فاتحہ خوانی اور اسقاط
عرض کیا گیا کہ جب کوئی مسلمان مر جائے تو اس کے بعد جو فاتحہ خوانی کا دستور ہے۔ اس کی شریعت میں کوئی اصل ہے یانہیں؟ فرمایا:نہ حدیث میں اس کا ذکر ہے نہ قرآن شریف میں نہ سنت میں۔
عرض کیا گیا کہ اگر یہ سمجھ لیا جائے کہ دعائے مغفرت ہی ہے؟ فرمایا: ’’نہ اسقاط درست نہ اس طریق سے دعا ہے کیونکہ بدعتوں کا درواز کھل جاتا ہے۔‘‘
(بدر 19 اپریل 1906 صفحہ3)
میت کے لئے اسقاط
سوال ہوا کہ ملاں لوگ مردوں کے پاس کھڑے ہو کر اسقاط کراتے ہیں کیا اس کا کوئی طریق جائز ہے؟ فرمایا: ’’اس کا کہیں ثبوت نہیں ہے۔ ملاؤں نے ماتم اور شادی میں بہت سی رمیں پیدا کر لی ہیں۔ یہ بھی ان میں سے ایک ہے۔‘‘
(الحکم 24 اپریل 1903 صفحہ10)
ایک اور موقعہ پر فرمایا: ’’(ان لوگوں نے ایک طریق اسقاط کا رکھا ہے قرآن شریف کو چکر دیتے ہیں۔ یہ اصل میں قرآن شریف کی بےادبی ہے۔ انسان خدا سے سچا تعلق رکھنے والا نہیں ہوسکتا جب تک سب نظر خدا پر نہ ہو۔‘‘
(البدر 16 مارچ 1904ء صفحہ6)
(داؤد احمد عابد ۔ استاد جامعہ احمدیہ برطانیہ)