• 19 اپریل, 2024

فقہی کارنر

فاتحہ خوانی اور اسقاط

عرض کیا گیا کہ جب کوئی مسلمان مر جائے تو اس کے بعد جو فاتحہ خوانی کا دستور ہے۔ اس کی شریعت میں کوئی اصل ہے یانہیں؟ فرمایا:نہ حدیث میں اس کا ذکر ہے نہ قرآن شریف میں نہ سنت میں۔

عرض کیا گیا کہ اگر یہ سمجھ لیا جائے کہ دعائے مغفرت ہی ہے؟ فرمایا: ’’نہ اسقاط درست نہ اس طریق سے دعا ہے کیونکہ بدعتوں کا درواز کھل جاتا ہے۔‘‘

(بدر 19 اپریل 1906 صفحہ3)

میت کے لئے اسقاط

سوال ہوا کہ ملاں لوگ مردوں کے پاس کھڑے ہو کر اسقاط کراتے ہیں کیا اس کا کوئی طریق جائز ہے؟ فرمایا: ’’اس کا کہیں ثبوت نہیں ہے۔ ملاؤں نے ماتم اور شادی میں بہت سی رمیں پیدا کر لی ہیں۔ یہ بھی ان میں سے ایک ہے۔‘‘

(الحکم 24 اپریل 1903 صفحہ10)

ایک اور موقعہ پر فرمایا: ’’(ان لوگوں نے ایک طریق اسقاط کا رکھا ہے قرآن شریف کو چکر دیتے ہیں۔ یہ اصل میں قرآن شریف کی بےادبی ہے۔ انسان خدا سے سچا تعلق رکھنے والا نہیں ہوسکتا جب تک سب نظر خدا پر نہ ہو۔‘‘

(البدر 16 مارچ 1904ء صفحہ6)

(داؤد احمد عابد ۔ استاد جامعہ احمدیہ برطانیہ)

پچھلا پڑھیں

دعاؤں کی تازہ تحریک

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 فروری 2022