• 24 اپریل, 2024

تفسیر سورۃ النور آیت3

تفسیر سورۃ النور آیت3
بیان فرمودہ سیدنا حضرت مصلح موعودؓ

حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے موٴرخہ 23؍ ستمبر 2022ء کے خطبہ میں فرمایا:
’’حضرت مصلح موعودؓ ایک جگہ فرماتے ہیں حضرت عمرؓ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس تورات کا ایک نسخہ لے کر آئے اور کہنے لگے کہ یا رسول اللہ! یہ تورات ہے۔ آپؐ اُن کی بات سن کر خاموش ہو گئے۔ مگر حضرت عمرؓ نے تورات کھول کر اُسے پڑھنا شروع کر دیا۔ اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے چہرہ پر ناپسندیدگی کے آثار ظاہر ہوئے۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے یہ بات دیکھی تو وہ حضرت عمرؓ پر ناراض ہوئے اور انہوں نے کہا۔ کیا تمہیں نظر نہیں آتا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم اسے بُرا منا رہے ہیں؟ اُن کی بات سن کر حضرت عمرؓ کو بھی توجہ پیدا ہوئی اور انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے چہرہ کو دیکھا اور جب انہیں بھی آپ کے چہرہ پر ناراضگی کے آثار دکھائی دیئے تو انہوں نے معذرت کی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے معافی طلب کی۔

حضرت مصلح موعودؓ نے یہ واقعہ ایک آیت کی تفسیر میں بیان فرمایا ہے اور آنحضرتﷺ کی ناراضگی جو حضرت عمر ؓکی تورات کی اس آیت پڑھنے پر تھی جو اسلامی تعلیم سے مختلف ہے اس کی وجہ سے تھی، نہ کہ یہ کہ تورات کیوں پڑھی۔ اور اگر کسی کو اس کی تفسیر پڑھنے میں دلچسپی ہے تو تفسیر کبیر جلد6 میں سورہ نور کی آیت 3 کے ضمن میں اس کی باقی تفصیل بھی لکھی ہوئی ہےوہاں سے دیکھ سکتے ہیں۔‘‘

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جس آیت کی تفسیر کا ذکر کیا وہ قارئین الفضل کے استفادہ کے لئے پیش خدمت ہے۔

(ایڈیٹر)

آیت قرآنیہ

اَلزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیۡ فَاجۡلِدُوۡا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنۡہُمَا مِائَۃَ جَلۡدَۃٍ ۪ وَّلَا تَاۡخُذۡکُمۡ بِہِمَا رَاۡفَۃٌ فِیۡ دِیۡنِ اللّٰہِ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَالۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ ۚ وَلۡیَشۡہَدۡ عَذَابَہُمَا طَآئِفَۃٌ مِّنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ

(النور: 3)

ترجمہ: زانیہ عورت اور زانی مرد (اگر ان پر الزام ثابت ہوجائے تو) ان میں سے ہر ایک کو سو کوڑے لگاؤ۔ اور اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لاتے ہو تو اللہ کے حکم کے بجالانے میں ان دونوں قسم کے مجرموں کے متعلق تمہیں رحم نہ آئے اور چاہئے کہ ان دونوں کی سزا کو مومنوں کی ایک جماعت مشاہدہ کرے۔

تفسیر
نسل انسانی کی بقاء اور حفاظت

سورۂ نور کی ابتداء بعض ایسے احکام سے کی گئی ہے جن کو نظر انداز کرنا انسانی تمدن میں کئی قسم کی خرابیاں پیدا کر دیتا ہے۔ چنانچہ نسل انسانی کے بقاء اور اس کی حفاظت کے قوانین سے اس سورۃ کو شروع کیا گیا ہے تاکہ جسمانی اور اخلاقی حفاظت کے قوانین کو مدنظر رکھتے ہوئے روحانی ترقیات کی طرف انسان کی توجہ پھرے۔ یہ ایک یقینی بات ہے کہ جس طرح جسمانی حفاظت کے قواعد کو مدنظر نہ رکھنے سے انسانی جسم تباہ اور قوتیں برباد ہو جاتی ہیں۔ اسی طرح روحانی تعلقات میں غلطی کرنے سے بھی بڑے بھاری نقصانات پیدا ہوتے ہیں اور روحانی کوششوں کے نتائج مخلوط ہو جاتے ہیں۔

جسمانی تعلق کے اثرات

جسمانی تعلقات میں دیکھو بظاہر جس طرح جائز تعلق رکھنے والے مردو عورت ملتے ہیں اور بچہ پیدا ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ناجائز تعلق رکھنے والے بھی ملتے ہیں اور ان کے تعلق سے بھی بچہ پیدا ہو جاتا ہے۔ لیکن پہلا تعلق جہاں انسانی تمدن کو ترقی دینے والا ہے وہاں ناجائز تعلق کے نتیجہ میں انسانی تمدن کے سر پر کلہاڑا رکھ دیا جاتا ہے اور آئندہ نسلیں ایسی مشکوک ہو جاتی ہیں کہ اُن کا امتیاز کرنا ہی ناممکن ہو جا تا ہے۔

روحانی تعلق کے اثرات

اسی طرح روحانی تعلق پیدا کرنے میں جب لوگ احتیاط سے کام نہیں لیتے اور غلط طریق اختیار کر لیتے ہیں یعنی جس سے روحانی تعلق پیدا کرنا چاہئے اُس سے نہیں کرتے بلکہ جس سے نہیں کرنا چاہئے اُس سے کر لیتے ہیں تو اُس سے بھی بڑے خوفناک نتائج نکلتے ہیں مگر بہت لوگ ہیں جو اس بات کو نہیں سمجھتے حالانکہ اَرواح کا بھی آپس میں تعلق ہوتا ہے۔ اور جب تک اُن کا تعلق جائز اور صحیح طور پر نہ ہو خراب نتیجہ نکلتا ہے اور خواہ کتنی کوشش کی جائے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔ دیکھ لو ایک طالب علم ایک استاد سے کچھ نہیں سیکھ سکتا لیکن دوسرے اُستاد سے بہت کچھ سیکھ لیتا ہے۔ ایک افسر کے ماتحت ایک شخص اچھی طرح کام نہیں کرتا لیکن دوسرے افسر کے ماتحت وہی شخص خوب عمدگی سے کام کرتا ہے۔ ایک تاجر کو اگر دوسرے تاجر سے ملا دیا جائے تو اُن کا ملنا نقصان کا موجب ہوتا ہے لیکن ایک اور کے ساتھ ملنے سے اُس کی تجارت خوب ترقی کر جاتی ہے۔

روحانی تعلق کے دو طریق

پس اَرواح کا بھی آپس میں تعلق ہوتا ہے مگر یہ تعلق خدا ہی پیدا کرتا ہے۔ جو دو طرح ہوتا ہے یا تو اس طرح کہ ایسی روح کے متعلق دنیا میں خداتعالیٰ کی طرف سے اعلان کر دیا جاتا ہے کہ اس سے تعلق رکھنے والے روحانی فائدہ اُٹھائیں گے۔ اور یا ایسا ہوتا ہے کہ اعلان تو نہیں ہوتا ہاں انسان اپنی کوشش اور سعی سے اس کو دریافت کر لیتا ہے۔

پہلی شق میں مامورین اور اُن کے خلفاء شامل ہیں اور دوسری شق میں غیر مامور اور اُن کے خلفاء داخل ہیں۔ جب اُن سے تعلق ہو تب روحانی طور پر نیک نتائج نکلتے ہیں ورنہ نہیں۔

پہلی قسم کی ارواح کے متعلق تو چونکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اعلان ہو جاتا ہے اس لئے اُن کی تلاش میں کوئی دقت پیش نہیں آتی لیکن دوسری قسم کی ارواح کے متعلق عقل اور فراست سے جستجو کرنا ضروری ہوتا ہے اور اگر کوئی شخص ان کیلئے کامل جستجو نہیں کرتا اور اُن سے تعلق نہیں رکھتا تو دوسرے لوگوں سے خواہ وہ بیس بیس سال بھی تعلق رکھے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ پس روحانی تعلقات کی طرف توجہ دلانے کیلئے اس سورۃ کو مرد و عورت کے تعلقات سے شروع کیا گیا ہے۔

زنا کی سزا سو سو کوڑے

اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ زانیہ عورت اور زانی مرد میں سے ہر ایک کو سَو سَو کوڑے لگاؤ۔ اور اس حکم الٰہی کو سرانجام دینے کے سلسلہ میں تمہارے دل میں کوئی نرمی پیدا نہ ہوبلکہ سزا دیتے وقت کچھ اور مومنوں کو بھی بُلالیا کرو۔

قرآ ن کریم کی اس آیت سے بالبداہت ثابت ہے کہ زانی مرد اور زانیہ عورت کی سزا ایک سو کوڑے ہیں۔ اور سورۂ نساء رکوع 4 میں آتا ہے کہ یہ سزا اُن عورتوں اور مردوں کیلئے ہے جو آزاد ہوں۔ جو عورتیں آزاد نہ ہوں اُن کی سزا بد کاری کی صورت میں نصف ہے یعنی پچا س کوڑے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ فَاِذَاۤ اُحْصِنَّ فَاِنْ اَتَیْنَ بِفَاحِشَۃٍ فَعَلَیْھِنَّ نِصْفُ مَا عَلَی الْمُحْصَنٰتِ مِنَ الْعَذَابِ (نساء رکوع 4) یعنی جب وہ عورتیں جو آزاد نہ ہوں دوسروں کے نکاح میں آجائیں تو اگر وہ کسی قسم کی بے حیائی کی مرتکب ہوں تو اُن کی سزا آزاد عورتوں کی نسبت نصف ہوگی۔اس آیت سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ مقررہ سزا ایسی ہے جو نصف ہو سکتی ہے۔ اور سو کوڑوں کی نصف سزا پچاس کوڑے بن جاتی ہے۔

کوڑے کے بجائے رجم

لیکن بعض لوگ اس آیت کے متعلق یہ بیان کرتے ہیں کہ یہ سزا بعد میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے رجم کی شکل میں بدل دی تھی۔ یعنی آپ نے یہ حکم دیا تھا کہ بجائے اس کے کہ کوڑے مارے جائیں رجم کرنا چاہئے۔

لیکن ظاہر ہے کہ اگر یہ معنے کئے جائیں تو نہ صرف محولہ بالا آیت نور ہی منسوخ ہو جاتی ہے بلکہ سورۂ نساء کی آیت بھی بالکل بے معنی ہو جاتی ہے کیونکہ اس میں صاف بتا یا گیا ہے کہ لونڈی کی سزا آدھی ہے اور رجم کا آدھا قیاس میں بھی نہیں آسکتا۔ پس اس آیت کی صریح اور واضح مفہوم کے ہوتے ہوئے اور سورۃ النساء کی آیت کی تصدیق کی موجودگی میں یہ بات بغیر کسی شک اور شبہ کے کہی جا سکتی ہے کہ قرآن کریم میں زنا کی سزا آزاد عورت اور مرد کیلئے سو کوڑے ہیں اور لونڈی یا قیدی کیلئے پچا س کوڑے ہیں۔

رجم کا دستور مسلمانوں میں

اب رہا یہ سوال کہ رجم کا دستور مسلمانوں میں کس طرح پڑا؟ سو اس بارہ میں یاد رکھنا چاہئے کہ احادیث سے یہ امر ثابت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے بد کار عورت اور مرد کے متعلق رجم کا حکم دیا۔ پس اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مسلمانوں میں کبھی نہ کبھی اور کسی نہ کسی صورت میں رجم کا حکم یقینا تھا۔

کس نے کس کو منسوخ کیا

سوال صرف یہ رہ جاتا ہے کہ آیا رجم نے کوڑے مارنے کے حکم کو منسوخ کیا یا کوڑے مارنے کے حکم نے رجم کے حکم کو منسوخ کیا۔ یایہ دونوں حکم ایک وقت میں موجود تھے اگر یہ تسلیم کیا جائے کہ اس حکم کے متعلق ناسخ اور منسوخ کا قاعدہ استعمال ہو اہے تو ہمارے اپنے عقیدہ کے رُو سے تو معاملہ بالکل صاف ہو جاتا ہے کیونکہ ہمار اعقیدہ یہ ہے کہ کوئی منسوخ حکم قرآن کریم میں موجود نہیں۔ قرآن کریم میں جتنے احکام موجود ہیں وہ سب غیر منسوخ ہیں۔ اس عقیدہ کے رُو سے ہم یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ اگر رجم کا کوئی حکم تھا تو اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے تھا اور اس آیت نے اُسے منسوخ کر دیا لیکن ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ کوئی اور حکم بعد میں نازل ہوا اور اُس نے اس حکم کو منسوخ کر دیا۔اور اگر کوئی حدیث اس کے خلاف ہے تو وہ مردو د ہے کیونکہ وہ قرآن شریف کو رد کرتی ہے۔ نیز اگر یہ آیت منسوخ ہو گئی ہوتی تو پھر یہ قرآن سے نکال دی جاتی۔ یہ جو بعض فقہاء نے مسٔلہ بنایا ہو اہے کہ بعض آیتیں ایسی ہیں کہ تلاوتًا قائم ہیں اور حکماً منسوخ ہیں یہ نہایت ہی خلاف عقل، خلافِ دلیل اور خلافِ آداب قرآنی ہے۔ ہم اس مسٔلہ کو ہر گز تسلیم نہیں کرتے۔ ہمارے نزدیک اگر منسوخ آیتیں قرآن کریم میں موجود ہیں تو پھر سارے قرآن کا اعتبار اُٹھ جاتا ہے۔ اس صورت میں ہمارے پاس کیا دلیل رہ جاتی ہے کہ ہم فلاں آیت پر عمل کریں اور فلاں پر نہ کریں۔ قرآن کریم کی سب سے بڑی عظمت تو یہی ہے کہ وہ ایک یقینی بنیاد پر قائم ہے اور اس کا ایک ایک لفظ یقینی ہے۔ اگر اس کے احکام کو بلکہ اس کی آیات کے قابلِ عمل ہو نے کو ہم علماء اور فقہاء کے قیاس کے ساتھ وابستہ کرد یں تو پھر تو وہ ایسا ہی مشکوک اور مبہم ہو جاتا ہے جیسا کہ علماء کے قیاس ہو تے ہیں۔ اگر یہ بات ہو تو ہمارا حق ہے کہ جس طرح ہم علماء کے قیاسات کو دلیل کے ساتھ رد کر سکتے ہیں قرآن کریم کی آیتوں کو بھی ہم دلیل کے ساتھ رد کردیں۔ اور یہ ایک نہایت ہی گمراہ کن اور غیر اسلامی عقیدہ ہو گا۔ پس صرف یہ صورت رہ جاتی ہے کہ ہم کہیں کہ رجم کا کوئی حکم پہلے موجود تھا۔ جسے قرآن کریم کی اس آیت نے منسوخ کر دیا۔ اگر یہ بات مانی جائے تو سارا مسٔلہ ہی صاف ہو جاتا ہے اور شکل یہ بنتی ہے کہ

یہود میں رجم کا حکم

یہود میں رجم کا حکم موجود تھا (دیکھو یوحنا باب8 آیت5 وحزقی ایل باب16 آیت40 واحبار باب20 آیت10 واستثناء باب22 آیت22)

رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس حکم کے ماتحت مسلمانوں میں بھی یہی طریق جاری کیا کیونکہ اُس وقت تک قرآن کریم نے کوئی فیصلہ نہیں کیا تھا۔ جب قرآن کریم نے فیصلہ کر دیا تو پہلا طریق منسوخ ہو گیا جو قرآنی حکم نہیں تھا بلکہ اتباع یہود میں ایک اسلامی دستور قائم ہوا تھا۔ مگر اس عقیدہ کے ماننے کیلئے ضروری ہے کہ تاریخی طور پر یہ ثابت کیا جائے کہ رجم پر مسلمانوں کا عمل سو کوڑے مارنے کے عمل سے پہلے تھا۔ لیکن تاریخ سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی۔ بلکہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ رجم کرنے کا طریق مسلمانوں میں بعد میں بھی جاری رہا۔

حضرت عمرؓ کی روایت

اور حضرت عمرؓ کے متعلق تو یہاں تک بیان کیا جاتا ہے کہ انہوں نے کہا کہ قرآن کریم میں رجم کی ایک آیت تھی جو کہ بعد میں غائب ہو گئی۔ اور وہ اس کے الفاظ یہ بتاتے ہیں کہ

اَلشَّیْخُ وَالشَّیْخَۃُ اِذَا زَنَیَا فَارْجُمُوْھُمَا اَلْبَتَّۃَ

(کشف الغمۃ جلد2 صفحہ111)

ایک بڑی عمر والا مرد یا ایک بڑی عمر والی عورت جب زنا کریں تو اُن کو پتھر مار کر کلّی طور پر قتل کر دو۔

حضرت عائشہؓ کی روایت

اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ

لَقَدْ نَزَ لَتْ اٰیَۃُ الرَّجْمِ وَالرَّضَاعَۃِ فَکَانَتَا فِیْ صَحِیْفَۃٍ تَحْتَ سَرِیْرِیْ فَلَمَّا مَاتَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَشَا غَلْنَا بِمَوْتِہٖ فَدَخَلَ دَاجِنٌ فَاَ کَلَھَا

(محلّٰی ابن حزم جلد11 صفحہ236)

یعنی رجم اور رضاعت کا حکم اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہو ا تھا۔ اور وہ ایک کاغذ پر لکھا ہوا تھا اور میرے تکیہ کے نیچے پڑا تھا۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم فوت ہوئے تو ہم آپ کے کفن دفن میں مشغول ہو گئے۔ اتنے میں ایک بکری آئی اور وہ اُس کا غذ کو کھا گئی۔

دونوں روایات کی وضاحت

ان روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے نزدیک کوئی آیت اُتری تھی جس میں زانی کو رجم کرنے حکم تھا۔ حضرت عائشہؓ کی روایت سے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ حکم آپ کے تکیہ کے نیچے رکھا ہو اتھا اور ایک بکری اُس کو کھا گئی۔ اور حضرت عمرؓ اس کے متعلق خاموش ہیں۔ اگر اُن سے کوئی روایت ثابت ہے تو صرف یہ کہ

کَانَ عُمَرُ رَضِیِ اللّٰہ عَنْہُ یَقُوْلُ اِیَّاکُمْ اَنْ تَھْلِکُوْا فَیَقُوْلَ قَائِلٌ لَا نَجِدُ الرَّجْمَ فِیْ کِتَابِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ فَقَدْ رَجَمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَرَجَمْنَا بَعْدَہٗ وَاِنِّیْ وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہ ٖ لَوْلَا اَنْ یَّقُوْلَ قَائِلٌ اَحْدَثَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْ کِتَابِ اللّٰہِ تَعَالٰی لَکَتَبْتُھَا

(کشف الغمہ جلد2 صفحہ11)

وَفِیْ رَوَایَۃٍ لَکَتَبْتُھَا عَلٰی حَاشِیَۃِ الْمُصْحَفِ

(فتح القدیر شرح ہدایۃ جلد4 صفحہ121)

یعنی حضرت عمرؓ کہا کرتے تھے کہ ایسا نہ ہو تم لوگوں کے مرنے کے بعد کوئی شخص یہ کہنے لگ جائے کہ ہم کو تو خدا کی کتاب میں رجم کا مسٔلہ نہیں ملتا کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی رجم کیا ہے اور ہم نے بھی آپ کے بعد رجم کیا ہے۔ اور مجھے خدا کی قسم اگر مجھے یہ ڈر نہ ہوتا کہ کوئی شخص یہ اعتراض کر دیگا کہ عمرؓ نے خدا کی کتاب میں اپنے پاس سے زیادتی کر دی ہے تو میں یہ حکم بھی لکھ دیتا۔ اور ایک روایت میں آیا ہے کہ میں یہ حکم قرآن کریم کے حاشیہ پر لکھ دیتا۔

چونکہ یہ ایک عقلی اور نقلی مسلمہ اصول ہے کہ کسی روایت کی زیادتی اس کے معنوں کی اصل تشریح ہو تی ہے اس لئے ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ درحقیقت یہی زیادہ معتبر قو ل ہے کہ حضرت عمرؓ نے یہ خیال ظاہر کیا کہ میں قرآن کے حاشیے پر یہ عبارت لکھ دیتا۔ اور قرآن کے حاشیہ پر اگر کوئی چیز لکھی ہو ئی ہو تو وہ قرآن نہیں بن جاتی۔

پس حضرت عمرؓ جو اس روایت کے مطابق اس کو حکم الٰہی سمجھتے تھے وہ بھی یہ جرأت نہیں کر سکے کہ اس کو قرآن کریم میں داخل کردیں۔ حالانکہ اُس وقت قرآنی وحی کے بہت سے کاتب موجود تھے اور وہ اُن سے پوچھ سکتے تھے لیکن اُن سے نہ پوچھنا بھی بتا تا ہے کہ حضرت عمرؓ کو یقین تھا کہ میرا یہ خیال صرف ایک وہم ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم کی جو آیتیں اُترتی تھیں رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کاتب وحی کو بلوا کر وہ آیت اس جگہ پر لکھوا دیتے تھے جہاں اس آیت کا لکھوا یا جانا ضروری ہوتا تھا۔ اگر یہ قرآن کی آیت ہوتی اور واقعہ میں یہ خدائی حکم ہوتا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم اسے کیوں نہ لکھواتے۔

کاتب وحی حضرت زید بن ثابتؓ کی روایت

رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے کاتب وحی حضرت زید بن ثابتؓ سے یہی روایت تفصیل کے ساتھ مذکور ہے اور اس سے صاف ثابت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس حکم کو جس شکل میں بھی تھا قرآن کریم کا حکم قرار نہیں دیا۔ اُن کی روایت یہ ہے کہ

سَمِعْتَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ اِذَا زَنَی الشَّیْخُ وَالشَّیْخَۃُ فَارْجِمُوْھُمَا الْبَتَّۃَ

(محلّٰی ابن حزم جلد11 صفحہ235)

یعنی میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے سنا کہ جب کوئی بڑی عمر کا مرد یا بڑی عمر کی عورت زنا کریں تو ان کو رجم کر کے مار دو۔ ان الفاظ سے ثابت ہے کہ حضرت زید بن ثابتؓ نے اس کو کبھی وحیٔ قرآنی قرار نہیں دیا بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا قول قرار دیا ہے۔

سہواً قول رسولؐ کو قرآنی وحی سمجھنا

ممکن ہے حضرت عمرؓ نے بھی یہی سنا ہو لیکن انہوں نے بجائے قول کے اس کو وحی سمجھ لیا ہو اور حضرت عمرؓ ایسی غلطیاں جلد بازی میں کر لیا کرتے تھے۔

چنانچہ وہ خود روایت کرتے ہیں کہ میں نے ایک دفعہ نماز میں ہشام بن حکیمؓ کو سورۂ فرقان پڑھتے سنا مگر وہ اس سورۃ کو اُس طرح نہیں پڑھ رہے تھے جس طرح میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو پڑھتے سنا تھا۔ اس پر مجھے سخت غصہ آیا اور قریب تھا کہ میں نماز میں ہی اُن پر حملہ کر دیتا۔ مگر میں نے صبر کیا۔ جب انہوں نے سلام پھیرا تو میں نے اُن کی چادر پکڑ لی اور اُن سے کہا کہ اس سورۃ کو اس طرح پڑھنا آپ کو کس نے سکھایا ہے۔ انہوں نے کہا رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے۔ میں نے کہا تم جھوٹ بولتے ہو۔ چلو میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے تمہارا معاملہ پیش کر تا ہوں۔ اصل سورۃ اور طرح ہے اور تم اور طرح پڑھ رہے ہو۔ چنانچہ وہ انہیں کھینچ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس گئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہشام تم کس طرح پڑھ رہے تھے۔ انہوں نے پڑھ کر سنایا تو فرمایا ٹھیک ہے۔ پھر آپؐ نے حضرت عمرؓ سے فرمایا کہ تم پڑھو۔ انہوں نے یہ سورۃ اس طرح پڑھی جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں سکھلائی تھی آپؐ نے فرمایا یہ بھی ٹھیک ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ قرآن کریم سات قرأتوں میں نازل کیا گیا ہے۔ اس لئے تم ان معمولی معمولی باتوں پر آپس میں لڑا نہ کرو۔ جس طرح کسی کی زبان پر کوئی لفظ چڑھے اُسی طرح پڑھ لیا کرے۔

معلوم ہوتا ہے جس طرح حضرت عمرؓ سے اس جگہ غلطی ہوئی۔ اسی طرح زنا کی سزا کے معاملہ میں بھی حضرت عمرؓ سے غلطی ہوگئی۔ اور انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ایک قول کو وحی سمجھ لیا۔ ورنہ فی الواقعہ اگریہ قرآنی آیت ہوتی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم حضرت زید بن ثابتؓ کو حکم دیتے جیسا کہ آپؐ اور آیتوں کے متعلق حکم دیا کرتے تھے کہ یہ قرآن کی وحی ہے اسے قرآن کریم میں فلاں مقام پر درج کرو۔لیکن حضرت زید بن ثابتؓ نے اس کو قرآن کریم میں درج نہیں کیا جس کا نسخہ حضرت ابو بکرؓ کے زمانہ میں تیار ہوگیا تھا یعنی حضرت عمرؓ کے خلیفہ ہونے سے پہلے۔

پس صاف ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓ کو غلطی لگی تھی۔ اور انہوں نے ایک قول کو وحی سمجھ لیا تھا۔ بہر حال اس روایت سے قطعی طور پر ثابت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے کبھی کوئی ایسا فقرہ تو کہا ہے مگر یہ نہیں کہا کہ یہ قرآن کریم کی آیت ہے۔ بالکل ممکن ہے کہ آپ نے اس قسم کی خواہش کا اظہا ر کیا ہو کہ اگر ایسے حالات میں یہ فعل ہو تو میرا دل چاہتا ہے کہ ایسے آدمی کو بائیبل کے احکام کے مطابق رجم کر دیا جائے۔

حضرت شعبہؓ کی روایت

اسی طرح شعبہؓ کی روایت ہے کہ

قَالَ عُمَرُ لَمَّا نَزَلَتْ اَتَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ اکْتُبْنِیْھَاقَالَ شُعْبَۃ کَاَنَّہٗ ذَکَرَ ذٰلِکَ فَقَالَ عُمَرُ اَلَا تَرٰی اَنَّ الشَّیْخَ اِذَا لَمْ یُحْصِنْ جُلِدَ وَاَنَّ الشَّابَّ اِذَا زَنٰی وَقَدْ اَحْصَنَ رُجِمَ

(محلّٰی ابن حزم جلد11 صفحہ235)

یعنی شعبہؓ کہتے ہیں ایک دفعہ حضرت عمرؓ نے بیان کیا کہ جب رجم کا حکم نازل ہوا تو میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس گیا اور آپؐ کو کہا کہ مجھے یہ حکم لکھ دیجیے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے آپ کے اس سوال کو پسند نہیں فرمایا۔ اور آپ کو یہ حکم لکھ کر نہیں دیا۔ اس پر حضرت عمرؓ نے کہا یا رسول اللہ ؐ! کیا آپ کا یہ خیال نہیں کہ جب شیخ یعنی بڑی عمر کا آدمی جو شادی شدہ نہ ہو زنا کرے تو اس کو کوڑے لگا ئے جائیں اور جب جوان زنا کرے اور وہ شادی ہو تو اُسے رجم کیا جائے۔

اس روایت سے ثابت ہے کہ حضرت عمرؓ کے نزدیک ایسی کوئی آیت اُتری تھی اور اسی بنا پر انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے درخواست کی کہ وہ یہ آیت آپ کو لکھ دیں مگر آپؐ نے اس کو پسند نہیں کیا اور انکار کیا۔ اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا کوئی قول تھا آیت نہیں تھی۔ ورنہ کیا یہ ممکن تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم وحیٔ قرآنی کو چھپا تے۔ قرآن تو کہتا ہے کہ یَاۤاَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَاۤاُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہٗ

(مائدہ رکوع10)

یعنی اے ہمارے رسول! تیرے رب کی طرف سے جو کلام تجھ پر اتارا گیا ہے تُو اسے لوگوں تک پہنچا۔ اور اگر تو نے ایسا نہ کیا تو گویا تُو نے اس کا پیغام بالکل نہ پہنچایا۔

مگر اس کے باوجود آپ خود بھی یہ حکم لوگوں تک نہیں پہنچاتے بلکہ حضرت عمرؓ کے پوچھنے پر بھی اُن کی بات کو نا پسند کرتے ہیں اور یہ حکم لکھ کر نہیں دیتے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا ایک قول تھا۔

رسول کریمؐ قرآن وحی لکھواتے تھے

اور حدیثوں سے ثابت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم قرآن کریم تو تعہد کے ساتھ لکھواتے تھے لیکن حدیث کے لکھنے سے منع فرمایا کرتے تھے۔

(مسند احمد بن حنبل جلد5 صفحہ182)

اسی طرح حضرت ابو سعیدؓ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں ہدایت دی تھی کہ سوائے قرآن کریم کے ہم کوئی اور بات نہ لکھا کریں تا ایسا نہ ہو کہ قرآنی آیات کے متعلق لوگوں کو شبہ پڑجائے

(مسند احمدبن حنبل جلد3 صفحہ12)

حضرت عبداللہ بن عمرؓ و کے متعلق بھی احادیث سے ثابت ہے کہ چونکہ انہیں لکھنا آتا تھا اس لئے وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی احادیث لکھا کرتے تھے۔ مگر بعد میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں حدیثیں لکھنے سےمنع فرما دیا۔

پس حضرت عمرؓ کا اس کو آیت سمجھنا مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا اس کو لکھ کر دینے سے انکار کرنا بلکہ اس کو ناپسند کرنا بتاتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم اس کو آیت نہیں قرار دیتے تھے بلکہ محض اپنا خیال سمجھتے تھے۔ اور عام باتوں کے لکھنے سے چونکہ آپ منع فرماتے تھے اس لئے آپ نے کچھ لکھ کر نہیں دیا۔

حضرت عمرؓ کا تورات پڑھنا

ایسا معلوم ہو تا ہے کہ حضرت عمرؓ نے تورات میں سے رجم کا حکم دیکھا ہو گا۔ جسے انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے بھی پیش کر دیا۔ کیونکہ احادیث سے ثابت ہے کہ آپ تورات پڑھاکرتے تھے۔

چنانچہ حدیثوں میں آتا ہے کہ حضرت عمرؓ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس تورات کا ایک نسخہ لے کر آئے اور کہنے لگے کہ یا رسول اللہ! یہ تورات ہے۔ آپؐ اُن کی بات سن کر خاموش ہو گئے۔ مگر حضرت عمرؓ نے تورات کھول کر اُسے پڑھنا شروع کر دیا۔ اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے چہرہ پر ناپسندیدگی کے آثار ظاہر ہوئے۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے یہ بات دیکھی تو وہ حضرت عمرؓ پر ناراض ہو ئے اور انہوں نے کہا۔ کیا تمہیں نظر نہیں آتا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم اسے بُرا منا رہے ہیں۔اُن کی بات سُن کر حضرت عمرؓ کو بھی توجہ پیدا ہوئی اور انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے چہرہ کو دیکھا اور جب انہیں بھی آپ کے چہرہ پر ناراضگی کے آثار دکھائی دیئے تو انہوں نے معذرت کی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے معافی طلب کی۔

(مشکٰوۃ کتاب الاعتصام بالکتاب والسنتہ)

پھر یہ امر بھی روایتوں سے ثابت ہے کہ یہودیوں کے ہاں جب تورات کا درس ہو اکرتا تھا تو حضرت عمرؓ اس میں اکثر شریک ہوا کرتے تھے اور یہودی کہا کرتے تھے کہ تمہارے ہم مذہبوں میں سے ہم تم کو سب سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں کیونکہ تم ہمارے پاس آتے جاتے ہو۔

(کنز العمال بروایت بیہقی جلد اوّل صفحہ 233)

تورات سے رجم کا حکم دیکھنا

معلوم ہوتا ہے حضرت عمرؓ نے تورات سے ہی رجم کا حکم دیکھا تھا جسے انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے بھی پیش کر دیا۔

پھر اس حدیث کا آخری ٹکڑا بھی بتا تا ہے کہ خود حضرت عمرؓ کو بھی شبہ تھا کہ یہ آیت ہے یا نہیں کیونکہ خود حضرت عمرؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کرتے ہیں کہ یا رسول اللہ ! کیا آپ کا یہ خیال نہیں کہ بڑی عمر کا آدمی جو شادی شدہ نہ ہو اگر بد کاری کرے تو اس کو کوڑے لگائے جائیں اور جوان اگر شادی شدہ ہو اور وہ بدکاری کرے تو اس کو رجم کیا جائے۔

اب یہ خیال اس خیالی آیت کے بالکل خلاف ہے جو اوپربیان ہو ئی ہے۔ اس خیالی آیت کے معنے یہ ہیں کہ جب کوئی بوڑھا مرد یا بوڑھی عورت زنا کرے (قطع نظر اس کے کہ وہ شادی شدہ ہوں یا نہ ہوں) تو اُن کو رجم کردو۔

اگر واقعہ میں حضرت عمرؓ بھی اس کو قرآنی آیت سمجھتے تو وہ اس کے خلاف اظہار رائے کیوں کرتے۔ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے اس کی تصدیق کیوں چاہتے جب اُن کی مزعومہ قرآنی آیت میں بوڑھے مرد اور بوڑھی عورت کا ذکر تھا تو انہوں نے یہ کیوں کہا کہ بڑی عمر کا آدمی جو شادی شدہ نہ ہو اگر بدکاری کرے تو اس کو کوڑے لگائے جائیں اور جوان شادی شدہ اگر بدکاری کرے تو اس کو رجم کیا جائے۔ یہ بات بتاتی ہے کہ خود حضرت عمرؓ کو بھی یہ شبہ تھا کہ یہ قرآنی آیت ہے یا نہیں۔

گزشتہ علماء کا مسلک

پرانے علماء میں سے بھی ایک حصّہ ایسا ہے جو اس بات کا قائل ہے کہ جَلْدُ مِائَۃٍ ہی اصل حکم ہے رجم قرآن کریم سے ثابت نہیں۔

چنانچہ امام ابن حزم سورۂ نساء کی آیت پر بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں

اِنَّ اْلِا حْصَانَ اِسْمٌ یَقَعُ عَلَی الْحُرَّۃِالْمُطْلَقَۃِ فقط۔فَاکَانَ ھٰذَا کَمَا قَالُوْا فَالنَّفْیُ وَاجِبٌ عَلَی الْاِحمَائِ الْمُحْصَنَاتِ مِنْ ھٰذَا الْاٰیَۃِ لِاَنَّ مَعْنَی الْاٰیَۃِ فَعَلَیْھِنَّ نِصْفُ مَاعَلَی الْحَرَائِرِ مِنَ الْعَذَابِ وَعَلَی الْحَرَائِرِ ھُنَا مِنَ الْعَذَابِ جَلْدُ مِائَۃٍ وَمَعَہٗ نَفْیُ سَنَۃٍ اَوْ رَجْمٌ۔ وَالرَّجْمُ لَا یَنْتَصِفُ اَصْلاً لَاَنَّہٗ مَوْتٌ وَ الْمُوْتُ لَا نِصْفَ لَہٗ اَصْلاً۔ وَکَذٰلِکَ الرَّجْمُ لِاَنَّہٗ قَدْیَمُوْتُ الْمَرْجُوْمُ مِنْ رِمْیَۃٍ وَاحِدَۃٍ وَقَدْ لَایَمُوْتُ مِنْ اَلْفِ رِمْیَۃٍ وَمَا کَانَ ھٰکَذَا فَلَا یُمْکِنُ ضَبْطُ نَفْسِہٖ اَبَدًا وَاِذَا لَا یُمْکِنُ ھٰذَا فَقَدْ اَمِنَّا اَنْ یُّکَلِّفَنَا اللّٰہُ تَعَالٰی مَالَا نُطِیْقٌ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا وَلِقَوْلِ تَعَالٰی لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا وَلِقَوْلِ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ و سلم اِذَا اَمَرْتُکُمْ بِشَیْئٍ فَاْتُوْا مِنْہُ مَا اسْتَطَعْتُمْ اَوْکَمَا قَالَ عَلَیْہِ السَّلَامُ فَسَقَطَ الرَّجْمُ وَبَقِیَ الْجَلْدُ وَنَفْیِ سَنَۃٍ وَکِلَاھُمَا لَہٗ نِصْفٌ فَعَلَی الْاَمَۃِنِصْفُ مَاعَلَی الْحُرَّۃِ مِنْھَا

(محلّٰی ابن حزم جلد11 صفحہ337۔338)

یعنی احصان کا لفظ خالص آزاد عورت پر بولا جاتا ہے۔ پس اگر لونڈیوں کی سزا آزاد عورتوں کی سزا سے نصف ہے تو لونڈیوں پر بھی جلاوطنی واجب ہوگی۔ کیونکہ اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ آزاد عورتوں کو جو عذاب دیا جائیگا اس سے نصف لونڈیوں کو دیا جا ئیگا۔ اور آزاد عورتوں کیلئے جو عذاب بیان کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ ان کو سوکوڑے مارے جائیں اور ایک سال کے لئے جلا وطن کیا جائے۔ یا بقول بعض کے رجم کیا جائے اور رجم کسی صورت میں بھی آدھا نہیں ہو سکتا کیونکہ رجم درحقیقت موت کے ہم معنی ہے اور موت کو کسی صورت میں بھی آدھا نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح رجم کو بھی کسی صورت میں آدھا نہیں کیا جا سکتا کیونکہ جس پر پتھر مارے جاتے ہیں کبھی تو وہ ایک پتھر سے ہی مر جاتا ہے اور کبھی ہزار پتھر سے بھی نہیں مرتا۔ پس جو چیز اپنے اختیار میں نہیں اس پر عمل کس طرح کیا جائے۔ ہم کو کسی صورت سے یہ معلوم نہیں ہو سکتا کہ وہ شخص کتنے پتھروں سے مرے گا کہ اُس سے آدھے ہم اسکو مار لیں اور قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ لَایُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا (البقرہ رکوع 40) وہ کوئی ایسا حکم نہیں دیتا جو انسان کی طاقت میں نہ ہو۔ اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ جب میں تم کو کسی بات کا حکم دوں تو اس حکم پر اس حد تک عمل کرو جتنی تمہیں طاقت ہو یا اسی سے ملتے جلتے الفاظ میں آپ نے ارشاد فرمایا۔ پس ان الفاظ سے رجم کا حکم ساقط ہو گیا اور کوڑوں والا حکم اور ایک سال کی جلاوطنی کا حکم باقی رہا۔ کیونکہ یہ دونوں حکم ایسے ہیں جن کا نصف ہو سکتا ہے لیکن رجم نصف نہیں ہو سکتا۔

معتزلہ اور خوارج کا عقیدہ

اسی طرح امت محمد یہ میں سے معتزلین اور خوارج کا یہ عقیدہ ہے کہ رجم قرآن سے ثابت نہیں۔ اسلامی حکم یہی ہے کہ سوکوڑے لگائے جائیں۔ چنانچہ لکھا ہے کہ

اَمَّا الرَّجْمُ فَھُوَ مَجْمَعٌ عَلَیْہِ وَحُکِیَ فِی الْبَحْرِ عَنِ الْخَوَارِجِ اَنَّہٗ غَیْرُ وَاجِبِ وَکَذٰلِکَ حَکَاہُ عَنْھُمْ اَیْضًا ابْنُ الالْعَرَبِیُّ وَحَکَاہُ اَیْضًا عَنْ بَعْضِ الْمَعْتَزِ لَۃِ کَالنَّظَامِ وَاَصْحَابِہٖ وَلَا مُسْنَدَ لَھُمْ اِلَّا اَنَّہٗ لَمْ یُذْکَرْ فِی الْقُرْاٰنِ

(نیل الاوطار جلد7 صفحہ91)

یعنی نیل الاوطار والا کہتا ہے کہ رجم پر سب مسلمان متفق ہیں لیکن کتاب بحر میں خوارج سے روایت کی گئی ہے کہ رجم ہر گز اسلام میں واجب نہیں اور حضرت محی الدین صاحب ابن عربی ؒ جو صوفیا کے سردار ہیں انہوں نے بھی خوارج کا یہی مذہب بیان کیا ہے اور ابن العربیؒ نے نظام اور اُن کے ساتھیوں کا مذہب بھی یہ بیان کیا ہے (جو معتزلی تھے) کہ رجم اسلام سے ثابت نہیں لیکن ان لوگوں کے پاس سوائے اس کے کوئی دلیل نہیں کہ قرآن میں اس کا ذکر نہیں۔

اس حوالے سے ثابت ہے کہ خوارج اور معتزلہ کے نزدیک رجم کا حکم اسلام میں نہیں ہے لیکن نیل الاوطار کے نزدیک یہ دلیل بالکل کمزور ہے کیونکہ یہ دلیل صرف قرآن پر مبنی ہے۔ اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ

روح المعانی میں لکھا ہے

وَیُعْلَمُ مِنْ قَوْلِہِ الْمَذْکُوْرِ کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْھَہٗ اَ نَّہٗ قَائِلٌ بِعَدْمِ نَسْخِ عَمُوْمِ الْاٰیَۃِ فَیَکُوْنُ رَأَیْتُہٗ اَنَّ الرَّجْمَ حُکْمٌ زَائِدٌ فِیْ حَقِّ الْمُحْصِنِ ثَبَتَ بِالسُّنَّۃِ وَبِذٰلِکَ قَالَ اَھْلُ الظَّاھِرِ وَھُوَرَوَایَۃٌ عَنْ اَحْمَدَ وَاسْتَدْلُّوْا عَلیٰ ذٰلِکَ بِمَا رَوَاہُ اَبُوْدَاؤدَ مِنْ قَوْلِہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَلثَّیِّبُ بِالثَّیِّبِ جَلْدُ مِائَۃٍ وَرَمْیٌ بِالْحِجَارَۃً وَفِیْ رَوَایَۃِ غَیْرِہٖ وَرَجْمٌ بِالْحِجَارَۃِ وَعِنْدَ الْحَنْفِیَّۃِ لَا یُجْمَعُ بَیْنَ الرَّجْمِ وَالْجَلْدِ فِی الْمُحْصِنِ وَھُوَ قَوْلُ مَالِکِ وَالشَّافِعِیِّ

(روح المعانی جلد18 صفحہ71)

یعنی حضرت علی کرم اللہ وجہٗ کے قول سے یہ ثابت ہے کہ وہ یہ مانتے ہیں کہ قرآن کریم کی سورۃ نور والی آیت جس میں کوڑوں کا ذکر ہے منسوخ نہیں۔ پس معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علیؓ کے نزدیک رجم کا حکم ایک زائد حکم تھا جو سنت سے ثابت ہے وہ حکم قرآن کو منسوخ کرنے والا نہیں۔ اور اہل ظاہر یعنی ابو داؤد جو فقہاء خمسہ میں سے ایک بڑے رکن ہیں اور امام احمد بن حنبل ؒ زیاد ہ تر اُن کے حکم کو ترجیح دیتے ہیں وہ اور ان سے تعلق رکھنے والے بھی اس مذہب کے قائل ہیں اور امام احمد بن حنبل ؒ سے بھی یہی روایت کی گئی ہے۔

دیگر روایات

اور یہ لوگ ابو داؤد کی اس روایت سے سند پکڑتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ اَلثَّیِّبُ بِالثَّیِّبِ جَلْدُ مِائَۃٍ وَرَمْیٌ بِالْحِجَارَۃً۔ یعنی شادی شدہ مرد اور شادی شدہ عورت کو سو کوڑے لگائے جائیں اور پتھر مارے جائیں۔

اس روایت سے حضرت علیؓ کے متعلق بھی یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ اُن کے نزدیک کوڑے مارنے کا حکم قائم ہے اور یہ آیت منسوخ نہیں۔

چنانچہ حضرت علیؓ کے متعلق بخاری میں ایک روایت آتی ہے کہ ایک عورت شرحۃ الہمدانیہ کو آپ نے کوڑے بھی لگوائے اور رجم بھی کیا اور پھر فرمایا۔ جَلَدْتُھَا بِکِتٰبٍ اللّٰہِ وَرَجَمْتُھَا بِسُنَّۃِ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (بخاری)

یعنی میں نے کوڑے تو خدا کے حکم کے مطابق لگائے ہیں اور رجم رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت کے مطابق کیا ہے۔

اس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اس آیت کو منسوخ نہیں قرار دیتے تھے۔

حضرت عبادۃ ابن الصامتؓ کی روایت ہے کہ کنواری سے زنا سرزد ہو جائے تو اس کی سزا میں ایک سال کی جلاوطنی بھی زائد کر دی گئی تھی اور بیاہی ہوئی عورت سے زنا سرزد ہو جائے تو کوڑوں کے علاوہ اس کیلئے رجم کا بھی اضافہ کر دیا گیا تھا۔

(مسلم)

اس سے بھی حضرت علیؓ والے خیال کی تصدیق ہوتی ہے کہ قرآنی آیت منسوخ نہیں بلکہ قرآنی حکم کے ساتھ ایک چیز کا اپنی طرف سے اضافہ کیا گیا تھا۔

رجم کا حکم قرآن حکم سے پہلے تھا

پس یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ قرآنی حکم یہی ہے کہ اگر کسی عورت یا مرد سے زنا صادر ہو جائے تو اس کو سو کوڑے لگائے جائیں۔ لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے بائیبل کی تعلیم کے مطابق اپنے استدلال سے یہودی مذہب کی سزا کو پہلے جاری کیا، اس کے بعد چونکہ قرآنی حکم نازل ہو گیا اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم کو ہم محض عارضی حکم کہیں گے مستقل حکم نہیں کہیں گے کیونکہ مستقل حکم آپ کا وہی ہوتا ہے جس کے متعلق قرآنی حکم موجود نہ ہو۔

وقتی احکامات کی چند مثالیں

اس کا ثبوت اس طرح بھی ملتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے شروع میں قبلہ بھی یہودیوں کے طریق کے مطابق بیت المقدس کو ہی رکھا تھا۔ لیکن جب قرآن کریم میں یہ حکم نازل ہو اکہ خانہ کعبہ کی طرف منہ کیا جائے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے بیت اللہ کی طرف منہ کر لیا۔ چنانچہ دوسرے پارہ کے شروع میں اس کا ذکر آتا ہے۔

اسی طرح احادیث سے یہ بات ثابت ہے کہ بعض دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم قوم کی اصلاح کیلئے ایک حکم فرما دیا کرتے تھے لیکن وہ دائمی حکم نہیں ہوتا تھا۔ مثلاً بخاری میں ہی آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس ایک دفعہ وفد عبدالقیس آیا اور اُس نے کہا یا رسول اللہ ہمیں کوئی خاص ہدایت دیجیے۔

آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا فلاں فلاں چارقسم کے برتن استعمال نہ کئے جائیں۔

(بخاری کتاب الایمان باب اداء لخمس من الایمان)

لیکن قریباً سب مسلمان آج اُن برتنوں کو استعمال کرتے ہیں اور سب فقہاء کہتے ہیں کہ یہ برتن جائز ہیں اور اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ اُن لوگوں میں رواج تھا کہ اس قسم کے برتنوں میں وہ شراب بناتے تھے۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اُن کی اس عادت کو چھڑانے کیلئے حکم دے دیا کہ یہ برتن استعمال نہ کیا کرو۔ان برتنوں کے استعمال نہ کرنے کی وجہ سے شراب بنانے کی عادت اُن میں سے جاتی رہی اور بعدمیں تمام مسلمانوں کے اتفاق کے مطابق یہ حکم غیر ضروری ہو گیا اور اس قسم کے برتنوں کا استعمال سب مسلمانوں کیلئے جائز ہو گیا۔

رجم کی سزا بائبل کی اتباع میں

حدیثوں سے یہ بات ثابت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا حکم محض یہودی احکام کی اتباع میں دیا تھا۔ چنانچہ ایک روایت میں یہ الفاظ آتے ہیں کہ

اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَوَّلُ مَنْ اَحْیَا اَمَرَکَ اِذَ اَمَاتُوْہُ فَاَمَرَ بِہٖ فَرُجِمَ

(مسلم جلد2 کتاب الحدور)

یعنی جب رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے ایک دفعہ یہود نے یہ اقرار کیا کہ اصل میں تو ہمارے ہاں رجم کا ہی حکم ہے مگر بڑے لوگوں کو خوش کرنے کیلئے ہم نے رجم کا طریق ترک کر دیا ہے تو آپ نے وہ بات فر مائی جو ہم نے اوپر درج کی ہے اور جس کا ترجمہ یہ ہے کہ
اے اللہ! میں اس زمانہ میں پہلا شخص ہوں جس نے تیرے اس حکم کو جو تونے یہودیوں کو دیا تھا زندہ کر دیا ہے حالانکہ خود یہودی جن کو یہ حکم دیا گیا تھا انہوں نے اس حکم کو ترک کر دیا ہے۔ اس کے بعد آپ نے اُس ملزم کو جو آپ کے سامنے لایا گیا تھا رجم کی سزا دی۔

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے رجم کی سزا محض بائیبل کی اتباع میں دی تھی۔ چنانچہ احادیث میں بیان شدہ ایک اور واقعہ بھی اس کی تصدیق کرتا ہے۔

حدیث میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس ایک شخص آیا اور اُس نے کہا یا رسول اللہ ! میں نے زنا کیا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اُس کی یہ بات سنکر غصّہ سے اُس کی طرف سے منہ پھیر لیا۔ مگر وہ بار بار چکر کاٹ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے یہی کہتا رہا کہ یا رسول اللہ میں نے زنا کیا ہے۔ جب وہ چار دفعہ اقرار کر چکا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کیا تُو پاگل ہے! اُس نے کہا یا رسول اللہ! نہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اچھا اسے سنگسار کر دیا جائے۔ صحابہؓ کہتے ہیں کہ ہم اسے باہر لے گئے لیکن جب ہم نے اُسے پتھر مارنے شروع کئے تو وہ بھاگا۔ ہم اُس کے پیچھے پیچھے دوڑے اور اُسے پکڑ کر مارڈالا۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ بات پہنچی تو آپ نے اس پر ناراضگی کا اظہار کیا اور فرمایا کہ اُس کا بھاگنا ہی اپنے اقرار سے رجوع کرنا تھا۔ پھر تم نے اُسے کیوں نہ چھوڑ دیا۔

یہ حدیث بھی بتاتی ہے کہ رجم کا حکم خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں تھا۔ ورنہ یہ کس طرح ہو سکتا تھا کہ خداتعالیٰ تو یہ کہتا کہ رجم کرو۔ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم اس کے اُلٹ اپنے صحابہؓ سے یہ فرماتے کہ جب وہ بھاگا تھا تو تم نے اُسے چھوڑ کیوں نہ دیا۔ اگر رجم کا حکم خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوتا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم یہ کس طرح کہہ سکتے تھے کہ تم نے اُسے مارا کیوں؟

واقعہٴ ایوبؑ بھی ایک حجت ہے

اس جگہ ایک لطیفہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے اور وہ یہ کہ مفسرین حضرت ایوب ؑ کے ذکر میں لکھتے ہیں کہ جب وہ شدید بیمار ہو گئے تو شیطان نے اُن کی بیوی کو ورغلایا اور اُسے ایک بکری کا بچہ دے کر کہا کہ اگر ایوبؑ میرے نام پر اس کو ذبح کردیں تو یہ اچھے ہو جائیں گے۔ بیوی نے حضرت ایوبؑ سے اس کا ذکر کیا۔ تو انہوں نے اُسے ڈانٹا اور کہا کہ یہ تو خدا کا دشمن ہے تم اس کے فریب میں کیوں آئیں؟ اور پھر قسم کھائی کہ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے شفادی تو میں اپنی بیوی کو اس غلطی پر اُسے سو کوڑوں کی سزا دونگا۔ مگر جب اچھے ہو گئے تو حضرت ایوب ؑ نے اپنی قسم کو اس طرح پورا کیا کہ سو تیلیاں اکٹھی کر کے اُن کو مار دیں۔

(تفسیر خازن)

اگر یہ روایتیں درست ہیں تو پھر زانی اور زانیہ کو بھی حضرت ایوبؑ کی طرح ایک جھاڑو اٹھا کر مار دینا چاہئے جس میں سو تیلیاں ہوں اور سمجھ لینا چاہئے کہ سزا پوری ہو گئی۔ اور جب سو کوڑے بھی نہ رہے بلکہ ایک جھاڑو مار دینا بھی جائز ہو گیا تو رجم کہاں باقی رہا۔

بے شک ہم مفسرین کی ان روایات سے متفق نہیں لیکن جو علماء اس قسم کی روایات کو تسلیم کرتے ہیں ان پر واقعہ ٔ ایوبؑ بھی ایک حجت ہے کیونکہ جب وہاں وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ حضرت ایوبؑ نے سو کوڑوں کی بجائے سو تیلیاں مار کر قسم پوری کر لی تو پھر یہاں بھی رجم پر کیوں زور دیتے ہیں۔ یہاں بھی انہیں چاہئے کہ سو تیلیاں والا جھاڑو اٹھا کر زانیہ اور زانی کو ایک دفعہ مار دیں اور سمجھ لیں کہ سزا پوری ہو گئی۔

حاصل کلام

بہر حال رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا بعض لوگوں کو رجم کرنا محض یہودی تعلیم کی اتباع میں تھا۔ لیکن اس کے بعد جب قرآن کریم میں واضح حکم آگیا تو پہلا حکم بھی بدل گیا اور وہی حکم آج بھی موجود ہے جو قرآن کریم میں بیان ہوا ہے یعنی اگر کسی کی نسبت زنا کا جرم ان شرائط کے ساتھ ثابت ہو جائے جو قرآن کریم میں بیان ہوئے ہیں تو اسے سو کوڑے لگائے جائیں۔

سزا کا طریق

کوڑوں کی تشریح قرآن کریم نے بیان نہیں فرمائی لیکن قرآنی الفاظ سے یہ بات ثابت ہے کہ کوڑا ایسی طرز پر مارا جانا چاہئے کہ جسم کو اس کی ضرب محسوس ہو۔ کیونکہ جَلْدَہٗ بِالسِّیَاطِ کے معنے ہوتے ہیں ضَرَبَہٗ بِھَا وَاَصَابَ جِلْدَہٗ ( اقرب) یعنی کوڑے سے اس طرز پر مارا کہ جلد تک اُس کا اثر پہنچا۔

پس کسی چیز سے جس کی ضرب اتنی ہو کہ جسم محسوس کرے سزا دینا اور لوگوں کے سامنے سزا دینا اس حکم سے ثابت ہوتا ہے۔ خواہ وہ کوڑا چمڑے کا نہ ہو بلکہ کپڑے کا ہو۔ یہ ضروری نہیں کہ وہ کوڑا وہی ہو جیسا کہ آجکل عدالتیں استعمال کرتی ہیں اور جس کی ضرب اگر سو کی حد تک پہنچے تو انسان غالباً مر جائے۔

سورۃ نساء کی آیت نے ثابت کر دیا ہے کہ ایسے کوڑے مارنے ناجائز ہیں جن کے نتیجے میں موت وارد ہو جائے ایسے ہی کوڑے مارے جا سکتے ہیں اورا تنی ہی شدت سے مارے جا سکتے ہیں جس سے انسان پر موت وارد ہو نے کاکوئی امکان نہ ہو۔ یعنی نہ تو کوڑا ایسا ہو نا چاہئے جس سے ہڈی ٹوٹ جائے کیونکہ حل لغات میں بتا یا جا چکا ہے کہ جَلْدَہٗ بِالسِّیَاطِ کے معنوں میں یہ بات داخل ہے کہ صرف جلد کو تکلیف پہنچے ہڈی کے ٹوٹنے یا اس کو نقصان پہنچنے کا کوئی ڈر نہ ہو۔ اورنہ ایسا ہونا چاہئے کہ اس کی ضرب سے انسان پر موت وارد ہو نے کا کوئی امکان ہو۔

قرآن الفاظ کے انتخاب کی حکمت

یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں صرف زانی اور زانیہ کا لفظ نہیں رکھا بلکہ اَلزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ کے الفاظ رکھے ہیں یعنی الف لام کی زیادتی کی گئی ہے اور الف لام کی زیادتی ہمیشہ معنوں میں تخصیص پیدا کردیا کرتی ہے۔

پس اس جگہ ااَلزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ سے صرف ایسا ہی شخص مراد ہو سکتا ہے جو یاتو زنا کا عادی ہو یا علی الاعلان ایسا فعل کرتا ہو۔ اور اتنا نڈر اور بیباک ہو گیا ہو کہ وہ اس بات کی ذرا بھی پرواہ نہ کرتا ہو کہ کوئی اُسے دیکھ رہا ہے یا نہیں یا اُس سے شہوت کا مادہ تو نہ ہو اور پھر بھی وہ زناکرتا ہو جیسے بوڑھا مرد یا بوڑھی عورت۔ ان معنوں کے لحاظ سے اس حدیث کی بھی ایک رنگ میں تصدیق ہو جاتی ہے جس میں یہ ذکر آتا ہے کہ

اَلشَّیْخُ وَالشَّیْخَۃُ اِذَا زَنَیَا فَارْجُمُوْھُمَا اَلْبَتَّۃَ

ایک بڑی عمر والا مرد یا ایک بڑی عمر والی عورت اگر زنا کریں تو ان کو پتھر مار مار کر مار دو۔

گویا اَلزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ کے معنے اَلشَّیْخُ وَالشَّیْخَۃُ کے ہی ہیں۔

معلوم ہوتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے انہی خیالات کا اظہار فرمایا تھا۔ مگر حضر ت عمرؓ نے اس کو غلطی سے قرآنی آیت سمجھ لیا۔ لیکن بوڑھے مرد اور بوڑھی عورت کیلئے بھی قرآن کریم نے فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْھُمَا مِائَۃَ جَلْدَۃٍ کا ہی حکم دیا ہے رجم کا نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب حضرت عمرؓ نے کہاکہ یا رسول اللہ یہ بات مجھے لکھ دیجیےتو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عمرؓ کی اس بات کو ناپسند فرمایا۔ کیونکہ یہ قرآنی حکم کے خلاف تھی۔

پس اَلزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ سے کامل زانی مراد ہے جو یاتو زنا کا عادی ہو یا اتنا نڈر ہوگیا ہو کہ وہ کھلے بندوں اس فعل کا ارتکاب کرتا ہو۔ یا محصن یعنی شادی شدہ ہو یا بڈھا ہو اور پھر بھی وہ زنا کرتا ہو۔ ایسے تمام لوگوں کے متعلق قرآن کریم یہی کہتا ہے کہ اُن کا جرم ثابت ہونے پر انہیں سو کوڑے لگاؤ۔

الٰہی سزاؤں کی اقسام

وَلَاتَاْخُذْکُمْ بِھِمَا رَأفَۃٌ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ۔ یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ خداتعالیٰ کی طرف سے دو قسم کی سزائیں آتی ہیں۔ ایک تو وہ سزائیں ہوتی ہیں جو قوانین نیچر کی خلاف ورزی کا نتیجہ ہوتی ہیں اور ایک ایسی سزائیں ہوتی ہیں جو قوانین شریعت کی خلاف ورزی کرنے کی وجہ سے انسان کو برداشت کرنی پڑتی ہیں۔

قوانین نیچرکی سزائیں

جو سزائیں قوانین نیچر کی خلاف ورزی کا نتیجہ ہوتی ہیں ان میں رجم کرنا اور ہمدردی سے پیش آنا جائز ہوتا ہے۔

قوانین شریعت کی سزائیں

لیکن وہ سزائیں جو قوانین شریعت کی خلاف ورزی کرنے کی وجہ سے دی جائیں اُن میں رجم کرنا جائز نہیں ہوتا کیونکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے سزا اُسی صورت میں آتی ہے جبکہ بندہ اس کا مستحق ہو جاتا ہے۔ اور ایسی حالت میں رحم کرنے یعنی مجرم کو اس سزا سے بچانے کا یہ مفہوم ہو گا کہ انسان خداتعالیٰ کے فیصلہ کو جھٹلانے کی کوشش کرے۔

حدود اللہ پر عمل ضروری ہے

یہاں خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہیں اُس سزا پر جو فی دین اللہ ہو۔ یعنی دین کے حکم کو پورا کرنے کیلئے دی جائے رحم نہیں آنا چاہئے ۔پس اس سے وہ سزا نکل گئی جو قوانین نیچر کی خلاف ورزی کی وجہ سے ملتی ہے۔

مثلاً اگر کسی کا گر کر دانت ٹوٹ جائے تو اس پر رحم کرنا جائز ہے یا کوئی بیمار ہو تو اُس پر بھی رحم کرنا جائز ہے۔ اسی طرح جو لوگ ڈوب جاتے ہیں یا زلازل وغیر ہ سے تباہ ہو جاتے ہیں اُن کے متعلق بھی رحم کے جذبات کا اظہار کرنا یا اُن کے پسماندگان کی مالی امداد کرنا اور اُن سے محبت اور ہمدردی سے پیش آنا جائز ہے۔ کیونکہ ان حوادث میں ہزاروں ایسے لوگ بھی تباہ ہو جاتے ہیں جن کی تباہی کسی مامور کے انکار کا نتیجہ نہیں ہوتی۔ پس اس قسم کے حوادث میں بنی نوع انسان کے ساتھ ہمدردی سے پیش آنا نہایت ضروری ہوتا ہے۔

مگر جسے دینی احکام اور قانونِ شریعت کی خلاف ورزی کرنے پر سزا ملے اس پر رحم نہیں کیا جا سکتا۔ یعنی یہ نہیں ہو سکتا کہ جس کے متعلق شرعی قانون کے ماتحت زنا کا الزام ثابت ہوجائے اُس کو قرآنی کوڑے نہ لگائے جائیں۔ ہاں اگر یہ خواہش کی جائے کہ کاش یہ ایسا نہ کرتا تو یہ جائز ہے۔

پہلے عورت کا پھرمرد کا ذکر کرنے کی حکمت

یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اس آیت میں قرآن کریم نے اپنے عام دستور کے خلاف عورت کا ذکر پہلے کیا ہے اور مرد کا بعد۔ یعنی یہ کہا ہے کہ زانیہ عورت اور زانی مرد کو سو سو کوڑے لگائے جائیں۔ اس میں ایک نکتہ ہے جو فراموش نہیں کرنا چاہئے اور وہ یہ کہ یہ فعل پیشہ کے طور پر عورتوں میں ہی پایا جا تا ہے۔ مردوں میں نہیں پایا جاتا۔ مگر اس کایہ مطلب نہیں جیسا کہ بعض لوگ غلطی سے سمجھتے ہیں کہ اس سے مردوں میں عورتوں کی نسبت زیادہ نیکی اور تقویٰ کا ثبوت ملتا ہے۔ بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ مرد اس کو اختیار ہی نہیں کر سکتے۔ صرف عورتیں ہی مالی فائدہ کیلئے اس پیشہ کو اختیار کرتی ہیں۔ اسی لئے ان کا ذکر پہلے کیا گیا ہے۔ اور مردوں کا اُن کے بعد۔ دوسرے اس معاملہ میں عورت میں فطرۃً حیاء کا مادہ زیادہ پایا جاتا ہے بلکہ عورتوں میں ہی نہیں ہر نرو مادہ میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ اُن میں سے جو چیز یں اثر قبول کرتی ہیں اُن میں حیاء زیادہ ہوتی ہے بہ نسبت اُن کے جو دوسروں پر اثر ڈالتی ہیں۔ اثر لینے والی چیز پیچھے کو ہٹتی ہے اور اثر ڈالنے والی اُس کی طرف بڑھتی ہے اور یہ بات انسانوں اور حیوانوں میں ہی نہیں بلکہ درختوں میں بھی جو نر و مادہ کی خاصیت رکھتے ہیں پائی جاتی ہے کہ جو پودہ نر کا قائم مقام ہوتا ہے اُس میں حرکت پیدا ہوتی ہے اور وہ اُس پودے کی طرف جھکتا ہے جو مادہ کا قائم مقام ہوتا ہے۔ اس علم کی تحقیق موجودہ زمانہ میں کی گئی ہے۔ مگر اسلام نے اس کو پہلے سے ہی بیان کر دیا ہے۔
پس عورت میں چونکہ حیاء کا مادہ نسبتاً زیادہ ہوتاہے اور وہ طبعاً رکتی ہے اس لئے اس طبعی حیاء کے باوجود کوئی عورت شرم حیا ء کو ترک کر دیتی ہے تو وہ زیادہ نفرین کی مستحق ہوتی ہے۔ اس لئے اس جگہ عورت کا ذکر پہلے کیا گیا ہے اور مرد کا بعد میں۔

(تفسیر کبیر جلد6 صفحہ248-259)

(مرسلہ: محمد انور شہزاد)

پچھلا پڑھیں

خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ 30؍ستمبر 2022ء

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 اکتوبر 2022