• 27 جولائی, 2025

صحابیاتؓ کا حیا سے متعلق مثالی کردار ہمارے لیے مشعل راہ ہے (قسط دوئم)

صحابیاتؓ کا حیا سے متعلق مثالی کردار ہمارے لیے مشعل راہ ہے
قسط دوئم

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مزید فرماتے ہیں :
’’۔۔۔ پھر فرمایا کہ زینت ظاہر نہ کرو۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ جیسا عورتوں کو حکم ہے میک اپ وغیرہ کرکے باہر نہ پھریں۔ باقی قد کاٹھ، ہاتھ پیر، چلنا پھرنا، جب باہر نکلیں گے تو نظر آ ہی جائے گا۔ یہ زینت کے زمرے میں اس طرح نہیں آتے کیونکہ اسلام نے عورتوں کے لئے اس طرح کی قید نہیں رکھی۔ تو فرمایا کہ جو خود بخود ظاہر ہوتی ہواس کے علاوہ۔ باقی چہرے کا پردہ ہونا چاہئے اور یہی اسلام کا حکم ہے۔حضرت مصلح موعودؓ نے اس کی ایک تشریح یہ فرمائی تھی کہ ماتھے سے لے کر ناک تک کا پردہ ہو۔ پھر چادر سامنے گردن سے نیچے آ رہی ہو۔ اس طرح بال بھی نظر نہیں آنے چاہئیں۔ سکارف یا چادر جو بھی چیز عورت اوڑھے وہ پیچھے سے بھی اتنی لمبی ہوکہ بال وغیرہ چھپ جاتے ہوں۔ اِلَّا مَاظَہَرَ مِنْہَا یعنی سوائے اس کے جو آپ ہی آپ ظاہر ہو اس کے بار ہ میں حضرت مصلح موعود ؓ تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : ’’اِلَّا مَاظَھَرَ مِنْھَا یعنی سوائے اس کے جو آپ ہی آپ ظاہر ہو۔ یہ الفاظ دلالت کرتے ہیں کہ جو چیز خود بخود ظاہر ہو شریعت نے صرف اس کوجائز رکھا ہے۔ یہ نہیں کہ جس مقام کو کوئی عورت آپ ظاہر کرنا چاہے۔ اس کا ظاہر کرنا اس کے لئے جائز ہو۔ میرے نزدیک آپ ہی آپ ظاہر ہونے والی موٹی چیزیں دو ہیں یعنی قد اور جسم کی حرکات اور چال لیکن عقلاً یہ بات ظاہر ہے کہ عورت کے کام کے لحاظ سے یا مجبوری کے لحاظ سے جو چیز آپ ہی آپ ظاہر ہو وہ پردے میں داخل نہیں۔ چنانچہ اسی اجازت کے ماتحت طبیب عورتوں کی نبض دیکھتا ہے۔ کیونکہ بیماری مجبور کرتی ہے کہ اس چیز کو ظاہر کردیا جائے۔‘‘

پھر فرمایا کہ: ’’اگر کسی گھرانے کے مشاغل ایسے ہوں کہ عورتوں کو باہر کھیتوں میں یا میدانوں میں کام کرنا پڑے تو اُن کے لئے آنکھوں سے لے کر ناک تک کا حصہ کھلا رکھنا جائز ہوگا۔ اور پردہ ٹوٹا ہوا نہیں سمجھا جائے گا کیونکہ بغیر اس کے کھولنے کے وہ کام نہیں کرسکتیں۔ اور جو حصہ ضروریات زندگی کے لئے اور ضروریاتِ معیشت کے لئے کھولنا پڑتا ہے اس کا کھولنا پردے کے حکم میں ہی شامل ہے۔ … لیکن جس عورت کے کام اسے مجبور نہیں کرتے کہ وہ کھلے میدانوں میں نکل کر کام کرے اُس پر اس اجازت کا اطلاق نہ ہوگا۔ غرض اِلَّا مَاظَھَرَ مِنْھَا کے ماتحت کسی مجبوری کی وجہ سے جتنا حصہ ننگا کرنا پڑے ننگا کیا جاسکتا ہے۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد ششم صفحہ۲۹۸، ۲۹۹)(خطبہ جمعہ فرمودہ 30؍جنوری 2004ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 9؍ اپریل 2004ء صفحہ نمبر9)

’’حیا کے پردے سے بہتر اور کوئی پردہ نہیں‘‘

حضرت خلیفۃ المسیح ا لرابع رحمہ اللہ حیا کی تعریف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’۔۔۔ حضرت زید بن طلحہ ؓآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ روایت بیان کرتے ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر دین اور مذہب کا اپنا ایک خاص خُلق ہوتا ہے اور اسلام کا یہ خُلق حیاء ہے ۔ ہر مذہب کی ایک بنیادی روح ہے اور وہ روح اسے دوسرے مذاہب سے ممتاز کرتی ہے ۔۔۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسلام کی روح حیاء ہے اور حیاءنہ رہے تو کچھ بھی نہیں رہتا ۔ پس یاد رکھیں کہ حیاء کا جہاں تک تعلق ہے یہ صرف عورت کا زیور نہیں یہ مردوں کا بھی زیور ہے اور مردوں اور عورتوں دونوں میں برابر کی چیز ہے ۔بعض دفعہ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ حیا کرنا عورت کا کام ہے ۔امر واقعہ یہ ہے کہ مرد اور عورت دونوں میں برابر کا خُلق ہے ۔اگر یہ نہ ہوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حیاء کو اسلام کا خُلق قرار نہ دیتے بلکہ خواتین سے متعلق تعلیم کے طور پر اسے پیش کرتے۔ بعض صحابہ میں غیر معمولی حیا ء پائی جاتی تھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسے ہر حال میں پسند فرماتے تھے ۔

حضرت عثمان ؓ سے متعلق آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جتنے صحابہؓ تھے ان سب سے زیادہ حیاء حضرت عثمان ؓ میں پائی جاتی تھی ۔یہاں تک کہ اگر مجلس میں آپ کی پنڈلی سے بھی کپڑا اُٹھ جاتا تھا اور اچانک آپؓ کو معلوم ہوتا تھا کہ میری پنڈلی ننگی ہے تو شرما کر فوری طور پر چادر کھینچ کر اپنی پنڈلی چھُپا لیا کرتے تھے ۔تو حیاء مردوں کا بھی زیور ہے اور عورتوں کا بھی لیکن عورتوں کا ان معنوں میں بھی زیور ہے کہ عورت کے طبعی اور فطری حسن کا حیاء سے تعلق ہے ۔ حسن کا دکھاوا اور اس کی نمائش تو منع ہے لیکن حسن تو اللہ کو پسند ہے اور ہر عورت کی فطرت میں ہے کہ وہ حسین ہو اور حقیقت یہ ہے کہ حسن کا حیاء سے ایک بہت گہرا تعلق ہے ۔جس عورت کی حیاء اُڑنی شروع ہو جائے یاد رکھیں اس کا حسن اُڑنا شروع ہو جاتا ہے وہ پھول جس سے رنگت اُڑ جائے ،وہ پھول جس کی خوشبو اس سے باغی ہو جائے ،اس پھول کا چہرہ بالکل بے رونق اور بے حقیقت سا دکھائی دینے لگتا ہے ۔ پس حسن کا حیا ء سے ایک بہت گہرا تعلق ہے خصوصاً عورت کے اندر جو اللہ تعالیٰ نے فطری طور پر حسن کی ادائیں رکھی ہیں یا حسن کی باتیں رکھی ہیں ان میں حیا ایسے ہی ہے جیسے کہ میں نے بیان کیا کہ پھول کی خوشبو اور پھول کی رنگت ہو ۔ پس آپ گرد وپیش میں نگاہ ڈال کر دیکھ لیں ۔آپ میں سے ہر ایک کا دل گواہی دے گا کہ وہ عورت جس کی حیااٹھتی ہو خواہ دوسرے معنوں میں بے حیا نہ بھی ہو مگر روز مرہ کی بعض باتوں کے نتیجے میں حیا کچھ اٹھتی جاتی ہے اس کا حسن بھی اسی حد تک اُڑ جاتا ہے اور اُسی حد تک اس میں ایک کشش کم ہو تی جاتی ہے۔‘‘

(حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے مستورات سے خطابات، خطاب 8ستمبر 1995ء، صفحہ441۔442)

آپ ؒ نے اس بارہ میں مزید فرمایا :
’’حضرت ابو مسعود ؓآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت فرماتے ہیں۔ بخاری کتاب الادب سے یہ روایت لی گئی ہے کہ سابقہ انبیاء کے حکیمانہ اقوال میں سے جو لوگوں تک پہنچتے رہے ایک یہ ہے کہ جب حیا اٹھ جائے تو پھر انسان جو چاہے کرتا پھرے ۔الفاظ یہ ہیں۔ اِذْ لَمْ تَسْتَحْی فَا صْنَعُ مَا شِئْتَ

(بخاری کتاب الادب باب اذ لم تستھی فاصنع ماشئت)

جس کا مطلب یہ ہے کہ اکثر گناہوں کا ارتکاب بے حیائی کے نتیجے میں ہوتا ہے ۔امرِ واقعہ یہ ہے کہ اس پہلو پر انسان بہت کم نظر کرتا ہے کہ ہر گناہ کا آغاز بے حیائی سے ہوتا ہے اور حیا توڑ کر گناہ کرنا پڑتا ہے۔ پہلی دفعہ اگر کوئی بچہ چوری کرے تو چوری سے بھی اس کو حیا آتی ہے ،اگر کوئی پہلی بار جھوٹ بولے تو جھوٹ سے بھی اس کو حیا آتی ہے، بد تمیزی کرے اور اگر پہلی بار با لارادہ بد تمیزی کرتا ہے تو لازماً اس کو اس بد تمیزی سے بھی حیا آئے گی ۔پس حیا گناہ کے رستے کی ایک روک ہے اور بے حیائی ہر گناہ کے لئے دروازے کھولتی ہے ۔

پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ انبیاء جو بہت حکیمانہ کلام کیا کرتے تھے ان کے پُر حکمت کلام کا یہ ایک نمونہ ہے کہ وہ کہا کرتے تھے۔ اِذْ لَمْ تَسْتَحْی فَا صْنَعُ مَا شِئْتَ جب تم میں حیاء ہی باقی نہیں رہی تو پھر جو چاہے کرتا پھر۔ فارسی میں بھی ایک محاورہ ہے جو غالباً اسی انبیاء کے حکیمانہ قول سے لیا گیا ہے۔ ’’بے حیا ء باش ہر چہ خواہی کن‘‘ بے حیاء ہو جا بس یہ شرط ہے پھر جو چاہے کرتا پھر ،پھر کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ تو یہ پردے کی روح ہے اور پردے کی ہی نہیں ہر عصمت کی روح ہے اور یہ وہ روح ہے جو عورتوں سے خاص نہیں بلکہ مردوں اور عورتوں دونوں سے خاص ہے اس لئے حیاء کی حفاظت کریں اور اپنے بچوں میں بھی حیاء کو قائم کریں ۔ حیاء سے مراد صرف مردوں ،عورتوں کے تعلقات کی حیاء نہیں ہے ۔حیا فی ذاتہ ایک خُلق ہے جو ہر گناہ کے مقابل پر ایک پردہ ہے ۔پس وہ عورتیں جو معلوم کرنا چاہتی ہیں کہ اسلامی پردہ کیا ہے؟ میں ان کو یقین دلاتا ہوں کہ اسلامی پردہ حیاء ہے۔ اگر آپ اپنی حیاء کی حفاظت کریں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے خدا کے فرشتے آپ کی ہر قسم کی خرابیوں اور گناہوں سے حفاظت کریں گے کیونکہ حیاء کے پردے سے بہتر کوئی اور پردہ نہیں ۔ پس اپنے بچوں کو بھی حیاء دار بنائیں ،حیا کا مردانگی سے ایک تعلق ہے اور ایک تعلق نہیں بھی ہے ۔ حیا سے یہ مراد ہر گز نہیں کہ نیک کاموں سے انسان حیا کرے یا بہادری کے کاموں سے انسان حیا کرے۔ وہ مواقع جہاں جان دینے کی باتیں ہو رہی ہوں وہاں حیا بے حیائی ہے اور شرم کا مقام ہے ۔اور امر واقعہ یہ ہے کہ وہاں حیا کا مضمون بالکل اُلٹ جاتا ہے۔‘‘

(حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے مستورات سے خطابات، خطاب 8ستمبر 1995ء، صفحہ 445)

صحابیات رضی اللہ عنہن کی حیا اور پردہ کے مثالی نمونے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :
’’جہالت کے اندھیروں سے نکل کر جب اسلام کی روشنی حاصل کی تو علم کی روشنی پھیلانے کا منبع ایک عورت بن گئی، پردے وغیرہ کی تمام رعایت کے سا تھ بڑوں بڑوں کو دین کے مسائل سکھائے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سرٹیفیکیٹ حاصل کیا کہ دین کا آدھا علم اگر حاصل کرنا ہے تو عائشہ سے حاصل کرو۔میدانِ جنگ میں اگر مثال قائم کی تو اپنے پردے کے تقدس کو قائم رکھتے ہوئے، اپنی جرأت و بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے رومیوں کی فوج سے اکیلی اپنے قیدی بھائی کو آزاد کرواکے لے آئی اور تاریخ میں اس عورت کا ذکر حضرت خولہ کے نام سے آتا ہے۔ پھر مدینہ پر جب کفار کا حملہ ہوا تو مرد اگر خندق کھود کر شہر کی اس طرف سے حفاظت کررہے تھے تو گھروں کی حفاظت عورتوں نے اپنے ذمّہ لے لی اور جب یہو د یوں نے جاسوسی کرنے کیلئے اپنا ایک آدمی بھیجا کہ پتہ کرو تاکہ ہم اس طرف سے حملہ کریں اور مدینہ پر قبضہ کرلیں تو مرد تو اس جاسوس کے مقابلے پر نہ آیا لیکن عورت نے اس کو زخمی کرکے، مار کے باندھ دیا اور اٹھاکر اس کو باہر پھینک دیا۔

جنگِ اُحد میں مسلمانوں کے پاؤں اکھڑ گئے تو اس وقت عورتیں ہی تھیں جنہوں نے دین کی غیر ت میں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں ایک مثالی کردار ادا کیا اور وفا کی ایک مثال قائم کردی۔ پس یہ طا قت، یہ جرأت، یہ وفا، یہ علم ان میں اسلام کی تعلیم پر عمل کرنے اور اسے اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے کی وجہ سے آیا تھا۔‘‘

(بحوالہ لجنہ اماء ا للہ برطانیہ کے سالانہ اجتماع کے موقع پرخطاب 19؍ نومبر 2006ء)

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا شرم و حیا کا پیکر

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہاشرم و حیا کا پیکر تھیں۔ آپ ؓ کے بارے میں حضرت کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ’’بے شک فاطمہ نے اپنی شرم گاہ کی حفاظت کی ۔یقیناً اللہ تعالیٰ انہیں پاکدامنی کی وجہ سے اور ان کی اولاد کو جنت میں داخل فرمائے گا یہ بھی فرمایا اللہ تعالیٰ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا اور اسکی اولاد پر جہنم حرام کردی۔‘‘

(مستدرک حاکم ۔طبرانی ۔جمع الجوامع بحوالہ (ازدواج مطہرات و صحابیات انسائیکلوپیڈیا صفحہ292)

آپؓ پردے کی نہایت پابند تھیں ۔ ایک مرتبہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپؓ سے پوچھا کہ عورت کی سب سے اچھی صفت کونسی ہے؟ آپؓ نے جواب دیا اپنی نگاہ نیچی رکھے اپنی زینت کو چھپائے ۔کہ نہ وہ کسی غیرمرد کو دیکھے اور نہ کوئی غیرمرد اُس کو دیکھے۔ حضور ؐ یہ جواب سن کر بہت خوش ہوئے۔

(احیاء العلوم امام غزالی)(ماخوذ تاریخ اسلام کی نامور خواتین صفحہ120)

وفات سے پہلے اسما ء بنت عمیس ؓ کو بلا کر فرمایا ’’میرا جنازہ لے جاتے وقت اورتدفین کےوقت پردہ کا پورا لحاظ رکھنا اور سوائے اپنے اور میرے شوہر نامدار کے کسی اور سے غسل میں مدد نہ لینا تدفین کے وقت زیادہ ہجوم نہ ہونے دینا۔‘‘

(بحوالہ تاریخ اسلام کی نامور خواتین صفحہ 118)

ایک اور واقعہ ملتا ہے ۔ حضرت فاطمہؓ کے مزاج میں انتہا کی شرم و حیا تھی۔اس لئے ان کی وصیت کے مطابق جنازہ پر کھجور کی شاخیں باندھ کر اوپر پردہ لگا دیا گیا اور چونکہ تدفین رات کے وقت ہوئی اس لئے بہت کم لوگوں کو شریک ہونے کا موقع ملا۔ حضرت علی ؓنے وصیت کے مطابق رات کو ہی دفن کیا۔

(بحوالہ سیرت حضرت فاطمہ الازہرہ،لجنہ کراچی)

حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کی حیا

حضرت رقیہ ؓخوبرو موزوں اندام تھیں۔ زرقانی میں ہے۔ وہ نہایت خوبصورت تھیں۔ نہ صرف خوبصورت بلکہ خوب سیرت بھی ۔آپ حیاء دار، پاک اور نفیس طبیعت کی مالک تھیں ۔آپ نے عصمت وپرہیزگاری زہد و تقویٰ، نفاست و طہارت، شرم وحیا، حمیت اور غیرت اور دیگر اوصاف کریمہ اور اخلاق عالیہ ورثہ میں پائے تھے۔

(کتب لجنہ کراچی بحوالہ حضرت رقیہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم صفحہ 13)

ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حیا کے بے نظیر واقعات

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے مسلمان خواتین کی اصلاح اور تعلیم و تربیت کاوہ کام سرانجام دیا جس کی نظیر تاریخ عالم میں نہیں ملتی ۔مسائل کی سمجھ اور احکام کو یاد رکھنے میں تمام ازواج میں سب سے بہتر تھیں اس بناء پر شوہر کی نظر میں سب سے زیادہ محبوب تھیں۔ آپ ؓ کا یہ اصول یہ تھا کہ جب تک وہ واقعہ کو اچھی طرح سمجھ نہیں لیتی تھیںاس کی روایت نہیں کرتی تھیں۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی تو آپؐ سے اس کو بار بار پوچھ کر تسکین کرتی تھیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ہی بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ رضی اللہ عنہم حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے علم و فضل سے اُن کا لوہا مانتے اور فیض یاب ہوتے نظر آتے ہیں حتیّٰ کہ حدیث میں آیاہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحا بہؓ کو کوئی علمی مشکل ایسی پیش نہیں آئی کہ اس کا حل حضرت عائشہؓ کے پاس نہ مل گیا ہو۔

(ترمذی باب مناقب عائشہ)

امہات المومنین اور صحابیات رضی الہہ عنہن کی حیا کے لازوال نمونے پیش خدمت ہیں

اسوہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا :پردے کا حکم نازل ہونے کے بعد سختی سے اس کی پابندی کی۔ کبھی کسی غیر محرم کے سامنے نہیں آئیں۔ ایک مرتبہ ایک نابینا شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوا آپؓ نے ان سے پردہ کیا اس نے تعجب کیا اور پوچھا ام المومنینؓ مجھ سے کیا پردہ؟ میں تو نہیں دیکھ سکتا ۔حضرت عائشہ ؓنے فرمایا تم مجھے نہیں دیکھ سکتے میں تو تمہیںدیکھ سکتی ہوں اپنے گھر میں ایک پردہ ڈال رکھا تھا جو صحابی کوئی مسئلہ پوچھنے آتا آپؓ پردے کے پیچھے سے اس سے کلام فرماتیں وفات تک یہی طریقہ رہا۔

(بحوالہ ’’عائشہ صدیقہ‘‘ لجنہ قادیان صفحہ 19 تا21)

جیسا کہ پہلے بھی بیان ہوچکا ہے ’’حضرت عائشہ ؓنے خود بھی جنگوں میں حصہ لیا اور ایک دفعہ ایک جنگ کی کمان کی ۔جنگ جمل میں اپنے اونٹ پر بیٹھ کر سارے لشکر کی کمان کی تھی۔ پردہ کے احکام نازل ہوئے تو حضرت عائشہ نے پردہ کی سختی سے پابندی کی اور پردہ کے احکام کے اندر رہتے ہوئے تمام کام کیے۔ بعض اوقات علوم دین کے تعلق میں کتنے اجتماعات کو خطاب کیا اور صحابہ بکثرت دین سیکھنے کے لئے آپ کے دروازے پر حاضری دیا کرتے تھے ۔پردہ کی پابندی کے ساتھ آپ تمام سائلین کے تشفی بخش جواب دیا کرتی تھیں۔ حضرت عائشہ نے اپنے گھر میں ایک پردہ ڈال رکھا تھا۔ جو صحابی مسئلہ پوچھنے آتے آپ پردہ کے پیچھے سے اس سے کلام فرمایا کرتیں۔ وفات تک یہی طریقہ رہا۔‘‘

(بحوالہ ’’عائشہ صدیقہ‘‘ لجنہ قادیان صفحہ 20)

آپ ؓحیا کا انتہائی اعلی عملی نمونہ پیش کرتی ہیں کہ زندہ اور فوت شدہ سب سے حیا کرتے ہوئے پردہ کرتیں

ایک اور روایت میں آتا ہے حضرت عائشہ کے پردے کی انتہا یہ ہے کہ حضرت عمر ؓ کے شہید ہونے کے بعد آپؓ کی اجازت سے آپ کے حجرے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر ؓکے ساتھ دفن ہوئے تو حضرت عائشہؓ فرمایا کرتی تھیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کےمزار اقدس پر بے پردہ جاتے ہوئے حجاب آتا ہے کیونکہ وہاں عمرؓ دفن ہیں۔ کتنی پابندی کی پردے کی ۔حالانکہ مردے ہزاروں من مٹی کے نیچے پڑے نہ دیکھ سکتے ہیں نہ سن سکتے ہیں پھر بھی حجاب اور حیا کا یہ عالم تھا۔

(ماخوذ از ازواج مطہراتؓ و صحابیات ؓ انسائیکلوپیڈیا صفحہ129)

ایک مرتبہ اُمّ المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی خدمت میں ان کے بھائی حضرت عبد الر حمٰن ؓ کی بیٹی حضرت حفصہ ؓ حاضر ہوئیں ،انہوں نے ایک باریک دوپٹہ اوڑھ رکھا تھا ،حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا باریک دوپٹہ لینے پر ناراض ہوئیں اس دوپٹہ کو پھاڑ دیا اور انہیں اپنا ایک موٹا دوپٹہ اوڑھا دیا ۔

(موطا امام مالک ،کتاب اللباس ،باب ما یکرہ للنساء ،صفحہ 485 حدیث 1739)

حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ ’’جب ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ حج کے موقع پر احرام باندھے ہوئے چلتے تھے تو جب قافلے والے ہمارے پاس سے گزرتے تو ہم اپنا منہ ڈھانپ لیتی تھیں اور جب قافلے والے گزر جاتے تو منہ کھول دیتی تھیں ۔کتنی پابندی کرتیں تھیں پردہ کی۔‘‘

(حضرت عائشہؓ از رضیہ دردصاحبہ صفحہ 21)

اس بارے میں روایت میں ذکر ملتا ہےکہ قافلے ہمارے پاس سے گزرتے جبکہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ احرام باندھے ہوئے تھیں۔ جب وہ لوگ ہمارے سامنے سے گزرتے تو ہم میں سے ہر ایک اپنی جِلبَاب (برقع نما بڑی چادر) سر سے نیچے لٹکا لیتی (اس احتیاط سے کہ منہ پر نہ لگے) اور جب وہ لوگ آگے گزر جاتے تو ہٹا دیتی ۔

(ابو داؤد کتاب المناسک باب فی المحرمۃ تغطی وجھہاصفحہ 297، حدیث 1833)

حیا کا تقدس برقرار رکھتے ہوئے مسلم خواتین بالخصوص ازواج مطہرات کی حیات طیبہ کے حوالے سے کئی مثالیں ملتی ہیں جن سے علم ہوتا ہے ’’کہ اسلام سے پہلے عورتوں کو جنگ میں رنگ و طرب کی محفلیں سجانے اور ناچ گانے کے لئے شریک کیا جاتا تھا ۔تاریخ میں پہلی دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کا تقدس بحال کرتے ہوئے زخمیوں کی مرہم پٹی ،تیمار داری اور نرسنگ کے لئے خواتین کو جنگ میں شریک کیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرعہ اندازی کے ذریعہ اپنی ازواج کو شریک سفر کرتے۔ غزوہ احد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ حضرت عائشہؓ اور صاحبزادی حضرت فاطمہ ؓنے بھی زخمیوں کو پانی پلانے اور مرہم پٹی کی خدمات سر انجام دیں۔ حدیبیہ اور سفر فتح مکہ میں حضرت اُمّ سلمہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھیں۔‘‘ (ازواج النبیؐ، تعدد ازواج ،صفحہ 18۔19) جس سے علم ہوتا ہے کہ اسلام عورتوں کو زنداں کے قیدی کے طور پہ نہیں لیتا بلکہ انکے حقوق کو قائم فرما کر معاشرے کا مفید وجود بھی بنا دیتا ہے ۔اور خواتین کو ہمیشہ یہی حکم دیتا ہے کہ ہر حالت میں اپنے تقدس کا اپنی حیا کی پاسداری کا اہتمام کریں ۔اس طرح پردے کے احکام نازل ہونے سے قبل بھی اگر دیکھیں تو نظر آتا ہے کہ پردہ اگر نہیں بھی تھا تو بھی حیا کا معیار نہایت عمدہ تھا اور یہ ہمیں اس واقعہ میں نظر آتا ہے۔

’’غزوہ بنو مصطلق (جسے غزوۂ مر یسیع بھی کہا جاتا ہے) میں حضرت عائشہؓ کا ہار گم ہوا۔ حضرت عائشہؓ بیان فرماتی ہیں کہ ’’اس زمانہ میں سفروں میں عورتوں کو ہودج سمیت اٹھا کر اونٹوں پر رکھ دیا جاتا تھا۔اس سفر میں فجر کے وقت جب قافلے نے کوچ کرنا تھا اس سے قبل آپؓ قضائے حاجت کے لئے باہر تشریف لے گئیں ۔واپس آکر گلے پر جو ہاتھ پھیرا تو آپ ؓ کا ہار موجود نہیں تھا ۔آپؓ گھبراہٹ میں واپس جا کر ہا ر تلاش کرنے لگیں اور صبح کی روشنی ہو جانے تک ڈھونڈتی رہیں ۔ ہار تو مل گیا لیکن آپ کی واپسی تک قافلہ روانہ ہو چکا تھا ۔ آپؓ فرماتی تھیں کہ میں سخت پریشان ہوئی جنگل میں تن تنہا اکیلی وہاں آکر جو لیٹی ہوں تو آنکھ لگ گئی ۔ جو کسی کی با آواز بلند اِنَّا للہ پڑھنے سے کھلی۔ یہ شتر سوار صحابی رسول حضرت صفوان ؓ بن معطّل تھے جو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق لشکر کے پیچھے حفاظتی نقطۂ نظر سے یہ جائزہ لیتے آرہے تھے کہ کوئی خطرہ تو نہیں یا قافلے کی کوئی چیز پیچھے تو نہیں رہ گئی ۔ اچانک ان کی نظر فرش زمین پر سوئی ہوئی حضرت عائشہؓ پر پڑی تو بے اختیار اُن کی زبان پر یہ الفاظ جاری ہو گئے اِنَّاللہ وَ انَّا اِلَیہِ رَاجِعُوْن۔ یہ سن کر حضرت عائشہؓ اٹھ کر بیٹھ گئیں۔ وہ بیان کرتی ہیں کہ پردے کے احکامات نازل ہونے سے قبل اس صحابی ٔ رسول نے مجھے دیکھا ہوا تھا اس لئے پہچان لیا ،میں نے فوراً پردہ کر لیا۔ حضرت عائشہؓ کی اپنی گواہی اس صحابی کے بارہ میں یہ ہے کہ: صفوان شریف النفس انسان تھا اس نے مجھ سے کوئی بات تک نہیں کی بس اونٹ کو میرے سامنے لا کر بٹھا دیا اور مہار پکڑے رکھی اور میں اونٹ پر سوار ہو گئی۔‘‘

(ازواج النبی ؐ، حضرت عائشہؓ ،صفحہ73)

اسی طرح حضرت عائشہؓ کے متعلق آتا ہے کہ جب وہ جنگ صفین میں فوج کو لڑا رہی تھیں تو انکی ہودج کی رسیوں کو کاٹ کر گرا دیا گیا تو ایک خبیث الطبع خارجی نے انکے ہودج کا پردہ اٹھا کر کہا تھا کہ اوہو یہ تو سرخ و سفید رنگ کی عورت ہے۔ اگر رسول کریم صلی اللہ وسلم کی بیویوں میں منہ کھلا رکھنے کا طریق رائج ہوتا تو جب حضرت عائشہؓ ہودج میں بیٹھی فوج کو لڑا رہی تھیں۔اس وقت وہ انہیں دیکھ چکا ہوتا اور اس کے لیے کوئی تعجب کی بات نہ ہوتی اسی طرح بہت سے ایسے واقعات ملتے ہیں کہ بعض طبقات کی عورتوں کے لئے منہ کو جس قدر ہوسکے چھپانے کا ہی حکم ہے قرآن مجید کی ایک آیت بھی اس بات پر دلالت کرتی ہے ۔۔۔ اپنے سر کے رومالوں کو کھینچ کر اپنے سینوں تک لے آیا کریں خمار کسی چادر یا دوپٹے کا نام نہیں بلکہ اس رومال کا نام ہے جو کام کرتے وقت عورتیں سر پر رکھ لیا کرتی ہیں پس اس کے یہ معنی نہیں کہ دوپٹے کی آنچل کو اپنے سینوں پر ڈال لیا کریں کیونکہ خمارکی آنچل نہیں ہوتی چھوٹا ہوتا ہے۔ اس کے یہ معنی ہیں کہ سر سے رومال کو اتنا نیچاکرو کہ وہ سینے تک آجائے۔ جس کے معنی ہیں کہ سامنے سے آنے والے آدمی کو منہ نظر نہ آئے۔‘‘

(بحوالہ اوڑھنی والیوں کے لئے پھول جلداول صفحہ202)

اُمّ المؤمنین حضرت اُمّ سلمیٰ رضی اللہ عنہا کی سیرت کے مطالعہ سے علم ہوتا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہا بہت حیا دار تھیں۔ شادی کے بعد بھی حضورﷺ سے شرماتی تھیں۔ شروع شروع میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لاتے تو آپؓ شرم سے اپنی لڑکی زینب کو گود میں بٹھا لیتی تھیں۔ آپؐ یہ دیکھ کر واپس چلے جاتے۔ حضرت عمار رضی اللہ عنہ بن یاسر جو حضرت ام سلمیٰ رضی اللہ عنہا کے رضائی بھائی یا ماں کی طرف سے بھائی تھے، کو معلوم ہوا تو بہت ناراض ہوئے اور لڑکی کو اپنے پاس لے گئے لیکن بعد میں یہ عادت کم ہوتی گئی اور جس طرح دوسری بیویاں رہتیں آپ بھی رہنے لگیں ۔

(ماخوذ از ازواج مطہرات و صحابیات کا انسائیکلوپیڈیاصفحہ167)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ ؓسے بے حد محبت تھی ۔ ۔۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ روایت کرتی ہیں کہ آپ سب سے پہلے ام سلمہ ؓ کے گھر تشریف لے جاتے کیونکہ وہ ہم میں سب سے بڑی تھیں اور اختتام حضرت عائشہؓ کے حجرے پر کرتے ۔ایک مرتبہ حضرت ام سلمہؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھی ہوئی تھیں کہ جبرائیل علیہ السلام آئے آپﷺ نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو بتایا کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام تھے جو دحیہ کلبی کے روپ میں تشریف لائے تھے اس طرح حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی بھی جبرائیل علیہ السلام سے ملاقات ہوگئی۔

(ماخوذ از سیرت ام سلمیٰ ؓ ص10)

اُمّ المؤمنین حضرت اُمّ سلمیٰ ؓبیان کرتی ہیں کہ ’’میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھی اور میمونہ ؓ بھی ساتھ تھیں۔ تو ابن ام مکتوم ؓ آئے۔ یہ پردہ کے حکم کے نزول سے بعد کی بات ہے۔ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس سے پردہ کرو۔ ہم نے عرض کی یا رسول اللہ کیا وہ نابینا نہیں؟ نہ وہ ہمیں دیکھ سکتا ہے اور نہ ہی پہچان سکتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم دونوں بھی اندھی ہو۔ اور تم اس کو دیکھ نہیں رہیں۔‘‘

(ترمذی کتاب الأدب عن رسول اللہ باب ما جاء فی احتجاب النساء من الرجال۔خدیجہ سیرت صحابیات شمارہ نمبر1/2011)

دیکھیں کس قدرپابندی ہے پردہ کی کہ غض بصر کا حکم مردوں کو تو ہے، ساتھ ہی عورتوں کے لئے بھی ہے کہ تم نے کسی دوسرے مرد کو بلا وجہ نہیں دیکھنا۔

حضرت ام سلمیٰ ؓکی ہجرت مدینہ کے واقعہ میں درج ہے گو اس وقت پردہ کا حکم لازم نہیں ہوا تھا مگر اس واقعہ میں ایک سبق ہے کہ آپ ؓ نے اپنی حیا اور پردے کے تقدس کو بہرحال قائم رکھا۔ نہ صرف آپؓ بلکہ اس زمانے کےشرفا میں بھی حیا پائی جاتی تھی۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو قبیلے والوں نے بچہ دے کر مدینہ جانے کی اجازت دے دی۔چنانچہ آپؓ بچہ لے کر مدینہ کی طرف اکیلے ہی روانہ ہوگئیں جب حضرت ام سلمیٰؓ تنعیم کے مقام پر پہنچیں تو حضرت عثمان بن طلحہؓ سے ملاقات ہوئی۔ ان کے ام سلمیٰؓ اور ان کے خاوند سے بڑے اچھے تعلقات تھے۔ اس نے آپؓ سے پوچھا۔ کہ کدھر کا ارادہ ہے۔

(باقی اِن شاء اللہ آئندہ)

(از: درثمین احمد جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 مارچ 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 مارچ 2021