• 18 اپریل, 2024

کشمیر کی حسین وادی نیلم کی سیاحت

خدا کی قدرت کے حسین نظاروں کو قرطاس پر تحریر کرنا میرے بَس میں نہیں، ان خوبصورت نظاروں کو صرف محسوس ہی کیا جاسکتا ہے اور محسوس کرکے دل سے بےاختیار سبحان اللّٰہ وبحمده سبحان اللّٰہ العظیم ہی نکلتا ہے کہ پاک ہستی نے کیسے خوبصورت قدرتی نظارے تخلیق فرمائے۔وادئ نیلم کا سفر شروع کرنے سے پہلے بہتر ہے کہ اس وادی کے بارے میں آپ کو مختصر طور پر آگاہ کردوں۔

آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد کے شمال کی جانب چہلہ بانڈی پل سے شروع ہو کر تاؤبٹ تک 240 کلومیٹر پھیلی ہوئی حسین و جمیل وادی کا نام نیلم ہے ۔ یہ وادی اپنے نام کی طرح نہایت خوبصورت ہے۔ وادی نیلم کا شمار کشمیر کی خوبصورت ترین وادیوں میں ہوتا ہے جہاں دریا، صاف اور ٹھنڈے پانی کے بڑے بڑے نالے، چشمے، جنگلات اور برف پوش اور سرسبز پہاڑ ہیں۔ جابجا بہتے پانی اور بلند پہاڑوں سے گرتی آبشاریں ہیں، جن تیز دھار دودھیا پانی سڑک کے اوپر سے بہتا چلا جاتا ہے اور بڑے بڑے پتھروں سے سر پٹختے آخر دریائے نیلم کے مٹیالے پانیوں میں شامل ہو جاتاہے۔
اگر آپ ٹھنڈے میٹھے چشموں، جھاگ اڑاتے شوریدہ پانیوں اور بلندی سے گرتی آبشاروں کو دیکھنا چاہتے ہیں تو یہ وادی آپ کو دعوت نظارہ دیتی ہے۔ وادی نیلم کو ضلع نیلم بھی کہتے ہیں جس کا صدراٹھمقام ہے۔ اس کی 2 تحصیلیں اٹھمقام اورشاردہ ہیں۔

رقبہ کے لحاظ سے یہ آزاد کشمیر کا سب سے بڑا ضلع ہے اس کا رقبہ 1398 مربع میل ہے مگر سب سے کم گنجان ہے یعنی آبادی دور دور واقع ہیں۔بانڈی پورہ سے آنے والا دریا کشن گنگا تاؤ بٹ کے مقام پر وادی نیلم میں داخل ہوتا ہے ،انڈیا کا دریا کشن گنگا آزاد کشمیر میں داخل ہوتے ہی دریائے نیلم بن جاتا ہے۔ ضلع بھر کی واحد قابل ذکر سٹرک نیلم ویلی روڈ ہے جو مظفر آباد سے کیل تک جاتی ہے۔

بہت سارے مقامات پر اچھی سڑک نہ ہونے کی وجہ سے بہت کم سیاح یہاں آتے ہیں ۔ لیکن یہ بھی قابلِ غور بات ہے کہ جو وادئ نیلم کے بارے میں اچھی طرح سُن لیتا ہے اس کا دل لازمی مچلتا ہے کہ یہاں کا رُخ کرے اور اگر اس کے حالات اجازت دیں تو لازمی وہاں تک پہنچتا ہے۔لیکن بعض بیچارے ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ

میں گرفتِ غم سے نہ بچ سکا
وہ حدودِ غم سے نکل گئے

بات وادئ نیلم کی ہو رہی تھی، یہاں گرمیوں میں موسم خوشگوار رہتا ہے اور سردیوں میں شدید سردی اور برف باری ہوتی ہے۔مظفر آباد سے کیل تک سڑک جاتی ہے۔ یہ سڑک مظفر آباد سےاٹھمقام تک اچھی حالت میں ہے اور ہر طرح کی گاڑیوں کے لئے موزوں ہے تا ہم کیرن سے کیل تک کی سڑک اچھی حالت میں نہیں ہے اور نیچے فرش والی گاڑیوں کے لئے موزوں نہیں۔ لیکن دیکھا گیا ہے کہ لوگ اپنی سوزوکی مہران کو بھی کیل تک لے گئے ہیں۔

مسافر ویگنیں مظفرآباد سےاٹھمقام تک ہر 30 منٹ بعد چلتی ہیں۔ جب موسم ٹھیک ہو تو مظفر آباد سے کیل کے درمیان بسیں روزانہ چلتی ہیں۔وادیٔ نیلم کے دور دراز علاقوں تک رسائی کے لئے جیپ اور گھوڑے بھی دستیاب ہیں۔سردیوں میں نیلم روڈ کیرن سے آگے شدید برف باری کی وجہ سے بند ہو جاتی ہے اور وادی کے بالائی علاقوں تک رسائی بہت مشکل ہوجاتی ہے ۔وادئ نیلم میں پاکستان کی موبائل سِمیں نہیں چلتیں بلکہ پاکستان آرمی کا ذیلی ادارہ اسپیشل کمیونیکیشن آرگنائزیشن (ایس سی او) وادی کے مختلف شہروں اور قصبوں میں ٹیلی فون اور انٹرنیٹ سروسز فراہم کرتا ہے۔ اگر کسی نے کچھ دن وادئ نیلم میں رہنا ہو تو وہ وہاں سے اس نیٹ ورک کی سِم خرید کر استعمال کرسکتا ہے۔

ہم براستہ موٹروے اسلام آباد اور مری سے ہوتے ہوئے صبح سات بجے مظفرآباد پہنچ گئے، جہاں منہ ہاتھ دھوکر ناشتہ کیا، مظفرآباد سے ناشتہ کرکے ہماری منزل شاردہ تھی، جہاں ہم شام 5 بجے تک پہنچ گئے۔ شاردہ پہنچ کر شام ہو رہی تھی چنانچہ سب سے پہلے ہم نے کرائے کیلئے کمرہ ڈھونڈنے کی کوشش شروع کردی، تھوڑی سی تگ و دو کے بعد ایک کمرہ مل گیا۔ یاد رہے کمرہ دیکھنے کے ساتھ ساتھ صاف ستھرا واش روم بھی دیکھا جائے، جہاں یہ بھی تسلی کرلی جائے کہ صفائی کے لئے پانی بھی موجود ہے یا نہیں، یہ چیز بھی دیکھنی ہوگی کہ پینے کو بھی صاف پانی میسر ہے یا نہیں اور اگر چشمے کا صاف پانی براہِ راست پینے کو مل جائے تو بڑی نعمت ہے۔کمرے میں موبائل یا کیمرہ چارج کرنے کیلئے بجلی بھی ہو۔

لفظ ’’شاردہ‘‘ اصل میں سنسکرت لفظ ’’شردھا‘‘ سے نکلا ہے جس کا مطلب ’’موسم خزاں سے محبت کرنے والی دیوی‘‘ ہے۔ اس دیوی کا اصل نام ’’سرسوتی‘‘ ہے، جو خزاں سے محبت کرتی ہے اور اس کے کاموں میں فنون لطیفہ، علم و حکمت اور موسیقی شامل ہیں۔ سرسوتی دیوی ہندو عقیدۂ تثلیث میں ایک اہم ستون ہے۔ دوسری دو دیویاں لکشمی (دولت کی دیوی) اور پاروتی (محبت کی دیوی) ہیں۔ ہندومت میں دیوی صرف انرجی کے زمرے میں ہے، (باقاعدہ خدا وغیرہ کا ہماری طرح تصور نہیں ہے)۔

کہتے ہیں کہ پرانے دور میں شاردہ کے قریب سرسوتی دیوی کا مجسمہ بھی موجود تھا۔ قدیم مقامی عقائد کے مطابق اس دیوی کےچرن چھونے سے انسان کا جسم یک دم گرمی کی لپیٹ میں آجاتا تھا۔اس مقام پر پہنچ کر میں نے بھی اپنے اندر قدرے گرمی محسوس کی اور اپنا سانس اکھڑتا ہوا محسوس ہوا، لیکن بعد میں پتہ چلا کہ وہ گرمی شاردہ دیوی کے چرن چُھونے کی بدولت نہیں تھی بلکہ بلندی ہی اتنی تھی کہ وہاں چڑھ کر آٹومیٹک سانس پھول گیا اور جسم میں گرمی پیدا ہوگئی۔

شاردہ میں شردھا یا سرسوتی دیوی کا اب بھی کھنڈرنما مندرموجودہےجسے ہندوؤں کے علاوہ اہل بدھ بھی استعمال کرتے رہے کیونکہ سرسوتی دیوی بدھ مت میں بھی قابل احترام ہے۔

شاردہ یونیورسٹی

شاردہ کی اُونچائی پر کھنڈر نما عمارت دیکھ کر اندازہ ہوا کہ یہ اپنے زمانے کی عظیم یونیورسٹی ہوگی، اس دانش گاہ کے در ودیوار سے خستگی اور شکست و ریخت کے آثار نمایاں تھے لیکن اس کی باقیات دیکھ کر یہ اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں کہ کبھی یہ شاندار فن تعمیر کا شاہکار ہوا کرتی تھی۔وہاں چاروں طرف اداسی اور ویرانی طاری تھی جسے دیکھ کر میں اس کے اجڑنے کی وجوہات میں کھو گیا کہ آخر ایسا کیا ہوا ہوگا کہ برصغیر کی اس عظیم الشان درس گاہ کی بس داستان ہی باقی رہ گئی ہے اورتو مجھے کچھ معلوم نہ ہوسکا بس اتنا جان پایا کہ مشیت ایزدی کے باعث ہی اس دنیاکا نظام چلتا ہے۔شاردہ دیوی مندر یا شاردہ یونیورسٹی کے آستانے پر دی گئی معلومات کےمطابق مشہور مسلمان مؤرخ البیرونی اپنی کتاب الہند میں شاردہ کا کچھ یوں ذکر کرتے ہیں۔

سری نگر کے جنوب مغرب میں شاردہ واقع ہے، اہل ہند اس مقام کو انتہائی متبرک تصور کرتے ہیں اور بیساکھی کے موقع پر ہندوستان بھر سے لوگ یہاں آتے ہیں،لیکن برفانی اور دشوار گزار علاقوں کے باعث میں خود وہاں نہیں جاسکا۔

شاردہ یونیورسٹی کا قدیم نام (Sharda Peth) ہے، Peth قدیم سنسکرت زبان سے تعلق رکھتا ہے، اس کےلغوی معنی ایسی جگہ یا نشست گاہ کے ہیں جس کو تکریم سے نوازا گیا ہو، شمالی ہندوستان سمیت اکثر جگہوں پر یہ لفظ علمی مذہبی اداروں کے لئے استعمال ہوتا رہا ہے۔

کنشک اول (نیپال کا شہزادہ) کے دور میں شاردہ وسط ایشیاء کی سب سے بڑی تعلیمی و تدریسی درسگاہ تھی، یہاں بدھ مت کی باقاعدہ تعلیم کے ساتھ ساتھ تاریخ ،جغرافیہ ، ہیئت، منطق اور فلسفہ پر مکمل تعلیم دی جاتی تھی اس درس گاہ کا اپنا رسم الخط تھا جو دیوتا گری سے ملتا جلتا تھا، اس رسم الخط کا نام شاردہ تھا اسی مناسبت سے موجودہ گاؤں کا نام بھی شاردہ ہے۔کہا جاتا ہے کہ اس عمارت کو کنشک اول نے 24ء تا 27ء میں تعمیر کروایا تھا، شاردہ یونیورسٹی کی عمارت شمالاً جنوباً مستطیل چبوترے کی شکل میں بنائی گئی ہے، عمارت کی تعمیر آج کے انجینئرز کو بھی حیرت میں ڈال دیتی ہے۔

یہ عمارت برصغیر میں پائی جانے والی تمام قدیمی عمارتوں سے مختلف ہے خاص کر اس کے درمیان میں بنایا گیا چبوترہ ایک خاص فن تعمیر کا نمونہ پیش کرتا ہے جو بڑا دلچسپ ہے، اس کی اونچائی تقریباً 100 فٹ ہے اس کے چاروں طرف دیواروں پر نقش و نگار بنائے گئے تھے جبکہ جنوب کی طرف ایک دروازے کی جگہ ہے، عمارت کے اوپر چھت کا نام ونشان باقی نہیں ہے،تا ہم مغرب کی طرف سے اندر داخل ہونے کے لئے 63 سیڑھیاں بنائی گئی ہیں، کچھ قبائلی 63زیورات پر مشتمل تاج ہاتھی کو پہناتے تھے اور پھر اس کی پوجا کرتے تھے، تریسٹھ کا عدد جنوبی ایشیاء کی تاریخ میں مذہبی حیثیت رکھتا ہے ۔بدھ کے عقائد سے ملتی جلتی تصاویر اس میں آج بھی نظر آتی ہیں، ان اشکال کو پتھر میں کرید کر بنایا گیا ہے اس عمارت میں ایک تالاب بھی ہوتا تھا جو آج موجود نہیں ہے، امراض جلد سے متاثرہ لوگ اس میں غسل کرتے اور شفاء پاتے تھے، کیونکہ یہاں آنے والا پانی 2کلو میٹر دور سے سلفر ملے ہوئے تالاب سے لایا جاتا تھا ، اس کے علاوہ کشمیر کے پہاڑوں کے دامن میں شرده ( شارده ) نامی لکڑی کا حیرت انگیز بت تھا جس کے پاؤں کو چھونے سے انسان کو ماتھے پر پسینہ پھوٹ پڑتا تھا، نیز اشٹامی کی مقدس رات کے نصف پہر کو شارده تیرتھ کا مرکزی حصہ کسی غیبی طاقت کی مدد سے جھومتا تھا۔

(ابوالفضل آئین اکبری)

تاریخی شواہد کے مطابق شاردہ میں5 ہزار افراد موجود تھے ، شاردہ سے کشن گھاٹی تک کا سارا علاقہ آباد تھا ، کشن گھاٹی مرکزی عمارت سے 3 کلومیٹر جنوب میں واقع ایک پہاڑی کا نام ہے جسے مقدس تصور کیا جاتا تھا ، یہاں ایک لمبی غار تھی جس میں ایک بت بنوایا گیا تھا ، جس کے نیچے مردوں کو جلایا جاتا تھا اور اس راکھ کو کشن گنگا ( موجودہ دریائے نیلم ) میں بہا دیا جاتا تھا، شارده قلعہ کے پس منظر سے لوگوں کی اکثریت نابلد ہے ، اسی وجہ سے لوگوں میں اس تاریخی و تدریسی درسگاہ سے متعلق بڑی عجیب و غریب اور دلچسپ باتیں مشہور ہیں، جو یہاں آنے والے لوگوں کو سنائی جاتی ہیں۔جس میں دیومالائی چیزوں کا ذکر ملتا ہے تاہم آج یہ عمارت ایک پرانے کھنڈر کا منظر پیش کرتی ہے اور عدم توجہگی کا شکار ہے۔

یہ یونیورسٹی کسی زمانے میں ہندؤمت اور بدھ مت کی بہت بڑی اور عظیم درسگاہ رہی ہے۔ مشہور مؤرخ زون راج کے مطابق 1088ء میں ریاست گجرات کی حدود میں ایک ذہین و فطین انسان نے جنم لیا اس کا نام ہیماچندرا بتایا جاتا ہے علم و ادب میں اس کی شہرت دور دور تک پھیلی۔ گجرات (پاکستانی گجرات) کے راجہ جیاسمہا نے اس عالم و فاضل شخص کو اپنے دربار سے منسلک کیا۔ اس علم دوست انسان نے راجہ گجرات (جیاسمہا) سے التجا کی کہ وہ ایک ایسی انسائیکلوپیڈ یا تیار کرنا چاہتا ہے جس میں مذاہب عالم، زباندانی کے آفاقی اصول اور عالمی ادب جیسے مضامین پر مکمل تحقیق مطلوب ہے ، اس کام کی تکمیل کیلئے 8 قدیم زبانوں میں لکھے گئے گرائمر کی کتب کی دستیابی مطلوب تھی، ان نایاب کتب کی دستیابی کے لئے ہیماچندرا نے بادشاہ سے گزارش کی کہ یہ کتب صرف اور صرف شاردہ کی یونیورسٹی کے ذخیرہ کتب سے ہی مل سکتی ہیں، اس پر بادشاہ نے ان نایاب کتب کے حصول کے لئے ایک اعلیٰ سرکاری وفد کشمیر کی راجدھانی پروایوار (موجودہ سری نگر) روانہ کیا، ریاست کشمیر پہنچ کر اس وفد نے شاردہ دیوی کے مندر میں حاضری دی اور شاردہ دیوی کو خراج عقیدت پیش کیا، پھر شاہی دستور کے مطابق مسودات گجرات پہنچائے گئے جس کی مدد سے Siddha Hema Chandra کے نام سے کتاب تیار کروائی گئی۔

رات ہم نے شاردہ دیوی کے علاقے میں قیام کیا، اگلے دن صبح شاردہ سے ٹویوٹا ہائی روف کے ذریعے کیل گئے، جہاں سے ہماری اگلی منزل وادئ نیلم کا آخری مقام تاؤبٹ تھا، چونکہ کیل سے آگے سڑک نہیں ہے بلکہ پتھریلے خطرناک راستوں کا ٹریک ہے جہاں عام گاڑی نہیں جاسکتی ۔چنانچہ ہم اس کے لئے کرائے پر جیپ کروائی، جیپ کے ذریعے کیل سے تاؤبٹ کا 47 کلومیٹر کا سفر ہم نے تین گھنٹوں میں طے کیا، وقت سے اندازہ لگاسکتے ہیں کہ راستہ کتنا ٹیڑھا اور دُشوار ہوگا،تاؤ بٹ پاکستان کی ایک نہایت ہی خوبصورت وادی کا نام ہے۔وادئ نیلم کے انتہائی شمال میں واقع یہ وادی ان علاقوں میں سے ہے جس کی کسی بھی زاویے سے لی گئی تصویر قدرتی حُسن کا ایک شاہکار قرارپاتی ہے۔ گھنے جنگلات کی بات ہو یا سرسبز ناہموار میدانوں کی، نیلگوں پانیوں کا تذکرہ ہو یا پُرتسکین موسم کا خیال، تاؤبٹ ہر تصور سے زیادہ حسین مقام ہے۔

تاؤبٹ تمام قدرتی اَجزاء پر مشتمل قدرت کا ایسا حسین شاہکار ہے جس کے اجزائے ترکیبی حسین ترین توازن کے ساتھ خالص ترین رنگوں میں ایک وسیع و کشادہ کینوَس پر تخلیق کئے گئے ہیں۔ اس شاہکار منظر کا حصہ بن کر اور جیتی جاگتی آنکھوں سے اس کا مشاہدہ کرنا کسی بھی بیان اور تصور کا نعم البدل نہیں ہوسکتا، سچی بات پوچھیں تو تاؤبٹ پہنچ کر مجھے ایسے لگا جیسے خواب میں ایسے قدرتی مناظر دیکھ رہا ہوں جو کسی مصوّر نے بنائے ہیں،میرا قلم اور زبان تاؤبٹ کے دلکش مناظر کو بیان کرنے سے قاصر ہے۔

تاؤبٹ پہنچ کر دریائے نیلم قدرے دُور ہو جاتاہے۔ اس کی جگہ ایک شفاف ندی اور اس کے پس منظر میں گہرے سبز جنگلات والی بلندیاں ماحول پر چھائی ہوئی ہیں۔ ندی پر بنائے گئے خوبصورت پل سے دریائے نیلم کے کنارے پہنچنے کے لئے چند منٹ کا فاصلہ ہے جو پیدل طے ہوتا ہے۔ رنگا رنگ پھولوں اور گھاس کے قالین سے مزین کہیں ہموار اور کہیں اونچے نیچے میدان کی شکل میں دریا کا یہ کنارا کیمپنگ اور آرام کے لئے بہترین جگہ ہے۔ اعصاب کو سکون اور دل و دماغ کو تروتازہ کر دینے والی ہواﺅں، دریا کے پانی کی مترنم آوازوں اور پرندوں کی چہچہاہٹوں کے ساتھ آلودگی سے دور تاؤبٹ میں انسانی محسوسات پر چھا جانے والی تمام خصوصیات موجود ہیں۔

تاؤبٹ سے واپس آنے کو دل نہیں چاہا لیکن رات ہم نے کیل میں قیام کرنا تھا، جس کے لئے اندھیرا ہونے سے پہلے کیل پہنچنا اور کرائے پر کمرہ ڈھونڈنا ضروری تھا، چنانچہ اسی جیپ کے ذریعے تین گھنٹے کی تھکا دینے والی مسافت طے کرکے کیل واپس آگئے، کیل میں بھی ہمیں بہترین کمرہ اٹیچ باتھ مل گیا، اس تمام سفر میں کھانا ہم لوگ خود پکالیتے تھے جس کےلئے ہمارے پاس گیس چولہا اور دیگر سامان موجود تھا، روٹیاں اور پراٹھے تندور سے لے لیتے جبکہ سالن اور چاول وغیرہ خود بنالیتے۔

صبح کیل سے اڑنگ کیل کےلئے روانگی ہوئی۔ اڑنگ کیل اونچی جگہ پر واقع دریائے نیلم کے دوسری طرف ایک خوبصورت گاؤں ہے جو کیل سے جنوب کی جانب 2 کلومیٹر ایک پہاڑی ٹیلے کو عبور کرنے کے بعد سرسبز میدان کی صورت نظر آتا ہے، یہ گاؤں خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہے، اس کی خاص بات یہ ہے کہ اس کے چاروں جانب گھنا جنگل جبکہ جنوب کی جانب بلند پہاڑ ہے جس پر سے گلیشئر بہہ کر اس گاؤں کے پچھلے کنارے تک آتا ہے، اڑنگ کیل کیلئے ایک جملہ کہوں گا جس سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ یہ کیا چیز ہے، اڑنگ کیل وادئ نیلم کے ماتھے پر ایک حسین جھومر اور خوابوں کی وادی ہے، اڑنگ کیل گاؤں تک پہنچنے کیلئے کیل سے کیبل کار جو ڈولی کی شکل میں ہے اور مقامی لوگ اسے ڈولی ہی کہتے ہیں، اس کے ذریعے تقریباً ایک کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے یہ ڈولی آپ کو وادی کے دوسرے کنارے پہنچا دیتی ہے، اس کیبل کار جسے میں نے کیبل چنگ چی کا نام دیا تھا اس میں8 بندوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہوتی ہے، اس کیبل کار کے ذریعے سفر بھی بہت ہی دلچسپ ہے، اس ڈولی نما کیبل کار میں بیٹھ کر ایک لمحے کےلئے تو ایسے لگتا ہے جیسے کوئی اڑن کھٹولہ انتہائی بلندی پر چلتے ہوئے ہواؤں کے دوش پر آپ کو کسی نامعلوم مقام کی طرف لے جا رہا ہے لیکن صرف دو منٹ میں ہی آپ کو پتہ لگ جاتا ہے کہ آپ کے اترنے کا ٹائم ہوگیا ہے، ہم جب اس کیبل کار کے ذریعے وادی کے دوسرے کنارے پر جا رہے تھے تو یکدم ایک بادل ہمیں چھوکر گزرا جس کی پھوار جسم و جاں کو تر کرگئی۔کیبل چنگ چی سے اُترنے کے بعد خطرناک اور پھسلن والی چڑھائی چڑھتے ہوئے مضبوط سوٹیوں کا سہارا لیتے ہوئے آدھے گھنٹے کی پیدل مسافت طے کرنی پڑتی ہے، یہ سوٹیاں آپ کو کیبل چنگ چی سے اُترتے ہی کرائے پر مل جاتی ہیں بلکہ اُوپر لےجانے کیلئے گائیڈ بھی خودبخود مل جاتے ہیں جو زبردستی آپ کی راہنمائی کرنے کو تیار ہوجاتے ہیں، بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ ایسے دُشوار اور خطرناک راستوں پر بچت کرنے کی بجائے گائیڈ اور سوٹیوں(sticks) کی مدد لے لینی چاہئے۔کیبل چنگ چی سے اترنے کے بعد اڑنگ کیل گاؤں جانے کیلئے راستہ ایسا دُشوار ہے کہ کئی لوگ راستے میں پھسلن کے خوف سے وہیں سے واپس آجاتے ہیں، جبکہ اکثریت پہنچنے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔

اڑنگ کیل سے ہمارا گروپ خیریت سے واپس کیل اُتر آیا، جہاں سے ہم نے دواریاں بالا کی راہ لی، کیونکہ ہم نے رات وہیں قیام کرنا تھا، دواریاں بالا دریائے نیلم کے کنارے ایک قصبہ ہے جہاں ہمیں رات رہنے کیلئے ایک ہال نُما کمرہ کرائے پر مل گیا، اس کمرے کی خاص بات یہ تھی کہ اس کے ساتھ ہی ایک بڑا کچن تھا جہاں ہمیں اپنا کھانا بنانے میں آسانی تھی،اگلی صبح ہم نے دواریاںبالا سے رتی گلی جانے کیلئے جیپ کروائی، جیپ میں اگرچہ بیٹھنے کو گنجائش کم تھی لیکن ہمارے کئی دوستوں نے کھڑے ہوکر سفر کرنے کو ترجیح دی، کیونکہ جیپ میں کھڑے ہوکر سفر کرنے کا اپنا ہی مزہ ہے لیکن جلد ہی ہمیں اندازہ ہوگیا کہ کھڑے ہونے کا یہ مزہ پسلیوں اور کولہوں کے دردوں میں تبدیل ہوچکا ہے، بلکہ جو بیٹھے تھے انہوں نے بھی سفر کی صعوبت اور ہچکولوں سے خاص حصہ پایا، دواریاں بالا سے رتی گلی کا یہ جیپ ٹریک بہت خطرناک تھا، اور قدم قدم پر ایسے خطرناک موڑ تھے کہ ڈرائیور اور سواریوں کی ذرہ سی غفلت کسی بڑے حادثے کا موجب بن سکتی ہے، راستہ کیا تھا بلکہ بڑے بڑے پتھروں کو عبور کرنا تھا، دوسرے لفظوں میں اگر یہ کہا جائے کہ کئی مقامات پر گزرنے کو راہ ہی نہ تھی تو مناسب ہوگا، یہ دُشوار اور کٹھن سفر ایک مکمل ایڈوینچر تھا بلکہ ہماری حیرت کی کوئی انتہاء نہ رہی جب یہ دیکھا کہ کئی دیوانے اور باہمت لوگ انہی دُشوار راستوں کو موٹرسائیکل پر عبور کر رہے ہیں، اس ٹریک پر سفر کرنا ایسے ہی ہے جیسے موت کے کنویں میں گاڑیاں اور موٹرسائیکلیں چلانا، اس راستے کی دُشوارگزاری کا اندازہ آپ اس طرح بھی لگالیں کہ صرف 18کلومیٹر کا سفر جیپ کے ذریعے طے کرنے میں 3 گھنٹے لگے، کئی جگہ خطرناک چڑھائی چڑھتے ہوئے جیپ کے انجن کو شدید غصہ آجاتا تھا جس کو ٹھنڈا کرنے کیلئے ڈرائیور نے کئی بار جیپ روک کر انجن کے سر پر چشموں کا ٹھنڈا یخ پانی ڈالا،18 کلومیٹر کے فاصلے سے تا حد نظر سبزہ ہی سبزہ تھا۔ کئی جگہوں پر راستوں میں کئی برف کے گلیشیئرز آئے جن کو چند دن پہلے ہی کاٹ کر راستہ بنایا گیا تھا، ان گلیشیئرز کے نیچے بنی غاریں عجیب منظر پیش کر رہی تھیں، گلیشیئرز کے نیچے سے ٹھنڈے چشمے بہہ رہے تھے جن کے پانی کو ہاتھ لگانے سے ہاتھوں کی انگلیاں سن ہوکر جمتی محسوس ہوتی تھیں،بہرحال ایک طرف حسین نظارے اور دوسری طرف ٹریک پر اتنے پتھر تھے کہ جیپ کا سفر کرتے ہوئے ایک جھٹکے سے جسم مشرق کی سمت چلا جاتا اور دوسرے جھٹکے سے مغرب کی جانب۔ بیک وقت جیپ کا سفر بھی تھا اور مفت کے جھولے بھی۔ تین گھنٹے ہڈیوں کی آزمائش کے بعد رتی گلی بیس کیمپ آیا۔ وسیع و عريض سر سبز و شاداب میدان، سرخ پہاڑ، بادل اور ان سب کے درمیان گلیشیئر سے نکلتا ہوا پانی۔ آنکھیں اس منظر سے خیرہ ہو رہی تھیں۔ تھکاوٹ کا احساس جاتا رہا، ذہن کو فرحت ملی۔

روح تک آ گئی تاثیر مسیحائی کی

منظر لطف آور تھا اور نظر اس پر جمی ہوئی تھی لیکن یہ منزل نہیں تھی، یہاں سے ایک گھنٹہ پیدل ٹریک ہے جو رتی جھیل تک جاتا ہے۔ جن کے پاس تو جسمانی اور دماغی ہمت ہے وہ اس ٹریک کو اپنے پاؤں پر عبور کرتے ہیں اور جو اپنے پاؤں میں طاقت نہیں پاتے گھوڑے پر بیٹھ کر رتی جھیل تک پہنچ سکتے ہیں، اتنی چڑھائی تھی کہ سانس پھول گیا لیکن یہ تکلیف گوارا تھی اس لئےکہ ٹریک پر پھول ہی پھول نظر آ رہے تھے جو دماغ پر خمار طاری کر رہے تھے۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد انسان اس آس پرسفر کرتا ہے کہ شاید جھیل تک آگئے ہوں لیکن ہر دفعہ یہی جواب ملتا کہ “چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی”۔ بہرحال خدا خدا کرکے جھیل کے قریب پہنچ کر جھیل کا پہلا منظر دیکھا تو وہ اس قدر ہوش ربا تھا کہ زبان سے بے اختیار سبحان الله کے الفاظ نکلے۔ يقين جانیئے کہ ہم نے ایسا خوب صورت منظر پہلے کبھی نہیں دیکھا۔

رتی گلی جھیل کا پہلا نظارہ یوں ہوتا ہے جیسے زندگی کی تاریک راہوں میں روشنی ہوجائے۔ جیسے صحرا میں آبلہ پائی کے بعد اچانک نخلستان سامنے آ جائے۔ جیسے طویل راتوں کی بے قراری ختم ہو جائے اور سفر کی صعوبتیں زائل ہو جائیں۔ جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آ جائے اور جیسے الله کی قدرت کاملہ پر کسی کافر کو بھی یقین آجائے ہمارے دوست تقریباً2 گھنٹے اس حسن کی دیوی کی مالا جپتے رہے۔ جھیل میں بطخ کی شکل کے گلیشئر بھی بنے ہوئے تھے۔ ہمیں پتہ چلا کہ یہ واحد جھیل ہے جس کی گہرائی کی پیمائش نہیں ہوسکی۔ شام ہونے سے پہلے ہم یہی سفر کر کےرتی گلی جھیل سے واپس دواریاں آئے، دواریاں بالا سے ہم رات تک کیرن پہنچ گئے۔

کیرن دریائے نیلم کے کنارے واقع ایک چھوٹا سا علاقہ ہے۔ اپنے خوبصورت پہاڑی علاقے کے مقابلے میں کیرن کی وجہ شہرت یہاں سے ہندوستانی کنٹرول میں موجود کشمیر کا نظارہ ہے۔ اس سے وہاں آنے والے سیاح کو احساس ہوتا ہے کہ کس طرح ایک ہی علاقے کے دو حصے ایک دوسرے سے جدا ہیں، کیرن ایک لائف ٹائم تجربہ ہے پاکستان کے ہر باشعور شخص کو زندگی میں ایک بار کیرن جانے کے بارے میں سوچنا چاہئے، یہ پہاڑوں میں گھری ہوئی سرسبز اور شاداب وادی ہے، آپ کو چاروں اطراف سے بلند و بالا پہاڑ گھیر لیتے ہیں۔ آپ دریائے نیلم کے کنارے کھڑے ہوجائیں تو آپ کے بالکل سامنے دریا کے دوسرے کنارے بھارتی کشمیر ہے۔ دریا کا ایک کناره پاکستان ہے اور دوسرا کنارہ بھارت۔ آپ کو اپنی ناک کے بالکل سامنے بھارتی حدود میں فصلیں بھی دکھائی دیتی ہیں، مکان بھی، مال مویشی بھی اور چمنیوں سے نکلتا ہوا دھواں بھی، دریائے نیلم آپ کے دائیں بازو گھومتا ہے، بھارتی کشمیر کا علاقہ بھی دریا کے ساتھ دائیں طرف گھوم کر آپ کو گھیر لیتا ہے، آپ خود کو نیم دائرے میں گھرا ہوا محسوس کرتے ہیں، آپ کے سامنے اور دائیں جانب بھارت ہے اور پیچھے اور بائیں جانب پاکستان ہے۔ رات ہم نے کیرن میں ایک بڑا کمرہ کرائے پر لےکر گزاری۔ وادئ نیلم کے اس مقام پر کرائے نسبتا زیاده تھے، صبح ہم کیرن سے اپرنیلم يعنی نیلم گاؤں گئے، یہ کیرن سے اوپر ایک بلند مقام ہے، بلکہ ایک چھوٹا سا شہر ہے جہاں ہر وہ سہولت موجود ہے جو کسی چھوٹے سے شہر میں ہونی چاہئے، بلکہ وادئ نیلم میں ایک جگہ سب سے زیادہ آبادی اگر کہیں ہے تو یہ اپرنیلم ہے، اس کے بلند مقام سے پاکستانی اور بھارتی کشمیر کا نظاره قابل دید ہے۔

اب ہم وادئ نیلم سے واپسی کا سفر شروع کرچکے تھے، راستے میں صرف ایک چیز دیکھنے والی رہ گئی تھی جسے نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پلانٹ کہتے ہیں، تربیلا اور منگلا کے بعد یہ پاکستان کا تیسرا بڑا بجلی پیدا کرنے کا پروجیکٹ ہے، دریائے نیلم کے کنارے تعمیر شده نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ پاکستان میں اپنی نوعیت کا پہلا پاور پلانٹ ہے، جس کے لئے ایک دریا کو دوسرے دریا کے نیچے سے گزارا گیا ہے۔ اس منصوبے کا 90 فیصد حصہ بلند و بالا پہاڑیوں کے نیچے تعمیر کیا گیا ہے اور اس منصوبے کے واٹر وے کو بنانے کیلئے پہاڑ کے اندر 68 کلومیٹر لمبی سرنگ کھودی گئی ہے۔ یہ منصوبہ 969 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے. اس میں 4 پیداواری یونٹ لگائے گئے ہیں اور ہر یونٹ 242 میگا واٹ بجلی پیدا کر نے کی صلاحیت رکھتا ہے کہا جاتا ہے کہ یہ منصوبہ ہر سال تقریباً 5 ارب یونٹ بجلی مہیا کرےگا۔بجلی کے اس عظیم الشان منصوبے کو دیکھتے ہوئے ہماری واپسی ہو رہی تھی۔ پھر مظفرآباد اور مری کے بلندوبالا راستوں کو عبور کرتے اور اسلام آباد سے ہوتے ہوئے براستہ موٹروے رات دس بجے تک خیریت سےگھر پہنچ گئے۔ الحمدللّٰه رب العالمین

(لقمان احمد سلطان)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 مارچ 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 مارچ 2020