آگے بڑھتے رہو دمبدم دوستو
دیکھو رکنے نہ پائیں قدم دوستو
ناخدا گر خدا کو بناتے رہے
ساحلوں پہ سفینہ بھی آ جائے گا
اُس کے حکموں پہ سر جو جھکاتے رہے
زندگی کا قرینہ بھی آ جائے گا
ساتھ وہ ہے تو پھر کیسا غم دوستو
آگے بڑھتے رہو دمبدم دوستو
جو خلافت کے دامن کو تھامے رہے
رحمتوں کی قبائیں بھی پا جائیں گے
اُس کی رسی کو مضبوط پکڑیں گے جو
نصرتوں کی ردائیں بھی پا جائیں گے
دیکھ لیں گے یہ اہل ستم دوستو
آگے بڑھتے رہو دمبدم دوستو
کوئی سالار جب چھوڑ کے چل دیا
مضطرب کس قدر کارواں ہوگیا
جذبہ ہائے جنوں پر سلامت رہے
پل کو ٹھٹکا پھر آگے رواں ہوگیا
ہے اُسی کا یہ فضل و کرم دوستو
آگے بڑھتے رہو دمبدم دوستو
ماں کی آغوش میں جیسے بچہ رہے
یوں خدا نے ہمیں گود میں لے لیا
اُس نے بے سائباں ہم کو چھوڑا نہیں
گر لیا ایک تو دوسرا دے دیا
اُس نے رکھا ہمارا بھرم دوستو
آگے بڑھتے رہو دمبدم دوستو
(کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم صاحبہ
ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ351۔353)