• 19 مئی, 2024

فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ

قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ {إِنَّ الْإِنْسَانَ لِرَبِّهٖ لَكَنُودٌ} (العاديات7) ترجمہ: یقیناً انسان اپنے رب کا ناشکرا ہے۔

لیکن یہ بھی فرمانِ ربی ہے کہ: {لَئِنۡ شَکَرۡتُمۡ لَاَزِیۡدَنَّکُمۡ وَ لَئِنۡ کَفَرۡتُمۡ اِنَّ عَذَابِیۡ لَشَدِیۡدٌ} (ابراهيم 8) کہ ضروراگر تم شکر ادا کرو گے تو ضرور میں تمہیں اور زیادہ عطاء کروں گا اور اگر تم نا شکری کرو گے تو یقیناً میرا عذاب بہت سخت ہے۔

پھر یہ بھی میرے پیارے رب نے ہی فرمایا ہے کہ: ’’پس (اے جن وانس) تم دونوں اپنے رب کی کس کس نعمت کا انکار کرو گے۔‘‘

حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

یا رب ہے تیرا احساں، میں تیرے در پہ قرباں
تونے دیا ہے ایماں، تو ہر زماں نگہباں

سوچا آج اپنے ربِ رحیم کے چند فضلوں کا ذکر کروں تاکہ شکر کرنے والوں کی فہرست میں شامل ہو سکوں۔

اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا اور پہلا احسان ہم پر یہ ہے کہ اُس نے ہمیں انسان پیدا کیا جوکہ اشرف المخلوقات ہے۔

دوسرا بڑا احسان یہ ہے کہ مسلمان گھرانے میں پیدا کیا اورہم پیدائشی خاتم النبیینﷺ کے پیروکار ٹھہرے۔ قرآنِ پاک جو کہ اُم الکتاب ہے اور قیامت تک کےلئے لائحہ عمل ہے وہ ہمیں ورثہ میں ملی۔ ہمیں زندگی میں کسی دنیاوی قانون یا اخلاقی اور اصلاحی کتب کی ضرورت نہیں رہی۔

سات سو احکامات ہیں۔ امرو نواہی ہیں۔ ورثے کی تقسیم سے لیکر عائلی زندگی کی راہنمائی تک ہر بات واضح کر دی گئی ہے۔ اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے۔ ہم کسی دنیاوی تاریخی کتب کے بھی محتاج نہیں رہے۔

ابتدائے آفرینشں سے لیکر رسولِ پاک ﷺ کی زندگی تک تمام انبیائے کرام اور اقوامِ عالم کے حالاتِ زندگی ہمیں بتا دیئے۔ صرف یہی نہیں بلکہ آنے والے حالات سے بھی باخبر کر دیا۔ آج اقوامِ عالم قرآن پاک کی اِن پیشگوئیوں کو اپنی تحقیق کی روشنی میں سچ ثابت کر رہی ہے۔ اور ہم اِس علمی خزانے کے وارث ہیں۔

حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

یا الہٰی تیرا فرقاں ہے کہ اک عالم ہے
جو ضروری تھا وہ سب اس میں مہیا نکلا

پھر ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمارا کامل راہنما بنایا۔ جو ہمارے لئے روشنی کا مینار ہیں۔ مجسم قرآن ہیں۔ اِس پاک وجود نے اپنے عمل سے قرآنِ پاک کو ہمارے لئے سمجھنا آسان کیا۔

احادیثِ نبویہ ہمارے لئے راہنمائی کا دوسرا بڑا سر چشمہ ہیں۔ یہ وہ چیزیں ہیں جن سے غیر مسلم محروم ہیں۔

حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام نے کیا خوب فرمایا ہے:

وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نور سارا
نام اُس کا ہے محمدؐ دلبر میرا یہی ہے

آپ ذرا غور کریں اگر ہم کسی ہندو گھرانے میں پیدا کر دیئے جاتے تو پتھروں کو سجدہ کرتے ہی عمر گزر جاتی یا آگ کی پوجا کر رہے ہوتے یا پھر خدا کی ذات کے ہی منکر ہوتے ۔ کیا یہ ہم پر خدائے رحیم کا احسان ہے کہ نہیں؟

اس کے بعد پھر تیسرا بڑا احسان یہ ہے کہ اُس نے ہمیں احمدی گھرانے میں پیدا کیا۔ اُس پیارے امام مہدی کی جماعت میں شامل کیا جس کی آپ ﷺ نے خود پیشگوئی کی تھی کہ اگر ایمان ثریا پر چلا جائے گا تو وہ اسے واپس لائے گا۔

ہم اِن خوش نصیبوں میں شامل ہوئے کہ ’’تم میں سے جو امام مہدی کا زمانہ پائے وہ انہیں میرا سلام پہنچائے۔‘‘ کتنا بڑا اعزاز ہے جو ہمیں نصیب ہوا۔

آپ تصور کریں کہ آپ قادیان کے بہشتی مقبرہ میں حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کے مزار مبارک کے سامنے کھڑے ہیں اور کہتے ہیں کہ:
’’اے میرے پیارے امام !آپ کو آپ کے پیارے آقا حضرت محمد ﷺ کا سلام پہنچے۔‘‘

اُس وقت ہم دنیا بھر کے خوش نصیب ترین انسان ہوتے ہیں۔

خدائے ربِ ذوالجلال کا شکر ادا کرنے کے لئے الفاظ ختم ہو جاتے ہیں تو آنسوؤں پرزور چلتا ہے۔ اور شکر کے آنسو جب رواں ہوتے ہیں تو بند توڑ کے بہہ نکلتے ہیں اور یہ سیلاب قابو سے باہر ہوجاتا ہے۔

یہاں پھر ایک مرتبہ غور کریں کہ اگر ہم کسی مسلمان مشرک گھرانے میں پیدا ہوتے تو قبروں کو سجدہ کرتے اور اِن سے منتیں مانتے اور اصل خدا سے کوسوں دور رہتے۔

دُعا کی اصل حقیقت جو حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام نے ہمیں بتائی اور سچے خدا سے ملوایا اِس سے بے خبر رہتے۔

غیر ممکن کو یہ ممکن میں بدل دیتی ہے
اے میرے فلسفیو! زورِ دُعا دیکھو تو

عموماً دیکھنے میں آیا ہے کہ انسان اپنے آباء واجداد کے مذہب کو آسانی سے تبدیل کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا۔

آئینِ نو سے ڈرنا طرزکہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں

مگر یہاں ہم خوش نصیب ہیں کہ سچا مذہب ہمیں ورثے میں مِلا۔

جماعتِ احمدیہ کا فرد ہونے کی حیثیت سے جو ہمیں سب سے بڑی سعادت نصیب ہوئی وہ ’’خلافت کا بابرکت نظام‘‘ ہے۔ ہم ریت کے بکھرے ہوئے ذروں کی طرح نہیں ہیں۔ بلکہ تسبیح کے دانوں کی طرح ہیں جنہیں ایک دھاگے میں پرویا گیا ہے۔ وہ سب ایک دوسرے کے ساتھ ملکر ایک ڈوری سے بندھے ہوئے ہیں۔ اِن کے بکھرنے کا احتمال نہیں۔

خلافت کا ہم پر سب سے بڑا احسان ہے کہ جس طرح ایک بچہ اپنی ماں کی گود میں اپنے آپکو محفوظ خیال کرتا ہے بعینہٖ ہم خلافت کے سائے میں اپنے آپکو محفوظ خیال کرتےہیں۔ جب بھی کوئی مشکل وقت آئے ہم گھبراتے نہیں بلکہ پہلا خیال جو ہمارے دل میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ حضور کوخط لکھیں گے۔ اور خط لکھ کر ہم ہرغم اورفکر سے آزاد ہو جاتے ہیں۔ اور اپنا یہ بوجھ بھی اپنے پیارے حضور کے ذمہ ڈال کر خود اپنے پیارے حضور کی صحت و سلامتی کے لئے دُعا میں مشغول ہو جاتے ہیں۔

خدا کا یہ احسان ہے ہم پہ بھاری
کہ جس نے ہے اپنی یہ نعمت اتاری
نہ مایوس ہونا گھٹن ہو نہ طاری
رہے گا خلافت کا فیضان جاری

یہاں تک تو تمام احمدی احباب برابر کے خوش نصیب ہیں مگر کچھ ایسے بھی ہیں جوخوش نصیبی میں باقیوں پر سبقت لے گئے ہیں۔ وہ ہیں یوکے میں رہنے والے احمدی حضرات۔

چودہ سو سال پیچھے جاتے ہیں۔ جب رسولِ پاک ﷺ کے زمانہ میں مسلمانوں پر کفار کا ظلم و ستم بہت بڑھ گیا تو مسلمانوں نے حبشہ کی طرف ہجرت شروع کر دی۔ کفار اپنی گھٹیا حرکتوں میں بہت آگے بڑھ گئے اور اُنہوں نے نعوذ باللہ رسولِ پاک ﷺ کے قتل کا منصوبہ بنایا۔ خدا تعالیٰ ہمیشہ اپنے پیاروں کا ساتھ دیتا ہے اور دُشمن کو ہمیشہ نا کامی کا مُنہ دیکھنا پڑتا ہے۔

رسولِ پاک ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے منشاء کے مطابق یثرب کی طرف ہجرت کی۔جب آپ اِس شہر میں داخل ہوئے تو وہاں کی بچیاں دف بجا کر گیت گا رہی تھیں :
طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَیْنَا۔ آج ہم پر چودھویں کا چاند طلوع ہوا ہے۔

بعینہٖ جب احمدیوں کے گھر جلا کر، شہید کر کے، جیلوں میں ڈال کر پاکستان کے علماء کو تسکین نہ ہوئی تو اُنہوں نے ہمارے پیارے حضور حضرت خلیفۃ المسیح الربع رحمہ اللہ کے خلاف ایک گھناؤنی سازش تیار کی۔ خدا کی تقدیر ایک بارپھر جلوہ گر ہوئی اور اِذنِ الہٰی کے تحت ہمارے پیارے حضور نے ربوہ کو خیر باد کہا اور یوکے تشریف لے آئے۔

اے یوکے کے احمدی احباب! اِس روز آپکو وہ مقام حاصل ہوا جو یثرب کے رہنے والوں کو ملا تھا۔ آپ کی بچیاں بھی گاگا کر کہہ سکتی ہیں: طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَیْنَا

کیونکہ روشنی کا وہ مینار جو تمام عالم کو منور کر رہا ہے وہ مکہ، مدینہ اور قادیان کے بعد ربوہ سے نکل کر یوکے منتقل ہو گیا ہے۔

وہ ربوہ جہاں سالانہ جلسہ ہوا کرتا تھا۔ تمام دُنیا سے لوگ وہاں آتے تھے اور ربوہ والوں کو میزبانی کا شرف حاصل ہوتا تھا۔ اب یہ سعادت خلیفۃ المسیح کے وجود کی ۔۔۔۔۔۔۔

آج ۔۔۔۔۔ وہ تمام فیوض و برکات آپ لوگوں کے حصہ میں آچکی ہیں اور آپ لوگوں کے لئے شکرانِ نعمت کا موقع ہے۔ شکر ادا کیجئے اپنے خدائے رحیم و کریم کا جس نے بِن مانگے آپ لوگوں کو یہ نعمت عطاء کی۔

جب کوئی یوکے کا رہائشی مجھے کہتا ہے کہ آپ خوش نصیب ہیں کہ ربوہ میں رہتی ہیں تو میرا جواب یہ ہوتا ہے کہ اب تو ربوہ آپ کے پاس ہے۔ اب تو یہی مدینۃ الخلفاء ہے۔ جو آپ لوگوں کو نصیب ہے۔

اس نعمت ِعظمی ۔۔۔۔۔۔۔۔خلافت سے سچا تعلق رکھیئے۔ اپنے بچوں کو اِس قیمتی دور کی قدر سکھائیے۔ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ پر عمل کیجیئے۔ اپنے اندر میزبانی کی تمام خوبیاں پیدا کیجیئے۔ اور دین کو دنیا پر مقدم ۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ اپنے فضلوں کا وارث بنائے۔ اور اپنے شکر گزار بندوں میں شامل فرما کر ہم پر مزید انعامات کی بارشیں برساتا چلا جائے۔ آمین

(تحریر: مسز نسیم مرزا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 ستمبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 ستمبر 2020