محمد عمر تیماپوری ۔کوآرڈینیٹر علی گڑھ یونیورسٹی علی گڑھ انڈیا
الفضل مجریہ 17،14 دسمبر 2021٫ کے شمارے میں آپ کی طرف سے یہ اعلان پڑھنے کو ملا ’’اسے ضرور پڑھیں‘‘۔ بہت ادب سے عرض ہے الفضل میں شائع شدہ ہر حصہ ضرور پڑھتے ہیں۔ کوئی بھی حصہ مِس نہیں ہوتا۔ الّا ماشااللّٰہ سب ہی پڑھ لیتے ہیں۔ اگر کوئی آرٹیکل مزاج کے مطابق نہ بھی ہو تب بھی علم میں اضافہ اور حصولِ برکت کے لیے پڑھ ہی لیتے ہیں۔ ہمارے پیارے آقا سیدنا حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز الفضل کو شرفِ ملاحظہ عطا کرتے ہیں اور بعض ضروری امور میں رہنمائی بھی فرماتے ہیں تو ظاہر ہے اس اخبار کی عظمت، اہمیت اور برکت مسّلم اور مستند ہو جاتی ہے۔
بہت پرانی بات ہے قادیان بھارت اور ربوہ پاکستان میں باالترتیب 18، 19، 20 دسمبر اور 26، 27، 28 دسمبر کو جلسہ سالانہ منعقد ہوا کرتے تھے۔ حضرت خلیفة المسیح کی منظوری سے انتظامیہ کی طرف سے مذکورہ تاریخوں میں جلسہ سالانہ منعقد کرنے کا مقصد یہ تھا کہ تا یورپ، افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ سے آنےوالے غیر ملکی مہمان بیک وقت ہر دو جلسہ سالانہ میں شمولیت اختیار کر سکیں۔ پہلے قادیان کے جلسہ میں شرکت ہوا کرتی تھی پھر ربوہ کےجلسہ میں تا دونوں جلسہ ہائے سالانہ کی برکات سے اپنی جھولیاں بھر لیں۔ راقم الحروف کو ان تاریخوں میں قادیان میں منعقد ہونے والے کم و بیش اکثر جلسوں میں شرکت کی توفیق ملی۔ قدیم مہمان خانہ حضرت مسیح موعودؑ میں ان غیر ملکی مہمانوں کی میزبانی کا شرف بھی حاصل رہا۔ الحمدللہ ان دونوں جلسہ سالانہ کی حاضری بہت کم ہوا کرتی تھی۔ حاضری پانچ صد افراد سے تجاوز کرتی تو صحابہ کرامؓ اور درویشان کرام ایک دوسرے کو مبارکبادی دیتے کہ الحمدللہ اس دفعہ حاضری اچھی رہی۔ باالخصوص غیر ملکی مہمان تو جلسہ سالانہ کی رونق اور روحِ رواں ہوا کرتے تھے۔ وہ اردو زبان سے نابلد تھے۔ نہ اردو سمجھ سکتے تھے نہ ہی بول سکتے تھے۔
راقم الحروف پوری ذمہ داری سے تحریرکر رہا ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کے مہمان جلسہ سالانہ کے تینوں دنوں میں ہر اجلاس میں ذوق و شوق سے شرکت کرتے اور جلسہ کے اختتام تک خاموشی سے سارے پروگرام سنتے تھے اور اپنی جگہ سے ہلتے تک نہیں تھے۔ جب کہ ان کے پلّے کچھ بھی نہیں پڑتا تھا۔ پریس رپورٹرز نے ان مہمانوں سے یہ سوال بھی کیا کہ آپ لوگوں کو نہ اردو آتی ہے اور نہ ہی ہندی زبان پھر بھی آپکی ہر اجلاس میں حاضری اور شرکت ہوتی ہے۔ تو ان مہمانوں کا یہ جواب تھا “ہم تو جلسہ سالانہ کی برکات حاصل کرنے کے لیے بیٹھتے ہیں۔
بس یہاں پر بھی یہی بات کار فرما ہے۔ الفضل اخبار کو جوبرکت اور اہمیت حاصل ہے وہ کسی اور اخبار کو نہیں۔ حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکی نظر اس پر پڑتی ہے۔ اس میں شائع ہونے والا ہر مواد کسی نہ کسی رنگ میں فائدہ مند ہوتا ہے۔ اس لئے یہ اخبار قدر کی نگاہ سے دیکھا اور پڑھا جاتا ہے۔ یہ وہ اخبار ہے جس میں ہم کو بیک وقت ارشاد باری تعالیٰ، فرمانِ نبویﷺ، ملفوظات حضرت مسیح موعودؑ، خلفا٫کرام کے خطبات و خطبہ جمعہ، اور حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی شب و روز کی دینی مصروفیات، تعلیمی، تربیتی۔ تبلیغی، تنظیمی اور سیاسی، سماجی اور معاشرتی اور طبی امور پر مضامین پڑھنے کو ملتے ہیں۔ یہ اخبار ایک روحانی خزانہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایک پیشگوئی کے مطابق وہ دنیا میں مال کو لٹائے گا۔ آج الفضل ہی روحانی طور پر مال لٹا رہا ہے۔ اور پھر ہم اپنے گھر میں بیٹھ کر معلومات میں اضافہ اور اپنے اہل و عیال کی تربیت کر لیتے ہیں۔ دنیا میں بسے تمام شمع احمدیت کے پروانوں کے ہم و غم، دکھ درد اور خوشی میں برابر کے شریک ہو کر دعائیں کرتے ہیں۔ الحمدللّٰہ
شکر ہے کہ آپ نے اس اخبار میں اشتہارات کو جگہ نہیں دی ورنہ اس کی مقبولیت بھی متاثر ہوتی۔ اس کے لئے ہم الفضل آن لائن لندن بورڈ کے بھی شکرگزار ہیں۔
آپ نے اپنے ایک اداریہ میں یہ بات زور دے کر لکھی ہے ’’یہ اخبار آج دنیا بھر میں اردو پرنٹ میڈیا میں سب سے زیادہ لمبی عمر پانے والا اخبار ہے۔‘‘ لا ریب فیہ۔ اس لئے اس کے لئن شکرتم کا جزبہ فطری ہے اور کفرتم کا اسمیر ہم بھگت رہے ہیں۔ خلافتِ ثالثہ کے دور میں حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب نے جلسہ سالانہ ربوہ کے اجلاس میں اپنی ایک تقریر میں بڑے واضح الفاظ میں یہ چیتاونی دی تھی ’’اگر تم نے خلافت کی قدر نہیں کی تو خلافت کسی اور جگہ چلی جائے گی جہاں خلافت کی قدر ہو گی۔‘‘ (خلاصہ مفہوم تقریر صاحبزادہ حضرت مرزا مبارک احمد)
قطع نظر اس بحث کے جس کی اس خط میں گنجائش نہیں ہمیں یہ سبق لینا بہت ضروری ہے کہ ’’ہم قدر کرنا سیکھیں‘‘ جس کی قرآن کریم نے بار بار توجہ دلائی ہے۔ پس خلافت کی عظیم نعمت اور اس سے ملحق جو بھی ہیں ان کی کماحقہ قدر کریں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ جزاکم اللّٰہ احسن الجزا