• 19 مئی, 2024

حضرت میاں محمد یوسف صاحب رضی اللہ عنہ

حضرت میاں محمد یوسف صاحب رضی اللہ عنہ
اپیل نویس ۔ مردان

حضرت میاں محمد یوسف صاحب رضی اللہ عنہ کا آبائی گاؤں اصل میں مدھ بھیلووال (Mudh Bhillowal) ضلع امرتسر ہے (جماعتی لٹریچر میں اس گاؤں کا نام صرف ’’مُد‘‘ مشہور ہے۔ ناقل) لیکن آپ مردان میں پیدا ہوئےجہاں آپ کے والد میاں احمد بخش صاحب نائب تحصیلدار تھے۔ آپ تین بھائی تھے، سب سے بڑے آپ یعنی حضرت میاں محمد یوسف صاحبؓ، دوسرے نمبر پر حضرت میاں محمد یعقوب صاحبؓ اور تیسرے نمبر پر حضرت میاں محمد احسن صاحبؓ۔ سب سے پہلے حضرت میاں محمد احسن صاحب (وفات27؍اگست 1955ء بعمر 72 سال مدفون بہشتی مقبرہ ربوہ) احمدیت کے نور سے منور ہوئے۔

(تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ 238۔ نیو ایڈیشن)

حضرت میاں محمد یوسف صاحب رضی اللہ عنہ نے ساری زندگی مردان میں ہی گزاری۔ قبول احمدیت سے پہلے آپ حضرت محمد سلمان شاہ صاحب آف تونسہ ضلع ڈیرہ غازی خان کے مریدوں میں سے تھے۔ 1901ء میں حضرت بابو شاہ دین صاحب رضی اللہ عنہ سٹیشن ماسٹر آف ساہووالہ ضلع سیالکوٹ (یکے از313 اصحاب۔وفات 15؍مئی 1908ء مدفون بہشتی مقبرہ قادیان) کے ذریعے بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے، آپ کی بیعت کا اندراج اخبار الحکم میں اس طرح درج ہے:
’’محمد یوسف صاحب۔ مدھ بھیلووال۔ امرتسر حال مردان پشاور۔ اپیل نویس سابق مرید توسوی سلسلہ‘‘

(الحکم 17؍اگست 1901ء صفحہ 16 کالم 3)

بیعت کے بعد آپ کا یہ معمول تھا کہ شام کو باقاعدہ حضرت بابو شاہ دین صاحبؓ کے گھر دیگر احمدیان کے ساتھ جمع ہوتےاور نماز مغرب کے بعد اخبار الحکم و بدر پڑھ کر سناتے اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے تازہ الہامات، ملفوظات اور حالات سے آگاہ ہوتے۔ (الحکم 17اگست 1901ء صفحہ 15) بیعت کے تقریباً تین ماہ بعد آپ اپنے اہل و عیال کے ساتھ قادیان حاضر ہوئے، اخبار الحکم لکھتا ہے:
’’اس ہفتہ میں بہت سے مہمان تشریف لائے جن میں سے بابو شاہ دین صاحب سٹیشن ماسٹر، منشی محمد یوسف صاحب اپیل نویس مردان سے اپنے اہل و عیال کو لے کر ایک اچھے عرصہ تک حضرت اقدس کی صحبت سے فیض اٹھانے کے لیے حاضر ہوئے ہیں۔‘‘

(الحکم 24نومبر 1901ء صفحہ 15کالم 1)

آپ احمدیت کا عمدہ نمونہ تھے اور دوسروں تک یہ پیغام پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک مخالف مولوی صاحب نے ایک مجلس میں بڑی ادا سے مولوی الطاف حسین حالی کی مسدس دربارہ تنزل اسلام کے اشعار سنائے توآپ جھٹ اٹھ کھڑے ہوئے اور حاضرین کو مخاطب کر کے پوچھا کہ جب اہل اسلام کا یہ ناگفتہ بہ حال ہے جو خلیفہ صاحب کے اشعار سے ظاہر ہو رہا ہے ….. اور نیز جب اسلام کا تنزل اس درجہ تک ہوگیا ہے تو کیا اب بھی مسیح موعود و مہدی معہود کے آنے کی ضرورت نہیں تھی….‘‘

(الحکم 31مئی 1902ء صفحہ 13-16)

جمعدار محترم فضل الدین صاحب اوورسیرلکھتے ہیں کہ مجھے احمدیت کی نعمت 1910ء میں صرف ایک دن حضرت میاں محمد یوسف صاحب کی مختصر مجلس میں بیٹھ کر نصیب ہوئی۔

(الفضل 5؍جنوری 1956ء صفحہ 7)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کے واقعات میں ایک اہم واقعہ ’’مباحثہ مُد‘‘ بھی ہے جو اکتوبر 1902ء میں پیش آیا یہ مباحثہ حضرت مولانا سید سرور شاہ صاحب رضی اللہ عنہ اور مولوی ثناء اللہ امرتسری کے درمیان حضرت میاں محمد یوسف صاحبؓ کے گاؤں مُد میں ہوا تھا اور آپؓ نے ہی حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں قادیان سے وفد بھجوانے کی درخواست کی تھی، ملفوظات حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں 24؍اکتوبر 1902ء دربار شام کے تحت لکھا ہے: ’’برادرم مکرم محمد یوسف صاحب اپیل نویس نے اپنے گاؤں میں بعض لوگوں کے شکوک کے رفع کرنے کے واسطے بعض احباب کو حضرت اقدس کے ایما سے لے جانا چاہا اس کی تجویز ہوئی کہ مولوی عبداللہ صاحب اور مولوی سرور شاہ صاحب کو بھیجا جاوے۔‘‘

(ملفوظات جلد دوم صفحہ 446)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب ’’اعجاز احمدی‘‘ میں بھی اس کا ذکر یوں فرمایا ہے: ’’…. موضع مدّ ضلع امرتسر میں باصرار منشی محمد یوسف صاحب میرے دو مخلص دوست ایک مباحثہ میں گئے ….‘‘

(اعجاز احمدی، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 107)

مباحثہ کے بعد بھی آپ کو قادیان حاضر ہونے کا موقع ملتا رہا، مورخہ 5؍نومبر 1902ء بوقت سیر کی ڈائری میں لکھا ہے:
’’محمد یوسف صاحب اپیل نویس نے عرض کیا کہ حضور موضع مد کے مباحثہ میں ایک اعتراض یہ بھی کیا گیا تھا کہ مرزا صاحب تمھاری آنکھیں کیوں نہیں اچھی کر دیتے۔ حضرت اقدس نے فرمایا:
’’جواب دینا تھا کہ آنحضرت ﷺ کے پاس ایک اندھا تھا جیسے قرآن مجید میں لکھا ہے عَبَسَ وَتَوَلَّىٰ ﴿2﴾ أَن جَاءَهُ الْأَعْمَىٰ ﴿3﴾ (عبس : 2،3) وہ کیوں نہ اچھا ہوا حالانکہ آپ تو افضل الرسل تھے ۔ اور بھی اندھے تھے …..‘‘

(ملفوظات جلد دوم صفحہ 448)

اسی طرح 7؍نومبر 1902ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سفر بٹالہ کے موقع پر بھی آپ کی حاضری کا ذکر ملفوظات میں موجود ہے۔

حضورؑ نے آپ کو مخاطب ہوکر فرمایا:
’’آپ دلگیر نہ ہوں آپ ایک دینی جہاد میں مصروف ہیں اللہ تعالیٰ آہستہ آہستہ اس سلسلہ کو ایسا پھیلائے گا کہ یہ سب پر غالب ہوں گے اور آج کل کے موجودہ ابتلاء سب دور ہو جائیں گے۔ خدا تعالیٰ کی یہی سنت ہے کہ ہر ایک کام بتدریج ہو، کوئی درخت اتنی جلدی پھل نہیں لاتا جس قدر جلدی ہماری جماعت ترقی کر رہی ہے۔ یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے اور اس کا نشان۔‘‘

(ملفوظات جلد دوم صفحہ492۔493حاشیہ ایڈیشن2003انڈیا)

پھر مورخہ 25؍نومبر 1902ء کی ڈائری میں بھی موضع مُد میں آپ کے بائیکاٹ کا ذکر ہے چنانچہ لکھا ہے:
’’حضرت اقدس کی خدمت میں کسی نے عرض کیا کہ موضع مد میں محمد یوسف صاحب کا پانی بند کرنے اور تعلقات لین دین، گفتگو، سلام پیام سب ترک کرنے کی تحریک جاری ہے اس لیے ان کے گھرانے کو سخت تکلیف ہے فرمایا کہ
خدا تعالیٰ آسمان پر دیکھتا ہے ان کو اس کا اجر دے گا اور تکلیف دینے والوں کو سزا دے گا۔ یونہی ان کو چھوڑتا نہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد دوم صفحہ 540)

آپ کے داماد حضرت حاجی محمد اسماعیل صاحب ریٹائرڈ سٹیشن ماسٹر (وفات: 16؍اکتوبر 1966ء۔ مدفون بہشتی مقبرہ ربوہ) آپ کے متعلق روایت کرتے ہیں:
’’15؍ستمبر 1938ء کو شام کے وقت مَیں حضرت میاں محمد یوسف صاحب مردان کے ہمراہ کھانا کھا رہا تھا۔ میں نے پوچھا آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہمراہ کھانا کھانے کا کتنی دفعہ شرف حاصل ہوا؟ فرمایا: دو دفعہ مختلف موقعوں پر موقعہ ملا۔ پہلی دفعہ تو گول کمرہ میں اور دوسری بار بٹالہ کے باغ میں جو کچہریوں سے متصل ہے جہاں حضرت صاحب کسی گواہی کے لیے تشریف لے گئے تھے۔ اس موقعہ پر چالیس پچاس دوست حضور کے ہمرکاب تھے، کھانا دارالامان سے پک کر آگیا تھا، فرش بچھا کر دو قطاروں میں دوست بیٹھ گئے۔ مَیں دوسری قطار میں بالکل حضرت صاحب کے سامنے بیٹھا تھا۔ اتنے میں ایک ہندو وکیل صاحب آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مخاطب کر کے کہا کہ آپ کے الہامات میں جو ’’دافع البلاء‘‘ میں شائع ہوئے ہیں ایک الہام میں شرک کا رنگ ہے اور وہ الہام ’’اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ وَلَدِیْ‘‘ ہے۔ حضرت صاحب نے اس کے جواب میں ابھی کوئی کلمہ اپنی زبان مبارک سے نہ فرمایا تھا کہ مَیں نے فوراًکہا کہ وہاں ایک تشریحی نوٹ بھی تو ہے۔ وکیل نے انکار کیا کہ وہاں کوئی نوٹ نہیں۔ مَیں نے کہا کہ کتاب لاؤ مَیں دکھا دیتا ہوں۔ اس نے جواب دیا کہ میرے پاس کتاب کہاں ہے۔ حسنِ اتفاق سے اس وقت میرے پاس حضرت صاحب کی سب کتب موجود تھیں جن کی مَیں نے خوبصورت جلدیں بندھوائی ہوئی تھیں اور وہ کتب مَیں مشہور مباحثہ مُد کے سلسلہ میں اپنے ہمراہ لے گیا تھا کیونکہ مباحثہ ہماری تحریک پر ہی ہوا تھا۔ مَیں نے فوراً ہاتھ صاف کرتے ہوئے کتاب دافع البلاء کی جلد نکالی، قدرت خداوندی تھی کہ جونہی میں نے کتاب کھولی تو پہلے وہی صفحہ نکلا جس میں یہ الہام اور تشریحی نوٹ درج تھا۔ مَیں نے وہ کتاب وکیل صاحب کو پڑھنے کے لیے دی۔ یہ نوٹ پڑھ کر وکیل صاحب کو تو بہت ندامت ہوئی لیکن مجھے اب تک اپنی اس جسارت پر تعجب آتا ہے کہ مَیں حضورؑ کی موجودگی میں اس طرح بول پڑا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس سارے عرصہ میں خاموش رہے۔ یہ واقعہ کھانے کے درمیان میں ہوا تھا، اس وقت حضرت صاحب کے چہرہ پر خوشی نمایاں تھی۔ حضورؑ نے اپنے سامنے والی قیمہ کی رکابی مجھے عنایت کر کے فرمایا کہ آپ اس کو کھالیں۔‘‘

(سیرت المہدی جلد اول حصہ سوم روایت نمبر 908۔ جدید ایڈیشن)

آپ نے اپنے بیٹے حضرت میاں غلام حسین صاحبؓ (وفات8؍ دسمبر 1955ء) کو حصول تعلیم کے لیے قادیان میں داخل کرادیا تھا ۔ 1905ء میں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وقف زندگی کی تحریک فرمائی تو مخلص باپ کے اس مخلص بیٹے نے اول طور پر اس تحریک پر لبیک کہا، اخبار بدر نے ’’دو رشید لڑکے‘‘ کے تحت پہلا خط اسی بیٹے کا درج فرمایا ہے جس میں انھوں نے لکھا:

’’بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔ نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
بحضور فیض گنجور حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ و السلام
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

حضورؑ کی کل تقریر سن کر میں نے پختہ عہد کیا ہے کہ میں آئندہ دنیا کے واسطے ہرگز نہیں پڑھوں گا بلکہ آج سے میں اپنی زندگی کو دین کے واسطے وقف کرتا ہوں اور حضورؑ کے منشاء کے مطابق دینی تعلیم اور صرف انگریزی زبان اور سنسکرت پڑھوں گا اور اس کے بعد اگر زندگی نے وفا کی تو محض للہ دین کی خدمت میں زندگی بسرکروں گا۔ پر چونکہ انسان کمزور ہے اور پھر بچپن اور بھی کمزور ہوتا ہے لہذا اس تحریر کے ذریعہ میں حضورؑسے اس عہد اور ارادہ پر قائم رہنے اور اس کی توفیق ملنے کے لیے دعا کی استدعا کرتا ہوں۔

حضور کا غلام خاکسار غلام حسین ولد میاں محمد یوسف اپیل

نویس مردان پشاور

طالب علم جماعت فورتھ ہائی سکول مدرسہ تعلیم الاسلام قادیان۔ 27؍ دسمبر 1905ء اس درخواست کے جواب میں حضرت اقدس علیہ السلام نے جواباً تحریر فرمایا:
’’السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ۔ میں مطلع ہوا، جزاکم اللہ خیرًا۔ خدا تعالیٰ اس راہ میں برکت دے اور اخیر تک اس راہ پر استقامت بخشے، آمین۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اپنا یہ ارادہ پرچہ الحکم و بدر میں شائع کرادیں اور خدا سے ارادہ پر قائم رہنے کے لیے دعا کرتے رہیں۔ والسلام مرزا غلام احمد

(بدر 12؍جنوری 1906ء صفحہ 3 کالم 2)

مورخہ 21؍مارچ 1908ء کو Sir James Wilson فنانشل کمشنر پنجاب ایک روزہ دورہ پر قادیان تشریف لائے، اس موقع پر استقبال کرنے والوں میں حضرت میاں محمد یوسف صاحبؓ بھی شامل تھے۔

(بدر 26؍مارچ 1908ء صفحہ 2 کالم3)

آپ نے 6؍مئی 1961ء کو مردان میں وفات پائی اور وہیں دفن ہوئے۔ آپ کے بھتیجے مکرم میاں محمد حسین صاحب سیکرٹری مال جماعت احمدیہ مردان نے لکھا:
’’حضرت میاں محمد یوسف صاحب احمدی اپیل نویس جو حضرت مسیح موعود کے پرانے صحابی اور 1901ء کے بیعت شدہ تھے، قریبا ًایک سو سال کی عمر پاکر 6؍مئی 1961ء بوقت ساڑھے تین بجے صبح بروز شنبہ مقام بکٹ گنج مردان وفات پاگئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اسی دن شام کو انھیں امانتاً سپرد خاک کیا گیا۔ آپ کے جنازہ میں جماعتہائے احمدیہ ہوتی، مردان، نوشہرہ، پشاور کے احباب، اقرباء اور معززین بکٹ گنج نے شمولیت کی۔ غسل کے بعد وہ قمیض جو مرحوم نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ سے حاصل کی تھی، پہنا کر تکفین کی گئی۔ نماز جنازہ حضرت قاضی محمد یوسف صاحب امیر جماعت ہائے سابق صوبہ سرحد نے پڑھائی۔‘‘

(الفضل 21؍مئی 1961ء صفحہ 6)

آپ نے دو شادیاں کیں، پہلی زوجہ سے اولاد میں حضرت میاں غلام حسین صاحبؓ، میاں عبداللہ جان، میاں عبدالحئی،حضرت مریم بیگم صاحبہؓ (وفات: 11؍فروری 1965ء بعمر 75 سال مدفون بہشتی مقبرہ ربوہ) اہلیہ حضرت حاجی محمد اسماعیل صاحب سٹیشن ماسٹر، امۃ الحئی اہلیہ حضرت ڈاکٹر محمد دین صاحبؓ تھے اور دوسری زوجہ محترمہ عائشہ بی بی صاحبہ سے اولاد میں میاں عبدالسلام صاحب، امۃالسلام زوجہ میاں محمدافضل صاحب اور امۃ القدوس زوجہ محمد حسین صاحب تھے۔

آپ کے دو پڑپوتے میاں عبدالواحد صاحب مبلغ سلسلہ ٹبورا (تنزانیہ) اور میاں رضی احمد صاحب مربی سلسلہ تحریک جدید ربوہ خدمت دین کی توفیق پا رہے ہیں۔ آپ کی تصویر اور اولاد کی تفصیل میاں عبدالواحد صاحب نے مہیا کی ہے، جزاہ اللہ احسن الجزاء۔

٭…٭…٭

(مرسلہ: غلام مصباح بلوچ)

پچھلا پڑھیں

حاصل مطالعہ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 دسمبر 2020