• 18 مئی, 2025

اپنے جائزے لیں (قسط 13)

اپنے جائزے لیں
ازارشادات خطبات مسرور جلد 12۔ حصہ دوم
قسط 13

پہلے اپنے جائزے لو کہ کیا تم جو کہہ رہے ہو
اس پر تم عمل بھی کر رہے ہو

’’کیا لوگ مجھے پوچھیں گے نہیں کہ تمہارے اندر اس مسیح نے کیا تبدیلی پیدا کی ہے جو تم مجھے پاک تبدیلیاں پیدا ہونے کا لالچ دے کر اس مسیح موعود کو ماننے کی طرف توجہ دلا رہے ہو۔ تمہارا اپنا خدا تعالیٰ سے کتنا تعلق پیدا ہو گیا ہے جو تم مجھے خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا ہونے کا لالچ دے کر مسیح موعود کو قبول کرنے کی دعوت دے رہے ہو۔ تمہارا دین تمہیں کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا حق اس کی عبادت کر کے ادا کرو بلکہ تمہارے تو قرآن کریم میں یہ لکھا ہوا ہے کہ انسانی زندگی کا مقصد خدا کی عبادت کرنا ہے اور اسی لئے تمہیں پیدا کیا گیا ہے۔ کتنی نمازیں ہیں جو تم باجماعت ادا کرتے ہو؟ تم نے مسجد تو خوبصورت بنا لی لیکن اس کی خوبصورتی تو نمازیوں کی حالت سے ہے۔ ان سے ہی چمک اَور ابھرتی ہے۔ کیا تم لوگ پانچ وقت نمازیں مسجد میں پڑھتے ہو؟ کیا تم اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق ادا کرتے ہو؟ قرآن کریم تو تمہیں کہتا ہے کہ تم خیر اُمّت ہو جو لوگوں کے فائدے کے لئے پیدا کئے گئے ہو کیونکہ تم نیکیوں کی تلقین کرتے ہو اور برائیوں سے روکتے ہو۔ پوچھنے والے ہمیں پوچھیں گے کہ کیا صرف تلقین کرنے سے تمہارا مقصد پورا ہو جاتا ہے۔ اگر نہیں تو پہلے اپنے جائزے لو کہ کیا تم جو کہہ رہے ہو اس پر تم عمل بھی کر رہے ہو۔ پوچھنے والے پوچھیں گے کہ رشتے داروں اور لوگوں سے حسن سلوک کی تم باتیں کرتے ہو لیکن تمہارے اپنے عمل کیا اس کے مطابق ہیں۔ اپنی امانتوں کی ادائیگی اور عہدوں کے پورا کرنے کی تم باتیں کرتے ہو کیا امانتوں کا حق ادا کرنے اور عہدوں کو پورا کرنے کے تم سو فیصد پابند ہو۔ تم قربانی اور عاجزی کی باتیں کرتے ہو لیکن کیا اس کا اظہار تمہارے ہر قول و فعل سے ہو رہا ہے۔ تم یہ تو کہتے ہو کہ اسلام ہمیں حسن ظنی کی تعلیم دیتا ہے لیکن کیا اس حسن ظنی کو تم نے اپنی روزمرّہ زندگی پر لاگو بھی کیا ہو اہے یا نہیں۔ تم کہتے ہو کہ قرآن کریم ہمیں سچائی پر قائم رہنے کی بڑی تلقین کرتا ہے لیکن کئی مواقع پر تو میں نے دنیاوی فوائد کے حصول کے لئے تمہیں خود جھوٹ کا سہارا لیتے ہوئے دیکھا ہے۔ یہ کوئی بھی ہمیں کہہ سکتا ہے اگر ہمارا عمل اس کے سامنے ہے۔ تم کہتے ہو کہ اسلام تعلیم دیتا ہے کہ اپنے غصے کو دباؤ اور عفو کا سلوک کرو۔ تعلیم تو بڑی اچھی ہے لیکن کیا تم اپنے روزمرّہ کے معاملات میں ان باتوں کا اظہار بھی کرتے ہو۔ تم اسلام کی ایک بڑی خوبصورت تعلیم مجھے بتا رہے ہو کہ عدل و انصاف کو قائم رکھنے کے لئے تمہارا معیار اتنا اونچا ہونا چاہئے کہ دشمن کی دشمنی بھی تمہیں اس سے بے انصافی کرنے اور اس کا حق غصب کرنے پر نہ اکسائے لیکن کیا تم دوسروں کو معاف کرنے اور انصاف کے قیام کے لئے یہ معیار حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہو اور اس کا حوصلہ رکھتے ہو۔ تمہارے سارے احکامات جو قرآن کریم کے حوالے سے تم بتاتے ہو بڑے اچھے اور خوبصورت ہیں لیکن کیا تم ان پر عمل کر رہے ہو۔ تم دوسرے مسلمانوں کے بارے میں تو کہہ دیتے ہو کہ انہوں نے مسیح موعود کو نہیں مانا اس لئے ان کی یہ حالت ہے کہ وہ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹ رہے ہیں اور رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ کا اُن سے اظہار نہیں ہوتا اور وہ اس کے الٹ کام کر رہے ہیں۔لیکن تم نے جو مسیح موعود کو مانا ہے تمہارے تو ہر عمل کو تمہارے کہنے کے مطابق قرآنی تعلیم کے مطابق ہونا چاہئے۔ اگر نہیں تو پھر تم ہمیں کس روحانی اور عملی انقلاب کی طرف بلا رہے ہو۔ جیسے تم ویسے ہم۔ ہمارے میں اور تمہارے میں فرق کیا ہے۔ پس ہمیشہ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ جہاں احمدی، احمدی کی حیثیت سے جانا جاتا ہے وہاں اس کی ذمہ داریاں بہت بڑھ جاتی ہیں۔وہ صرف احمدی نہیں رہتا بلکہ مسیح موعود کا نمائندہ بن جاتا ہے۔ اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ ہماری طرف منسوب ہو کر ہمیں بدنام نہ کرو۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد7 صفحہ188)

ایک احمدی کے کسی بُرے عمل کا اثر صرف اس کی ذات تک محدود نہیں رہتا بلکہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذات تک پہنچ جاتا ہے۔ یہ بہت اہم بات ہے جسے ہر احمدی کو اپنے پیش نظر رکھنا چاہئے اور جب یہ سب کچھ پیش نظر ہو گا تو ہر احمدی احمدیت کا سفیر بن جائے گا۔ ہر تعارف اس کو دنیا کی نظروں میں اتنا بڑھائے گا کہ وہ آپ کی طرف لپک کر آئے گا۔ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نمائندہ بن جائیں گے۔ تبلیغ کا حق ادا کرنے والے بن جائیں گے۔ دنیا والوں کی دنیا اور آخرت سنوارنے والے بن جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے والے بن جائیں گے۔ پس اس کے حصول کے لئے ہمیں بھرپور کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ اپنی پنجوقتہ نمازوں کو باجماعت اور سنوار کر ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ مسجد کا حق ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ فرائض کے ساتھ نوافل کے ذریعہ بھی خدا تعالیٰ سے تعلق جوڑنے کی ضرورت ہے۔ حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہر احمدی مرد اور عورت کو اپنی ذمہ داری سمجھنے کی ضرورت ہے۔‘‘

(خطبات مسرور جلد12 صفحہ585-586)

جھوٹ کے حوالے سے
ہمیں اپنے جائزے لینے چاہئیں

’’ایک مومن کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ ہمیشہ سچائی پر قائم رہے اور جھوٹ کے قریب بھی نہ پھٹکے اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ اگر جھوٹ سے انتہائی نفرت ہو۔ لیکن عملاً ہم دنیا میں کیا دیکھتے ہیں کہ مختلف موقعوں پر جھوٹ کا سہارا لیا جاتا ہے۔ بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ میرا ارادہ تو نہیں تھا لیکن غلطی سے میرے منہ سے جھوٹ نکل گیا۔ اسائلم کے لئے یہاں درخواستیں دیتے ہیں تو کہہ دیتے ہیں وہ تو میرے منہ سے فلاں بات غلطی سے نکل گئی۔ میرا ارادہ نہیں تھا۔ لیکن اگر عادت نہ ہو تو غلطی سے بھی بات نہیں نکلا کرتی۔ بہر حال اللہ تعالیٰ تو بخشنے والا ہے، ایسے لوگوں کو معاف کر دیتا ہے جن کو غلطی کا احساس ہو لیکن اس صورت میں انہیں اپنے اس عمل پر اظہار ندامت کرنا بھی ضروری ہے۔ اگر کوئی شخص جھوٹ بولے اور پھر اس پر ندامت بھی محسوس نہ کرے اور اس کے جھوٹ سے اگر کسی کو نقصان ہوا ہے تو اس کا ازالہ کرنے کی کوشش نہ کرے بلکہ الٹا ضد پر آ کر جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کی کوشش کرے یا یہ کہے کہ اس جھوٹ کے بغیر گزارہ ہی نہیں ہو سکتا تھا تو ایسا شخص نہ تو ایمان پر قائم ہے نہ ہی اچھے اخلاق والا کہلا سکتا ہے۔ یقینا ً ایسے شخص کو سمجھ لینا چاہئے کہ وہ صحیح راستے پر نہیں ہے۔
پھر اخلاق کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا (البقرہ: 84) کہ لوگوں کے ساتھ نرمی اور اچھے طریق سے پیش آؤ۔ان سے اچھے طریق سے بات کیا کرو۔ اب عام طور پر انسان دوسروں سے اکھڑ پن سے بات نہیں کرتا باوجود اس کے کہ بعض طبائع میں خشونت اور اکھڑ پن ہوتا ہے لیکن وہ ہر وقت اس کا اظہار نہیں کرتے۔ تو جب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ لوگوں سے بات کرو تو ان سے نرمی اور ملاطفت سے پیش آؤ تو ایسے ہی لوگوں کو کہتا ہے کہ اپنی اس خشونت اور اکھڑ پن کی طبیعت میں نرمی پیدا کرو اور کبھی بھی تمہارے سے ایسی بات نہیں ہونی چاہئے جو دوسرے کو تکلیف پہنچانے والی ہو۔ ذرا ذرا سی بات پر مغلوب الغضب نہ ہو جایا کرو۔ لیکن بعض انسان اپنی طبیعت کی وجہ سے جیسا کہ مَیں نے کہا طبائع ہوتی ہیں، یکدم بھڑک بھی جاتے ہیں تو ایسے لوگ اگر سخت بات کہنے کے بعد اپنی سختی پر افسوس کریں اور جو جذباتی یا کسی بھی قسم کی تکلیف ان سے دوسروں کو پہنچی ہو اس کا ازالہ کرنے کی کوشش کریں، توبہ اور استغفار کریں تو اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ میں نے توبہ کا دروازہ کھلا رکھا ہوا ہے اور ان کی توبہ قبول بھی ہو جاتی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر توجہ نہ دینے والے بے جا تشدد اور سختی کرتے چلے جانے والے اور کسی قسم کی بھی ندامت محسوس نہ کرنے والے تو وہ لوگ ہیں جو نہ صرف اخلاق سے گر رہے ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی نفی کر کے گنہگار بھی ہو رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کی عبادتیں بھی ان کے کسی کام نہیں آتیں۔ پس اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو اپنی مغفرت کی امید دلاتا ہے جو کسی خاص جوش یا غصے کے ماتحت ایک فعل کر دیں لیکن بعد میں ہوش آ جانے پر اپنے اس فعل پر نادم ہوں، شرمندہ ہوں اور اس کے ازالے کی کوشش کریں۔ لیکن جو شخص نادم نہ ہو، ہوش آ جانے پر بھی کسی قسم کی ندامت یا افسوس کا اظہار نہ کرے تو وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے کوئی عذر نہیں پیش کر سکتا۔پس ہمیں اپنے جائزے لینے چاہئیں۔‘‘

(خطبات مسرور جلد12 صفحہ608-609)

ہمیں جائزہ لینا چاہئے کہ ہم میں سے کتنے ہیں جو جھوٹے ہو کر سچے اور ظالم ہو کر اپنے آپ کو مظلوم ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں

’’دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض تو جھوٹے ہو کر سچے اور ظالم ہو کر اپنے آپ کو مظلوم ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پھر کس طرح ایسے لوگوں کے بارے میں سمجھا جائے کہ ایمان کا ایک ذرہ بھی ان میں ہے۔ کیونکہ ایمان کا تقاضا تو یہ ہے کہ بجائے ضد کرنے کے ہوش میں آنے پر وہ اپنے ظلم کا ازالہ کرے۔ اگر کسی کو کوئی جذباتی تکلیف پہنچائی ہے تو اس کا مداوا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کم از کم اپنے اندر ندامت اور شرمندگی محسوس کرتے ہیں کہ میں نے کیا کیا؟ ہمیں جائزہ لینا چاہئے کہ ہم میں سے کتنے ہیں جو یہ سوچ رکھتے ہیں یا اس طرح سوچتے ہیں۔ اگر ظلم وقتی جوش کے تحت ہو گیا ہے تو جوش کا وقت گزر جانے پر ایک مومن کو اس کا ازالہ کرنا چاہئے۔ اگر یہ ازالہ نہیں کرتے اور ندامت محسوس نہیں کرتے بلکہ سارے حالات گزر جاتے ہیں اور پھر بھی اثر نہیں ہوتا تو پھر جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے یہ حقیقی ایمان نہیں۔یہ دکھاوے کا ایمان ہے۔ پانی کے اس بلبلے کی طرح ہے جس کے اوپر پانی ہے اور اندر صرف ہوا ہے۔ اگر تمام پانی ہوتا تو پھر وہ پانی کی کیفیت میں ہوتا، پھر اس میں ہوا نہیں ہوتی۔ پس جیسا کہ مَیں نے کہا ہمیں اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ ہم دیکھیں کہ کتنی دفعہ ہم پر اگر زیادتی بھی ہوئی ہے تو ہم نے برداشت کیا ہے اور مغلوب الغضب ہو کر جواب نہیں دیا یا اگر عہدیدار ہیں تو کتنی دفعہ ایسے مواقع پیدا ہوئے ہیں کہ دوسرے نے زیادتی کی اور انہوں نے انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے فیصلہ دیا۔ اس زیادتی کی کوئی پرواہ نہیں کی۔ برداشت یہ نہیں ہے کہ کسی طاقتور کا مقابلہ ہو اور جواب نہ دیا ہو اور کہہ دیا کہ ہماری بڑی برداشت ہے بلکہ برداشت یہ ہے کہ سزا دے سکے اور پھر سزا نہ دے۔‘‘

(خطبات مسرور جلد12 صفحہ613-614)

اجتماعات اور شوری کےدنوں میں اپنے جائزے لینے چاہئیں کہ کس حد تک ہم اپنے معیار دین کو دنیا پر مقدم کرنے کے لئے بڑھا سکتے ہیں؟

’’مومن کا اصل کام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کے لئے اپنے دل کی کیفیت کو ڈھالے۔ مقصود اس کا اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا ہو اور اس میں اس کی فلاح اور کامیابی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کیلئے اپنے دل کی کیفیت کو اس کے مطابق ڈھالتا ہے تو اسی میں اس کی فلاح اور کامیابی ہے اور یہی دین کو دنیا پر مقدم کرنا ہے۔ ہمارے ذمّہ جیسا کہ مَیں نے کہا بہت بڑے کام لگائے گئے ہیں اور جان مال وقت اور عزت قربان کرنے کے لئے ہم عہد بھی کرتے ہیں۔ اس کے لئے ہمیں ہمیشہ سنجیدگی سے غور کرنے کی کوشش کرتے رہنا چاہئے کہ کس طریق سے ہم اپنے عہد کو پورا کرتے ہوئے دین کو دنیا پر مقدم کرنے کے لئے اپنی صلاحیتیں اور استعدادیں بروئے کار لائیں۔ انصاراللہ کا اجتماع بھی آج سے ہو رہا ہے شوریٰ بھی ہو رہی ہے۔ ان کو بھی اپنی شوریٰ میں غور بھی کرنا چاہئے اور ان دنوں میں اپنے جائزے بھی لینے چاہئیں کہ کس حد تک ہم اپنے معیار دین کو دنیا پر مقدم کرنے کے لئے بڑھا سکتے ہیں اوربڑھانے چاہئیں۔ بلکہ حاصل کرنے چاہئیں انصار اللہ کی عمر تو ایسی ہے جس میں ان کو نمونہ بننا چاہئے۔‘‘

(خطبات مسرورجلد12 صفحہ627-628)

خدا تعالیٰ سے تعلق جوڑنے اور بہتر انجام پر
نظر رکھنے کے لئےاپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے

’’ہم مسلمانوں کے بھی خیر خواہ ہیں ان کی بھلائی چاہتے ہیں اور غیر مسلموں کے بھی خیر خواہ ہیں اور ان کی بھلائی چاہتے ہیں۔ ہم عیسائیوں کے بھی خیر خواہ ہیں اور یہودیوں کے بھی، ہندوؤں کے بھی اور دوسرے مذاہب والوں کے بھی حتی کہ ہم دہریوں کے بھی خیر خواہ ہیں کیونکہ ہم نے ان سب کو وہ راستہ دکھانا ہے جو انہیں خدا تعالیٰ کے قریب کرنے والا ہو بلکہ ہم نے ہر قسم کے جرائم میں ملوّث لوگوں چوروں اور ڈاکوؤں، ظالموں سب کی خیر خواہی چاہنی ہے اس لئے کہ یہ لوگ ربّ العالمین کے بندے ہیں اور ہم نے اللہ تعالیٰ کے تمام بندوں کی خیر خواہی چاہنی ہے اور انہیں نیکیوں پر چلنے اور برائیوں سے رکنے کے راستے دکھانے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ کہہ کر ہمارا میدانِ عمل بہت وسیع کر دیا ہے۔ پس ہم نے دنیا کی بھلائی اور بہتری اور خیر خواہی کے لئے ان کو خدا تک پہنچنے کے صحیح راستے دکھانے ہیں۔ انہیں خدا تعالیٰ کے حکموں پر چلنے کی تلقین کرنی ہے۔ انہیں یہ بتانا ہے کہ اس زندگی کا ایک روز خاتمہ ہونے والا ہے اور پھر ہر ایک نے اپنے عمل کے مطابق جزا سزا حاصل کرنی ہے۔ پس خدا تعالیٰ سے تعلق جوڑو تا کہ بہتر انجام ہو۔ لیکن یہ باتیں ہم کسی کو اس وقت تک نہیں سمجھا سکتے جب تک ہم خود اپنے انجام پر نظر رکھنے والے نہ ہوں۔ پس ایک بہت بڑا کام ہے جسے فکر کے ساتھ اور اپنے جائزے لیتے ہوئے ہم نے سرانجام دینا ہے۔ اس کام کی سرانجام دہی کے دوران ہمیں مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑے گا اور کرنا پڑتا ہے اور جماعت احمدیہ کی تاریخ بتاتی ہے کہ ان مشکلات اور دنیا کی مخالفتوں کا ہم ہر قدم پر سامنا کرتے رہے ہیں اور یہ بات کوئی صرف ہمارے ساتھ خاص نہیں بلکہ جتنے بھی نبی آئے انہیں اور ان کے ماننے والوں کو مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن وہ کیونکہ محدود علاقوں اور قوموں کے لئے تھے اس لئے ان کی مخالفتیں بھی محدود تھیں۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب مبعوث ہوئے تو آپ تمام دنیا کے لئے مبعوث ہوئے۔ اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام دنیا نے مخالفت کی اور مخالفت کر رہی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں یہی کام اور دائرہ کار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا بھی ہے۔ اس لئے آپ کی مخالفت بھی ہر مذہب اور قوم والے نے کی جب آپ نے دعویٰ کیا اور اب بھی کر رہے ہیں۔ کہیں کم ہے کہیں زیادہ ہے اور کریں گے بھی۔ یہ سلسلہ ختم نہیں ہوا، نہ ہو گا۔ دنیا میں بیشک ایسے افراد ہیں جو جماعت احمدیہ کے امن کے کاموں کی تعریف کرتے ہیں لیکن مذہب کے حوالے سے جب غیر معمولی ترقی ملنی شروع ہو جائے تو من حیث القوم مخالفتوں کا سامنا ہمیں مغربی ممالک میں بھی کرنا پڑے گا یا کم از کم یہاں کے جو بھی نام نہاد مذہب پر عمل کرنے والے ہیں ان کی طرف سے مخالفتیں ہوں گی۔ اس لئے یہ کبھی نہیں سمجھنا چاہئے کہ ان پڑھے لکھے ملکوں میں ہمیشہ ہمیں خیر کا جواب خیر سے ملے گا۔‘‘

(خطبات مسرور جلد12 صفحہ651-652)

ہمیں اپنے جائزے لیتے رہنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت میں آ کر ہم دوسروں سے بہتر ہیں؟

’’ہمیں اپنے جائزے لیتے رہنا چاہئے اور اکثر مَیں توجہ دلاتا بھی رہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں آ کر ہمیں دوسروں سے مختلف نظر آنا چاہئے۔ خدا تعالیٰ کی ذات پر ایمان اور یقین میں بھی ہمیں دوسرے سے مختلف نظر آنا چاہئے اور بڑھے ہوئے ہونا چاہئے۔ عبادات میں بھی ہمیں دوسروں سے مختلف نظر آنا چاہئے۔ اعلیٰ معیاروں کو پانے کی کوشش کرنے والے بھی ہم دوسروں کی نسبت زیادہ ہونے چاہئیں۔ اعلیٰ اخلاق میں بھی ہمیں امتیازی حیثیت حاصل ہونی چاہئے۔ قانون کی پابندی میں بھی ہم ایک مثال ہونے چاہئیں۔ غرض کہ ہر چیز میں ایک احمدی کو دوسروں سے ممتاز ہونے کی ضرورت ہے تبھی ہم جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں بیعت سے صحیح فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔‘‘

(خطبات مسرور جلد12 صفحہ692)

اپنے نفس کا جائزہ لیں

’’تمہیں اپنے کاموں کی تکمیل کے لئے اگر کسی کی مدد کی ضرورت ہے تو وہ صرف خدا تعالیٰ کی ذات ہے جو حقیقی رنگ میں تمہاری مدد کر سکتی ہے، مدد کرنے کی طاقت رکھتی ہے اور مدد کرتی ہے اور یہ بات اتنی اہم ہے کہ ایک حقیقی مومن کو ہر وقت اسے اپنے سامنے رکھنا چاہئے۔ چاہے وہ مدد اور استعانت کی کوشش ذاتی ضروریات کے لئے ہو یا جماعتی ضروریات کے لئے۔ لیکن عملاً ہم دیکھتے ہیں کہ اس کی اہمیت کے باوجود اس طرف لوگوں کی عموماً نظر نہیں ہوتی۔ جتنی توجہ ہونی چاہئے وہ نہیں ہوتی۔ ہم میں سے اکثر ایسے ہیں جو بظاہر یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فضل کیا، میری ضرورت پوری ہو گئی۔ لیکن اگر گہرائی سے جا کر وہ خود اپنے نفس کا جائزہ لیں تو اپنی ضرورتوں کو پوری کرنے کے مختلف ذرائع کو وہ اپنے کام مکمل ہونے یا ضرورت پوری ہونے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔‘‘

(خطبات مسرور جلد12 صفحہ716)

ہمیں جائزہ لینا چاہئے کہ کیا ہماری عبادتیں اور ہماری خدا تعالیٰ سے مدد کی پکار کا وہ معیار ہے جو خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے معیار کے مطابق ہے؟

’’ہم نے اپنے ہر قول و فعل کو خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق ڈھالنے کا عہد کیا ہے۔ ہم نے عُسر اور یُسر، تنگی اور آسائش میں خدا تعالیٰ سے ہی مدد مانگنے اور غیر اللہ سے بیزاری کا عہد کیا ہے۔ ہمیں اپنے عہد نبھانے کے لئے کس قدر اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّا کَ نَسْتَعِیْنُ کے مضمون کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہم نے ڈوبتے ہوئے دہریہ کی طرح خدا تعالیٰ کو نہیں پکارنا۔ ہم نے اعلیٰ معراج حاصل کرنے والے مومنین کی طرح اللہ تعالیٰ کی عبادت اور استعانت کا ادراک حاصل کر کے اس پر عمل کرنا ہے۔ جس کا دعویٰ ہے کہ ہماری ساری قوت ہماری ساری طاقت اور ہمارا مکمل سہارا خدا تعالیٰ کے سامنے خدا تعالیٰ کے آگے جھک جانے میں ہے۔ ہمیں جائزہ لینا چاہئے کہ ہم نے اس کے لئے کیا کرنا ہے اور کیا کر رہے ہیں۔ کیا ہماری عبادتیں اور ہماری خدا تعالیٰ سے مدد کی پکار کا وہ معیار ہے جو خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے معیار کے مطابق ہے؟ یا روزانہ بتیس مرتبہ فرض نمازوں میں طوطے کی طرح اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّا کَ نَسْتَعِیْنُ کو دہراتے ہیں اور بس کام ختم ہو جاتا ہے۔

ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہم کمزور ہیں اور ہمارا دشمن بہت طاقتور ہے۔ ہمارے پاس دشمن کے مقابلے کے لئے نہ کوئی دنیاوی طاقت ہے، نہ وسائل ہیں، نہ کسی بھی قسم کا ذریعہ ہے۔ پس ایسے حالات میں ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ خدا تعالیٰ کے سامنے جھک جائیں اور اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ کی روح کو سمجھتے ہوئے خدا تعالیٰ کے دَر کے ہو جائیں۔‘‘

(خطبات مسرور جلد12 صفحہ724)

کاش! یہ مسلمان کہلانے والے
اپنے جائزے لیں کہ کیا ان کے نمونے
اسلامی تعلیم کی طرف غیر مسلموں کو کھینچ رہے ہیں؟

’’انصاف کی تعلیم میں ایسے نمونے دکھاؤ کہ اسلام کی خوبصورت تعلیم دنیا پر ظاہر ہو جائے۔ تمہارے انصاف اور نیکی کے نمونے اسلام کی خوبصورت تعلیم کے گواہ بن جائیں۔ کسی کی انگلی اسلامی تعلیم پر نہ اٹھے۔ کاش کہ یہ مسلمان کہلانے والے اپنے جائزے لیں کہ کیا ان کے نمونے اسلامی تعلیم کی طرف غیر مسلموں کو کھینچ رہے ہیں۔ ان لوگوں کے عمل تو اپنوں کو بھی دُور دھکیل رہے ہیں۔ جن بچوں نے اپنے ساتھیوں کو ظلم و بربریت کا نشانہ بنتے دیکھا ہے کیا وہ ان لوگوں کو کبھی مسلمان سمجھیں گے؟ اور اگر سمجھیں گے تو یہ سوال ان کے ذہنوں میں پیدا ہوں گے کہ کیا یہ اسلام ہے جس کو ہم مانیں؟ پس یہ لوگ صرف ظاہری ظلم اور قتل و غارت نہیں کر رہے بلکہ آئندہ نسلوں کو بھی برباد کر رہے ہیں۔ اسلام سے دور لے کر جا رہے ہیں۔ کاش کہ مسلمان علماء کہلانے والے جنہوں نے جہاد اور فرقہ واریت کے نام پر ان شدت پسند گروہوں کو جنم دیا ہے اپنے قبلے درست کر کے اپنی نسلوں کو حقیقی اسلام کے بتانے والے بنیں اور ان شدت پسند گروہوں کی بیخ کنی کے لئے حقیقی اسلامی تعلیم کے ہتھیار کو استعمال کریں اور یہ تبھی ہو سکتا ہے کہ زمانے کے امام کی بات مان کر حقیقی اسلام پر خود بھی عمل پیرا ہوں اور دوسروں کو بھی عمل کروائیں۔‘‘

(خطبات مسرور جلد12 صفحہ757-758)

ہمارا صرف جلسے میں شامل ہونا کافی نہیں بلکہ اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ان لوگوں میں شامل ہونے کی ضرورت ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں کے وارث بنتے ہیں

’’ہمیں بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ہماری بھی کچھ ذمہ داریاں ہیں۔ ہم جلسے منعقد کرتے ہیں، ہم جماعت احمدیہ میں شامل ہوئے ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ نہ یہ سلسلہ معمولی سلسلہ ہے جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قائم فرمایا ہے۔ نہ یہ جلسے معمولی جلسے ہیں جو آپ نے جاری فرمائے۔ نہ ایک احمدی کا احمدی کہلانا معمولی حیثیت رکھتا ہے بلکہ ہر احمدی پر ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر کوئی کمزور ہیں چلے بھی جائیں گے بلکہ ساری دنیا بھی مجھے چھوڑ دے گی تب بھی خدا تعالیٰ نہیں چھوڑے گا۔یہ اس کا وعدہ ہے۔ پس احمدیوں کی یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ ہر احمدی کی یہ ذمہ داری ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آنے کا دعویٰ کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت میں حصہ دار بننے کے لئے وہ انقلاب اپنے اندر پیدا کرے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے ماننے والوں میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ پس ہمارا صرف جلسے میں شامل ہونا ہی کافی نہیں ہے بلکہ اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ان لوگوں میں شامل ہونے کی ضرورت ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں کے وارث بنتے ہیں۔

لوگ مجھے خط لکھتے ہیں کہ دعا کریں کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جلسے میں شامل ہونے والوں کے لئے جو دعائیں ہیں ان کو حاصل کرنے والے ہوں، ان کے وارث بنیں۔ کیا ان دعاؤں کا وارث بننے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ ہم جلسے میں شامل ہو گئے۔ تین چار گھنٹے جلسے کی کارروائی سن لی۔ نعرے لگا لئے اور بس کام ختم ہو گیا۔ نہیں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا ہے کہ ان دعاؤں کا وارث بننے کے لئے اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ جو کچھ ہم سن رہے ہیں یا جس ماحول میں ہم نے ایک جوش پیدا کیا ہوا ہے یہ عارضی ہے یا مستقل ہماری ذمہ داریوں کا حصہ بننے والا ہے۔ پس اگر یہ اثر جو جلسہ کے دوران ہوا ہمیں اس عہد کے ساتھ جلسے کی ہر مجلس سے اٹھاتا ہے کہ میں نے اپنی زندگی میں وہ انقلاب لانے کی اپنی تمام تر استعدادوں کے ساتھ کوشش کرنی ہے جو اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے چاہتے ہیں، جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں بیان فرمائی ہیں تو پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں کے وارث بنتے چلے جانے والے ہوں گے ورنہ تو پھر اللہ تعالیٰ کو یہ کہنے والی بات ہے کہ ہم نے تو کچھ کرنا نہیں۔ تیری بات تو ہم نے ماننی نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا ہے کہ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ (البقرہ: 187) کہ میرے حکم کو بھی قبول کرو (وہ تو ہم نے ماننی نہیں) لیکن دعاؤں کا ہم نے وارث بننا ہے۔ پس جلسے کے ماحول سے اپنے اندر ایک روحانی انقلاب پید اکرنے کی کوشش اور پھر اس کے حصول کے لئے دعا ہمیں پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں کا وارث بنائے گی۔ پس کوشش اور دعا یہ دونوں چیزیں ضروری ہیں تا کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں کا وارث بن سکیں اور پھر یہ وارث بنا کر ہمیں اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے نوازے گی۔ اللہ تعالیٰ جب فرماتا ہے کہ میرے حکم کو مانو، میری بات بھی سنو تو وہ کون سی باتیں ہیں جو ہم نے ماننی ہیں؟ اور وہ باتیں کیا ہیں؟ یہ ہم سب کو پتا ہے کہ یہ باتیں اللہ تعالیٰ کے وہ احکامات ہیں جو قرآن کریم میں ابتدا سے آخر تک موجود ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ نے ہم پر احسان کرتے ہوئے زمانے کے امام کو بھیج کر ان احکامات کی گہرائی اور اہمیت کو ہم پر واضح فرما دیا ہے۔ پس اس کے بعد ہمارے پاس کوئی عذر نہیں رہ جاتا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جلسے کے حوالے سے ہی جہاں ہمیں اللہ تعالیٰ کے حق ادا کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے وہاں بندوں کے حق ادا کرنے کی طرف بھی بہت توجہ دلائی ہے۔ آپ نے جلسے میں شامل ہونے والوں کو نیکی تقویٰ پرہیزگاری کی طرف توجہ دلانے کے بعد اس طرف بھی توجہ دلائی بلکہ بڑے درد سے اپنے ماننے والوں سے یہ توقع رکھی کہ وہ نرم دلی اور باہم محبت اور مؤاخات میں بھائی چارے میں ایک نمونہ بن جائیں۔ انکسار دکھانے والے ہوں۔ ایک دوسرے کے لئے قربانی کا جذبہ رکھنے والے اور سچائی اور راستبازی کے اعلیٰ معیار قائم کرنے والے ہوں۔ وہ بدخوئی کرنے اور کج خُلقی دکھانے سے دور رہنے والے ہوں۔

پس اس لحاظ سے ہر ایک کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کیا یہ اعلیٰ اخلاق جو ہیں ان میں ہم نمونہ ہیں؟ کیا دوسرے کی خاطر قربانی کرنے میں ہم مثال بننے کی کوشش کر رہے ہیں؟ کیا عاجزی اور انکساری کے ہم میں وہ معیار ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہم میں دیکھنا چاہتے ہیں اور جن کا اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ذکر فرمایا ہے اور جن کے نمونے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے ہمارے سامنے پیش فرمائے۔ اگر نہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں سے حصہ لینے کے لئے، اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے کے لئے ہماری کوشش تو پھر نہ ہونے کے برابر ہے اور توقع ہم بڑی رکھ رہے ہیں۔ پس دنیا میں جماعتہائے احمدیہ کے جو مختلف جلسے ہیں ان جلسوں میں شامل ہونے والے عموماً اور قادیان کے جلسے میں شامل ہونے والے خاص طور پر کہ مسیح پاک کی بستی میں جلسے میں شامل ہو رہے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس درد کو خاص طور پر محسوس کریں جس کا اظہار آپ نے جلسے میں شامل ہونے والوں سے فرمایا ہے۔ اگر حقیقت میں ہم نے ان دعاؤں کا وارث بننا ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے متعدد جگہ ہمیں مخاطب کر کے فرمایا کہ آپ ہم سے کیا چاہتے ہیں؟ ہم عام دنیاوی رشتوں میں بھی دیکھتے ہیں کہ ماں باپ کی قربت اور ان کی دعاؤں سے وہی بچے زیادہ حصہ لیتے ہیں جو اُن کی ہر بات ماننے والے ہیں، خدمت کرنے والے ہیں، اطاعت اور فرمانبرداری میں بڑھے ہوئے ہیں۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے جو ہمارا رشتہ قائم ہے اس رشتے سے تعلق کے بہترین پھل بھی ہم اسی وقت کھائیں گے جب اپنے تعلق میں بڑھنے والے ہوں گے۔ جلسے میں شامل ہونے والوں کے لئے دعاؤں کا خزانہ تو ایسا خزانہ ہے جو تا قیامت چلتا چلا جانے والا ہے۔ پس خوش قسمت ہوں گے ہم میں سے وہ جو اس سے فیضیاب ہونے والے ہوں گے۔‘‘

(خطبات مسرور جلد12 صفحہ771 – 773)

ان جلسوں میں ہمیں اپنے جائزے لیتے ہوئے حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی
کے معیاروں کو بلند کرنے کی کوشش کرنی چاہئے

’’اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لئے پہلے خود کوشش کرنے کی ضرورت ہے تبھی اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے پیاروں کی دعاؤں کا وارث بننے کے لئے بھی اپنے آپ کو ان دعاؤں کی قبولیت کا حقدار بنانے کی کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ پس یہ جلسے ہمیں ان دعاؤں سے حصہ لینے والا ماحول میسر کرتے ہیں۔ ان میں ہمیں اپنے جائزے لیتے ہوئے حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے معیاروں کو بلند کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تا کہ اللہ تعالیٰ کے پانے کے راستوں کو ہم جلد سے جلد طے کر سکیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔‘‘

(خطبات مسرور جلد12 صفحہ775)

(باقی آئندہ ہفتہ کو ان شاءاللّٰہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 دسمبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی