• 20 اپریل, 2024

اپنے جائزے لیں (قسط 17)

اپنے جائزے لیں
ازارشادات خطبات مسرور جلد 15 (سال 2017ء)
قسط 17

ہر احمدی کو اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ حضرت مسیح موعودؑ کو ماننے اور بیعت کا حق ادا کرنے والے بھی ہیں؟

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’ہر احمدی کو، ہم میں سے ہر ایک کو اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ اگر ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مانا ہے تو کیا اس ماننے اور بیعت کا حق ادا کرنے والے بھی ہیں ؟ اکثر میرے جائزے سے یہ بات سامنے آتی ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ ہم میں سے کئی ایسے ہیں جو نمازیں بھی پوری طرح ادا نہیں کرتے۔ نمازوں کی طرف توجہ ہی نہیں ہے۔ استغفار کی طرف تو بعضوں کی بالکل توجہ نہیں۔ ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ نہیں۔ اگر یہ حالت ہے تو ہم کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ ہم اعمال صالحہ بجا لانے والے ہیں۔ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کا حق ادا کرنے والے ہیں؟ دوسرے نہ مان کر گناہگار ہو رہے ہیں۔ جنہوں نے نہیں مانا اور انکار کیا وہ گناہگار ہو رہے ہیں اور ہم مان کر پھر اپنے اندر تبدیلی پیدا نہ کر کے، ایک عہد کر کے پھر اسے پورا نہ کرنے کی وجہ سے گناہگار ہو رہے ہیں۔ پس بڑی فکر سے ہم میں سے ہر ایک کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم صرف رسمی طور پر یوم مسیح موعود منانے والے نہ ہوں بلکہ مسیح موعود کو قبول کرنے کا حق ادا کرنے والے ہوں اور ہر قسم کے اندرونی اور بیرونی فتنوں سے بچنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہمیں اپنی پناہ میں رکھے اور ہر بلا اور ہر مشکل سے بچائے۔‘‘

(خطبات مسرورجلد16 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ مؤرخہ 23؍مارچ 2018ء صفحہ147)

ہر احمدی کو دنیاوی فوائد کے حصول کے لئے ایسی حرکت سرزد ہونے کا اپنا جائزہ لینا چاہئے جو ہمیں خدا تعالیٰ کے نزدیک انتہائی گناہگار تو نہیں بنا رہی!

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’ہم میں سے ہر احمدی کو اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ دنیاوی فوائد کے حصول کے لئے ہم سے کوئی ایسی حرکت سرزد تو نہیں ہو رہی یا ہم کوئی ایسی حرکت تو نہیں کر رہے جو ہمیں خدا تعالیٰ کے نزدیک انتہائی گناہگار بنا رہی ہو؟

پس جیسا کہ میں نے کہا جب ہم اپنے ایمان کو بچانے کے لئے، اپنے دین پر قائم رہنے کے لئے اپنے ملک سے نکلے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ کے حکموں کو سب سے اوّل فوقیت ہمیں دینی چاہئے۔ ہمیں دیکھنا چاہئے کہ احمدیت یعنی حقیقی اسلام قبول کرنے کے بعد ہماری ترجیحات کیا ہیں ا ور کیا ہونی چاہئیں۔ اگر یہ ترجیحات خدا تعالیٰ کے احکامات کے مطابق نہیں تو ہم نے اس مقصد کو نہیں پایا جو مقصد ہماری ہجرت کا ہے اور اگر یہ اس کے مطابق ہیں تو ہم نے اس ہجرت کے مقصد کو پا لیا اور ایسی صورت میں پھر اللہ تعالیٰ کے فضل بھی ہمارے شامل حال ہوں گے۔ اگر ہماری بنیاد ہی جھوٹ پر ہے اور ہم نے دنیا کے حصول کو اپنا مقصد سمجھا ہوا ہے تو پھر ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث نہیں بن سکتے۔ اللہ تعالیٰ کو واحد ماننے والے، اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والے کبھی شرک نہیں کر سکتے۔ وہ لوگ جنہوں نے اپنے مقصد پیدائش کی حقیقت کو سمجھا ہے ان کی زندگی کا پہلا مقصد خدا تعالیٰ کی رضا کا حصول ہوتا ہے۔ ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ دنیا کو حاصل کرنا اور دنیا کی رنگینیوں میں ڈوبنا ہمارا مقصد نہیں ہے اور نہ ہی یہ ایک مومن کا مقصد پیدائش ہے۔ اگر ہم خدا تعالیٰ کو راضی کرنے کے لئے اس کے بتائے ہوئے مقصد پیدائش کو حاصل کرنے کی کوشش کریں گے تو تبھی ہم حقیقی کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔ اس دنیا میں آنے کے مقصد کو پورا کر سکتے ہیں۔ یہ دنیا اور اس کی نعمتیں تو ہمیں مل ہی جائیں گی کہ اللہ تعالیٰ دین و دنیا کی نعماء سے اپنی طرف آنے والوں کو محروم نہیں رکھتا۔ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ دنیاوی نعمتوں سے بھی محروم نہیں رکھتا بلکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ دعا سکھائی ہے کہ مجھ سے دنیا وآخرت کی حسنات مانگو۔ جیسا کہ فرماتا ہے رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنۡیَا حَسَنَۃً وَّفِی الۡاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ‘‘

(البقرہ: 202)

(خطبات مسرورجلد16 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ مؤرخہ 6؍اپریل 2018ء صفحہ158)

ہر وقت اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہئے کہ خلافت کے ساتھ وابستہ انعامات کے حصول کے لئے نصائح کے مطابق ہم اپنی زندگیوں کو ڈھالنے کی کوشش کر رہے ہیں یا نہیں

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’ہمیں ہر وقت اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے خلافت کے ساتھ وابستہ انعامات کے حصول کے لئے جن باتوں اور جن کاموں کے کرنے کی نصیحت فرمائی ہے اس کے مطابق ہم اپنی زندگیوں کو ڈھالنے کی کوشش کر رہے ہیں یا نہیں؟ ان کے معیار کیا ہیں؟ ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ہماری عبادتیں کیسی ہیں؟ ہماری نمازوں کے قیام کیسے ہیں؟ ہمارا ہر قول و عمل شرک سے پاک ہے یا نہیں؟ ہماری مالی قربانیوں کے معیار کیا ہیں؟ ہماری اطاعت کے معیار کس درجہ کے ہیں؟ کیا اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم جس طرح چاہتے ہیں ہم ان معیاروں کو حاصل کرنے والے ہیں یا نہیں؟ اور پھر اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جس معیار پر اپنے سلسلہ کے ماننے والوں کو دیکھنا چاہتے ہیں ہم اس تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں یا نہیں؟‘‘

(خطبات مسرورجلد16 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ مؤرخہ 25؍مئی 2018ء صفحہ241)

ہر ایک کو اپنے جائزے لینے چاہئیں کہ حضرت مسیح موعودؑ کے بیان فرمودہ معیار کے مطابق جلسہ میں شامل ہونے کے ہم حق دار ہیں یا نہیں

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’ہم میں سے ہر ایک کو اپنے جائزے لینے چاہئیں کہ اگر وہ معیار نہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام چاہتے ہیں تو پھر ہم جلسہ میں شامل ہونے کے حق دار بھی نہیں ہیں۔ یایہ دیکھیں کہ ہم حق دار ہیں بھی کہ نہیں؟ یا صرف اس لئے کہ پیدائشی احمدی ہیں یا پرانے احمدی ہو گئے، کئی سالوں سے بیعت کر کے یا بزرگ آباؤ اجداد کی اولاد ہیں اس لئے شامل ہو رہے ہیں تو پھر وہ مقصد پورا نہیں کر رہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہم سے چاہتے ہیں۔ یا اس نیت سے نہیں آئے کہ ہم نے یہ مقصد حاصل کرنے کی اپنی تمام تر صلاحیتوں سے کوشش کرنی ہے یا کرتے رہے ہیں یا کر رہے ہیں تو پھر اگر یہ نہیں تو پھر جلسوں پر آنا ایک میلے پر آنا ہی ہے۔ پس اس بات سے ہر مخلص احمدی کے دل میں ایک فکر پیدا ہونی چاہئے۔ اب تو ہر سال دنیا کے مختلف ممالک کے جلسے ہوتے ہیں بعض میں مَیں شامل ہوتا ہوں۔ بعض پر ایم ٹی اے کے ذریعہ سے شرکت ہو جاتی ہے۔ یورپ کے بعض جلسوں میں آپ میں سے بہت سے شامل ہوتے ہیں۔اس وقت بھی میرے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں جو کئی جلسوں میں شامل ہوئے۔ یُوکے کے جلسہ کے بعد جرمنی کے جلسہ میں بہت سے شامل ہو کر آئے ہیں اور ہر جلسہ پر جلسہ کے مقاصد اور دینی علمی اور روحانی ترقی کی باتیں ہوتی ہیں اور تقاریر ہوتی ہیں اور بہت سےلوگ مجھے لکھتے ہیں کہ ایک خاص ماحول تھا اس میں روحانیت کے نظارے ہم نے دیکھے۔ آپس میں بہت پیار اور بھائی چارے کے نظارے ہم نے دیکھے۔ لوگ یہ بھی لکھتے ہیں کہ ہمارے ساتھ بعض مہمان گئے ہوئے تھے وہ بھی یہ ماحول دیکھ کر بڑے متاثر ہوئے۔ پس ان باتوں کی وجہ سے اور ایک سال میں ایک سے زیادہ جلسوں میں شامل ہونے کی وجہ سے ایک انقلاب ہماری حالتوں میں آ جانا چاہئے۔ کہاں تو وہ زمانہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرما رہے ہیں کہ سال میں ایک دفعہ جلسہ میں شامل ہوں تا کہ تمہارے اندر ایسی پاک تبدیلی ہو کر سفر آخرت مکروہ معلوم نہ ہو اور اللہ تعالیٰ اور اس کی مخلوق کے حقوق ادا کرنے کی طرف ایک خاص توجہ پیدا ہو اور کجا اب یہ حالت ہے کہ بعض لوگ سال میں ایک سے زائد جلسوں میں شامل ہوتے ہیں۔ پس جائزہ لیں کہ پھر ایسے حالات میں کیسا انقلاب آ جانا چاہئے۔‘‘

(خطبات مسرورجلد16 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ مؤرخہ 14؍ستمبر 2018ء صفحہ447-448)

ہر ایک اپنا جائزہ لے کہ کہیں ہم حضرت مسیح موعودؑ کے ارشاد کے مطابق ان لوگوں میں تو شامل نہیں جن کو جلسہ کوئی فائدہ نہیں دے رہا

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’ہم میں سے ہر ایک اپنا جائزہ لے کہ کہیں ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشاد کے مطابق ان لوگوں میں تو شامل نہیں جن کو جلسہ کوئی فائدہ نہیں دے رہا۔

پس جب یہاں جلسہ میں شامل ہونے کے لئے آئے ہیں تو ہر شامل ہونے والا جلسہ کی تمام کارروائی میں شامل ہو۔ صبر اور تحمل سے بیٹھے اور تمام تقاریر سنے اور جو باتیں بیان ہوئی ہوں ان سے علمی اور عملی فائدہ حاصل کرے۔‘‘

(خطبات مسرور جلد16 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ مؤرخہ 14؍ستمبر 2018ء صفحہ449)

انتظامیہ کو، افسران کو، اپنے اور اپنی منصوبہ بندیوں کے جائزے لینے چاہئیں

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ جلسہ سالانہ کی انتظامیہ کو نصائح کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں:
’’انتظامیہ کو، افسران کو، اپنے جائزے لینے چاہئیں۔ اپنی منصوبہ بندیوں کے جائزے لینے چاہئیں اور تمام کمزوریوں کو ایک لال کتاب جو بنی ہوئی ہے اس میں لکھیں تا کہ آئندہ یہ دہرائی نہ جائیں۔

جرمنی میں کام کرنے والے کارکنان کے بارے میں یہ شکایت آیا کرتی تھی کہ ان کے چہروں پر مسکراہٹ نہیں ہوتی اور اچھا سلوک نہیں ہوتا۔ ڈیوٹی دیتے ہوئے سخت رویہ ہوتا ہے۔ اس دفعہ عمومی طور پر اس بارے میں ان کی بھی اچھی رپورٹ ہے۔ آئندہ سالوں میں اسے مزید بہتر کرنے کی کوشش کریں۔‘‘

(خطبات مسرورجلد16 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ مؤرخہ 21؍ستمبر 2018ء صفحہ453-454)

ہر ایک اپنا جائزہ لے کہ کس حد تک ہم
اقام الصلوٰۃ کے معیار کو حاصل کرنے کی
کوشش کرنے والے ہیں

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’ہم میں سے ہر ایک اپنا جائزہ لے سکتا ہے کہ کس حد تک ہم اقام الصلوٰۃ کے اس معیار کو حاصل کرنے کی کوشش کرنے والے ہیں۔ اس مادی دنیا میں اکثریت اول تو باجماعت نماز کی ادائیگی کی طرف توجہ نہیں دیتی اور اگر مسجد میں آ بھی جائیں تو نہ فرض نمازوں میں، نہ سنتوں میں وہ توجہ رہتی ہے جو نماز کا حق ہے۔ ایسی حالت اگر ہے تو ہم خود ہی اپنی حالت کا اندازہ کر سکتے ہیں کہ کیا واقعی ہم ان لوگوں میں شامل ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے مساجد تعمیر کرنے والے اور اس کا حق ادا کرنے والے کہا ہے۔

پھر فرمایا کہ زکوٰۃ ادا کرنے والے ہیں۔ دین کی خاطر بھی مالی قربانی کرنے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی بہتری کے لئے بھی، ان کے حق ادا کرنے کے لئے بھی مالی قربانی کرنے والے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ان کو سوائے اللہ تعالیٰ کے خوف کے اور کوئی خوف نہیں ہوتا۔ اس فکر میں رہتے ہیں کہ کہیں ہمارے کسی عمل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ناراض نہ ہو جائے، اللہ تعالیٰ کے پیار سے ہم محروم نہ ہو جائیں۔ اپنے اعمال ان ہدایات کے مطابق کرنے والے ہوتے ہیں، ان حکموں کو اپنے پیش نظر ہر وقت رکھنے والے ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے ایک حقیقی مسلمان کو حکم دیا ہے اور جو قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائے ہیں۔ پس یہ کوئی معمولی ذمہ داری نہیں ہے جو ایک مومن، مسلمان کی ہے اور اس مسجد بننے کے بعد یہاں آنے والوں یا اس مسجد سے اپنے آپ کو منسوب کرنے والوں کی ذمہ داریاں پہلے سے بہت بڑھ گئی ہیں۔

آپ نے اپنی عبادتوں کے بھی حق ادا کرنے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے بھی حق ادا کرنے ہیں تبھی اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہدایت یافتہ لوگوں میں شمار کئے جانے والے ہوں گے، تبھی ان لوگوں میں شمار ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ کے پیار کی نظر رہتی ہے۔‘‘

(خطبات مسرورجلد16 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ مؤرخہ 19؍اکتوبر 2018ء صفحہ511)

اپنے جائزے لے لیں کہ ہمارا عہد بیعت کیا ہے اور ہمارے عمل کیا ہیں

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’پس یہ بہت سوچنے کا مقام ہے۔ اللہ تعالیٰ جب ہم پر فضل فرما رہا ہے تو اس کی شکر گزاری ہم پر فرض ہے۔ پس وہ لوگ جو اپنے دنیاوی کاروباروں کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے حق کو اور اپنی عبادتوں کو بھول گئے ہیں یا اس پر وہ توجہ نہیں جو ہونی چاہئے وہ اپنے جائزے لے لیں کہ ہمارا عہد بیعت کیا ہے اور ہمارے عمل کیا ہیں اور جو یہاں نئے آئے ہیں وہ بھی یاد رکھیں کہ دنیا میں ڈوبنا ترقی نہیں ہے بلکہ تباہی ہے اور انہوں نے ہمیشہ اس بات کو سامنے رکھنا ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے ہوں۔ مسجدوں کے حق ادا کرنے والے ہوں اللہ کی عبادت کاحق ادا کرنے والے ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’یاد رکھو! ہماری جماعت اس بات کے لئے نہیں ہے جیسے عام دنیا دار زندگی بسر کرتے ہیں، نرا زبان سے کہہ دیا کہ ہم اس سلسلہ میں داخل ہیں اور عمل کی ضرورت نہ سمجھی جیسے بدقسمتی سے مسلمانوں کا حال ہے کہ پوچھو تم مسلمان ہو؟ تو کہتے ہیں شکر الحمد للّٰہ۔ مگر نماز نہیں پڑھتے اور شعائر اللہ کی حرمت نہیں کرتے۔ پس میں تم سے یہ نہیں چاہتا کہ صرف زبان سے ہی اقرار کرو اور عمل سے کچھ نہ دکھاؤ۔ یہ نکمّی حالت ہے۔ خدا تعالیٰ اس کو پسند نہیں کرتا۔‘‘

(خطبات مسرورجلد16 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ مؤرخہ 19؍اکتوبر 2018ء صفحہ516-517)

اچھی آمد کے لوگوں کو اپنے جائزے لینے چاہئیں کہ وہ اپنی آمد کے مطابق چندہ دے رہے ہیں یا نہیں؟

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’جو اچھی آمد کے لوگ ہیں ان کو اپنے جائزے لینے چاہئیں کہ وہ اپنی آمد کے مطابق چندہ دے رہے ہیں یا نہیں۔ صرف یہ نہیں کہ جس طرح ٹیکس دینے کے لئے بہت ساری کٹوتیاں کر لیتے ہیں چندے کے لئے بھی کر لیں۔ اپنی آمد کو دیکھیں۔ کیونکہ یہ چندے کا معاملہ خدا تعالیٰ کے ساتھ معاملہ ہے۔ سیکرٹری مال کو یا نظام کو تو پتہ نہیں ہے کہ کسی کی آمد کیا ہے جو چندہ دے رہا ہے۔ لیکن خدا تعالیٰ کو تو پتہ ہے۔وہ تو دلوں کا حال جانتا ہے۔ اگر صحیح شرح سے چندہ دینا شروع کریں تو میں سمجھتا ہوں کہ مساجد کی تعمیر اور دوسرے جماعتی کاموں کے لئے پھر بہت کم علیحدہ تحریک کرنی پڑے گی۔ پس اس لحاظ سے اپنے جائزے لیں اور اپنے چندہ عام کے بجٹ کا دوبارہ جائزہ لے کر لکھوائیں، جنہوں نے کم لکھوائے ہوئے ہیں۔‘‘

(خطبات مسرورجلد16 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ مؤرخہ 02؍نومبر 2018ء صفحہ541)

(ابو مصور خان۔ رفیع ناصر)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 فروری 2023

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی