• 5 مئی, 2024

سو سال قبل کا الفضل

4؍ستمبر 1922ء یومِ دو شنبہ (سوموار)
مطابق 11 محرم الحرام 1341 ہجری

صفحہ اول ودوم پرایک مفصل رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میں حضرت مصلح موعودؓ کے ماہ اگست میں ارشاد فرمودہ درس القرآن کا ذکر ہے۔ ابتداءً چند روز حضورؓ ظہر تا مغرب درس ارشاد فرماتے رہے۔ بعدازاں صبح ساڑھے چھ تا گیارہ بارہ بجے تک کا وقت درس کے لیےکر دیا گیا۔جبکہ آخری ایام میں دو وقت یہ درس ہوتا رہا۔اخبار لکھتا ہے کہ ’’گرمی کے ایسے سخت اور تکلیف دہ موسم میں حضرت خلیفۃ المسیح ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے باوجود صحت کی کمزوری کے جس قدر محنت اور مشقت برداشت فرمائی ہے اسے دیکھتے ہوئے ہماری تو عقلیں حیران ہیں۔ اکتیس دن متواتر آٹھ نو گھنٹے روزانہ تین چار سو کے مجمع میں اتنی بلند آواز سے درس دینا کہ ہر ایک بخوبی سن سکے کوئی معمولی بات نہیں۔خداتعالیٰ کا خاص فضل ہی تھا جو حضور کے شاملِ حال رہا… درس سننے والے سننے کے بعد چُور ہو کر اٹھتے۔ لیکن حضرت خلیفۃ المسیح ثانی ایدہ اللہ روزانہ وقت کے ختم ہو جانے یا دوستوں کی خاطر کہ انہیں بیٹھنے میں تکلیف نہ ہو درس ختم کرتے تھے۔ اور کوئی ایک موقع بھی ایسا نہ آیا کہ حضور نے اپنی تھکاوٹ اور تکان کی وجہ سے درس دینا ختم کیاہو۔صبح کے وقت سوا نو بجے15منٹ کی چھٹی دی جاتی تھی تاکہ احباب چل پھر لیں اور کچھ کھا پی لیں۔اس وقفہ میں حضرت خلیفۃ المسیح بعض دفعہ تو مسجد میں ہی بیٹھے رہتے اور کبھی گھر بھی تشریف لے جاتے لیکن مقررہ وقت پر واپس تشریف لے آتے۔‘‘

ان ایام میں شاملین کے دو معیار بنا کرروزانہ گزشتہ روز کے درس کا امتحان بھی لیا جاتا رہا۔ اس امتحان کا نتیجہ یوں رہا۔ اول: حضرت مولانا شیر علی صاحبؓ، دوم: پروفیسرعبداللطیف صاحب ایم اے، سوم: مولوی رحیم بخش صاحب ایم اے (مولانا عبداللرحیم درد صاحب)۔ اس د رس کو قلمبند کرنے کے لیے آٹھ دس آدمی مقرر کیے گئے۔ آخری روز 31 اگست کوحضورؓنےسورہ توبہ پر درس کے ختم کرنے کا ارادہ فرمایا تھا۔ لہٰذا صبح سے 12 بجے تک اور بعد ازنمازِ ظہر تاعصر اور پھر عصر کے بعد بھی حضورؓنےدرس ارشاد فرمایا۔ درس کے اختتام پر حضورؓ نے مختصرخطاب بھی فرمایا اور بڑے الحاح کے ساتھ دعا کروائی جو مغرب کے وقت ختم ہوئی۔ دوسرے روز یعنی یکم ستمبر کو حضورؓ نے تمام بیرونی شاملین اور بعض مقامی احباب کی دعوت فرمائی۔

صفحہ نمبر2 پرمدراس ہائیکورٹ کےا یک فیصلہ کا ذکر ہے جس میں مالابار کی ایک احمدی خاتون کا نکاح غیر از جماعت نے دوسری جگہ پڑھا دیا تھا۔ اس کیس کی پیروی حضرت چودھری ظفراللہ خان صاحبؓ نے کی تھی۔ اس فیصلہ میں کہا گیا کہ ’’احمدی بھی مسلمان ہیں کیونکہ وہ بھی حضرت محمدﷺ کی رسالت اور خداتعالیٰ کی توحید پر ایمان رکھتے ہیں۔ فاضل ججوں نے کہا کہ احمدی اسلام کا ایک اصلاح شدہ فرقہ ہے۔وہ قرآنِ کریم کو اپنی الہامی کتاب مانتے ہیں اور یہ کہنا ناجائز ہے کہ وہ مرتدین عن الاسلام ہیں۔‘‘

صفحہ نمبر3 و 4 پر ’’مسئلہ توجہ‘‘ کے بارہ میں حضرت مصلح موعودؓ کے ارشادات درج ہیں جو حضورؓ نے ایک مجلس میں بیان فرمائے تھے۔ آپؓ نے فرمایا ’’خداتعالیٰ کی توجہ کے حصول کا اصل وقت نماز ہی ہے۔کیونکہ یوں مراقبہ کرنے پر تو صرف یہ ہوتا ہے۔۔ ۔۔۔خداتعالیٰ کی طرف توجہ ڈالتا ہے۔ مگر نماز میں ایسی حالت ہوتی ہے کہ انسان خدا کی طرف توجہ کرتا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی سمجھتا ہے کہ خدا اس کے سامنے موجود ہے اور اس کی طرف دیکھ رہا ہے اور جب وہ جس کی طرف توجہ کی جائے، سامنے ہو تو زیادہ اثر ہوتا ہے۔‘‘

صفحہ نمبر5 و 6 پر حضرت مصلح موعودؓ کا خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 22اگست 1922ء درج ہے۔

مذکورہ اخبار کے مفصل ملاحظہ کےلیے درج ذیل لنک ملاحظہ فرمائیں۔

https://www.alislam.org/alfazl/rabwah/A19220903.pdf

(م م محمود)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 ستمبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ