• 25 اپریل, 2024

لسان تو ترجمان ہے

وَ لَا تَقۡفُ مَا لَیۡسَ لَکَ بِہٖ عِلۡمٌ ؕ اِنَّ السَّمۡعَ وَ الۡبَصَرَ وَ الۡفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓئِکَ کَانَ عَنۡہُ مَسۡـُٔوۡلًا

(بنی اسرائیل:37)

ترجمہ: اور نہ کہا کرو وہ بات جس کا علم تم کو نہیں۔ بےشک کان اور آنکھ اور مرکزِقویٰ یعنی دل ان سب سے پوچھ پاچھ ہونے والی ہے۔

اس آیت کی تفسیر میں حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’ لَا تَقۡفُ۔ نا معلوم بات کہنے سے روکا لیکن اس کی خلاف ورزی پرسوال سَمَع و بَصَر اور فُؤَاد سے ہو رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لسان تو ترجمان ہے۔ اس کو ذاتی طور پر علم حاصل کرنے کے حواس نہیں دیئے گئے۔ یہ جو بیان کرے گی وہ دوسرے حواس سے لے کربیان کرے گی اور اگر وہ جھوٹ بولے گا تو دوسرے حواس اس کے خلاف گواہی دیں گے تو انسان اپنے آپ سے ملزم ہوگا۔‘‘

(درس قرآن کریم حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ زیر آیت بنی اسرائیل:31)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 مارچ 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 مارچ 2020