئے گی۔ اس لیے ناصرات کی عمر سے ہی انہیں اسلامی طرز حیاء کی طرف مائل کرنا اور سوسائٹی کے برے اثرات سے بچانا ضروری ہے۔ ان کے اندر بچپن سے حیاء کا مادہ پیدا کرنا ماؤں کی ذمہ داری ہے۔

حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے ماؤں کو اس بات کی طرف بارہا توجہ دلائی ہے کہ مائیں پنی بچیوں کے لیے ایک اچھا نمونہ بنیں اور اپنے گھروں کو اعلیٰ اخلاق سے سجائیں۔ اسی طرح لجنہ آسٹریلیا کی Virtual ملاقات موٴرخہ l9 دسمبر 2020ء میں ناصرات کی تربیت کے بارے میں فرمایا:
’’شروع میں ہی بچیوں کو بتائیں کہ تمہارا لباس حیا٫ دار ہونا چاہیے۔ جب وہ بڑی ہوں اور لجنہ میں شامل ہوں تو پھر ان کو پتہ ہو کہ حیاء دار لباس اللہ تعالیٰ کا حکم ہے جو قرآن میں آیا ہے۔ جو بچپن سے ٹریننگ دیں گی تو تبھی وہ معیار کبیر کی ناصرات بن کر اور لجنہ میں آ کر حیا٫ دار لباس پہنیں گی۔ ان کو بتائیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے کہ حیاء ایمان کا حصہ ہے۔ ناصرات کی عمر میں لجنہ کے کئی مسائل حل ہو جاتے ہیں اس لیے ابھی سے تربیت کر لیں۔ یہ بہت بڑا کام ہے۔ ان کو پتہ ہونا چائیے کہ احمدیت کیا چیز ہے؟ میں کیوں احمدی ہوں؟ میرا ایمان کیا ہے؟ میری ذمہ داریاں کیا ہیں؟ ہمارے پاس حدیث ہے قرآن بھی ہے آخری رسول ﷺ بھی ہے تو مسیح موعودؑ کیوں آئے اور کس لیے آئے؟ یہ چیزیں بچپن سے ہی ذہنوں میں ہونی چاہیں۔ بڑے مسائل تو لوگ سیکھ لیتے ہیں مگر جب یہ بنیادی چیزیں ہوں گی تو وہ آگے بڑھ سکیں گی اس کے بعد دیکھیں گی کہ آپ کی لجنہ کی اگلی نسل جو آئے گی وہ اس سے بھی بہتر ہو گی جو موجودہ لجنہ کی نسل ہے۔‘‘

پھر ایک موقع پر ناصرات کو پیغام دیتے ہوئے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اپنے وقار Dignity کو ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھو اور یہ بات اپنی فطرت کا حصہ بنا لو کہ ہمیشہ اپنے رب کے حضور جھکو۔ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے عبادات میں اللہ کے ساتھ تعلق کو مضبوط کرنے کے واسطے پانچ نمازوں میں پابندی کے ساتھ قائم رہنے کی تلقین کی۔ نماز برائیوں اور بے حیائی کے کاموں سے بچانے کے لیے ایک ڈھال کا کام کرتی ہے ایک بچی جب چھوٹی عمر سے نماز کی اہمیت کو سمجھنے لگ جائے تو اسے اپنی نماز سے پیار ہو جاتا ہے جو اللہ سے تعلق کا ذریعہ بن جاتا ہے۔

ناصرات الاحمدیہ کی تنظیم سے تربیت یافتہ احمدی بچی زندگی کے اعلیٰ مقصد کے حصول کی خاطردینا کے بے مقصد ادنیٰ مقاصد کو قربان کردیتی ہےوہ ایک خدا کی پکی موحد بن کر اسی کی رضا میں سکون پاتی ہے۔ ان بچیوں کے اندر اپنی قوم و مذہب اسلام کی سچائی کو پیش کرنے کا سلیقہ آجاتا ہے۔ وہ ایک وقار اور خود اعتمادی کے ساتھ دوسروں تک پیغام حق پہنچانے میں جماعت احمدیہ کے بڑوں کے ساتھ شانہ بشانہ کام کر تے ہوئے مستقبل کی ایک کامیاب داعی اللہ کا کردار ادا کر سکتی ہے۔

(ناصرہ احمد۔ کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 اگست 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ