تعارف سورۃ الصٰفٰت (37ویں سورۃ)
(مکی سورۃ ، تسمیہ سمیت اس سورۃ کی183 آیات ہیں)
(ترجمہ از انگریزی ترجمہ قرآن( حضرت ملک غلام فرید صاحب) ایڈیشن 2003)
وقت نزول اور سیاق و سباق
بیہقی اور ابن مردویہ نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ یہ سورت مکہ میں نازل ہوئی۔ قرطبی کے نزدیک جمہور علماء اس بات پر متفق ہیں کہ یہ سورۃ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے ابتدائی سالوں میں مکہ میں نازل ہوئی۔ اس سورت کا طرزِ بیان اور مضمون بھی اس بات کی تائیدکرتا ہے۔ سابقہ سورۃ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ’اے سردار‘ کہہ کر پکارا گیاتھا جن کو ہر طرح کی غلطی سے پاک قرآن کریم دیا گیا ہے۔ جو ساری انسانیت کے لیے قیامت تک کے لیے ہے۔ موجودہ سورت کے آغاز میں بتایا گیا ہے کہ یہ کامل سردار اس قرآن کے ذریعہ سے اور اپنے اسوۃحسنہ سے نیک لوگوں کی ایک جماعت بنانے میں ضرور کامیاب ہو جائے گا
مضامین کا خلاصہ
اس سورت کا آغاز اس یقینی شہادت سے کیا گیا ہےکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیر تربیت جو کامل سردار ہیں، نیک لوگوں کی ایک جماعت جنم لے گی جو نہ صرف یہ ہے کہ خود خدا کی تسبیح و تحمید کرنے والے ہوں گے بلکہ عرب کے بیابان صحراؤں میں بھی ان کی آوازیں گونجیں گی اور اپنے نیک نمونوں سے دوسروں کو بھی بتوں کی پوجا اور برے کاموں سے روکیں گے یہاں تک کہ پورے عرب میں توحید باری تعالی کا ڈنکا بجے گا اور یہاں سے اسلام کی روشنی پوری دنیا میں پھیل جائے گی۔ اس سورت میں مزید بتایا گیا ہے کہ جب بھی خدا کا نبی دنیا کے کسی بھی حصے میں مبعوث ہوتا ہے، گمراہی کی طاقتیں اس کے راستے میں غلط بیانی اور غلط مطالب نکالنے کے ذریعہ حائل ہوتی ہیں یا نبی کی بات کو غلط طور پر بیان کرنے اور اس کی وحی میں جھوٹ کی آمیزش کرنے کے ذریعہ سے۔ مگر وہ اپنے مکروہ ارادوں میں بری طرح سے ناکام ہوتے ہیں اور سچائی بڑھ چڑھ کر ترقی کرتی ہے۔ اس سورت میں مزید بتایا گیا ہے کہ جب کفار کو بتایا جاتا ہے کہ قرآنی تعلیمات عرب میں ایک عظیم الشان انقلاب برپا کر دیں گی اور روحانی مردے نہ صرف ایک نئی زندگی حاصل کر لیں گے بلکہ اس زندگی کے حصول کے بعد دوسروں میں بھی اس روئیدگی کو بانٹیں گے، تو کفار اس خیال پر طنز اور تمسخر کرتےہیں اور اسے پاگلوں کی بڑکیں اورناممکنات میں سے قرار دیتے ہیں۔ گویا کہ یہ بات ظاہری مردوں کو زندہ کرنے کے مترادف ہے؟
اس سورت میں ہی کفار کے اس یقینی انکار کا یہ جواب تحدی سے دیا گیا ہے کہ ایسا ضرور ہوگا اور کفار کو ذلت اور رسوائی کا سامنا ہوگا۔پھر اس سورت میں جنت کی نعماء کی تفصیل بیان کی گئی ہے جو نیکوں کو اور خدا کے برگزیدہ لوگوں کو ملیں گی۔ جنت کی نعماء کے تذکرہ کے بعد اس سزا کا ذکر کیا گیا ہے جو حق کے منکروں اور خدا کے رسولوں کی مخالفت کرنے والوں کو نصیب ہو گی۔ پھر اس سورت میں انبیاء کی زندگی سے چند مثالیں دی گئی ہیں، اس بات کی دلیل کے طور پر کہ حق کبھی ناکام نہیں ہوتا اور اس کا انکارکبھی اچھے نتائج پیدا نہیں کرتا۔ جب انبیاء کی مثالیں دی گئی ہیں ان میں حضرت نوح ،حضرت ابراہیم، حضرت موسی،حضرت الیاس، حضرت یونس اور حضرت لوط علیھم السلام شامل ہیں۔
پھر اس سورت میں بت پرستی کی سختی سے تردید کی گئی ہے خاص طور پر فرشتوں کی عبادت کی۔ بت پرستوں کی سرزنش کی گئی ہے کہ وہ اس حد تک بے وقوف ہیں کہ اس سادہ حقیقت کو بھی نہیں سمجھ سکتے کہ کمزور انسانوں یا فطرتی قوتوں یا فرشتوں کو جو خود مخلوق ہیں، خدائی طاقتوں اور صفات سے متصف قرار دیتے ہیں جو انسانی عقل، سمجھ اور ضمیر کے خلاف ہے۔ ان کو مزید بتایا گیا ہے کہ فرشتے محض خدا کی مخلوق ہیں جن کو معین کام سپرد کیے گئے ہیں۔ اس سورت کا اختتام اس بیان پر ہے کہ جب کبھی بھی گمراہی کی طاقتیں خدا کےنبیوں اوراس کے برگزیدوں سے ٹکراتی ہیں تو مؤخر الذکر خدائی نصرت پاتے ہیں جبکہ شیطان کے چیلے ناکامی اور نامرادی دیکھتے ہیں۔یہ حقیقت خدا کے نبیوں کی زندگی میں بار بار عیاں ہوتی چلی آئی ہے اور ایک ہی حتمی نتیجہ نکلتا ہے کہ سب تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے۔
٭…٭…٭
(مترجم: وقار احمد بھٹی)