• 19 مئی, 2024

یہ انذار خدا کے خاص بندے کے ہیں

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
احمدی تو قانون کی پابندی کرنے والے ہیں، ہمیشہ رہے ہیں، اور رہیں گے ان شاء اللہ۔ انہوں نے تو قانون کے احترام میں اپنی ملکیتی زمین جو دارالنصر میں دریا کی طرف، دریا کے قریب، ربوہ کی زمین تھی وہاں پر قبضہ کرنے والوں سے لڑائی کی بجائے قانون کا سہارا لیا۔ لیکن قانون وہی ہے کہ طاقت والے سے ڈرو اور طاقت والے کے کام کرو۔ ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ تو کر دیا کہ اس وقت تک کوئی فریق اس پر کسی قسم کا تصرف نہیں کر سکتا، کوئی تعمیر نہیں کر سکتا جب تک کورٹ فیصلہ نہ کرے۔ لیکن آج-30 32سال کے بعد بھی کورٹ کو فیصلہ کرنے کی جرأت نہیں ہوئی۔ احمدی تو اس حکم کی پابندی کر رہے ہیں۔ لیکن دوسرا فریق جو اسلام کے نام پر ناجائز قبضہ کرنے والوں کا گروپ ہے تعمیر پر تعمیر کرتا چلا جا رہا ہے اور جب ہائی کورٹ کو کہو کہ یہ ہائی کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی ہو رہی ہے اور یہ ہتک عدالت ہے تو کورٹ کا جواب یہ ہوتا ہے کہ ہتک ہماری ہو رہی ہے، تمہیں کیا فرق پڑتا ہے۔ بالکل دوہرے معیار ان کے حکموں اور فیصلوں کے ہوگئے ہیں۔ کہنے کو عدلیہ بڑی انصاف پسند ہے۔ غرض کہ ہر طبقہ، ہر محکمہ، کرپشن کے جو اعلیٰ ترین معیار ہیں ان کو چھُو رہا ہے۔ نیکی کے معیار حاصل نہیں کر رہے، برائیوں کے معیار حاصل کرنے کی طرف دوڑ لگی ہوئی ہے اور اس کی وجہ وہی ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ ایمانی حالتیں انتہائی کمزور ہو گئی ہیں اور عالم آخرت صرف ایک افسانہ سمجھا جاتا ہے۔ پس آج کل تو لگتا ہے کہ ان نام نہاد اسلام کے ٹھیکے داروں کا ایمان دنیا اور اس کے جاہ ومراتب ہیں۔ یہ سارے فساد جو ملک میں ہو رہے ہیں اور آفات بھی جو آ رہی ہیں، اگر غور کریں تو اس کا سبب زمانے کے امام کا نہ صرف انکار بلکہ اس کا استہزا ء اور اس کے ماننے والوں پر ظلم ہے۔

اب ایمرجنسی پاکستان میں نافذ ہوئی تو فوراً ساتھ ہی دستور کو بھی کالعدم قرار دے دیا۔ یہ علیحدہ بحث ہے کہ اختیار ہے یا نہیں یا اس کی کیاقانونی اور آئینی حیثیت ہے لیکن جیسا کہ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ ملک میں یہی ہوتا آیا ہے۔ انہوں نے ایمرجنسی بنائی اور دستور کو کالعدم کر دیا۔ لیکن یہ قانون اتنے جوش اور غصے میں بھی نہیں بنایا گیا۔ اتنے ہوش و حواس ان کے قائم رہے کہ احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے والی جو شقیں ہیں وہ قائم رہیں گی، ان کو نہیں چھیڑا گیا۔ خاص طورپر اناؤنس کیا گیا کہ وہ قائم ہیں۔ تو آج کل چاہے وہ حکمران ہیں یا سیاستدان ہیں یا کوئی بھی ہے خدا سے زیادہ ان کو خوف ان لوگوں کا ہے جومذہب کے نام پر فساد پیدا کرتے ہیں اور ہر حکومت انہیں خوش کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ پس جیسا کہ مَیں نے گزشتہ خطبہ میں بھی کہا تھا کہ ملک کے لئے دعائیں کریں اور دعاؤں کے ساتھ جوپاکستان میں رہنے والے احمدی ہیں، کسی کو بھی، کسی بھی طرح، کسی بھی شکل میں ان فسادوں میں حصہ دار نہیں بنناچاہئے۔ باوجود اس کے کہ ہم پر زیادتیاں ہوتی ہیں اور ہو رہی ہیں اور آئندہ بھی ہوں گی، ہم نے قانون کی پابندی کرنی ہے اور وقت کی حکومت کے خلاف کسی قسم کا بھی جو فساد ہے اس میں حصہ نہیں لینا۔ ہمارا معاملہ خدا کے ساتھ ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے اور جس حد تک ہو سکے یہ کرنا چاہئے کہ اپنے اپنے حلقے میں، اپنے دائرے میں ان لوگوں کو یہ بتانا چاہئے کہ سوچو، غور کرو کہ یہ سب کچھ جو ہو رہا ہے، یہ اللہ تعالیٰ کے قانون میں دخل اندازی کی وجہ سے تو نہیں ہو رہا؟۔ یہ ہلکے ہلکے جو جھٹکے دئیے جا رہے ہیں یہ خداتعالیٰ کی ناراضگی کی وجہ سے تو نہیں؟ اب غیر لکھنے والے بھی لکھنے لگ گئے ہیں۔ (غیر سے مراد جو احمدی نہیں ہیں ان کے اپنے لوگ) اور کہنے والے یہ کہنے لگ گئے ہیں، اخباروں میں بھی آتا ہے، اَور جگہ بھی بیانات آتے ہیں، گزشتہ کسی خطبہ میں کچھ بیان پڑھ کر بھی سنائے تھے کہ یہ سب کچھ جو ہو رہا ہے یہ خداتعالیٰ کو ناراض کرنے کی وجہ سے ہے۔ لیکن ان کویہ سمجھ نہیں آرہی کہ خداتعالیٰ کیوں ناراض ہو رہا ہے ؟ غور کریں کہ کیوں ناراض ہو رہا ہے۔ ایک دعویٰ کرنے والے نے یہ اعلان کیا تھا کہ خدا میری تائید میں نشانات دکھائے گا۔ ان نشانوں کو دیکھو اور غور کرو اور خدا کے بھیجے ہوئے کے انکار سے باز آؤ۔ اللہ تعالیٰ ظالم کو نہیں چھوڑتا۔ دنیا کے نمونے ہمارے سامنے ہیں۔

پاکستان میں صرف ظالمانہ قانون ہی اسمبلی نے پاس نہیں کیا بلکہ اس وجہ سے کئی احمدی صرف اس لئے شہید کئے گئے اور آج تک کئے جا رہے ہیں کہ وہ احمدی ہیں، وہ زمانے کے امام کو ماننے والے ہیں۔ اس قانون نے جرأت دلائی ہے کہ ظالم اپنے ظلموں پر بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ گو اب حکومت نے، عدالت نے بعض جگہ ایسے ظالموں کو ایک دو کیسز میں سزائیں بھی دی ہیں لیکن جب تک ظالمانہ قانون قائم ہے جو حکومت بھی آئے گی وہ ان ظلموں میں برابرکی شریک ہو گی۔

بہرحال ہم نے ان دنیا والوں سے تو کچھ نہیں لینا لیکن ہمدردی کے جذبات سے اور یہ بات کہ وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہے، ہم حکومت کو بھی اور عوام کو بھی توجہ دلاتے ہیں کہ اگر امن قائم کرنا ہے اور خدا کی پکڑ سے باہر آنا ہے تو انصاف کے تقاضے پورے کرو۔

اپنے ہمسایہ ملک افغانستان سے سبق سیکھو جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں دو شہید کئے گئے۔ جن کے ذکر میں آپؑ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ ’’اس مصیبت اور اس سخت صدمے سے تم غمگین اور اداس مت ہو کیونکہ اگردو آدمی تم میں سے مارے گئے تو خدا تمہارے ساتھ ہے۔ وہ دو کے عوض ایک قوم تمہارے پاس لائے گا اور وہ اپنے بندہ کے لئے کافی ہے۔ کیا تم نہیں جانتے کہ خدا ہر ایک چیز پر قادر ہے‘‘۔

(تذکرۃ الشہادتین۔ روحانی خزائن جلد 20صفحہ73)

پس آج بھی جو شخص احمدیت کی وجہ سے شہید کیا جاتا ہے اور اپنے ایمان پر حرف نہیں آنے دیتا وہ یقینا اللہ تعالیٰ کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کئے گئے وعدوں سے حصہ پانے والا ہے۔ کیا ان دو کو شہید کرکے احمد یت کا جو پودا تھا اس کو بادشاہ وقت نے اکھیڑ دیا ؟ کیادنیا سے اس وجہ سے احمدیت ختم ہو گئی؟ آج گو تھوڑی تعداد میں ہی سہی لیکن احمدی افغانستان میں بھی ہیں اور اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق قومیں جماعت میں شامل کی ہیں۔ ہر قوم کے سعید فطرت جماعت میں شامل ہو رہے ہیں لیکن آپؑ نے افغانستان کی سرزمین کے بارے میں جو انذار فرمایا تھا اس کو ہم آج تک پورا ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ آج تک افغانستان میں بے امنی کی کیفیت ہے۔

خدا کے مسیح کے الفاظ یہ ہیں کہ ’’ہائے اس نادان امیر نے کیا کیاکہ ایسے معصوم شخص کو کمال بے دردی سے قتل کرکے اپنے تئیں تباہ کر لیا……‘‘۔

(تذکرۃ الشہادتین۔ روحانی خزائن جلد 20صفحہ74)

فرماتے ہیں ’’اے کابل کی زمین! تو گواہ رہ کہ تیرے پر سخت جرم کا ارتکاب کیا گیا۔ اے بدقسمت زمین! تو خدا کی نظر سے گر گئی کہ تو اس ظلم عظیم کی جگہ ہے‘‘۔

(تذکرۃ الشہادتین۔ روحانی خزائن جلد 20صفحہ74)

پس ہر عقل رکھنے والے اور دیکھنے والی آنکھ کے لئے یہ کافی ثبوت اس بات کا ہونا چاہئے کہ جو شخص ان الفاظ کا کہنے والا ہے وہ یقینا خدا کا مرسل ہے۔ خدا کی طرف منسوب کرکے ایک بات کہہ رہا ہے اور آج سو سال بعد تک ہم ان الفاظ کے اثرات دیکھ رہے ہیں۔ وہ بادشاہ جو مولویوں سے ڈر گیا تھا کیا اسے کوئی مولوی بچا سکا؟ یا اس کے خاندان کوبچا سکا؟ اور پھر آج تک کی بے امنی کی کیفیت کیا اس بات کا کافی ثبوت نہیں کہ یہ الفاظ، یہ انذار خدا کے خاص بندے کے ہیں؟

(خطبہ جمعہ 23؍ نومبر 2007ء)

پچھلا پڑھیں

معاشرے کا امن ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھنے اور معاف کرنے سے وابستہ ہے

اگلا پڑھیں

آج کی دعا