• 6 مئی, 2024

شہید اصل میں وہ شخص ہوتا ہے جو خدا تعالیٰ سے استقامت اور سکینت کی قوت پاتا ہے

شہید اصل میں وہ شخص ہوتا ہے جو خداتعالیٰ سے استقامت اور سکینت
کی قوت پاتا ہے اور کوئی زلزلہ اور حادثہ اس کو متغیر نہیں کرسکتا

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے متعدد جگہ شہید کی حقیقت کے بارے میں، اس کے رتبہ اور مقام کے بارے میں لکھا ہے۔ مَیں چند اقتباسات پیش کروں گا جن سے واضح ہوتا ہے کہ شہید بننے کے لئے دعا کرنا کیوں ضروری ہے؟ اور کس قسم کا شہید بننے کے لئے دعا کی جانی چاہئے اور کیوں ایک حقیقی مومن کو اس کی خواہش ہونی چاہئے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’عام لوگوں نے شہید کے معنی صرف یہی سمجھ رکھے ہیں کہ جو شخص لڑائی میں مارا گیا یا دریا میں ڈوب گیا یا وبا میں مرگیا وغیرہ۔ مگر مَیں کہتا ہوں کہ اسی پر اکتفاء کرنا اور اسی حد تک اس کو محدود رکھنا مومن کی شان سے بعید ہے۔ شہید اصل میں وہ شخص ہوتا ہے جو خداتعالیٰ سے استقامت اور سکینت کی قوت پاتا ہے اور کوئی زلزلہ اور حادثہ اس کو متغیر نہیں کرسکتا‘‘۔ (اُس کو اپنی جگہ سے ہلا نہیں سکتا) ’’وہ مصیبتوں اور مشکلات میں سینہ سپر رہتاہے۔ یہانتک کہ اگر محض خداتعالیٰ کے لئے اس کو جان بھی دینی پڑے تو فوق العادت استقلال اُس کو ملتا ہے‘‘ (غیر معمولی استقلال اُس کوملتا ہے) ’’اور وہ بدُوں کسی قسم کا رنج یا حسرت محسوس کئے اپنا سررکھ دیتا ہے‘‘ (بغیر کسی غم، بغیر کسی حسرت کے وہ اپنا سر قربانی کے لئے پیش کر دیتا ہے) فرمایا: ’’اور چاہتا ہے کہ باربار مجھے زندگی ملے اور بار بار اس کو اللہ کی راہ میں دوں۔ ایک ایسی لذت اور سُرور اُس کی رُوح میں ہوتا ہے کہ ہر تلوار جو اُس کے بدن پر پڑتی ہے اور ہر ضرب جو اُس کو پیس ڈالے، اُس کو پہنچتی ہے۔ وہ اُس کو ایک نئی زندگی، نئی مسرت اور تازگی عطاکرتی ہے۔ یہ ہیں شہید کے معنی‘‘ پھر یہ لفظ شہد سے بھی نکلا ہے۔ فرمایا ’’پھر یہ لفظ شہد سے بھی نکلا ہے۔ عبادتِ شاقہ جو لوگ برداشت کرتے ہیں‘‘ (یعنی عبادت کرنے میں ایک مشقت بھی اُٹھاتے ہیں) ’’اور خدا کی راہ میں ہر ایک تلخی اور کدورت کو جھیلتے ہیں اور جھیلنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں، وہ شہد کی طرح ایک شیرینی اور حلاوت پاتے ہیں۔ اور جیسے شہد فِیۡہِ شِفَآءٌ لِّلنَّاسِ (النحل: 70) کا مصداق ہے یہ لوگ بھی ایک تریاق ہوتے ہیں۔ اُن کی صحبت میں آنے والے بہت سے امراض سے نجات پاجاتے ہیں‘‘۔ اگر صرف مرنے سے ہی شہادت ملتی ہے تو پھر انسان صحبت سے کس طرح فائدہ اُٹھا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا پر چلنا، اللہ تعالیٰ کا قرب پانا جو حقیقی نیکیاں ہیں یہ بھی شہید کا ایک مقام ہے جس کی صحبت میں رہنے والے، فرمایا کہ مختلف مرضوں سے نجات پا جاتے ہیں۔ پھر آپ فرماتے ہیں ’’اور پھر شہید اس درجہ اور مقام کا نام بھی ہے جہاں انسان اپنے ہر کام میں اللہ تعالیٰ کو دیکھتا ہے یا کم از کم خدا کو دیکھتا ہوا یقین کرتا ہے۔ اس کا نام احسان بھی ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ276)

حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو یہ فرمایا کہ شہید کا مقام یہ بھی ہے کہ وہ اپنے ہر کام میں اللہ تعالیٰ کو دیکھتا ہے یا خدا کو دیکھتا ہے اور یقین کرتا ہے۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد چہارم صفحہ423)

یعنی جو کام بھی عموماً کر رہا ہو اُس میں اُسے یقین ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ میرے اس کام کو دیکھ رہا ہے اور جب یہ صورت ہو توپھر توجہ ہمیشہ نیک کاموں کی طرف ہی رہتی ہے۔ پھرکوئی بد کام انسان نہیں کر سکتا۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کے حوالے سے احسان کیا چیز ہے۔ فرمایا کہ جب یہ حالت ہو تو احسان ہو جاتا ہے۔ احسان کیا چیز ہے؟ اس کی وضاحت کرتے ہوئے آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’خدا کا تمہیں یہ حکم ہے کہ تم اُس سے اور اُس کی خلقت سے عدل کا معاملہ کرو‘‘ (احسان سے پہلے کی جو ایک حالت ہے وہ عدل ہے)۔ پھر فرمایا کہ ’’یعنی حق اللہ اور حق العباد بجا لاؤ۔ اور اگر اس سے بڑھ کر ہوسکے تو نہ صرف عدل بلکہ احسان کرو یعنی فرائض سے زیادہ۔ اور ایسے اخلاص سے خدا کی بندگی کرو کہ گویا تم اس کو دیکھتے ہو‘‘۔ ایک تو فرائض مقرر کئے گئے ہیں، وہ عبادتیں تو کرنی ہیں لیکن اُس سے بڑھ کر جو نوافل ہیں اُن کی ادائیگی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کرنا ہے، اللہ تعالیٰ سے ایک تعلق جوڑنا ہے، یہ کرو گے تو یہ بندگی ہے، یہ احسان ہے۔ اور یہ پھر اُن رتبوں کی طرف لے جاتی ہے جو شہادت کے رتبے ہیں اور فرمایا کہ ’’اور حقوق سے زیادہ لوگوں کے ساتھ مروّت کا سلوک کرو۔‘‘

(شحنہ ٔ حق، روحانی خزائن جلد2 صفحہ361-362)

صرف لوگوں کے حق دینا کام نہیں ہے بلکہ اس کے اعلیٰ درجے پانے کے لئے، اُن لوگوں میں شامل ہونے کے لئے جو شہید کا درجہ پاتے ہیں، لوگوں کاجو حق ہے وہ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اُن سے پیار اور محبت، نرمی اور احسان کا سلوک کرو۔

پھر یہ ذکر فرماتے ہوئے کہ عدل کا تقاضا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ایسا تعلق پیدا کرو کہ یہ یقین ہو کہ اُس کے علاوہ اور کوئی پرستش کے لائق نہیں، کوئی عبادت کے لائق نہیں، کوئی بھی محبت کے لائق نہیں، کوئی بھی توکّل کے لائق نہیں۔ اُس کے علاوہ کسی پر توکّل نہیں کیا جا سکتا کیونکہ وہ خالق بھی ہے۔ اس زندگی کو اور اس کی نعمتوں کو قائم رکھنے والا بھی ہے اور وہی ربّ بھی ہے جو پالتا ہے اور اپنی نعمتیں مہیا فرماتا ہے۔ فرمایا ایک مومن کے لئے اتنا کافی نہیں ہے کہ اس نے ان باتوں پر یقین کر لیا یا صرف یہ سمجھ لیا کہ اللہ تعالیٰ ہی سب طاقتوں کا مالک ہے اور ربّ ہے بلکہ اس پر ترقی ہونی چاہئے، اس سے قدم آگے بڑھنے چاہئیں۔ اور وہ ترقی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ’’عظمتوں کے ایسے قائل ہو جاؤ اور اُس کے آگے اپنی پرستشوں (یعنی عبادتوں) میں ایسے متأدب بن جاؤ‘‘۔ (یہ حالت ہونی چاہئے کہ ایسا ادب اللہ تعالیٰ کے آگے ہو، ایسا اُس کے آگے جھکنے والے ہو، اس طرح دلی چاہت سے عبادت کرنے والے ہو جو دل سے پیدا ہوتا ہے۔ پھر فرمایا کہ) ’’اور اُس کی محبت میں ایسے کھوئے جاؤ کہ گویا تم نے اُس کی عظمت اور جلال اور حسنِ لازوال کو دیکھ لیا ہے۔‘‘

(ماخوذ از ازالہ اوہام ،روحانی خزائن جلد3 صفحہ550-551)

پس جب انسان اللہ تعالیٰ کی لا محدود اور کبھی نہ ختم ہونے والے حسن کو دیکھتا ہے، اُس کی صفات پر یقین رکھتا ہے، اُس کی عبادت کی طرف توجہ رہتی ہے تو پھر اُس سے کوئی ایسی حرکت سرزد ہو ہی نہیں سکتی جو خدا تعالیٰ کی رضا کے خلاف ہو اور جب یہ صورت ہو تو پھر یہ شہید کا مقام ہے۔

آپ نے شہید کی یہاں یہ بھی وضاحت فرمائی کہ جب یہ تعلق اللہ تعالیٰ سے قائم ہوتا ہے تو پھر استقامت کی قوت پیدا ہوتی ہے۔ پھر انسان خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہر قربانی کے لئے تیار ہو جاتا ہے اور یہ سب کچھ کسی مجبوری کی وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ اُس راہ کی جو مشکلات ہیں اُن میں بھی سکون ملتا ہے، وہ بھی تسکین کا باعث بن جاتی ہیں۔ ہر مشکل کے آگے سینہ تان کر مومن کھڑا ہو جاتا ہے۔ کوئی خوف یا غم یا حسرت دل میں نہیں ہوتی کہ اگر میں نے یہ نہ کیا ہوتا، اگر میں نے فلاں مخالفِ احمدیت کی بات مان لی ہوتی، اُن کی دھمکیوں سے احمدیت چھوڑ دی ہوتی تو اِس وقت جن تکلیفوں سے مَیں گزر رہا ہوں ان سے بچ جاتا۔ یہ کبھی ایک مومن سوچ ہی نہیں سکتا اگر وہ حقیقی معنوں میں ایمان لاتا ہے۔ بلکہ ایمان کی مضبوطی، اللہ تعالیٰ کی ذات پر یقین ان تکلیفوں میں بھی اُسے آرام اور راحت اور خوشی پہنچا رہا ہوتا ہے۔ پس یہ ہے شہید کا مقام۔

(خطبہ جمعہ 14؍دسمبر 2012ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

دعاؤں کی تازہ تحریک

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 فروری 2022