• 26 اپریل, 2024

تعارف سورۃ الاحقاف (46 ویں سورۃ)

(تعارف سورۃ الاحقاف (46 ویں سورۃ))
(مکی سورۃ، تسمیہ سمیت اس سورۃ کی36 آیات ہیں)
(ترجمہ از انگریزی ترجمہ قرآن (حضرت ملک غلام فرید صاحب) ایڈیشن 2003)

وقت نزول اور سیاق و سباق

حٰم گروپ کی یہ آخری سورت ہے ۔اپنے گروپ کی دوسری سورتوں کی طرح یہ سورت بھی نبوت کے مکی دور کے وسط کی ہے اور ہجرت سے قبل کی ہے۔ نو ڈلکے نے اس سورت کا وقت نزول ساتویں سورت (سورۃ الاعراف) کے بعد رکھا ہے۔یہ سورۃ حٰم گروپ کی دیگر سورتوں سے اپنی طرز اور وضع میں خوب مشابہت رکھتی ہے۔ گزشتہ سورت کا اختتام اس حتمی بیان پر ہوا تھا کہ خدا غالب اور حکمت والا ہے۔ موجودہ سورت میں اس بیان کے مدلل دلائل دیے گئے ہیں۔ اس سورت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ قرآن کریم کا نزول ایک پر حکمت اور غالب خدا کی طرف سے ہوا ہے۔ خدا کی حکمت سے مراد یہ ہے کہ قرآنی تعلیمات کی بنیاد نہایت ٹھوس (دلائل پر مبنی) ہیں اور اس کی تائیدمنطق، عقل اور کل انسانی تجربہ کی کسوٹی پر پر کھی جا سکتی ہے۔اور اللہ غالب ہے،سے مراد یہ ہے کہ اس کے بتائے ہوئے اصولوں پر زندگی گزارنے سے مسلمان اپنے مخالفین پر غلبہ اور فتح پاجائیں گے۔

مضامین کا خلاصہ

گزشتہ چھ سورتوں کی طرح اس سورت کا آغاز بھی قرآنی وحی اور توحید باری تعالی کےمضمون سے ہوا ہے جو اس سورت کا مرکزی خیال ہے۔اور بت پرستی کے قلع قمع کے لئے درج ذیل دلائل دیے گئے ہیں۔

(الف) صرف وہی ذات حتمی حکم دے سکتی ہے اور ہم سے اپنی کبریائی اور عبادت کا تقاضا کر سکتی ہے جو ہمارے خالق اور رازق ہونے کے ساتھ ساتھ غالب اور قادر بھی ہو۔ تو تب ہی وہ ہمیں اپنے قوانین اور احکامات کی فرمانبرداری کرنے پر مجبور کر سکتی ہے۔

(ب) بت پرستی کی تائید کسی الہامی صحیفے سے نہیں ملتی۔

(ج) انسانی علم، عقل اور تجربہ بت پرستی کو دھتکارتا ہے اور اس کے خلاف بغاوت پر آمادہ کرتا ہے۔

(د) ایک مورتی، جو ہماری دعاؤں کا جواب نہ تو دے سکتی ہے اور نہ دیتی ہے وہ کس کام کی ہے؟ اورمشرکوں کے نام نہاد بت، اپنے عقیدت مندوں کی پکار کا جواب دینے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتے۔

اس سورت میں بتایا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دعوی نبوت کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ خدا کے رسول مختلف اوقات میں مختلف اقوام میں آتے رہے ہیں تاکہ انہیں توحید باری تعالی اور حقوق العبادسکھائیں۔ پھریہ سورۃ کفار کی ایک بے وقوفانہ اور سطحی بات کا ردکرتی ہے جو وہ وحی کے متعلق کرتے ہیں کہ اگر اس وحی میں جو ہمارے سامنے پیش کی جاتی ہے ہمارے لیے کوئی بھلائی ہوتی تو ہم جو زیادہ علم رکھنے والے اور صاحب ثروت ہیں اس پر ایمان لانے والے اولین میں سے ہوتے۔

اس سورت میں مزید بتایا گیا ہے کہ کفار جو اپنے دنیاوی وسائل اور معاشرتی مرتبہ اور مقام کے تکبر میں ہیں خدائی پیغام کو جھٹلاتے ہیں جبکہ ایمان اور روحانیت کی دولت والے اس کو قبول کرتے ہیں اور اس کے ساتھ باوجود شدید مشکلات اور مصائب کے ،اس سے چمٹے رہتے ہیں۔ پھر یہ سورت ، یہ بتانے کے لئے کہ کفار کبھی کامیاب نہیں ہوتے،قوم عاد کے بد انجام کے متعلق بتاتی ہے جو مکہ کے قرب و جوار میں آباد تھے۔ قوم عاد مکمل طور پر یوں تباہ و برباد کر دئے گئے کہ ان کی شاندار تہذیب و تمدن کے باقیات بھی مٹا دئے گئے۔ اپنے اختتام پر یہ سورت آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی قوم کو ایک تنبیہہ کرتی ہے کہ وہ اپنی دولت اور کامیابی کے گھمنڈ میں ہرگز نہ رہیں اورنہ ہی مسلمانوں کی موجودہ غربت اور کمزوری کی حالت پر اور یہ کہ اگر انہوں نے خدائی پیغام کو جھٹلانے کا سلسلہ جاری رکھا تو ان کی (ظاہری) کامیابی ان کی تباہی میں تبدیل ہو جائے گی۔

یہ سورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کو مخاطب کر کے یہ نصیحت کرتی ہے کہ حق کے سچے سپوت ہونے کے ناطے انہیں ہر طرح کی تکالیف اور ظلم و تعدی جو ان پر روا رکھی جائے، کو نہایت صبر اور حوصلے سے برداشت کرنا چاہیے۔ جیسا کہ وہ وقت تیزی سے آن پہنچا ہے جب ان کا مقصد کامیاب ہوگا اور ان پر ظلم رواں رکھنے والے سخت ذلت او ررسوائی کے ساتھ ان کے سامنے سرنگوں ہوں گے اور ان سے معافی اور رحم کے طلبگار ہوں گے۔

(ابو سلطان)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 فروری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 فروری 2021