• 29 مئی, 2024

پاک، صاف اور فضول گانے بجانے میں فرق

ایسے گانے اور ترانے سننا شریعت کی رو سے جائز ہیں جن میں کسی قسم کی اخلاقی گراوٹ نہ ہو۔

حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں:

’’(عید الفطر کے دن) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے پاس تشریف لائے جبکہ میرے پاس دو لڑکیاں جنگ بعاث (دو انصاری قبیلوں خزرج اور اَوس کے درمیان زمانۂ جاہلیت میں ہونے والی ایک جنگ) کے ترانے گا رہی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دوسری طرف اپنا منہ پھیر کر لیٹ گئے (یعنی آپ ﷺ نے ان لڑکیوں کو گانا گانے سے نہ روکا)۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ آئے اور انہوں نے مجھے ڈانٹا اور کہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس شیطانی باجہ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی جانب متوجہ ہو کر فرمایا: انہیں کچھ نہ کہو۔ جب آپ کی توجہ ہٹ گئی تو میں نے لڑکیوں کو چپکے سے چلے جانے کا اشارہ کیا۔‘‘

(صحیح بخاری، ابواب العیدین، باب الحراب و الدرق یوم العید)

حضرت ربیع بنت معوذ ؓ بیان کرتی ہیں:

’’جس دن میں دلہن بنا کر بٹھائی گئی تو نبی ﷺ تشریف لائے۔ پھر کچھ لڑکیاں دف بجانے لگیں اور اپنے آباء کی مدح میں جو جنگ بدر کے دن شہید ہوئے تھے، تعریفی گیت گانے لگیں۔ پھر ان میں سے ایک نے کہا: ہم میں وہ نبی ہیں جو آنے والے کل کی بات جانتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ایسا مت کہو اور وہی گاؤ جو تم پہلے گا رہی تھیں۔‘‘

(صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب شہود الملائکۃ بدرا)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

’’نکاح کی تشہیر کرو، مسجدوں میں نکاح کرو اور ان مواقع پر دَف بجایا کرو۔‘‘

(جامع الترمذی، ابواب النکاح، باب ما جاء فی اعلان النکاح)

حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲعنھما روایت کرتے ہیں :

’’حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے اپنی ایک قریبی انصاری لڑکی کی شادی کا اہتمام کیا۔ اس موقع پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اوردریافت فرمایا: کیا تم نے دلہن کو اسکے خاوند کے گھر بھجوا دیا ہے؟ انہوں نے اس کا اثبات میں جواب دیا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مزید دریافت فرمایا: کیا تم نے شادی کا گیت گانے کے لیے کسی کو ساتھ بھجوایا ہے۔ تو عرض کی گئی: نہیں یارسول اللہ ۔اس پر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا :اَنصار لوگ ترنم کے ساتھ کلام سننا پسند کرتے ہیں، لہٰذا کسی خوش آواز کا انتظام کرو جو یہ گیت گائے کہ ہم آپ کے پاس آئے ہیں، ہم آپ کے پاس آئے ہیں، اﷲ تعالیٰ ہمیں اور آپ کو سلامت رکھے۔‘‘

(سنن ابن ماجہ کتاب النکاح، باب الغناء والدف)

حضرت عامر بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :

میں، حضرت قرظہ بن کعب اور حضرت ابو مسعود انصاریؓ کے پاس ایک شادی میں حاضر ہوا جہاں بچیاں شادی کیگیت گارہی تھیں۔ میں نے حیرت سے کہا: آپ دونوں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اَصحاب اور اہلِ بدر میں شامل ہیں اور آپکی موجودگی میں یہ کام ہو رہا ہے۔ وہ کہنے لگے: اگر تمہارا جی چاہے تو تم ہمارے ساتھ بیٹھ کر سنو وگرنہ چلے جاؤ۔ ہمیں اللہ تعالیٰ کی بابت یعنی دینی امور کی بابت اور شادی کے موقع پر اس کی اجازت دی گئی ہے۔

(سنن نسائی، کتاب النکاح، باب اللہو والغناء عند العرس)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:۔

’’شادی بیاہ کے موقع پر شریعت کی رو سے گانا جائز ہے۔ مگر وہ گانا ایسا ہی ہونا چاہیے جو یا تو مذہبی ہو اور یا پھر بالکل بےضرر ہو مثلاً شادی کے موقع پر عام گانے جو مذاق کے رنگ میں گائے جاتے ہیں اور بالکل بے ضرر ہوتے ہیں ان میں کوئی حرج نہیں ہوتا۔ کیونکہ وہ محض دل کو خوش کرنے کے لئے گائے جاتے ہیں ان کا اخلاق پر کوئی برا اثر نہیں ہوتا۔‘‘

(فتاویٰ حضرت مصلح موعود ؓ غیرمطبوعہ صفحہ 48، الفضل 20جنوری 1945ء)

ایک اور موقع پر فرمایا کہ :۔

’’شادی کے موقع پر کوئی گیت گالیں تو گناہ نہیں بشرطیکہ اس میں فحش اور لغو بکواسیں نہ ہوں اور بے حیائی سے نہ گایا جائے۔‘‘

(فتاویٰ حضرت مصلح موعود ؓ غیرمطبوعہ صفحہ: 48، الفضل 20 جولائی 1915ء)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ گانے بجانے کے منفی اثرات کے حوالے سے آیت قرآنی وَ الَّذِیۡنَ لَا یَشۡہَدُوۡنَ الزُّوۡرَ ۙ وَ اِذَا مَرُّوۡا بِاللَّغۡوِ مَرُّوۡا کِرَامًا کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:

“زُور کے پانچویں معنے مجلس الغناء یعنی گانے بجانے کی مجلس کے ہیں۔ اس لحاظ سے اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ رحمٰن خدا کے بندے گانے بجانے کی مجلس میں نہیں جاتے تاکہ اس کے زہریلے اثرات سے وہ محفو ظ رہیں اور خداتعالیٰ سے غافل ہو کر ہوا و ہوس کے پیچھے نہ چل پڑیں اسی بناء پر میں نے اپنی جماعت کو یہ ہدایت کی ہے کہ وہ سینما نہ دیکھا کرے کیونکہ اس میں بھی گانا بجانا ہوتا ہے جو انسانی قلب کو خدا تعالیٰ کی طرف سے غافل کر دیتا ہے۔ پہلے یہ چیز تھیٹر میں ہوا کرتی تھی۔ لیکن جب سے ٹاکی (Talkie) نکل آئی ہے سینما میں بھی یہ چیزیں آگئی ہیں بلکہ تھیٹر سے زیادہ وسیع پیمانہ پر آئی ہیں۔ کیونکہ تھیٹر کا صرف ایک شو (SHOW) ہوتا تھا جس میں بڑے بڑے ماہر فن گویوں کو بلانا بہت بڑے اخراجات کا متقاضی ہوتا تھا جس کو وہ برداشت نہیں کر سکتے تھے اور پھر ایک شو (SHOW) صرف ایک جگہ ہی دکھایا جاسکتا تھا۔ مگر اب ایک شو (SHOW) سے ہزاروں فلمیں تیار کر کے سارے ملک میں پھیلا دی جاتی ہیں اور بڑے بڑے ماہر فن گویوں اور موسیقاروں کو بلایا جاتا ہے۔ اس لئے تھیٹر سے سینما کا ضرر بہت زیادہ ہوتا ہے۔ رسول کریم ﷺ نے بھی فرمایا ہے کہ گانا بجانا اور باجے وغیرہ یہ سب شیطان کے ہتھیار ہیں جن سے وہ لوگوں کو بہکاتا ہے۔ مگر افسوس ہے کہ مسلمانوں نے اللہ تعالیٰ کی اس واضح ہدایت کو بھلا دیا اور وہ اپنی طاقت کے زمانہ میں رنگ رلیوں میں مشغول ہو گئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آخر انہیں اپنی حکومت سے ہاتھ دھونا پڑا ۔۔۔۔ اتنی بڑی تباہی دیکھنے کے باوجود مسلمانوں کو اب بھی یہی شوق ہے کہ سینما دیکھیں اور گانا بجانا سنیں اور وہ اپنی تاریخ سے کوئی عبرت حاصل نہیں کرتے۔ حالانکہ قرآن کریم نے وَ الَّذِیۡنَ لَا یَشۡہَدُوۡنَ الزُّوۡرَ میں بتا دیا ہے کہ اگر مسلمان عبادالرحمٰن بننا چاہتے ہین تو ان کا اولین فرض یہ ہے کہ وہ گانے بجانے کی مجالس کو ترک کریں اور خدائے واحد سے لو لگائیں۔ اگر وہ ایسا کریں گے تو کامیاب ہو جائیں گے اور اگر نہیں کریں گے تو اس کے تباہ کن نتائج سے وہ محفوظ نہیں رہ سکیں گے۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد ششم صفحہ 586 ,585)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ سے سوال ہوا کہ کیا میوزک سننا اسلام میں نا پسند کیا جاتا ہے؟

حضور رحمہ اللہ نے جواباً فرمایا کہ :۔

’’میوزک ناپسند کی جاتی ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ ناپسند فرمایا کر تے تھے۔ ہماری M.T.A پہ میوزک اسی وجہ سے نہیں آتا۔ میوزک سے آواز کی طرف توجہ رہتی ہے اس کے مضمون کی طرف نہیں رہتی۔ جب بغیر میوزک کے اچھی آواز سے پڑھا جائے تو پھر مضمون دل میں ڈوبتا ہے تو میوزک مست کر نے کے لئے ٹھیک ہے۔ مگر معنوں کے لحاظ سے اچھی نہیں ہے۔ اور بھی بہت سی خرابیاں ہیں میوزک کی جو میں بیان کیا کرتا ہوں لیکن اب وقت نہیں۔ لیکن ایک بات یاد رکھو کہ یہ زمانہ ایسا ہے جس میں انسان میوزک سے بچ ہی نہیں سکتا۔ تم ہر وقت کانوں کے اندر روئی دے کر تو نہیں پھر سکتے۔ اگر خود نہ میوزک سنو تو بازاروں میں میوزک ہو گی تم کو ئی کارٹون دیکھ رہے ہو تو بیچ میں ناچ گانا اور میوزک شروع ہو جائے گی۔ تو کہاں تک میوزک سے بھاگو گے تو یہ مجبوری ہے یہ دجال کا دھواں ہے اصل میں رسولاللہ ﷺ نے فرمایا ہے۔ جس کے اوپر دجال قبضہ نہیں کرے گا اس کو دھواں ضرور پہنچ جائے گا۔ تو میوزک بھی آ جکل کا فیشن بن گیا ہے۔ اور اسے کلیتہََ چھوڑہی نہیں سکتے۔ اس لئے یہ درست نہیں ہے کہ میوزک انسان آجکل بالکل ہی نہ سنے۔ یہ ممکن نہیں ہے۔ مگر جب نمونہ پیش کرنا ہو دین کا تو پھر جیسا کہ MTA پہ ہے ہم اس میں میوزک کو نزدیک بھی نہیں آنے دیتے۔

ایک یاد رکھنے کی بات ہے کہ قرآن کریم اگر میوزک کے خلاف بات کرتا ہے یا رسول اکرم ﷺ نے میوزک کے خلاف بات کی، تو اس کی بہت سی وجوہات ہیں اور ان میں سے ایک تو میں نے بیان کر دی ہے دوسری ایک وجہ ہے جو بہت ہی اہم ہے ایک زمانے میں میوزک جو ہے وہ بڑی Peaceful ہوا کرتی تھی وہ روح کو تسکین دیا کر تی تھی۔ اور پرانے زمانے کے جو میوزیشن میوزک لکھا کر تے تھے وہ سُر کو قائم کرنے کے لئے لکھا کر تے تھے مگر رسول اللہ ﷺ نے جومنع فرمایا ہوا ہے معلوم ہوتا ہے آخری زمانے میں جو دجال کا زمانہ ہے میوزک نے برا رنگ اختیار کر لینا تھا چنانچہ آجکل جو میوزک ہے یہ انسان کے اندر سے اچھی چیزوں کی بجائے Worse چیزیں نکالتی ہے Pop Music یہ وہ گند ہے جو انسان کے اندر ہے اور وہ میوزک سے باہر نکل آتا ہے اس لئے جو میوزک اچھی بھی تھی وہ بھی اب آہستہ آہستہ بدل کے گندی ہو چکی ہے۔ میں بھی ایک زمانے میں یہاں دیکھنے کے لئے کہ میوزک کیا ہوتی ہے گیا تھا ایک ہال میں میوزک کا انتظام تھا جس میں کلاسیکل میوزک تھی پرانے زمانوں کی اور وہ جب چلی تو میں حیران رہ گیا اتنا دل پہ سکون تھا اتنی روح پہ طمانیت، آرام کا احساس ہوا کہ اس وقت مجھے پتہ چلاکہ پرانے زمانے کے جو میوزیشن تھے وہ روح کو تسکین دینے کے لئے میوزک لکھا کرتے تھے اب سن کے دیکھو ہالوں میں جاکے کہیں توبہ توبہ گندبلا، Pop Music، یہ میوزک، وہ میوزک سب بکواس ہے۔‘‘

(عرفان احمدخان۔جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 مارچ 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 مارچ 2020