حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں ’’رفتہ رفتہ انسان ترقی کرتا ہوا مطمئنہ کے مقام پر پہنچ جاتا ہے اور یہاں ہی اس کا شرح صدر ہوتا ہے جیسے رسول اللہ ﷺ کو مخاطب کر کےفرمایا
اَلَمۡ نَشۡرَحۡ لَکَ صَدۡرَکَ
ہم انشرح صدر کی کیفیت کو الفاظ میں بیان نہیں کرسکتے۔‘‘
(الحکم 17۔اگست 1901ء بحوالہ تفسیر مسیح موعودؑ جلد 8 صفحہ 411)
درس قرآن حضرت حکیم مولوی نور الدین خلیفۃ المسیح الاوّلؓ میں لکھا ہے۔
’’آپؐ کا سینہ مبارک بھی دو بار فرشتوں نے چاک کر کے نورانی طشت میں آبِ قدس سے دھویا تھا ایک بار لڑکپن میں اور دوسری بار معراج کے وقت ۔اسی لئے موسیٰ نے بھی دعا کی تھی رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي وَيَسِّرْ لِي اَمْرِیْ (طٰہٰ:26) یہ سب روحانی نظارے ہیں جو جسمیات سے الگ ہیں موسیٰ کے لئے رَبِّ اشْرَحْ لِي اور حضورؐ کے لئے اَلَمۡ نَشۡرَحۡ قابل غور ہے درجہ کےلئے۔
’’ببیں تفاوت راہ از کجا است تا بکجا‘‘
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓ(قبل از خلافت) نے آنحضرت ﷺ کے شرح صدر کے بارے میں ایک سائل کو تحریر فرمایا۔
’’اس میں شک نہیں کہ آپ کا شق صدر ہوا قرآن کریم اس پر صریح اَلَمۡ نَشۡرَحۡ لَکَ (الم نشرح:2) میں ارشاد فرماتاہے۔ بھلا آپ غور کریں اگر شرح صدر نہ ہو تو وہ کام جو نبی کریم ﷺ روزمرہ کرتے تھے کسی غیر مشرح الصدر کا کام ہے۔
پانچ وقت آپ ہی جماعت کرانا اور بڑی بڑی سورتیں پڑھنا۔ پھر تہجد کو بطور فرض اتنی لمبی قرآت سے پڑھنا کہ سورہ بقر، سورہ ال عمران، سورہ نساء، سورہ مائدہ کبھی کبھی ایک ایک رکعت میں پڑھ جاتے تھے۔ پھر عرب کے وحشیوں سے مناظرہ، یہود سے مناظرہ، عیسائیوں سے مناظرہ، غرض علماء جہلاء دونوں سے مقابلہ اور پھر اپنا ایک ہی طرز واحد رکھنا۔ پھر یہی نہیں کہ صرف زبانی جمع خرچ ہو بلکہ اپنی تاثیر سے ہزاروں کو عملی طور پر اپنے ساتھ ملا لیتے تھے سائل نے کوئی ایسا لیڈر دیکھا ہو تو ذرا اس کا نام ہی بتائیں کہ اس تقریر سے لوگ اپنے جان و مال اور ہر ایک چیز کو استقلال و دوام کے ساتھ قربان کر دیں۔
پھر تمام بادشاہان وقت سے خط و کتابت کرنا اور پھر باوجود اس کے حجرات سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی صحابی کو بولنے کی اجازت نہ تھی۔
پھر رات دن کی مہمان نوازی کے لئے نہ کوئی خزانہ ہے نہ کوئی مہمان خانہ تھا، نہ کوئی باورچی خانہ ہے، نہ کوئی لنگر کا مہتمم ہے نہ کوئی چارپائی ہے اور پھر کوئی مہمان ناراض نہیں جاتاپھر قوانین جن میں عبادات و معاملات و روحانی اخلاق کی اصلاح ہو سکے ان کا وقتاً فوقتاً ایجاد کرنا اور ان کو کر کے دکھا دینا اور عمل کروا دینا۔
پھر سارے معاملات کا فیصلہ بھی آپ ہی کرنا۔
پھر فوجی افسروں کو مقرر کرنا اور کمان اپنے ہاتھ میں رکھنا اور ساری سیکرٹری شپ (یعنی منشی کا کام) آپ کی زبان ہی تھی۔
پھر عرب جیسے جنگجو طبائع کو مسخر کرنا اور ان کے عمائد کو ان کے غرباء کے ساتھ کھڑا کر دینا اور سب کے سر زمین پر جھکا دینا اور پچھلے خواہ کتنے ہی بڑے شریف ہوں اور اگلے خواہ کتنے ہی وقیع ہوں ان کے پاؤں کے ساتھ ان کے سروں کو لگا دینا۔
تمام ملک کی خبر رکھنا اور فوجوں کی روانگی کے لئے ایسا سخت انتظام رکھنا کہ کسی کے مال کو راستہ میں چور نہ لوٹیں اور فتح کے وقت ایک سوئی یا ایک سوئی کا دھاگا کسی سپاہی کو کسی سے لینے کی اجازت نہ دینا۔ پھر قرآن شریف کو ایسا یاد رکھنا کہ ایک نقطہ اور زیروزبر کی غلطی نہ ہونے دینا بعض دنوں آپؐ نے صبح کی نماز سے لے کر عشاء کی نماز تک لیکچر خطبہ پڑھا ہے نہ زبان کو وقفہ نہ بیان میں اختلاف ہوا اور پھر 23 برس کے سارے بیانات میں یہ کہنا کہ اس میں کوئی اختلاف نہیں اور پھر 23 برس اس عہدہ کی خدمت کرنا کیا کوئی ایسا گورنر جنرل آپ نے دیکھا ہے جو 23 برس کی ملازمت میں یہ لفظ بول سکے۔
پھر کھانا پینا، مکان میں رہنا، بیوی سے تعلق رکھنا، سفر کرنا، صلح کرنا، جنگ کرنا، معاملات بیع و شرا، تجارت، نکاح، طلاق، عتاق، شہود، شہادات، معاہدات، مرنے کے بعد کے قوانین، یتامی اور کم عقلوں کی خبر گیریاں اور ان کے اموال وغیرہ کی حفاظتیں اس کے سوا قرب الہٰی کے ہزاروں ہزار شغل و اذکار اور قسم قسم کے مراقبات اور قسم قسم کی خلوتیں اٹھتے بیٹھتے، سوتے، چلتے پھرتے، جماع، ولادت، موت اور قسم قسم کی آیات اللہ جیسے خسوف کسوف اور ان کے متعلق احکام الہٰی یادگاریں اور دعائیں اور قوانین تجویز کرنا پھر ایسے آرام سے بیٹھنا کہ بیویوں کو کہنا آؤ میں تمہیں جاہلیت کے زمانہ کی کہانیاں سناؤں۔ اگر آپ کو شرح صدر کے متعلق کوئی دقت ہے تو اس آیت پر توجہ کرو جس میں لکھا ہے۔
فَمَنۡ یُّرِدِ اللّٰہُ اَنۡ یَّہۡدِیَہٗ یَشۡرَحۡ صَدۡرَہٗ لِلۡاِسۡلَامِ (الانعام:126) وہی صدر کا لفظ اس میں بھی موجود ہے۔اس شرح صدر کے لئے ضرور ہے کہ صاحب شرح کو ایک نظارہ دکھایا جاوے جس میں اس کا سینہ چیر کر اس میں حکمت و نور و ایمان بھر دیا جاوے۔ طوائف الملوکی کے زمانہ میں کس طرح آنحضرت ﷺ نے گزارہ کیا۔ نصرانیوں کی سلطنت حبش اور یہودیوں کے ماتحت کس طرح گزارہ کیا۔ پھر جب آپ نے جمہوری حکومت وہاں قائم کی ہے تو کس طرح گزارہ کیاہے۔ پھر عرب جیسے بے قانون ملک کو کس طرح قانون کے نیچے جکڑ دیا ہے یہ وہی جانتا ہے جو سرحدی مشکلات سے واقف ہو۔
(ارشادات نور جلد اول صفحہ 324 تا 326)
(انجینئر محمود مجیب اصغر)