• 26 اپریل, 2024

ہیومن جینوم پراجیکٹ Human Genome Project

انسانی جسم خدا تعالیٰ کی پیچیدہ اور اعلیٰ ترین تخلیق کا ایک نمونہ ہے۔ اس میں پائے جانے والے کڑورہا خلیوں کا الگ الگ اور ایک دوسرے سے منفرد کام کرنا ایک عجیب ترین شان اور قدرت ِخدائی اپنے اندر رکھتا ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق انسانی جسم میں سب سے اہم جزو جس پر انسان کی زندگی، اسکے اعضاء، رنگ، شکل الغرض ہر چیز کا دارومدار ہے وہ جین (gene) ہے۔

گو 1900 سے پہلے ہی جین کے اور اسکے کردار کے متعلق مختلف سائنسدان بہت کچھ بتا چکے تھے۔ لیکن جین لفظ اور اسکی صحیح پہچان کرنے کا سہرا ایک ڈینش باٹینسٹ (Botanist) ویل ہیلم جاہنسن (Wilhelm Johannsen) کو جاتا ہے ۔ انیسویں اور بیسویں صدی میں علم حیاتیات میں جہاں دیگر ترقی ہوئی۔ وہیں وراثیات یعنی جینٹکس کی جانب سائنسدانوں کی توجہ مرکوز ہونا شروع ہوئی۔ کیونکہ وراثیات کے علم کے بغیر انسانی جسم کے متعلق کچھ جاننا ایک نا ممکن امر ہے۔

انسانی جنین کیسے ارتقائی مراحل سے گزرتا ہے؟ کیسے ایک انسان میں مختلف عادتیں اور جسمانی خدوخال پائے جاتے ہیں؟ کیا کسی بھی جاندار کی پیدائش سے قبل ہی اسکے متعلق ایسی معلومات مل سکتی ہے جس کی مدد سے اسکی صحت کو بہتر کیا جاسکے؟ یہ چند ایسے سوال ہیں جو سائنسدانوں کے ذہن میں کئی دہایوں تک رہے۔ اور انکے جوابوں کی کھوج میں ہی انسان نے خوردبین بنائی۔

خورد بین نے بصری دنیا سے نیچے کی دنیا کو کھولا اور خلیے تک پہنچایا۔ خلیے کی اندرونی اناٹومی (Anatomy) اور فزیولوجی (Physiology) پر سوال کھڑے کئے اور پھر ان کی تلاش میں مزید طاقتور خوردبین کی ضرورت محسوس ہوئی اور وہ بنائی گئیں کہ وہ خلیے کے اندر کی دنیا کا کھوج لگائیں۔ پس یہ کھوج اپنی انتہا ء کو تب پہنچی جب یکم اکتوبر 1990 میں تاریخ کا اور حیاتیات کا سب سے بڑا سائنسی پراجیکٹ شروع کیا گیا۔

اس پراجیکٹ کا نام ہے ’’ہیومن جینوم پراجیکٹ‘‘ (Human Genome Project)۔ اس پراجیکٹ کا بنیادی مقصد 5 سال کہ عرصہ میں انسانی جین یعنی انسانی جسم میں پائے جانے والے اس جینیاتی مادےکے متعلق معلومات حاصل کی جائیں۔ اس پراجیکٹ کی ابتدائی کھوج میں مندرجہ ذیل معلومات شامل تھی :

انسانوں میں پا ئی جانے والی مختلف خصلتوں (traits) اور بیماریوں کا پتہ لگانا کہ وہ کس جین پر موجود ہیں۔

جینز کی نقشہ کشی کی گئی جس کو سائینسی اصطلاح میں جین میپنگ (gene mapping) کہا جاتا ہے۔

انسانوں میں پائی جانے والی مورثی خصائل جن کو inherited traits بھی کہا جاتا ہے کا پتہ لگانا ۔

ان تمام علوم کے حصول کا بنیادی مقصد انسانی نسلوں میں ان تمام خصائل اور ان سے متعلق معلومات کا محفوظ کرنا اور ان میں آنے والے تغیرات کو ریکارڈ کرنا تھا۔ جس سے آنے والے وقت میں بے شمار پیچیدگیوں سے بچنا ممکن ہوسکے گا۔

گو یہ منصوبہ ابتدائی طور پر 5 سال کے عرصہ پر محیط تھا۔ لیکن اس سے حاصل ہونے والی بے پناہ کامیابی کی بناء پر یہ منصوبہ 13 سال تک جاری رہا۔ اور آخر کار 2003 اپریل میں اسکا اختتام ایسی عظیم الشان کامیابی پر ہوا جسکا 13 سال پہلے تصور کرنا بھی ایک ناممکن سی بات تھی۔

آپ سب جاننا چاہ رہیں ہونگے آخر یہ کونسی کامیابی تھی؟ اس منصوبہ کے تحت سائنسدان مکمل انسانی جینوم (genome) کو میپ کرکے اس میں پائے جانے والے تمام جینز اور ان کی ترتیب جاننے میں کامیاب ہوئے۔

اس منصوبے کے اختتام پر حاصل ہونے والی معلومات میں سے کچھ میں آپ کے سامنے پیش کرتی ہوں۔ کسی بھی انسان میں 3 کروڑسے زائد بیس پئیرز (base pairs) پائے جاتے ہیں۔ اس لحاظ سے انسانی جینوم 2.9 گیگا بایئٹس (2.9 GB) میموری کے برابر ہے۔ ہر بیس پئیر دو قسم کی نیوکلیوبیسس (neucleobases) سے مل کر بنتا ہے۔ انسانی جینوم میں 4 نیوکلیو بیسس پائے جاتے ہیں جن میں ایڈنین, (adenine) تھائی مین (thymine)، گوانین (guanine) اور سائیٹوسین (cytosine) شامل ہیں۔انسانی جینوم میں 22 ہزار 300 جینز مختلف پروٹینز کے بنانے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ ایک بات یہاں بتانا بہت ضروری ہے کہ جو جینز پروٹین بناتے ہیں وہ سب سے اہم جینز ہوتے ہیں؛ کیونکہ انہیں پروٹینز کے ذرئیے ہی یہ جینز انسانی جسم میں اپنا اظہار کرتے ہیں۔

یہ بات یہاں قابل ذکر ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس خوبصورتی سے ہر انسان میں ایسا حیرت انگیز نظام رکھا ہوا ہے۔ کہ محض چار بیسس مل کر کڑوڑں مختلف انداز میں مل کر انسان میں ہزاروں پروٹینز (proteins) بناتی ہیں۔ اور یہی پروٹینز انسانی زندگی کی بنیاد رکھتے ہیں اور عمر بھر انسانی جسم میں اپنا کردار ادا کرتے رہتے ہیں۔ اور اگر ان میں سے محض ایک بیس پئیر بھی اپنی جگہ سے ادھر سے ادھر ہوجائے تو انسانی جسم میں بیماری یا پیچیدگی کا باعث بنتا ہے۔

پس ہیومن جینوم پراجیکٹ سے حاصل ہونے والی معلومات کے ذریعے سے پیدائش سے قبل ہی بہت سی بیماریوں کی تشخیص کی جا سکتی ہے۔ اور اسکی مدد سے قبل از وقت علاج ممکن ہوجاتا ہے۔ ہیومن جینوم پراجیکٹ کے اور بہت سے فوائد میں سے ایک اور فائدہ یہ بھی ہے کہ ان مختلف پروٹینز بنانے والے جینز کو انسانوں اور باقی جانداروں میں پروٹینز یا دیگر کیمیائی مواد کی کمی کو پورا کرنے کے لئے جینیٹک انجئینرنگ (genetic engineering) کے ذریعے استعمال کیا جارہا ہے۔ اسکی ایک مثال انسولین (insulin) ہے ۔انسانوں اور بیکٹیریا ای -کولائی (e. coli) میں انسولین بنانے والے جینز مشترک ہیں اسلئے انسانوں میں انسولین کی کمی کو پورا کرنے کے لئے اسکی پیداوار ای -کولائی میں کروائی جاتی ہے۔

الغرض ہیومین جینوم پراجیکٹ نے ریسرچ کے میدان میں ایسے نئے راستے کھول دئے ہیں جن سے نا ممکنات کو حاصل کیا جارہا ہے۔ کینسر جیسی جان لیوا بیماری جو کل تک لا علاج گمان کی جاتی تھی۔ آج اسکے لئے اسی پراجیکٹ کے نتیجے میں نت نئے علاج کے طریقے مرتب کئے جارہے ہیں۔ اور اسکے ساتھ ساتھ بڑھتی ہوئی آبادی اور اس کے باعث اناج کی کمی کو دور کرنے کے لئے بھی یہی ریسرچ کلیدی کردار ادا کر رہی ہے۔

پس جہاں ہیومن جینوم پراجیکٹ جیسی عظیم الشان سائینسی کامیابیاں ہمیں ایک بہتر مستقبل دینے میں مدد کر رہی ہیں۔ وہیں یہ ایجادات ہمیں ان تمام علوم اور چیزوں کے خالق کی عظمت کا لمحہ لمحہ اظہار کرنے پر بھی مجبور کرتی ہیں۔ جس نے بہترین رنگ میں اتنی پیچیدہ مخلوقات کو ناصرف پیدا کیا بلکہ اس نے انہیں اتنی سمجھ بھی دی کہ وہ مخلوق میں چھپے رازوں کو افشاں کرسکیں۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان علوم کو انسانیت اور دیگر مخلوقات کی خدمت میں استعمال کرنے کی توفیق دے۔ آمین

٭…٭…٭

(مرسلہ: سدرۃ المنتہیٰ جماعت کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 نومبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 نومبر 2020