• 5 مئی, 2024

پرانی یادوں کے آنگن میں

یاد اک زخم بن گئی ورنہ
بھول جانے کا کچھ خیال تو تھا

اگست کا مہینہ ہر سال آتا ہے۔ الوہی جذبوں، امنگوں اور ہری بھری امیدوں کی ایک گھنی برسات اپنے سنگ لے کر آتا ہے۔ یادوں کے خوبصورت شیش محل پر دستک دیتا ہے۔ سوچوں کے در وا ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔۔۔ اگست کا مہینہ دنیا کے نقشے پر ایک نیا ملک ابھرنے کا مہینہ، ہجرت کا مہینہ، ایک ملک سے دوسرے ملک ہجرت کا مہینہ، جماعت احمدیہ کے ایک مرکز سے دوسرے مرکز ہجرت کا مہینہ، گرمی، گھٹن، راہ پر خار، لیکن امید کا دیا تیز ہواؤں کے تھپیڑوں کے باوجود بجھنے نہ پایا۔ نیا ملک ہو گا، نئی زمین، پاک گیتی، جس کی قدم بوسی کرنے کو ہے۔ اپنی زمین اپنی چھت ہو گی، آزادی کی فضا میں سانس لیں گے، کوئی ڈر کوئی خوف نہیں ہو گا۔ قائد اعظم کا پاکستان، جس میں ہر مذہب اور ملت کے لوگ، ہر زبان اور نسل کے لوگ ہنسی خوشی رہیں گے۔ محبت کا پر چار کریں گے۔ ہر کسی سے محبت کریں گے، نفرت کی فصل کاٹ دیں گے۔ مگر یہاں تو انتہا پسندی کا بیج بو دیا گیا۔ اسکی آبیاری کرنے والے وہ تھے جو وطن عزیز کو ہنستا کھیلتا، پھلتا پھولتا نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ اس مادر گیتی میں مذہبی اجار ہ داری قائم کر لی۔ مذہب کے نام پر خون ہو نے لگے۔ تعصب کے شعلوں نے نظریات کو کھوکھلا کر دیا اور اس سر زمین میں وہ ہو گیا جو نہیں ہو نا چاہیے تھا۔ اور یوں ستمبر 1974ء کا پر آشوب دور بھی دیکھا اس کی کچھ تلخ، کسیلی، کٹیلی یادیں ذہن کے دریچوں سے جھانکتی ہیں تو بہت سارے سوال جنم لیتے ہیں۔

  • اس وطن کی مضبوط اساس جس نظریے پر تھی اس کو کس کی نظر بد کھا گئی؟
  • اس وطن عزیز کے لیے دیکھے جانے والے امن و آشتی اور سلامتی کے خواب ابھی تک تعبیر سے محروم کیوں ہیں؟

پچھلے دنوں جلسہ سالانہ UK دیکھتے ہوئے دل اس قدر شکر کے جذبات سے لبریز ہوا۔ اتنے خوبصورت روحانی ماحول سے مستفیض ہوا۔ خدا تعالی کے جماعت احمدیہ پر فضلوں اور احسانوں کا سوچ کر روح تک نے سجدہ کیا۔

سوچوں کی اڑان ستمبر 1974ء تک پہنچ گئی۔ میری نسل کے لوگوں کے لیے شاید یہی شعور و آگہی کے دور کا آغاز تھا۔

مخالفت، پر آشوب دور، جلوس، ہنگامے، تکفیر کے فتوے، وہ پڑوسی سالہا سال سے ہم پیالہ و ہم نوالہ تھے، اچھوت سمجھنے لگے تھے۔ کیسی زہریلی ہوائیں چل پڑی تھیں۔

لیکن ان تمام حالات کے باوجود خدا تعالی کا لاکھ لاکھ شکر کہ ماں باپ نے ہمارے حوصلے پست نہ ہونے دیئے۔ ہمیں سلسلہ سے جوڑے رکھا۔ گھر کا ماحول، ہماری تعلیم، ہماری تر بیت، خلافت کے بابرکت سائےتلے ہو تی رہی۔

اس وقت ہم راولپنڈی میں ایک کالونی میں رہائش پذیر تھے۔ گھر کے بالکل سامنے جامع مسجد تھی اس کے پیش امام صاحب محکمہ اوقاف کی طرف سے متعین تھے۔ ان کا بڑا بیٹا اور میرے بڑے بھائی جان کلاس فیلو تھے۔ مسجد کے رہائشی حصے کا دروازہ ہمارے دروازے کے سامنے دس فٹ کے فاصلے پر تھا۔ ہم دونوں گھرانوں کا بہت پیار کا تعلق تھا۔ ہمارا گھر ہمیشہ سے نماز سنٹر تھا اور کالونی کے سب لوگوں کو پتہ تھا۔ مولوی صاحب کی بیگم نے جب کبھی کوئی شادی اٹینڈ کر نی ہوتی تو میری امی کا سونے کا زیور مانگ کر پہنتیں تھیں۔ میرے بھائی جان نعیم دس بارہ سال تک اس مسجد کے مینار پر چڑھ کر بھی اور مین ہال سے لاؤ ڈسپیکر سے ہر قسم کے اعلانات کیا کر تے تھے۔ 74 میں جب مسجد کے مینار سے کفر کے فتوے بلند ہونے لگے اور بھائی جان کا مسجد میں جانا بند ہوا تو وہ ہمیشہ یہی کہا کر تے تھے آنے والے دنوں میں یہ مسجدیں ہمیں ہی سنبھالنی ہیں۔

بہرحال 74 میں ہم سکولوں سے اس لیے نہیں نکالے گئے تھے کہ ہم احمدی تھے بلکہ اس لیے کہ ہم بولتے تھے۔ ہر بات کا جواب دلیل سے دیتے تھے۔ امی ابو سے جواب پوچھ کر جاتے تھے۔ ایک دو اساتذہ کافی کٹر تھے طنز کرنا، ہنس کر کوئی چبھتی ہوئی بات کہنا۔ ڈر خوف تو تھا لیکن دینی غیرت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا تھا۔

اس وقت میں میٹرک میں تھی۔ دسمبر کا مہینہ آیا تو اردو کی ٹیچر نے ہوم ورک میں ایک مضمون لکھنے کو دیا۔ جس کا عنوان تھا ’’میری زندگی کا نا قابل فراموش دن‘‘

میں نے 7 ستمبر کا واقعہ من و عن لکھ دیا۔

میں نے اس طرح لکھنا شروع کیا کہ شام کا وقت تھا آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے چل رہے تھے ہلکی ہلکی پھوار بھی شروع ہو گئی تھی امی نے 5 بجے کی خبریں سننے کے لیے ریڈیو آن کیا تو خبر آئی کہ آج پاکستان کی قومی اسمبلی نے متفقہ بل پاس کر کے جماعت احمدیہ کو غیر مسلم قرار دے دیا ہے۔ رات کو لیٹ جب میرے ابو جان گھر واپس آئے تو میں نے انہیں غیر اسلامی طریق پر سلام کہا۔ ابو جان نے پوچھا۔ آپ کیا کہہ رہی ہو؟۔ میں نے جواب دیا۔ جی أبو! آج سے حکومت نے ہمیں غیر مسلم جو بنا دیا ہے اس پر ابو جان نے سمجھایا۔ بیٹا! کسی کے کہنے سے کوئی اپنا مذہب کیسے بدل سکتا ہے یہ تو بندے کے دل کا اور خدا کا معاملہ ہے۔ ۔ ۔

اس طرح چار صفحوں کا مضمون لکھا اس دن اس موضوع پر گھر پر جتنی باتیں ہوئیں ساری لکھ دیں اور صبح کاپی ساری کلاس کی کاپیوں کے ساتھ ٹیچر کو دے دی۔ انجام سے بےخبر ہو کر۔

یہاں پر اپنے والد صاحب چوہدری محمد اقبال کا ذکر کر دوں۔ اس پر آشوب دور میں دو یا تین راتیں تھانے میں بھی گزاریں۔ سیکورٹی کے اداروں کا خیال تھا کہ ان کا عقیدہ لوگوں کے لیے نقص امن کا باعث ہو سکتا ہے۔ اس لیے ان کی طرف سے ہدایت تھی کہ وہ سارا دن لوگوں کو نظر نہ آئیں۔ اس لیے وہ صبح منہ اندھیرے گھر سے نکل جاتے تھے اور رات کو بہت لیٹ گھر آتے تھے۔ ہماری کالونی کی دیواروں پر ابا جان کے خلاف نعرے لکھے ہوئے تھے۔ اقبال کافر ہے اقبال چور ہے وہ وقت کافی مشکل تھا۔

بہرحال اس مضمون کا ذکر ہو رہا تھا۔ ایک دو دن تک تو ٹیچر نےکاپیاں چیک نہیں کیں۔ لیکن جونہی تیسرا دن آیا میرا دل خوف کھانے لگ گیا۔ امی سے میں نے ذکر نہیں کیا تھا کہ میں یہ سب کچھ مضمون میں لکھ چکی ہوں۔ چوتھا دن آیا تو ٹیچر نے ساری کاپیاں کلاس میں بھجوادیں مگر اس میں میری کاپی نہ تھی۔ اب تو صحیح معنوں میں میرے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ ہمارا کلاس روم کافی فاصلے پر مگر سٹاف روم کے سامنے واقع تھا۔ ٹیچر کو میں نے آتے ہوئے دیکھ لیا تھا ان کے ہاتھ میں کاپی تھی۔ آیا کو بھیجا کہ کوثر کو بلا کر لاؤ۔ میں پتہ نہیں کس طرح انکے پاس پہنچی تو انہوں نے میرا کان مروڑا، ایک ہلکی سی چپت رسید کی، کاپی نسبتا نرمی سے میرے سر پر ماری اور بولیں ’’بہت بڑی ہو گئی ہو، طرم خان بن گئی ہو، اپنے آپ کو بہت بڑا سمجھنے لگی ہو۔ اپنی حد میں رہا کرو‘‘ (میں بزم ادب سو سائٹی کی صدر بھی تھی) میری آنکھوں میں آنسو آئے بھی اور شاید ٹپکے بھی اس بات پر نہیں کہ ٹیچر نے پٹائی کی بلکہ اس بات پر ساری کلاس سر نکال نکال کر میری بے عزتی ملاحظہ کر رہی تھی۔ آہ! بہت برا وقت تھا وہ (اب یاد آتا ہے تو زخموں سے پھول برستے دکھائی دیتے ہیں اور کہکشا ؤں میں ستارے ہنستے ہیں۔ کاش! یہ وقت دوبارہ آجائے) بہرحال میں آنسو پیتی ہوئی کاپی لے کر واپس آئی۔ کلاس فیلوز نے خوب ہنسی اڑائی، مذاق کیا کچھ نے تو کاپی بھی چھیننے کی کوشش کی کہ ہمیں بھی بتاؤ! میں نے کاپی بیگ میں ڈالی اور سارا دن اپنے بینچ سے نہیں اٹھی دل بہت دکھی تھا ڈیڑھ بجے چھٹی ہوئی۔ سکول سے گھر کا رستہ پیدل تھا بڑی مشکل سے کٹا، جب تک کاپی خود کھول کر نہ دیکھتی امی کو کیا بتاتی اس لیے کھانا وغیرہ کھا کر بستہ کھول کر بیٹھی اور کاپی کھولی تو حیران رہ گئی خوشی کے مارے جذبات بے قابو ہو گئے۔ ٹیچر کے ریمارکس اتنے خوبصورت تھے کہ اب تک نہیں بھولے۔

’’بہت خوبصورت تحریر ہے اندزبیان بہت شاندار ہے اخباروں میں لکھ سکتی ہو مگر کوشش کرو کہ آپ کی تحریر میں مذہبی اور سیاسی واقعات نہ آئیں‘‘

تضاد تو بہت کھلا تھا مگر میری ذات کے لیے بہت بڑی کامیابی تھی۔ پھر اس کے بعد میں نے بڑی باقاعدگی کے ساتھ جنگ اور نوائے وقت میں لکھا فیڈرل کے ایک محکمہ میں جس دن میرا جاب کا انٹر ویو تھا شومئی قسمت سے اس دن کے جنگ اخبار میں خانگی مسائل پر میرا ایک بڑا مضمون شائع ہواتھا سارا انٹر ویو اسی مضمون پر تھا ڈائریکٹر جنرل نے کہا کہ ہم آپ جیسے ذہین لوگوں کو ضائع نہیں ہو نے دیں گے۔

یادوں کا ذکر چل رہا ہے تو ایک اور دلچسپ بات یاد آگئی۔ ایک دفعہ حضرت چھوٹی آپا جان لجنہ راولپنڈی کے دورے پر بیت ا لحمد مری روڈ راولپنڈی تشریف لائیں لجنہ سے خطاب کیا میں نے ایسے ہی جنگ اخبار میں خواتین کے صفحے میں ایک مضمون بھیج دیا جو یوں شروع ہوتا تھا۔

’’چھوٹی آپاجان ہماری عورتوں کی تنظیم کی سربراہ ہیں وہ دورے پر تشریف لائیں اور مختلف تربیتی مسائل اور ان کا حل بتایا۔ ۔ ۔ وغیرہ

محترم دین محمد شاہد مرحوم اس وقت راولپنڈی میں مربی سلسلہ تھے اس سال جب میرا نکاح ہوا تو مربی صاحب نے میرے خطبہ نکاح میں بتایا کہ اخبار میں یہ مضمون پڑھ کر سوچتا رہا کہ یقینا یہ بچی احمدی ہے پھر پتہ کروایا تو پتہ چلا کہ یہ ہی بچی ہے جس کے نکاح کا آج میں اعلان کر نے لگا ہوں۔ ۔ ۔

1974ء کے مشکل دور میں مذہبی تعصب کا شکار لوگوں کے چہرے بھی دیکھے، منافقت بھی دیکھی، ایسے فرشتہ صفت لوگ بھی دیکھے جنہوں نے مخالفوں کے مقابل پر بھر پور ساتھ دیا، اب توزمانہ قحط الرجال کی وبا کا شکار ہے ایسے اچھے لوگ کم ہی دکھائی دیتے ہیں۔

ہاں لیکن ابھی امید باقی ہے۔ انہی سے قطرات محبت ٹپکیں گے۔

اپنی کچھ یادوں کو تو میں نے آپ کے سامنے رکھ دیا ایک ایسی بات بھی تحریر کرنا چاہتی ہوں جو یقینا آپ کے لیے بھی خوشکن ہو گی۔

1974ء میں ہمارے گھر سے 5 یا چھ گھر چھوڑ کر ایک فیملی رہتی تھی۔ جن کے والد صاحب کسی محکمے میں سیکشن آفیسر تھے ان کا بڑا بیٹا عارف میرے بڑے بھائی جان نعیم کےکلاس فیلو تھے۔ مخالفت میں بڑے پیش پیش تھے۔ کئی سال وہیں رہے پھر شادیاں ہو گئی ہونگی۔ سب کچھ بکھر جاتا ہے وقت کے ساتھ ساتھ۔ کچھ مہینے پہلے عارف کے ایک کزن سے بھائی جان کی ملاقات ہو ئی اور پتہ چلا کہ عارف صاحب دس پندرہ سال پہلے اپنی پوری فیملی سمیت جماعت احمدیہ میں شامل ہو چکے ہیں اور بیرون ملک مقیم ہیں۔ ان کی بڑی خوش نصیبی کہ ہدایت کے نور کو کشید کر لیا اور نسلوں کی رہنمائی مقدر کر لی۔

یہ ضرور ہے کہ یادوں کی جگالی انسان کو تازہ دم کر دیتی ہے۔

باقی یادیں ان شاء اللہ اگلی نشست میں۔

(کوثر ضیاء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 ستمبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ