• 7 جولائی, 2025

ناصرات کی تعلیم و تربیت کے لئے خواتینِ مبارکہ کا اسلامی کردار

ناصرات کی تعلیم و تربیت کے لئے
خواتینِ مبارکہ کا اسلامی کردار

مذہب اسلام کی بے شمار خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان سے اس کے اجر کا وعدہ کیا ہے چاہے وہ مرد ہو یا عورت، بچہ ہو یا بوڑھا، امیر ہو یا غریب وہ ہر کسی کے نیک اور بد عمل کا حساب اسے اس کے عمل کے مطابق دیتا ہے۔

جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے

لَاۤ اُضِیۡعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنۡکُمۡ مِّنۡ ذَکَرٍ اَوۡ اُنۡثٰی

(اٰل عمران: 196)

میں تم میں سے کسی عمل کرنے والے کاعمل ہرگز ضائع نہیں کروں گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت۔ یعنی ایک طرح سے وہ ہر انسان کے لیے یہ آسانی پیدا کرتا ہے کہ جو بھی تمہارا کردار ہو گا تم اس کے مطابق جانے جاؤگے۔ اسلام اور پھر احمدیت کے ذریعے عورت نے بھی اپنا کردار ادا کیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زیر سایہ تربیت حاصل کرنے والی خواتین مبارکہ نے کس طرح اپنا کردار ادا کیا اور ہم سب کے لیے کیا نیک نمونہ چھوڑ کر گئیں اس کا جائزہ لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے زمانے کے مسیح اور مہدی کو، نبیوں کے سردار رسولوں کے سرتاج فخر دوجہاں حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے جہاں یہ نوید مسّرت سنائی تھی کہ یَتَزَوَّجُ وَ یُوْ لَدُلَہٗ (مشکوٰۃ مجتبائی باب نزول عیسیٰ بن مریم) کہ مسیح پاک شادی کرے گا اور اس کے ہاں اولاد ہو ی۔ وہاں اس بابرکت خاندان کی نسبت خالق کائنات نے آپؑ کو یہ بشارت بھی دے رکھی تھی۔ ’’تیرا گھر برکتوں سے بھرے گا اور میں اپنی نعمتیں تجھ پر پوری کروں گا۔ اور خواتین مبارکہ میں سے جن میں سے تُو بعض کو اس کے بعد پائے گا۔ تیری نسل بہت ہو گی اور میں تیری ذرّیت کو بہت بڑھاؤں گا اور برکت دوں گا۔‘‘

(اشتہار 20 فروری 1886ء)

حضرت اماں جانؓ

حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم رضی اللہ تعالیٰ کی زندگی ہر لحاظ سے ہم سب کے لیے قابل تقلید ہے۔ آپ ؓ نے حقیقةً ایک نبی کی زوجہ ہونے کا حق ادا کیا آپ کا خدا پر توکل ہو یا عبادات کا معیار تربیت اولاد ہو یا عائلی معاملات، پردہ ہو یا دیگر اسلامی تعلیمات ہر جگہ آپ نے اسلامی تعلیمات کے مطابق عمل کیا۔

حضرت اماں جانؓ کی زندگی کا ہر لمحہ خواتین اور احباب جماعت احمدیہ کی ترقی اور بہبود میں صرف ہوتا۔ مدرسۃ البنات کے لئے آپ نے گھر کا ایک حصہ پیش کردیا۔ یتیم بچوں اور بچیوں کو اپنے ہاتھوں سے نہلاتی نظر آتیں۔ آپ سراپا شفقت و محبت تھیں، حتی الامکان ہر ضرورت مند کی ضرورت کو پورا فرماتیں۔ جلسہ سالانہ کے موقع پر ہزاروں مہمانوں کی مہمان نوازی کرتیں، لوگوں کے مسائل حل کرتیں۔ آپ کی قربانیوں کو دیکھتے ہیں تو عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ مسجد بنانے کی تحریک ہو یا کہیں مبلغ سلسلہ کی ضروریات کو پورا کرنے کا مسئلہ درپیش ہو، لٹریچر کے لئے رقم کی ضرورت ہو یا تحریک جدید نے پکارا ہو۔ آپ ہر تحریک میں بڑی فراخدلی سے حصہ لیتی تھیں اور سب سے پہلے اپنا چندہ ادا فرماتی تھیں یہاں تک کہ بعض مواقع پر اپنی جائیداد اور زیورات فروخت کرکے خوشی سے امامِ وقت اور خلیفہٴ وقت کے قدموں میں پیش کردیتیں۔ منارہ المسیح کی تعمیر کے لیے آپ نے اپنی دہلی میں جو جائیداد تھی اسے بیچ کر کل چندے کا دس فیصد حصہ خود ادا کیا۔

(سیرت حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صفحہ397)

حضرت سیّدہ نواب مبارکہ بیگمؓ

حضرت سیّدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ رضی اللہ عنہا 2 مارچ 1897ء میں پیدا ہوئیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی لاڈلی صاحبزادی تھیں۔ حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ نے اپنی بیٹیوں کی تربیت اس نہج پر کی تھی کہ ان کے ہر قول وفعل میں اسلامی کردار جھکتا تھا۔
آپ ؓ کے بارہ میں لکھا ہے کہ: ’’حضرت سیّدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے اپنے مقدس باپ کی تقدیس سے بہت حصہ پایا تھا۔ بچپن ہی سے نمازوں اور دُعاؤں سے بہت شغف تھا۔ تہجد کے لئے اٹھنا آپ کا معمول تھا۔ مقدس والدین نے اپنی اس پیاری بیٹی کی تربیت کی طرف خصوصی توجہ دی تھی۔ ابتداء سے ہی آپ کے دل میں اللہ اور اس کے رسول حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت رچ بس گئی تھی۔خدا سے محبت کا یہ عالم تھا کہ بچپن ہی سے رؤیائے صادقہ دیکھتیں۔ آپ بہت دعا گو اور بہت عبادت گذار تھیں۔ بڑے اہتمام سےلمبی لمبی نمازیں پڑھتیں۔ آپ کی مغرب کی نماز اتنی لمبی ہو تی کہ عشاء کا وقت آجاتا۔ قرآن کریم کو بڑے اہتمام سے اور سمجھ سمجھ کر پڑھتیں۔ آپ کی شادی چھوٹی عمر میں حضرت نواب محمد خان صاحب سے ہو گئی۔ مگر آپ نے اس رشتے کو بھی خوب نبھایا۔ مثالی بیوی اور ایک مثالی ماں ثابت ہوئیں۔

حضرت سیّدہ نواب امة الحفیظ بیگمؓ 

حضرت سیّدہ امة الحفیظ بیگم صاحبہ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مبشر اولاد میں سب سے چھوٹی تھیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مئی1904ء میں الہام ہوا ’’دُخت کرام‘‘ چنانچہ اسی الٰہی بشارت کے تحت آپ 25 جون 1904ء کو پیدا ہوئیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے وقت آپ کی عمر صرف چار سال تھی، اسی لئے حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپؑ کی وفات کے بعد اپنی اس کم سن صاحبزادی کی ہر طرح سے دلداری فرماتیں۔

آپ اپنے دوسرے بہن بھائیوں کی طرح ذہین و فطین تھی۔

سات سال کی عمر میں آپ نے قرآن کریم ختم کیا۔ 3 جولائی1911ء کو آپ کی آمین ہوئی۔ اسی طرح روزنامہ الفضل موٴرخہ 12مئی 1931ء میں مرقوم ہے کہ احمدیہ گرلز ہائی سکول قادیان کی طرف سے سات طالبات نے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ یہ پہلی مرتبہ تھا کی اتنی تعداد میں یہ امتحان پاس کیا گیا فہرست میں تیسرے نمبر کے تحت حضرت سیّدہ امة الحفیظ بیگم کا نام نامی درج ہے اور یہ بھی تصریح کی گئی ہے کہ انہوں نے یہ امتحان صرف انگریزی میں پاس کیا۔ اس سے قبل آپ ادیب کا امتحان پاس کر چکی تھیں میٹرک کے بعد آپ نے ایف اے کا امتحان بھی پاس کیا۔

(دُخت کرام صفحہ109)

حضرت سیّدہ امة الحئی بیگمؓ 

آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بہو بننے کا اعزاز حاصل ہوا اور اس اعزاز کےساتھ آپ کا شمار بھی ‘‘ خواتین مبارکہ’’ میں ہوتا ہے۔ آپ کے والد حضرت حکیم مولانا نور الدین خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ تھے اور والدہ محترمہ صغریٰ بی بی نے آپ کی تربیت بہت اعلی طریق پر کی تھی اسی لیے آپ کو حصول علم کا شوق بہت زیادہ تھا۔باقاعدہ اپنے والد صاحب کے درس القرآن میں شامل ہوتیں۔ آپ مسجد کے علاوہ گھر میں بھی خواتین کے لئے درس دیا کرتی تھیں۔ اپنے والد محتر م کی ہر نصیحت پر عمل کرتیں۔ مارچ 1914ء میں حضرت خلیفہ اوّل کی وفات کے اگلے روز آپ نے حضرت خلیفہ ثانی کو ایک خط تحریر کیا جو تاریخ لجنہ جلد اوّل صفحہ22-23 پر درج ہے۔

سیدی حضرت امیر المومنین صاحب

اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَةُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ

گزارش ہے کہ میرے والد صاحب نے مرنے سے 2 دن پہلے مجھےفرمایا کہ ہم تمہیں چند نصیحتیں کرتے ہیں۔ میں نے کہا فرماویں، میں ان شاء اللہ عمل کروں گی تو فرمایا یہ بہت کوشش کرنا کہ قرآن آجائے اور لوگوں کو بھی پہنچے اور میرے بعد اگر میاں صاحب خلیفہ ہوں تو اُن کو میری طرف سے کہہ دینا کہ عورتوں کا درس جاری رہے، اس لئے آپ کو عرض کئے دیتی ہوں اور اُمید وار ہوں کہ آپ قبول فرماویں گے۔ میری بھی یہ خواہش ہے اور کئی عورتوں اور لڑکیوں کی بھی خواہش ہے کہ میاں صاحب درس کرائیں۔ آپ براہِ مہربانی درس صبح ہی شروع کرادیں۔ آپ کی نہایت مشکور و ممنون ہوں گی۔ امة الحئی بنت نورالدین مرحوم اللہ آپ سے راضی ہو۔

(تاریخ لجنہ جلد اوّل صفحہ22-23)

اللہ تعالیٰ کو حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کا حضرت مسیح پاکؑ سے اطاعت و وفا کا جذبہ اس قدر پسند آیا کہ اس نے آپ کی بیٹی کو خواتین مبارکہ میں شامل کر لیا۔ 13سال کی عمر میں آپ سیّدہ امة الحئی صاحبہ کی شادی حضرت مصلح موعودؓ سے ہوئی۔ شادی کے بعد آپ نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے تعاون سے گھر گھر احمدی بچیوں اور خواتین کی تعلیم و تربیت کے لئے مدرسے کھلوا دیئے۔ آپ ہی نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں یہ تجویز پیش کی کہ عورتوں کو پڑھانا لکھانا بہت ضروری ہے۔ ان کو دین کی خدمت کے لئے تیار کر نے کے لئے ایک تنظیم کی ضرورت ہے۔ اس طرح چھوٹی سی عمر میں آپ نے اپنے اخلاق سے سب کو بہت متاثر کیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حضرت امان جان رضی اللہ عنہ کی خدمت کی خاص توفیق عطا فرمائی۔

حضرت ام طاہرؓ

حضرت سیدہ مریم بیگم صاحبہؓ  حضورؑ کی خواہش اور ارشاد کے تحت 7؍فروری 1921ء کو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے ساتھ حضرت سیدہ صاحبہ کے نکاح کا اعلان مسجد مبارک قادیان میں ہوا۔

حضرت سیدہ مریم بیگم صاحبہؓ کی اولاد میں تین بیٹیاں اور ایک بیٹے حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد خلیفۃالمسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز شامل ہیں۔ آپؓ نے اپنے اکلوتے بیٹے کو خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف بھی کیا اور تڑپ کر دعائیں بھی کیں کہ یہ بیٹا عابد و زاہد و خادم دین بنے اور حضرت محمد رسول اللہﷺ اور حضرت مسیح موعودؑ کے عشق میں سرشار ہو۔

حضرت سیدہ ہر قسم کی جماعتی خدمات میں پیش پیش رہیں۔ آپؓ جون 1930ء میں نصرت گرلز ہائی سکول کی نگران کمیٹی کی رکن مقرر ہوئیں۔ 1930ء اور 1931ء کے جلسہ سالانہ پر آپؓ نے بطور منتظمہ خدمات سرانجام دیں۔ 1930ء کے جلسہ سالانہ پر ’’عورتوں کی اصلاح خود اُن کے ہاتھ میں‘‘ کے موضوع پر تقریر کی۔ 1933ء میں بحیثیت سیکرٹری لجنہ اور منتظمہ سالانہ رپورٹ پیش کی۔ 1936ء میں حضورؓ کی ہدایت پر محلہ وار کمیٹیاں قائم کرنے کا اہتمام آپؓ نے کیا۔ 1937ء میں سیرۃالنبیؐ کے جلسے آپؓ کے مکان میں منعقد کئے جاتے رہے اور اشاعت مصباح کے لئے قائم کمیٹی کا اجلاس آپؓ کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ 1939ء میں خلافت جوبلی کے موقعہ پر آپؓ کی زیر نگرانی صحابیات نے سوت کاتا۔ 1943ء میں بحیثیت صدر لجنہ آپؓ نے حضرت مصلح موعودؓ کے ہمراہ دہلی کا دورہ بھی کیا۔

اس کے علاوہ سیدہ ام محمود صاحبہ، حضرت سیدہ بشری بیگم المعروف مہر آپا، حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ، حضرت سیدہ سارہ بیگم صاحبہ، حضرت سیدہ بع زینب صاحبہ کی اسلامی خدمات بھی کسی طور بھلائی نہیں جاسکتی ہیں۔ غرض کہ ہر ایک نے اپنا ایک نیک نمونہ چھوڑا۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اور ہماری بچیوں کو بھی ان خواتین مبارکہ کے نیک نمونے پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

(بشریٰ نذیر آفتاب۔ کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 اگست 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ