• 3 مئی, 2024

اے چھاؤں چھاؤں شخص !تیری عمر ہو دراز

ڈائری عابد خان سے ایک ورق
اے چھاؤں چھاؤں شخص! تیری عمر ہو دراز

23 مئی 2015ء کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اور آپ کا قافلہ اٹھارہ روزہ دورہ کے لئے جرمنی روانہ ہوئے جہاں حضور انور نے جلسہ سالانہ جرمنی میں شمولیت اختیار فرما کر اس کو اعزاز بخشا۔

حضور انور کے خطاب کا اثر

حضور انور کے مسجد کی سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب دیکھنے کے بعد مجھے چند مہمانان کو ملنے کا موقع ملا جس دوران تقریب جاری تھی۔ ایک لوکل خاتون پولیس نے کہا کہ
اگر حقیقی اسلامی تعلیمات یہی ہیں جو آپ کے خلیفہ نے بتائی ہیں تو میں امید کرتی ہوں کہ یہ جلدی سے پورے جرمنی میں پھیل جائے۔

بعد ازاں میری ملاقات اس قطعہ زمین کی مالکہ سے بھی ہوئی جن سے مسجد کے لیے زمین خریدی گئی تھی۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ حضور انور کے خطاب کو سننے کے بعد انہیں یقین دہانی ہوئی ہے کہ یہ قطعہ زمین اب محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ انہوں نے اظہار کیا کہ خطاب کو سننے کے بعد انہیں اندرونی سکون اور امن کا احساس ہوا ہے۔

ایک پولیس officer نے بیان کیا کہ
میں نے زندگی بھر ایسی یکجہتی نہیں دیکھی جیسی آج دیکھی ہے۔ یہ بات نہایت واضح ہے کہ احمدی مسلمان اپنے خلیفہ کی کامل اطاعت کرتے ہیں۔ مجھے خلیفہ (صاحب) کا خطاب بہت پسند آیا۔ خاص طور پر وہ حصہ جب آپ نے فرمایا کہ ہمیں اپنے حقوق پر دوسروں کو ترجیح دینی چاہیے۔ یہ اسلام کی ایک بے نفسی کی تعلیم ہے جو آج میں نے سیکھی ہے۔

میری ملاقات ایک لوکل ڈاکٹر سے ہوئی جو ایک لوکل ہسپتال کی نمائندگی کر رہے تھے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ قبل ازیں وہ مسلمانوں کے بارے میں منفی رائے رکھتے تھے لیکن حضور انور کے خطاب کو سننے کے بعد وہ سب خیالات یکسر ہوا ہو گئے ہیں۔

حضور انور کا مدد فرمانا اور رہنمائی کرنا

تقریب کے اختتام پر میں نے موقع پا کرحضور انور کا مستقل رہنمائی اور حوصلہ افزائی کرنے پر شکریہ ادا کیا۔ جرمنی کے دورہ کی جملہ ڈائریز شائع ہونے سے پہلے حضور انور خود ملاحظہ فرماتے رہے۔ آپ نے ہر فقرہ پڑھا اور درستیاں فرمائی اور ایسی جگہوں کی نشاندہی بھی فرمائی جہاں میری یاداشت نے خطا کھائی تھی۔ حتی کہ آپ نے میری spellings کی غلطیاں اور typos بھی درست فرمائیں۔ نیز میرا ارادہ تھا کہ حضور انور کا سارا دورہ دو حصوں میں مکمل کروں۔ لیکن حضور انور نے تجویز فرمایا کہ مجھے اس کو تین حصوں میں تقسیم کرنا چاہیے تاکہ قارئین کے پڑھنے میں سہولت رہے۔

مزیدبراں حضور انور نے اس ڈائری کے کچھ حصے ڈرافٹ کرنے میں خاکسار کی مدد بھی فرمائی اور انہیں مزید دلچسپ کرنے کے طریق بھی بتلائے۔ جب میں نےحضور انور کی مدد سے تیار ہونے والے حصوں کے ڈرافٹ پڑھے تو مجھے فورا حضور انور کی رہنمائی کی اہمیت اجاگر ہوئی۔

اللہ تعالی حضور انور کو فعال عمر دراز سے نوازے اور ہر احمدی کو خلافت کا حقیقی مطیع اور فرمانبردار بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

دورہ جرمنی کی برکات

اس دورہ کے پہلے دن سے لے کر آخری دن تک حضور انور کا دورہ بے شمار فضلوں اور برکات اور یادگار لمحات سے بھرا ہوا تھا۔ ہم میں سے وہ احباب جو اس بابرکت موقع پر حاضر تھے انہوں نے براہ راست زندگیوں کو بدلتے دیکھا اور حضرت خلیفۃ المسیح کی موجودگی میں نئی زندگیوں میں ڈھلتے دیکھا۔ ہم نے دیکھا کہ غیر مسلموں کو پہلی مرتبہ اسلام کی تعلیمات کا فہم اور ادراک حاصل ہوا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ خلیفہ وقت احمدیوں کی خوشی میں شامل ہو کر انہیں دوبالا کر دیتے ہیں اور ہم نے یہ بھی دیکھا کہ کس طرح آپ ان کے غم کے لمحات میں ان کی ڈھارس بندھاتے ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ کس طرح آپ انفرادی طور پر اور اجتماعی طور پر احمدیوں کی رہنمائی فرماتے ہیں۔ ایک مرتبہ پھر ہم نے مشاہدہ کیا کہ احمدیوں اور ان کے خلیفہ کے درمیان ایک منفرد روحانی تعلق کیسا ہوتا ہے جس کا کوئی ثانی نہیں۔

ایک دوسرے مہمان Mr. Strang نے اپنے تاثرات کا اظہار یوں کیا کہ
جب آپ خلیفہ کو دیکھتے ہیں تو خود بخود ان کی عزت کرنے کو جی چاہتا ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے ایک روحانی نور نے آپ کو گھیرا ہو۔ میں ایک کیتھولک ہوں لیکن خلیفہ کے لیے میرے دل میں احترام ایسا ہی ہے جیسے پوپ کے لیے ہے۔ میں دوسرے لوگوں کو بھی ضرور بتاؤں گا کہ کس طرح خلیفہ محض امن اور رواداری کی بات ہی کرتے ہیں۔

الحمدللّٰہ یہ تقریب بہت بابرکت ثابت ہوئی۔ جس طرح حضور انور کا دورہ Aachen سے نہایت بابرکت طریق پر شروع ہوا تھا ایسا ہی Vechta میں نہایت بابرکت اور اللہ تعالی کے فضلوں کا متحمل ہوتا ہوا اختتام پذیر ہوا۔

Vechta میں مہمانوں سے ملاقات

حضو رانور نے اس تقریب کے اختتام پر دعا کروائی جس کے بعد مہمانان کی خدمت میں عشائیہ پیش کیا گیا۔ چند گھنٹے قبل کھانا کھانے کی وجہ سے مجھے بھوک نہیں لگی تھی اس لیے اپنے کھانے کے میز سے اجازت چاہی اور چند مہمانوں کو ملنے میں مصروف ہوگیا۔

ہر مہمان نے حضور انور کے خطاب پر خوشی کا اظہار کیا اور اکثریت نے برملا اس بات کا اظہار کیا کہ کس طرح ان چند منٹوں نے اسلام کے بارے میں ان کے خیالات کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔

پہلی مہمان خاتون جن سے میری ملاقات ہوئی ان کا نام Cindy Leppla تھا جو ایک لوکل یونیورسٹی کی لائبریری میں کام کرتی تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں حضور انور کے خطاب نے بہت جذباتی کر دیا اور براہ راست خلیفہ کو سننا ان کے لیے نہایت سعادت کی بات ہے۔

ایک دوسری مہمان خاتون نے اظہار کیا کہ
سب سے اہم بات یہ ہے کہ آج میں نے ایک ایسا مسلمان لیڈر دیکھا ہے جو انسانیت سے محبت کرتا ہے۔ جب آپ خلیفہ کو دیکھتے ہیں تو آپ کی انسانیت سے محبت مزید بڑھتی ہے۔ آپ کو دیکھ کر اور سن کر میرے دل کو بہت تسکین حاصل ہوئی۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ آپ وہ مسلمان لیڈر ہیں جو پوری تعظیم کے ساتھ مردوں اور عورتوں کو ایک جیسی عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

میری ملاقات ایک جرمن دوست Bernard Schmidt سے ہوئی جنہوں نے بتایا
اگر مجھے خلیفہ کے (امن اور رواداری کے) پیغام کا پہلے سے علم ہوتا تو میں آپ کو اپنے چرچ میں مدعو کرتا۔ آپ اس قدر عاجز ہیں اور آپ کے الفاظ اس قدر سادہ ہیں اور یہ آپ کی سچائی کی ایک دلیل ہے کہ کوئی اختلاف یا ابہام آپ کی گفتگو میں نہیں پایا جاتا۔ آپ کا خطاب دنیا میں امن اور مذہبی آزادی کی بنیادیں ڈالنے والا تھا۔

(حضور انور کا دورہ جرمنی مئی-جون 2015ء حصہ سوم اردو ترجمہ از ڈائری مکرم عابد خان)

(مترجم: ابو سلطان)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 اکتوبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ