• 7 جولائی, 2025

فقہی کارنر

حلالہ حرام ہے

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
اسلام سے پہلے عرب میں حلالہ کی رسم تھی لیکن اسلام نے اس ناپاک رسم کو قطعاً حرام کر دیا اور رسول اللہﷺ نے ایسے لوگوں پر لعنت بھیجی ہے جو حلالہ کے پابند ہوں چنانچہ ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ حلالہ زنا میں داخل ہے اور حضرت عمرؓ سے روایت کہ حلالہ کرنے کرانے والے سنگسار کئے جا ویں۔ اگر کوئی مطلقہ سے نکاح کرے تو نکاح تب درست ہوگا کہ جب واقعی طور پر اس کو کوئی جورو بنالے اور اگر دل میں یہ خیال ہو کہ وہ اس حیلہ کے لئے اس کو جورو بناتا ہے کہ تا اس کی طلاق کے بعد دوسرے پر حلال ہو جائے تو ایسا نکاح ہر گز درست نہیں اور ایسا نکاح کرنے والا اس عورت سے زنا کرتا ہے اور جو ایسے فعل کی ترغیب دے وہ اس سے زنا کرواتا ہے۔ غرض حلالہ علمائے اسلام کے اتفاق سے حرام ہے اور اَئمہ اور علماء سلف جیسے حضرت قتادہ۔ عطا اور امام حسن اور ابراہیم نخعی اور حسن بصری اور مجاہد اور شعبی اور سعید بن مسیّب اور امام مالک، لیث، ثوری، امام احمد بن حنبل وغیرہ صحابہ اور تابعین اور سب محققین علماء اس کی حرمت کے قائل ہیں اور شریعت اسلام اور نیز لغت عرب میں بھی زوج اس کو کہتے ہیں کہ کسی عورت کو فی الحقیقت اپنی جورو بنانے کے لئے تمام حقوق کو مد نظر رکھ کر اپنے نکاح میں لاوے اور نکاح کا معاہدہ حقیقی اور وقعی ہو نہ کہ کسی دوسرے کے لئے ایک حیلہ ہو اور قرآن شریف میں جو آیا ہے۔ حَتّٰی تَنۡکِحَ زَوۡجًا غَیۡرَہٗ (البقرہ: 231) اس کے یہی معنے ہیں کہ جسے دنیا میں نیک نیتی کے ساتھ اپنے نفس کی اغراض کے لئے نکاح ہوتے ہیں ایسا ہی جب تک ایک مطلقہ کے ساتھ کسی کا نکاح نہ ہو اور وہ پھر اپنی مرضی سے اس کو طلاق نہ دے تب تک پہلے طلاق دینے والے سے دوبارہ اس کا نکاح نہیں ہو سکتا۔ (نوٹ۔ ہم پہلے لکھ چکے ہیں کہ قرآن شریف میں یہ شرط جو ہے کہ اگر تین طلاق تین طہر میں جو تین مہینہ ہوتے ہیں دی جائیں۔ تو پھر ایسی عورت خاوند سے با لکل جدا ہو جاوے گی اور اگر اتفاقاً کوئی دوسرا خاوند اس کا اُس کو طلاق دے دے تو صرف اسی صورت میں پہلے خاوند کے نکاح میں آ سکتی ہے ورنہ نہیں یہ شرط طلاق سے روکنے کے لئے ہے تا ہر یک شخص طلاق دینے میں دلیری نہ کرے اور وہی شخص طلاق دے جس کو کوئی ایسی مصیبت پیش آ گئی ہے جس سے وہ ہمیشہ کی جدائی پر راضی ہو گیا اور تین مہینے بھی اس لئے رکھے گئے تا اگر کوئی مثلاً غصہ سے طلاق دینا چاہتا ہو تو اُس کا غصہ اُتر جائے۔ مِنْہُ)۔ سو آیت کا منشاء نہیں ہے کہ جورو کرنے والا پہلے خاوند کے لئے ایک راہ بنادے اور آپ نکاح کرنے کے لئے سچی نیت نہ رکھتا ہو بلکہ نکاح صرف اس صورت میں ہوگا کہ اپنے پختہ اور مستقل ارادہ سے اپنے صحیح اغراض کو مد نظر رکھ کر نکاح کرے ورنہ اگر کسی حیلہ کی غرض سے نکاح کرے گا تو عند الشرع وہ نکاح ہر گز درست نہیں ہوگا اور زنا کے حکم میں ہوگا۔ لہذا ایسا شخص جو اسلام پر حلالہ کی تہمت لگا نا چاہتا ہے اس کو یاد رکھنا چاہئے کہ اسلام کا یہ مذہب نہیں ہے اور قرآن اور صحیح بخاری اور مسلم اور دیگر احادیث صحیحہ کی رو سے حلالہ قطعی حرام ہے اور مرتکب اس کا زانی کی طرح مستوجب سزا ہے۔

(آریہ دھرم، روحانی خزائن جلد10 صفحہ66-67)

(مرسلہ:داؤد احمد عابد۔ استاد جامعہ احمدیہ برطانیہ)

پچھلا پڑھیں

خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ 30؍ستمبر 2022ء

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 اکتوبر 2022