حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
1۔ ہم اپنی بعض کتابوں میں یہ لکھ آئے ہیں کہ اس زمانہ کے ایسے مولوی اور سجادہ نشین جو متقی نہیں ہیں اور زمین کی طرف جھکے ہوئے ہیں یہ دابۃ الارض ہیں۔
(نزول المسیح، روحانی خزائن جلد18 صفحہ421)
2۔ دابۃ الارض کے دو معنی ہیں ایک تو وہ علماء جن کو آسمان سے حصہ نہیں ملا وہ زمین کے کیڑے ہیں دوسرے دابۃ الارض سے مراد طاعون ہے۔
(ملفوظات جلد دوم صفحہ353)
3۔ قرآن شریف فرماتا ہے ہے کہ آخری زمانے میں دو قسم کے دابۃ الارض پیدا ہو جائیں گے (1) ایک تو علماء بے عمل جن کے دل زمین کے ساتھ چسپاں ہوں گےزمین کی شہرت چاہیں گے (2) دوسرے طاعون کا کیڑا جو بطور سزا دہی ظاہر ہو گا سو اس زمانے میں دونوں باتیں ظہور میں آگئی۔‘‘
(نزول المسیح، روحانی خزائن جلد18 صفحہ422)
حضرت مصلح موعودؓ کا ارشاد
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ:
’’دابۃ سے مراد وہ لوگ ہیں جو کہ نبی کے آنے سے پہلے ایک مردہ کی سی حیثیت رکھتے ہیں لیکن جب ان کی اصلاح کر دی جاتی ہے تو وہ روحانی رونق اور آبادی کا باعث بنتے ہیں فرمایا کہ: ’’خدا تعالیٰ کے نشانوں میں سے ایک یہ بھی نشان ہےکہ وَبَثَّ فِیۡہَا مِنۡ کُلِّ دَآبَّۃٍ اس نے زمین میں ہر قسم کے جانور پھیلا دیئے ہیں اس میں مادی جانوروں کے علاوہ ان لوگوں کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے جو انبیاء کے آنے سے پہلے مردہ کی سی حیثیت رکھتے ہیں اور ان میں روحانی زندگی کی کوئی رمق تک نظر نہیں آتی لیکن جب آسمانی صور پھونکاجاتا ہے تو اس وقت ایسے مردہ بھی زندہ ہوجاتے ہیں اور لولے لنگڑے بھی چلنے پھرنے لگ جاتے ہیں پھر یہ لوگ جو مختلف ملکوں اور مختلف قوموں اور مختلف رنگوں اور مختلف نسلوں سے تعلق رکھتے ہیں اور مختلف علوم و فنون اور مختلف قابلیتوں کے مالک ہوتے ہیں نبی کی آواز پر لبیک کہنے کے بعد دین کی اشاعت کے لئے دنیا میں چاروں طرف پھیل جاتے ہیں اور اپنی تبلیغی جدوجہد سے لاکھوں بلکہ کروڑوں لوگوں کو دین کی طرف کھینچ لاتے ہیں جو اس کے دین کی رونق اور تازگی کا موجب بنتے ہیں ان معنوں کے لحاظ سے دابۃ سے ان مومنوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو زمین کی روحانی رونق اور آبادی کا باعث ہوتے ہیں اور جن سے موجودہ اور آئندہ نسلیں ہزاروں قسم کے مادی اور روحانی فوائد اٹھاتی ہیں۔‘‘
(تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ 322)
(اعظم شہزاد)