• 3 مئی, 2024

والدین سے حسن سلوک

اطفال کارنر
تقریر
والدین سے حسن سلوک

خداتعالیٰ نے انسانوں کو مختلف رشتوں میں پرَو دیا ہے، ان میں کسی کو باپ بنایا ہے تو کسی کو ماں کا درجہ دیا ہے اور کسی کو بیٹا بنایا ہے تو کسی کوبیٹی کی پاکیزہ نسبت عطا کی ہے. غرض رشتے بنا کر اللہ تعالیٰ نے ان کے حقوق مقرر فرما دیے ہیں، ان حقوق میں سے ہر ایک کا ادا کرنا ضروری ہے، لیکن والدین کے حق کو خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں اپنی بندگی اور اطاعت کے فوراً بعد ذکر فرمایا، یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ رشتوں میں سب سے بڑا حق والدین کا ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

وَ قَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّاۤ اِیَّاہُ وَ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا ؕ اِمَّا یَبۡلُغَنَّ عِنۡدَکَ الۡکِبَرَ اَحَدُہُمَاۤ اَوۡ کِلٰہُمَا فَلَا تَقُلۡ لَّہُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنۡہَرۡہُمَا وَ قُلۡ لَّہُمَا قَوۡلًا کَرِیۡمًا ﴿۲۴﴾ وَ اخۡفِضۡ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحۡمَۃِ وَ قُلۡ رَّبِّ ارۡحَمۡہُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیۡ صَغِیۡرًا ﴿ؕ۲۵﴾

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے اپنی بندگی و اطاعت کا حکم ارشاد فرمایا ہے کہ میرے علاوہ کسی اور کی بندگی ہر گز مت کرنا، اس کے بعد فرمایا کہ اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ۔ اولاد کو یہ سوچنا چاہیے کہ والدین نہ صرف میرے وجود کا سبب ہیں بلکہ آج میں جو کچھ بھی ہوں، انہیں کی برکت سے ہوں، والدین ہی ہیں جو اولاد کی خاطر نہ صرف ہر طرح کی تکلیف دکھ اور مشقت کو برداشت کرتے ہیں؛ بلکہ بسا اوقات اپنا آرام و راحت اپنی خوشی و خواہش کو بھی اولاد کی خاطر قربان کر دیتے ہیں۔

سب سے زیادہ محنت و مشقت اور تکلیف ماں برداشت کرتی ہے، سورۃ احقاف میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے

وَوَصَّیۡنَا الۡاِنۡسٰنَ بِوٰلِدَیۡہِ اِحۡسٰنًا ۖ حَمَلَتۡہُ اُمُّہٗ کُرۡہًا وَّوَضَعَتۡہُ کُرۡہًا

اس ماں نے تکلیف جھیل کر اسےپیٹ میں رکھا اور تکلیف برداشت کرکے اسے جنا۔ حمل کے نو ماہ کی تکلیف او اس سے بڑھ کر وضع حمل کی تکلیف،یہ سب ماں برداشت کرتی ہے۔

جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اب اس کی پرورش کے لیے باپ محنت و مشقت برداشت کرتا ہے، سردی ہو یا گرمی صحت ہو یا بیماری، وہ اپنی اولاد کی خاطر کسبِ معاش کی صعوبتوں کو برداشت کرتا ہے اور ان کے لیے کما کر لاتا ہے، ان کے اوپر خرچ کرتا ہے، ماں گھر کے اندر بچے کی پرورش کرتی ہے، اس کو دودھ پلاتی ہے، اس کو گرمی و سردی سے بچانے کی خاطر خود گرمی و سردی برداشت کرتی ہے۔ بچہ بیمار ہوتا ہے تو ماں باپ بے چین ہو جاتے ہیں، ان کی نیندیں حرام ہو جاتی ہیں، اس کے علاج ومعالجہ کی خاطر ڈاکٹروں کے چکر لگتے ہیں۔ غرض والدین اپنی راحت و آرام کو بچوں کی خاطر قربان کرتے ہیں۔ ا س لیے اللہ تعالیٰ نے جہاں اپنا شکر ادا کرنے کا حکم دیا ہے وہیں والدین کی شکر گذاری کا بھی حکم ارشاد فرمایا ہے، سورۃ لقمان میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

اَنِ اشۡکُرۡ لِیۡ وَلِوٰلِدَیۡکَ

کہ میرا شکریہ ادا کرو اور اپنے والدین کا شکریہ ادا کرو۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، اس کے ساتھ ایک بوڑھا آدمی بھی تھا، نبی کریم ﷺ نے پوچھا کہ یہ بوڑھا کون ہے؟ اس شخص نے جواب میں کہا کہ یہ میرا باپ ہے، آپ ﷺ نے فرمایا:

لا تَمْشِ وَلَا تَقْعُدْ قَبْلَہ وَلَا تَدْعُہُ بِاسْمِہ وَ لَا تَسْتَبَّ لَہ

یعنی ان کے آگے مت چلنا، مجلس میں ان سے پہلے مت بیٹھنا، ان کا نام لے کر مت پکارنا، ان کو گالی مت دینا۔

بڑھاپے میں جب والدین کی کوئی بات نا گوار گزرے تو ان سے کیسے گفتگو کی جائے، اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَقُلْ لَّہُمَا قَوۡلًا کَرِیۡمًا

یعنی ان سے خوب ادب سے بات کرنا،اچھی بات کرنا،لب ولہجہ میں نرمی اور الفاظ میں توقیر و تکریم کا خیال رکھنا۔ خطا کار اور زر خرید غلام سخت مزاج اور ترش روی آقا سے جس طرح بات کرتا ہے، اس طرح بات کرنا قول ِکریم ہے۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کی رضامندی والدین کی رضامندی میں ہے اور اللہ کی ناراضگی ماں باپ کی ناراضگی میں ہے۔

اللہ تعالیٰ نے جہاں والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہےوہیں پر ان کے لیے دعا کرنے کی تعلیم بھی ارشادہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

رَّبِّ ارۡحَمۡہُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیۡ صَغِیۡرًا

کہ اے میرے رب!تو میرے والدین پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپن میں (رحمت و شفقت کے ساتھ) میری پرورش کی ہے۔ ہر نماز کے بعد والدین کے لیے دعا کرنے کا معمول بنا لیں۔ دوسری یہ:

رَبَّنَا اغۡفِرۡ لِیۡ وَلِوٰلِدَیَّ وَلِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ یَوۡمَ یَقُوۡمُ الۡحِسَابُ

یعنی اے میرے پروردگار ! روز حساب تو میری، میرے والدین کی اور تمام ایمان والوں کی بخشش فرمانا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔ والدین کی خدمت ایک بڑا بھاری عمل ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ دوآدمی بڑے بد قسمت ہیں۔ ایک وہ جس نے رمضان پایا اور رمضان گزرگیا اور اس کے گناہ نہ بخشے گئے۔ اور دوسرا وہ جس نے والدین کو پایا اور والدین گزر گئے اور اس کے گناہ نہ بخشے گئے۔ والدین کے سایہ میں جب بچہ ہوتا ہے تو اس کے تمام ہمّ و غم والدین اٹھاتے ہیں۔ جب انسان خود دنیوی امور میں پڑتا ہے تب انسان کو والدین کی قدر معلوم ہوتی ہے۔ خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں والدہ کو مقدم رکھا ہے کیونکہ والدہ بچہ کے واسطے بہت دکھ اٹھاتی ہے۔ کیسی ہی متعدی بیماری بچہ کو ہو، چیچک ہو، ہیضہ ہو، طاعون ہو، ماں اس کو چھوڑ نہیں سکتی۔ ماں سب تکالیف میں بچہ کی شریک ہوتی ہے۔ یہ طبعی محبت ہے جس کے ساتھ کوئی دوسری محبت مقابلہ نہیں کر سکتی۔

حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: بڑے بد قسمت وہ لوگ ہیں جن کے ماں باپ دنیا سے خوش ہو کر نہیں گئے۔ باپ کی ر ضامندی کو میں نے دیکھا ہے اللہ کی رضا مندی کے نیچے ہے اور اس سے زیادہ کوئی نہیں۔

ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ فرماتے ہیں:۔
جب ان کو تمہارے سہارے کی ضرورت ہے۔ تو تم یہ کہہ دو کہ نہیں، ہم تو اپنے بیوی بچوں میں مگن ہیں ہم خدمت نہیں کر سکتے۔ اگر وہ بڑھاپے کی وجہ سے کچھ ایسے الفاظ کہہ دیں جو تمہیں نا پسند ہوں تو تم انہیں ڈانٹنے لگ جاؤ، یا مارنے تک سے گریز نہ کرو۔ بعض لوگ اپنے ماں باپ پر ہاتھ بھی اٹھا لیتے ہیں۔ میں نے خود ایسے لوگوں کو دیکھا ہے، بہت ہی بھیانک نظارہ ہوتا ہے۔ اُف نہ کرنے کا مطلب یہی ہے کہ تمہاری مرضی کی بات نہ ہو بلکہ تمہارے مخالف بات ہو تب بھی تم نے اُف نہیں کرنا۔ اگر ماں باپ ہر وقت پیار کرتے رہیں، ہر بات مانیں،ہر وقت تمہاری بلائیں لیتے رہیں، لاڈ پیار کرتے رہیں پھر تو ظاہر ہے کوئی اُف نہیں کرتا۔ فرمایا کہ تمہاری مرضی کے خلاف باتیں ہوں تب بھی نرمی سے، عزت سے، احترام سے پیش آنا ہے۔ اور نہ صرف نرمی اور عزت و احترام سے پیش آنا ہے بلکہ ان کی خدمت بھی کرنی ہے۔ اور اتنی پیار، محبت اور عاجزی سے ان کی خدمت کرنی ہے جیسی کہ کوئی خدمت کرنے والا کر سکتا ہو۔

(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 4 جنوری 2004ء)

آخر میں یہی درخواست ہے کہ جن کے والدین دونوں یا ان میں سے کوئی ایک با حیات ہے تو ان کو اللہ کی بہت بڑی نعمت سمجھ کر ان کی فرمانبرداری کرے، ان کے ساتھ حسن سلوک کرے، جتنا ہو سکے ان کی خدمت کرے اور ان کے حقوق کو ادا کرنے کی بھر پور کوشش کرے اور جن کے والدین دونوں یا ان میں سے کوئی ایک اس دنیا سے رخصت ہوگئے ہوں تو ان کے ساتھ حسن سلوک یہ ہے کہ ان کی وصیت کونافذ کرے، ان کے ذمہ کوئی قرضہ ہو تو اسے ادا کرے، ان کے لیے دعا کرے، اللہ سے ان کے لیے رحمت و مغفرت طلب کرے، ان کی طرف سے صدقہ کرے۔ والدین کے قریبی رشتہ داروں اور تعلق والوں کے ساتھ حسن سلوک کرے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے کی توفیق سے نوازے،آمین، ثم آمین۔

(فرخ شاد)

پچھلا پڑھیں

دعاؤں کی تازہ تحریک

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 فروری 2022