• 19 مئی, 2024

حضرت بابو محمد علی خان صاحب رضی اللہ عنہ ۔ شاہجہانپور

تعارف صحابہؓ

حضرت بابو محمد علی خان صاحب رضی اللہ عنہ کا اصل وطن شاہجہانپور تھا۔ آپ محکمہ وٹرنری میں ملازم تھے لیکن بعد ازاں شعبہ سیاحت سے وابستہ ہوگئے اورولایت سے آنے والے سیاحوں کے لیے بطور گائیڈ (Guide) ملازمت کی۔ آپؓ اور حضرت مولوی عبدالواحد خان صاحب میرٹھی رضی اللہ عنہ (ولادت:1871ء، بیعت:1896ء، وفات: 21؍جون 1968ء مدفون بہشتی مقبرہ ربوہ) اکٹھے بطور گائیڈ کام کرتے تھے۔

(اصحاب احمد جلد دہم صفحہ 210 از ملک صلاح الدین صاحب ایم اے۔ ناشر عبدالمنان کوثر)

آپ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ ابتدائی تعارف کے متعلق لکھتے ہیں:
’’میری عمر قریبًا 10برس کی ہوگی جب میں نے مولوی غلام امام صاحب عزیزالواعظین کے پاس براہین احمدیہ دیکھی۔میری نظر اس اشتہار پر پڑی جو بڑے موٹے حروف میں لکھا ہوا تھا۔ گو میں اس وقت پڑھ کر سمجھ نہ سکتا تھا لیکن مجھے کتاب سے از حد محبت ہوگئی۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک خط لکھاکہ اس کتاب کی کیا قیمت ہے؟ حضور نے جواب میں لکھا کہ دس روپیہ ہے۔ میرے بڑے بھائی الحکم منگایا کرتے تھے۔ مَیں اُس کی سُرخی دیکھ کر بہت متحیر ہوتا (خدا کی تازہ وحی)۔ ایک روز ہمارے گھر کے نیچے سے حافظ سید علی میاں صاحب جو حافظ سید مختار احمد صاحب کے والد تھے، جا رہے تھے۔ مَیں نے دوڑ کر ان کو سلام کیا اور میں نے دریافت کیا کہ یہ جو حدیث میں آیا ہے کہ سورج مغرب سے طلوع ہوگا؟کیا واقعی یہی سورج بجائے مشرق کے مغرب سے طلوع ہوگا؟انہوں نے فرمایا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت مہدی علیہ السلام کے وقت نور اسلام مغرب سے چمکے گا۔ ابتداء عمر سے مجھے قادیان دیکھنے کا شوق پیدا ہوا۔ جب میں سیالکوٹ کی چھاؤنی نائنتھ لانسرز (9th Lancers) میں ملازم تھا، اُس وقت حضرت صاحب نے کشتی نوح لکھی تھی۔ سیالکوٹ میں حافظ عبدالعزیز صاحب ایجنٹ سنگر کمپنی کے ہاں شام کے وقت میں اکثر پڑھا کرتا تھا۔ وہاں روزانہ کسی نہ کسی مسئلہ پر بحث ہوا کرتی تھی۔میں سنا کرتا تھا۔ اکثر لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو گالیاں دیا کرتے تھے۔ خدا کی شان میرے منہ سے کوئی کلمہ خلاف رد کبھی نہیں نکلا۔ اُسی زمانہ میں صدر بازار کی مسجد کے متولیوں سے مقدمہ بازی شروع ہوگئی۔ وہاں ایک مولوی صاحب رہتے تھے جن کا نام مولوی مبارک علی صاحب تھا۔ اُن سے میں نے ایک روز دریافت کیا کہ امام مہدی کا حدیث میں حلیہ کیا لکھا ہے؟ انہوں نے مجھے صحیح بخاری شریف سے وہ حدیث دکھائی جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا حلیہ سرخ رنگ اور حضرت امام مہدی کا حلیہ گندم گوں اور بال سیدھے لکھا ہے۔ مجھے اطمینان ہوا۔ میرے پاس اکثر احمدی احباب پہلے آیا کرتے تھے جن میں مولوی عبدالعزیز صاحب گوہدپوری تھے۔اُن کو سیالکوٹ کے لوگ قادیانی مشین کہا کرتے تھے۔بڑے جوشیلے اور نہایت اچھے آدمی تھے۔ اللہ تعالیٰ اُن کی مغفرت کرے۔ دوسرے صاحب مولا بخش صاحب بوٹ فروش تھے (آج کل پیغامی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں) یہ دونوں صاحب مجھے تبلیغ کیا کرتے تھے۔ ایک روز میں نے سنا کہ حضرت مرزا صاحب نے غیر احمدیوں کے پیچھے نماز پڑھنا منع کردیا ہے۔ میں نے حافظ عبدالعزیز صاحب احمدی سے شکایت کی کہ یہ کیا بات ہے! نماز تو ایک ہی ہے پھر یہ دو رنگی کیسی؟ حافظ صاحب نے مجھے سمجھایا کہ آپ کھڑے ہو جائیں۔ ہم سب آپ کے پیچھے نماز پڑھیں گے۔ ان لوگوں کے پیچھے نماز منع کی گئی ہے جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو گالیاں دیتے ہیں۔ ان کے مولویوں نے ہم پر کفر کے فتوے لگائے ہیں۔

میں ہر وقت دعا میں لگا رہتا اور مسائل کے سمجھنے کی فکر میں رہتا۔ایک روز مجھے خیال آیا کہ نماز کہاں پڑھنی چاہیے؟ میں نے رات کو خواب میں دیکھا کہ میں صدر بازار کی مسجد میں جمعہ کی نماز ادا کرنے کی غرض سے گیا ہوں۔ وہاں نماز ختم ہوگئی ہے۔ پیچھے چند لوگوں نے کہا کہ دیکھو وہ میدان میں نماز ہو رہی ہے۔ تم وہاں جاؤ،نماز مل جائے گی۔میں وہاں پہنچا تو وسیع میدان تھا جس میں کثرت سے لوگ جمع ہو رہے ہیں۔دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ احمدی جماعت ہے۔ اب مجھے قادیان جانے کا اشتیاق پیدا ہوا اور میں 1904ء موسم گرما میں ڈلہوزی گیا۔وہاں سے واپسی پر قادیان پہنچا۔ اسباب مہمان خانہ میں رکھا اور چھوٹی مسجد میں عصر کی نماز ادا کرنے گیا۔ نماز کے بعد حضرت اقدسؑ سے مصافحہ کیا اور بیعت کی درخواست کی۔ اس وقت میں نے حضرت اقدسؑ کے دست مبارک پر بیعت کی۔ حضرت اقدسؑ نے مجھے دیکھ کر حکیم مولوی فضل الدین صاحب کو حکم دیا کہ ان کو ایام الصلح اور برکات الدعا دو اور ایک جلد حقیقۃ الوحی کی مجھے دی گئی۔ میں جوں جوں ان کتابوں کو پڑھتا تھا میرا ایمان بڑھتا گیا۔ اس کے بعد میں حضرت مولوی نور الدین صاحب سے ملا۔ مولوی عبدالکریم صاحب سے ملا۔ اسکول کے احاطہ میں آیا تو مجھے ایک خوبصورت نوجوان ملا۔حضرت مفتی محمد صادق صاحب تھے جو اُس وقت مدرسہ تعلیم الاسلام میں ہیڈ ماسٹر تھے۔ مجھے نہایت اخلاق سے ملے۔ جب میں اپنی ملازمت پر راولپنڈی واپس آیا تو جو کچھ میں نے چند روز قادیان رہ کر اپنی معلومات میں اضافہ کیا تھا اس سے تبلیغ شروع کی۔ اس وقت میرے پاس ایک نوجوان آیا کرتے تھے۔ میں نے ان کو تبلیغ شروع کی۔ بفضلہ تعالیٰ وہ سارا خاندان احمدی ہوگیا۔ یہ خاندان قریباً عیسائی ہو چکا تھا اور اب تک دین کی خدمت میں مصروف ہوں۔’’

(الحکم 14نومبر 1935ء صفحہ 11)

آپؓ سیاحوں کے گائیڈہونے کی وجہ سے مختلف علاقوں میں جاتے تھے اس لحاظ سے ہر جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کا تذکرہ کرتے۔بوجہ سیاحت آپ مرکز سے دور تو تھے لیکن جماعتی اخبارات کی خریداری اور اس کے مطالعہ کے ذریعے ہمیشہ اپنے آپ کو قادیان سے مربوط رکھا۔
ایک مرتبہ شاہ جہان پور سے کسی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف ایک رسالہ ’’البرہان‘‘ شائع کیا تو حضرت محمد علی خان صاحب رضی اللہ عنہ کی محبت و غیرتِ سلسلہ نے نہ چاہا کہ یہ کتاب لا جواب رہے۔ چنانچہ آپ نے حضرت مولوی محمد احسن امروہی صاحب سے گزارش کی کہ وہ اس کتاب کا جواب لکھیں۔ چنانچہ انہوں نے دسمبر1903ء میں اس کا جواب ’’الفرقان فی جواب البرہان‘‘ نام سے لکھا اور ٹائٹل پر ہی لکھا: ’’حسب فرمائش منشی محمد علی خان صاحب احمدی شاہ جہان پوری‘‘ یہ کتاب مطبع گلشن پنجاب راولپنڈی سے طبع ہوئی۔ اخبار بدر یکم دسمبر 1903ء صفحہ 359 کالم 1میں محمد علی خان ساکن شاہجہانپور کی راولپنڈی سے قادیان آمد لکھی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے آپ کو بیٹے سے نوازا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کا نام رکھا۔

(بدر 23جنوری 1908ء صفحہ 5 کالم 1)

خلافت ثانیہ پر باوجود غیر مبائعین کے سرکردہ احباب سے قریبی تعلق ہونے کے آپ نے بیعت کی اور ان تعلقات کو پس پشت ڈال دیا۔حضرت حافظ مختار احمد صاحب شاہجہانپوریؓ خلافت ثانیہ کے موقع کا ذکر کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں:
’’…. بابو محمد علی خان صاحب شاہجہانپوری …. جناب خواجہ کمال الدین صاحب اور مولوی محمد علی صاحب سے ان کے تعلقات بہت گہرے تھے…. وہ ہفتہ کے روز دوپہر سے پہلے قادیان پہنچ گئے۔اس وقت سے لے کر بیعت (خلافت ثانیہ) تک ساری کارروائیاں اُن کے سامنے ہوئیں۔ انہیں یہ علم تو تھا کہ خواجہ صاحب اور مولوی محمد علی صاحب حضرت صاحبزادہ صاحب سے اختلاف رکھتے ہیں مگر وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ جناب مولوی صاحب تو سرے سے مسئلہ خلافت ہی سے رو گردان ہو چکے ہیں۔ ان سے ان کو بڑی کوفت ہوئی اور وہ اکثر اس کا ذکر کیا کرتے تھے۔‘‘

(تاریخ احمدیت جلد4 صفحہ119،120)

آپ اپنے سیاحت کے شعبہ میں بھی بہت ماہر تھے، سیاحتی مقامات کی معلومات کا اچھا ذخیرہ اور تجربہ رکھتے تھے۔ اسی لیے جو سیاح آپ کی قیادت میں سیاحت کرتے وہ آپ کی نفیس طبیعت اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں سے بہت متأثر ہوتے۔ دی مسلم سن رائز (The Muslim Sunrise) رسالے میں آپ کا ایک اشتہار بطور بہترین گائیڈ بھی چھپا ہے جس میں آپ کی تصویر کے ساتھ ساتھ آپ کی رہبری میں سیاحت کرنے والے بعض غیر ملکی سیاحوں کے آپ کے بارے میں تاثرات بھی شامل ہیں۔

(The Muslim Sunrise USA, 1922, issue iv page 150)

آپ ہجرت کر کے قادیان آگئے تھے۔تقسیم ملک کے بعد کراچی چلے گئے جہاں مورخہ 4؍ مئی 1949ء کو وفات پائی اور وہیں دفن ہوئے۔آپ موصی تھے یادگاری کتبہ بہشتی مقبرہ قادیان میں لگا ہوا ہے۔ آپ کی وفات پر حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ نے لکھا:
’’بابو صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پرانے صحابہ میں سے تھے۔پہلے راولپنڈی میں محکمہ وٹرنری میں ملازم تھے اور اس کے بعد وہ یورپ اور امریکہ کے سیاحوں کو ہندوستان میں سیر کرانے کا کام کیا کرتے تھے، ایسے لوگوں کو انگریزی میں Guide کہتے ہیں۔ ان کا اصل وطن شاہجہان پور تھا اور سید حافظ مختار احمد صاحب کے عزیز دوستوں میں سے تھے۔ گائڈ کا کام کرنے کے لیے موسم سرما کے شروع میں بمبئی چلے جاتے تھے۔ ان کی عادت تھی کہ جن اصحاب کو ہندوستان کے مختلف علاقوں میں سیر کراتے تھے ان کو ساتھ ہی اسلام اور احمدیت کی تبلیغ بھی کرتے رہتے تھے۔ مجھے ان سے سب سے پہلے غالبًا 1903ء میں واقفیت ہوئی جبکہ وہ اپنے ایک سالے کو قادیان کے مدرسہ میں داخل کرنے کے واسطے آئے، اس وقت میں قادیان کے سکول میں ہیڈ ماسٹر تھا تب سے ہمیشہ ان کے ساتھ سلسلہ خط و کتابت کا رہا اور میرے ایک بیٹے مفتی عبدالسلام کی شادی ان کی ایک صاحبزادی کے ساتھ ہونے سے تعلقات محبت اور بھی بڑھ گئے۔ بابو صاحب زاہد و عابد آدمی تھے، آخر دم تک نمازوں کی پابندی اور دعاؤں اور وظیفہ پر قائم رہے۔ ان کی وفات4؍ ماہ مئی کے شروع میں کراچی میں ہوئی، کوئی خاص بیماری نہ تھی عام ضعیفی کی کمزوری ہی وفات کا موجب ہوئی۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو جنت میں بلند درجات دے اور ان کے پسماندگان کو صبر جمیل اور نیکیوں کی توفیق حاصل ہو۔ بابو صاحب نے ایک بیٹا پیچھے چھوڑا ہے جس کا نام احمد علی خان ہے اور تین بیٹیاں ہیں جو سب بیاہی ہوئی ہیں اور کراچی میں مقیم ہیں۔‘‘

(الفضل 11مئی 1949ء صفحہ 2)

آپ نے دو شادیاں کیں، دوسری شادی 26؍ستمبر 1925ء کو محمودہ بانو دختر سید یامین شاہ صاحب بریلوی (وفات: 20؍جولائی 1933ء۔ بہشتی مقبرہ قادیان۔ وصیت نمبر 2423) کے ساتھ ہوئی۔

(الفضل 13اکتوبر 1925ء صفحہ 2کالم 3)

آپ کی اولاد میں

بیٹے احمد علی خان صاحب۔ ولادت : 1908ء (یہ نام حضرت مسیح موعودؑ نے رکھا تھا)

ایک اور بیٹےکا نام بھی احمد علی خان صاحب تھا جنھوں نے 29؍اپریل 1965ء کو بعمر 42 سال کراچی میں وفات پائی۔ آپ حافظ عبدالجلیل صاحب شاہجہانپوری صاحب کے داماد تھے۔ شاید پہلے بیٹے فوت ہوگئے ہوں اور ان کے نام پر ہی اس بیٹے کا نام رکھا ہو کیونکہ دونوں کی عمروں میں بہت فرق ہے۔

بیٹی محترمہ صغریٰ رشید سلطانہ صاحبہ (پیدائش یکم جون 1901ء۔ وفات: 14؍جون 1965ء مدفون بہشتی مقبرہ ربوہ) اہلیہ مکرم حاجی عبدالکریم صاحب ولد غلام حیدر خان صاحب کراچی

بیٹی کبریٰ خاتون صاحبہ زوجہ عبدالسلام مفتی صاحب ابن حضرت مفتی محمد صادق صاحب ؓ

بیٹی زبیدہ خاتون صاحبہ زوجہ حضرت شیخ مسعود الرحمان صاحب ابن حضرت منشی حبیب الرحمان صاحب رئیس حاجی پور کپورتھلہ
ایک بیٹی محترمہ فہمیدہ خاتون صاحبہ نے قادیان میں وفات پائی۔

(الفضل 10؍ اکتوبر 1940ء)

(مرتبہ: غلام مصباح بلوچ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 ستمبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 ستمبر 2020