تعارف
جماعت احمدیہ کراچی کے دیرینہ خادم مکرم محمد اقبال منہاس صاحب 16فروری 2016ء کو وفات پاگئے۔ خاکسار کا ان سے تعلق 1984ء میں زیادہ گہرا ہوا۔ اس وقت ہماری رہائش ڈرگ روڈ کے حلقہ میں تھی اور کراچی جماعت کے پروگراموں کے موقع پر سلام دعا ہوجاتی تھی۔ پھر جب ان کی تحریک پر ہم ماڈل کالونی میں منتقل ہوئے تو زیادہ قربت ہوئی۔ مکرم اقبال منہاس صاحب انتہائی شفقت کرنے والے بزرگ تھے۔ آپ نے کئی مواقع پر اپنی زندگی کے متفرق واقعات خاکسار کے سامنے بیان کیے اور اکثر کہا کرتے تھےکہ یہ واقعات جماعت کی امانت ہیں اور میری خواہش ہے کہ یہ کہیں محفوظ ہوجائیں۔
ابتدائی رہائش
مکرم محمد اقبال منہاس صاحب بیان کیا کرتے تھے کہ سن پچاس کی دہائی میں جب انہوں نے ماڈل کالونی میں رہائش اختیار کی تو یہ علاقہ کراچی کی دور افتادہ بستی میں شمار ہوتا تھا۔ صر ف ایک بس کراچی شہر کے لئے صبح روانہ ہوتی تھی جو شام کو واپس آتی تھی۔ اپنے دفتر جانے کے لئے بس کا سفر کرتے پھر لوکل ٹرین سروس شروع ہونے پر اس پر سالہا سال سفر کرتے رہے۔
اس عرصہ میں یہ علاقہ حلقہ ملیر کینٹ میں شامل ہوتا تھا۔ بعدازاں اس کو علیحدہ حلقہ بنایا گیا۔
صدر کے طور پر انتخاب
آپ بیان کرتے تھے کہ اگرچہ جماعت سے محبت تو خون میں تھی مگر تنظیمی طورپر زیادہ تعلق نہ تھا ہاں شام کے وقت دوستوں کے ساتھ والی بال کھیلا کرتا تھا۔ ایک مرتبہ وہیں اطلاع ملی کہ جماعت کی طرف سے مجھے صدر کی ذمہ داری دے دی گئی ہے۔ کہتے ہیں کہ مجھے تو کوئی تجربہ نہ تھا تاہم اطاعت کے جذبہ کے تحت کام کا آغاز کیا اور گھر گھر جاکر احباب سے رابطہ کیا اور ان کے مسائل سے آگاہی حاصل کی۔ وہ کہا کرتے تھے کہ اس وقت میرا یہ کام ہوتا تھا کہ احباب کے سماجی اور معاشی مسائل حل کرنے کے لئے جس قدر توفیق ہوتی کوشش کرتا۔ اکثر کہتے کہ ہم تو والی بال کھیلتے کھیلتے جماعت کے خدمت گار بن گئے۔
1974ء کے حالات
وہ دور جب ایک منظم سازش کے تحت جماعت احمدیہ کے خلاف ملک بھر میں مہم چلائی گئی تو ماڈل کالونی میں مقیم احمدی احباب کو بھی تنگ کیا جانے لگا۔ ایک دو غیر احمدی افراد جن میں سے ایک شخص ایک نیم مذہبی سیاسی جماعت سے اور دوسرے ایک مقامی مسجد کے امام تھے،پیش پیش تھے۔ منہاس صاحب بتا تے تھےکہ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ جو احمدی اپنے گھروں کی تعمیر کے لئے سامان لائے ہوتے وہ چوری کر لیا جاتا،مگر مکرم محمد اقبال منہاس صاحب ان احباب کو حوصلہ دلاتے اور اس طرح یہ مشکل وقت گزر جاتا۔اسی طرح 1984ء اور اس کے بعد کا دور بھی آپ نے جماعت کو حوصلہ دیتے ہوئے گزارا اور بڑی حکمت کے ساتھ بعض معاملات کو سنبھالا۔ جب مخالفین کی طرف سے کلمہ مٹانے کی مہم کا آغاز ہوا تو مسجدبیت الثنا ء ماڈل کالونی کی اندرونی دیوار پر جلی حروف میں کلمہ طیبہ کندہ تھا۔ مولویوں کی شکایت پر جب انتظامیہ کے اعلیٰ افسران معائنہ کے لئے آئے تو مکرم اقبال منہاس صاحب نے حکمت عملی سے کام لیتے ہوئے افسران کو کہا کہ شکایت کنندہ تو اس عمارت کے قریب رہتے ہی نہیں، آپ ہمارے پڑوسیوں سے بات کرلیں۔ اس پر افسران نے اردگردکے محلہ داروں سے جب پوچھا تو ان سب نے کہا کہ ہمیں تو اس بارہ میں کوئی شکایت نہیں کہ یہاں کلمہ کیوں لکھا ہواہے۔ اس پر انتظامیہ نے کچھ تجاویز دیں اور مکرم منہاس صاحب نے رات ہی رات میں اس پر عمل کروایا اور اس طرح کسی قسم کی بدمزگی بھی نہ ہوئی اور جماعت کے بارہ میں انتظامیہ اچھا تأثر لے کر گئی۔
مسجد بیت الثناء کے قیام کی کوشش
گزرتے وقت کے ساتھ مکر م منہاس صاحب کی کو ششوں سے ماڈل کالونی میں احباب جماعت کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا اور باقاعدہ ایک جماعتی سینٹر کی ضرورت شدّت سے محسوس کی جانے لگی۔ اس سے قبل ایک دوست مکرم سیف اللہ خان صاحب کے گھر کا ایک کمرہ جماعتی پروگرامز اور نماز کے لئے استعمال ہوتا تھا۔ اچانک انہوں نے اظہار کیا کہ میں بوجوہ اپنا مکان فروخت کرنا چاہتا ہوں۔میر ی پہلی ترجیح یہی ہے کہ جماعت اس جائیداد کو خرید لے۔ مکرم منہاس صا حب بیان کرتے ہیں کہ میں نے یہ تمام صورتحال پہلے اپنی عاملہ میں رکھی اور پھر مکرم چوہدری احمدمختار صاحب، امیر جماعت احمدیہ کراچی کے سامنے بیان کی۔
مکرم امیر صاحب ایک روز اپنی عاملہ کے ساتھ ماڈل کالونی آئے اور جس مکان کے لئے خریداری زیر تجویز تھی اس میں اجلاس منعقد کیا۔ممبران عاملہ نے قیمت کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کیاکہ فی الحال جماعت اتنی رقم خر چ نہیں کر سکتی۔ مکرم امیر صاحب نے فرمایا کہ جماعت یہ جائیداد ضرور خریدے گی اور پھر ایسے حالات پیدا ہوگئے کہ ماڈل کالونی کو اپنا جماعتی سینٹر مل گیا۔ جس کا نام مسجد بیت الثناء رکھا گیا ہے۔
عبادت میں شغف
مکرم محمد اقبال منہاس صاحب نے اپنی زندگی مستقل اسی کو شش میں گزاری کہ مسجدبیت الثناءنمازیوں سے آباد رہے۔ اس مقصد کے لئے آپ نے اپنا ذاتی مکان بھی بالکل قریب ہی بنایا اور خود بھی باجماعت نمازیں ادا کرتے اور دورہ کرکے اور بعد ازاں فون کی سہولت مہیا ہونے پر اس ذریعہ سے بھی احباب کو مسجدبیت الثنا ءکی حاضری بڑھانے کی طرف مستقل توجہ دلاتے رہتے۔ خاکسار کا مشاہدہ ہے کہ ان کی ا س مخلصانہ کوشش کی وجہ سے مسجدبیت الثناء کراچی کی ان مساجدمیں سے ایک ہے جہاں تمام نماز یں باجماعت ہوتی ہیں اور ایک مناسب تعدا د شامل ہوتی ہے۔
اپنے آخری ایام زندگی میں جب کمزوریٔ صحت آپ پر غلبہ پاچکی تھی تو بھی اپنی جھکی ہوئی کمر کے ساتھ چھڑی کے سہارے پانچوں نمازوں پر آتے رہے حتیٰ کے آخری تین چار ماہ جب چلنے پھرنے کے قابل نہ رہے تو مسجدبیت الثنا ء آنے سے محروم ہوگئے جس کا ان کو بہت افسو س رہتاتھا۔
مجالس دعوت الیٰ اللہ
مکرم محمد اقبال منہاس صاحب کی ایک اور صفت یہ تھی کہ دعوت الیٰ اللہ کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ اکثر ذکر کرتے تھےکہ جب کبھی حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحبؒ کراچی آتے تو مکرم چوہدری احمد مختار صاحب اپنے دفتر سے فون کرتے تھےکہ مکرم میاں صاحب آگئے ہیں آپ مجلس سوال و جواب کا انتظام کرلیں اور پھر یہ سلسلہ حضورؒ کے خلافت کے منصب پر فائز ہونے تک جاری رہا اور اسی خوبی کی وجہ سے ایک وہ وقت بھی آیا جب مکرم منہاس صاحب نے بیان کیا کہ جب میں نے اپنا نیا مکان بنایا تو مکرم صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب ؒکو درخواست کی کہ مکان کے بابرکت ہونے کے لئے یہاںتشریف لاکردعاکروائیں۔مگر اپنی مصروفیات کے باعث وہ اس خاص موقع پر تشریف نہ لا سکے۔ پھر ایک روز کسی مجلس سوال و جواب کے لئے ماڈل کالونی تشریف لائے تو مکرم میاں صاحبؒ نے فرمایا کہ آج میں نماز آپ کے گھر پرپڑھوں گا۔ چنانچہ انتظام کیا گیا اور بعدمیں حضرت مرزا طاہر احمد صاحبؒ نے بتایا کہ میں نے عہد کیا تھا کہ جب بھی موقع ملا آپ کے گھر آکر آپ کی خواہش پوری کروں گا۔
ہمسایوں کے ساتھ حسن سلوک
ایک مسجدبیت الثناءکے ماحول میں رہنے والے تمام اہل محلہ سے گھریلوسطح پر تعلقا ت رکھتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ جب جماعتی مخالفت کی وجہ سے حالات کشیدہ ہوتے تو مسجدالثنا ء کے اردگردرہنے والے ہمیشہ جماعت کا ساتھ دیتے۔ 1984ء میں جب حکومتی انتظامیہ نےشرپسندوں کی شکایت پر نماز سینٹر کا دورہ کیا اور پڑوسیوں سے تأ ثرات لئے تو یہی جواب ملا کہ ہمیں جماعت سے کوئی شکایت نہیں۔ وہ اکثر جماعت میں نئے کام کرنے والے کی اس بارہ میں رہنمائی کرتے تھےاور محلہ داروں سے تعلقات استوار کروانے کے لئے ملاقات بھی کرواتےتھے۔
مہمان نوازی
آپ کی ایک نمایاں خوبی مہمان نوازی بھی تھی۔ اس حوالہ سے ان کے تما م اہل خانہ بھی برابر کے حصہ داررہے۔ یہ ایک الگ موضوع ہے کہ کس کس طرح آپ نے جماعت کے احباب کی مہمان نوازی کی توفیق پائی۔
مربیان سلسلہ کے ساتھ حسن سلوک
مسجدبیت الثناء کے قیام کے بعد ان کی ہمیشہ یہ کو شش رہی کہ جماعت کی طرف سے مربیٔ سلسلہ کا تقرر ہوجائے۔ پھر ہمیشہ آپ ان مربیان کی حسب توفیق خدمت کرتے اوراُن کے مقام اور مرتبہ اور عزت کو قائم رکھنے کے لئے نہ صر ف خود مثال بنتے بلکہ دوسروں کو بھی یہ احساس دلاتے کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہماری تربیت کی خاطر اپنی زندگی وقف کی ہوئی اس لئے ہمیں ان کو عزت و احترام سے رکھنا ہے اور ہرقسم کا تعاون مہیا کرنا ہے۔ جب کبھی سینٹر میں کسی مربی کا تقرر نہ ہوتا تو مسلسل امیر صاحب سے درخواست کرتے رہتے کہ جلد ہمارے لئے مربی کا انتظام کیا جائے۔
ذیلی تنظیموں کے ساتھ تعاون
مکرم اقبال منہاس صاحب بطور صدر تمام ذیلی تنظیموں کے ساتھ انتہائی شفقت کا سلوک فرماتے اور جماعتی روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے جب بھی کوئی کام لینا ہوتا تو تنظیم کے مقامی سربراہ کو بلا کر اعتماد میں لیتے اور اس رنگ میں کام سپردکرتےکہ کسی کو کبھی یہ احساس نہ ہوتا کہ ہمارے کام میں مداخلت کی گئی ہے۔ مکرم اقبال منہاس صاحب قائد مجلس خدام الاحمدیہ سے دوستی کا تعلق پیدا کرلیتے تھے۔اگر کبھی کسی سے کوئی لغزش ہوجاتی تو اس پیارے انداز سے اس کی طرف توجہ دلاتے کہ سننے والے کو کوئی ملال نہ ہوتا۔
مجھے یاد ہے کہ جب مجھے مجلس ملیر کے قائد کے طور پر خدمت کرنے کا موقع ملا تو مسجدبیت الثناء میں ایک عید کے موقع پر امیر صاحب جماعت احمدیہ کراچی کی طرف سے تمام احباب کے لئے مٹھائی کا تحفہ بھجوایا گیا۔ حسن اتفاق سے یہ مٹھائی جو گیسٹ ہاؤس کراچی میں تیا رکی گئی تھی، اس کے لئے چند خدا م ہماری مجلس سے بھی لئے گئےتھے۔ بوجوہ وہ مٹھائی بروقت تقسیم نہ ہوئی اور خاکسار نے اپنی خدام الاحمدیہ کی ماہانہ رپورٹ میں اس کا ذکر کردیا کہ مٹھائی ضائع ہوگئی۔ اُن دنوں مکرم اقبال منہاس صاحب بیرون ملک گئے ہوئے تھے۔ مجلس کی ارسال کردہ رپورٹ پر مکرم نیشنل صدر صاحب خدام الاحمدیہ نے مکرم امیر صاحب کراچی کو اس واقعہ کے بارہ میں تحریر کردیا اور مکرم امیر صاحب کراچی کی طرف سے صدر جماعت ماڈل کالونی سے اس بارہ میں وضاحت طلب کی گئی۔ اس خط کے آنے تک مکرم اقبال منہاس صاحب واپس آچکے تھے۔ انہوں نے خاکسار کو بلایا اور بڑی محبت سے تمام تفصیل معلوم کی اور پھر ہلکے سے تبسم کے ساتھ فرمایا کہ آئیں اب مل کر اس کا جواب لکھتے ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے خاکسار کو کہا کہ آپ میری طرف سے جوا ب تحریر کریں۔ اس طرح ایک نازک معاملہ کو اپنی حسن تدبیر سے حل کرلیا اور پھر آخر عمر تک جب بھی دوستوں میں بیٹھتے تو ازراہ تفنن کہا کرتے کہ ہمار ا یہ حال ہے کہ جو ہماری شکایت کرے ہم اسی سے اس کا جواب بھی لکھوالیتے ہیں۔ کبھی بھی اس بات کا اظہار نہ کیا کہ کیوں اس قسم کا واقعہ رپورٹ کیا گیا۔
لجنہ اماء اللہ کے پروگرامز جب بھی ہوتے تو ہر قسم کے انتظامات اپنی نگرانی میں کرواتے اور جب تک تمام ممبرات بحفاظت چلی نہ جاتیں یہ اپنے گھر نہ جاتے۔
مبلغین کو حالات بیان کرنے کی ترغیب
جماعت ماڈل کالونی ایئر پورٹ کے قریب ہے اس لئے عموماً ایسا موقع پیدا ہوجاتا ہےکہ کسی واقف زندگی کوبیرون ملک جانے یا آنے کے لئے کچھ دیر ۔۔۔۔میں قیام کی ضرورت پڑجاتی ہے۔اس موقعہ کو غنیمت جان کر مکرم منہاس صاحب ہمیشہ احباب کے لئے ایک قسم کی مجلس ارشادکا انتظام کردیتے اور کسی نہ کسی نمازکے بعد معززمہمان سےدرخواست کرتے کہ میدان عمل کے ایمان افروز واقعات سنائیں۔
اسی طرح حلقہ کے ایسے نوجوان جو جامعہ احمدیہ میں زیر تعلیم ہوتے اور رخصت پر آتے تو آپ ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ان کو خطبات جمعہ دینے کا موقع دیتے اور کہتے کہ اس طرح ان کی مشق ہو جائے گی۔ اسی طرح جب ایسے طلباء جامعہ واپس جانے لگتے تو ایک بے تکلف سی چائے پارٹی کا انتظام کرتے اور اس میں جماعت کے چیدہ چیدہ عہدیداران کو ضرور شامل کرتے۔
اجلاسات امیر صاحب
مکرم اقبال منہاس صاحب جب بطور صدر ضلعی اجلاس میں شرکت کے لئے جاتے تو 1984ء کے زمانہ میں مکرم امیر صاحب جماعت احمدیہ کراچی کی ہدایت کے ماتحت قائدین مجالس اور انصار اللہ کے عہدیدران بھی شامل ہوتے۔ آپ ہمیشہ اپنی گاڑی میں انہیںاپنے ساتھ لے جاتے اور دوران اجلاس اگر امیر صاحب کسی معاملہ میں کوئی ذمہ داری لگانا چاہتے تو یہ غیر محسوس انداز میں ہمیں پیغام دے دیتے کہ اب تیار رہیں۔ اس طرح ہمیں یہ احساس دلاتے کہ یہ کام ہمارے ذریعہ ہی ہوگا۔
مکرم چوہدری احمد مختار صاحب، امیر جماعت کراچی کے ساتھ خصوصی تعلق
مکرم اقبال منہاس صاحب کا ایک خصوصی دوستانہ تعلق مکرم چوہدری احمد مختار صاحب، امیر جماعت کراچی کے ساتھ تھا۔ خاکسار نے اکثر دیکھا کہ جب بھی کسی امر میں مشورہ اور رہنمائی کی ضرورت پڑتی تو فوراً امیر صاحب کو فون کرتے اور امیر صاحب بھی ازراہ شفقت ان کو اپنے مشورہ سے نوازتے۔ یہ ذکر تو پہلے ہوہی چکا ہے کہ امیر صاحب بڑے اعتماد کے ساتھ ان کو کہا کرتے تھےکہ حضرت صاحبزادہ میاں طاہر احمد صاحبؒ آئے ہوئے ہیں، مجلس سوال و جواب کا انتظام کریں۔
آپ امیر صاحب کی عاملہ میں سیکریٹری امور عامہ اور سیکریٹری ضیافت بھی رہے۔ اس حوالہ سے بھی ہمہ وقت آپ امیر صاحب سے رابطہ میں رہتے اور جو بھی ہدایات دی جاتیں ان پر بھرپورعمل کرتے تھے۔
اطاعت امیر
2005ءمیں حلقہ کے عہدیدران کے انتخابات ہوئے۔ قبل ازیں خاکسار بطور نائب صدر کام کررہا تھا اور مکرم اقبال منہاس صاحب اپنی صحت کی خرابی کی بناء پر ضلعی میٹنگز میں خاکسار کو ہی بھجوایا کرتے تھے۔ انتخابات کے بعد ایک روز خاکسار کو جنرل سیکریٹری صاحب جماعت احمدیہ کراچی کی طرف سے فون آیا کہ مکرم امیر صاحب نے آپ کی منظوری بطور صدر دی ہے۔ کہنے لگے کہ اب آپ کی ٹریننگ ہو گئی ہے۔ (اس سے پہلے خاکسار کو اطمینان تھا کہ مکرم اقبال منہاس صاحب ہی بطور صدر کام کریں گے۔) اس امر کا اعلان ابھی نہیں ہوا تھا اور خاکسار بھی اس ذمہ داری کے بوجھ کی وجہ سے کچھ متذبذب تھا۔ ان دنوں قادیان کے جلسہ کے حوالہ سے احبا ب کے کوائف جمع کئے جارہے تھے اور یہ کام حلقہ میں جس ٹیم کے سپرد تھا اس میں مجھے بھی شامل کیا گیا تھا۔ جب ان فارمز پر صدر کے دستخط کرنے کا مرحلہ آیا تو میں نے اظہار کیا کہ امیرصاحب نے میری منظوری دی ہے۔ آپ نے بغیر کسی توقف کے سارے فارم میری طرف کھسکا دیئے کہ جب آپ صد ر ہیں تو آپ ہی دستخط کریں۔ آپ کے اس ردعمل نے خاکسار کو بہت متأثر کیا اور انہوں نے ثابت کیا کہ اطاعت میں ہی تمام برکات ہیں۔ بعد ازاں آپ کی طرف سے ہر قسم کا تعاون خاکسار کو حاصل رہا۔ اللہ تعالیٰ ان کو اس کی جزاء خیر دے۔
خدمت خلق
آپ کی ایک اور نمایا ں خصوصیت خدمت خلق تھی اور اس میں آپ کوئی تخصیص نہ کرتے تھےاور اپنی طاقت سے بڑھ کر خدمت کرتے۔ اکثر بیان کرتے کہ جب وہ نئے نئے حلقہ کے صد ر بنے تو اپنی موٹر سائیکل پر کچھ راشن رکھتے اور ضرورت مند احباب تک خود پہنچا کر آتے۔ اس طرح نہ صرف ضرورت پوری ہو جاتی بلکہ اس بارہ میں کسی اَور کو علم بھی نہ ہوتا۔ جب کبھی صدقہ کا گوشت تقسیم کرنے کا موقع ہوتا تو آپ ایسے افراد کے نام بتاتے جن کو یہ گوشت دیا جانا چاہئے۔ تاہم آپ کی اپنی کیفیت یہ تھی کہ جو بھی خدمت کرتے اس کی کبھی تشہیر نہ کرتے۔ اسی طرح دوسروں کو بھی اس نیکی کی تحریک کرتے رہتے۔
تقسیم ملک کے وقت ایک خصوصی خدمت
جب کبھی نجی محفلوں میں بیٹھتے تو اکثر یہ تذکرہ کرتے کہ تقسیم ملک کے وقت وہ لاہور میں مقیم تھے اور ایک روز خدام کے لئے یہ پیغام آیا کہ فوراً پہنچیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم جس حالت میں بھی تھے حاضر ہوگئے۔ انہیں قادیان بھیجا گیا۔
شعری ذوق
مکرم اقبال منہاس صاحب اپنی گفتگو میں اشعار کا برمحل استعمال کرتے تھے اور اپنے بچپن اور جوانی کے دور میں جو نظمیں پڑھی تھی وہ ان کویاد تھیں اور بغیر کسی رکاوٹ کے سنایا کرتے تھے۔ جن دنوں وہ صاحب فراش تھے خاکسار ان کی عیادت کے لئےاپنی اہلیہ کے ساتھ گیا تو وہ کرسی پر بیٹھے تھے۔ آپ ہمیں پہچان گئے۔ اس کے بعدآپ نے ایک نظم بھی سنائی جو اسی طرح روانی سے ان کو یاد تھی جیسے پہلے ہوا کرتی تھی۔ اسی طرح اگر کبھی میں ان سے چند دن نہ مل سکتا تو پیار کے انداز میں کوئی نہ کوئی شعر پڑھ کر شکوہ کرتے۔
مطالعہ کتب
آخری چند سال جب آپ مغرب کی نماز کے لئےمسجد بیت الثناء آتے تو جماعت کے دفتر میں ایک طرف بیٹھ جاتے اور کوئی نہ کوئی جماعتی کتاب اپنے زیر مطالعہ رکھتے اور پھر عشاء کی نماز پڑھ کر واپس جاتے۔ گھر میں بھی اکثر کوئی نہ کوئی کتا ب زیر مطالعہ رہتی۔
غرض مکرم محمد اقبال منہاس صاحب جماعت احمدیہ ماڈل کالونی کراچی کی ایک دعاگو شخصیت اور مشفق بزرگ تھے اور جماعت کے لئے ایک مفید وجود رہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ مغفرت کا سلوک فرمائے۔ آپ بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہیں۔
٭…٭…٭
(مرسلہ: ابن نذیر احمد)