• 26 اپریل, 2024

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ یکم مئی 2020ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آبادٹلفورڈ یو کے

خلاصہ خطبہ جمعہ

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ یکم مئی 2020ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد ٹلفورڈ یو کے

جماعت احمدیہ کے تین مخلص، وفادار اور وقف کی روح کو سمجھتے ہوئے خدمت گزار احباب کی وفات پر مرحومین کا ذکر خیر اور جماعتی خدمات کا تذکرہ

ہرڈاکٹر جہاں علاج کے ساتھ مریض کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آئیں وہاں اُن کے لئے دُعا بھی ضرور کیا کریں اور اگر نفل پڑھیں تو بہت اچھی بات ہے

مرحومین دین کو دُنیا پر مقدم کرنے کے عہد بیعت کو نبھانے، بیعت کا حق ادا کرنے، خلافت احمدیہ سے کامل وفا اور اخلاص کا تعلق رکھنے اورحقوق اللہ و حقوق العباد کا حق ادا کرنے والے تھے

جو وفا انہوں نے خدا تعالیٰ اور اس کے دین کے ساتھ کی ہے اور جس طرح اپنے عہد بیعت نبھانے کی کوشش کی ہے اللہ تعالیٰ اس سے بڑھ کر ان سے پیار کا سلوک فرمائے

سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح ا لخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نےمورخہ یکم مئی 2020ء کو مسجد مبارک ، اسلام آباد ٹلفورڈ یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو کہ مختلف زبانوں میں تراجم کے ساتھ ایم ٹی اے انٹرنیشنل پر براہِ راست نشر کیا گیا ۔حضور انور نے فرمایا :اس وقت میں چند مرحومین کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جن کی گزشتہ دنوں وفات ہوئی۔ ان میں سے ہر ایک مختلف پیشے سے منسلک تھا، مختلف مصروفیات تھیں، تعلیمی معیار مختلف تھے لیکن یہ چیز ان میں مشترک تھی کہ دین کو دُنیا پر مقدم کرنے کے عہد بیعت کو اپنی طاقتوں کے مطابق نبھانے والے ،حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کا حق ادا کرنے والے، خلافت احمدیہ سے کامل وفا اور اخلاص کا تعلق رکھنے والے ،حقوق العباد کا حق ادا کرنے والے تھے۔جن مرحومین کا ذکر مَیں نے کرنا ہے اُن میں سے ایک ہیں مکرم ذوالفقار احمد دامانک ریجنل مبلغ انڈونیشیا کے، جو 21۔اپریل کو 42 سال کی عمر میں وفات پا گئے۔مرحوم 24مئی 1978ء کو نارتھ سماٹرا میں پیدا ہوئے۔ مرحوم کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ ان کے دادا مکرم شہنور ڈمانک کے ذریعہ سے ہوا تھا جنہوں نے 1944ء میں بیعت کی تھی۔ مرحوم نے 1997ء سے 2002ء تک جامعہ احمدیہ انڈونیشیا میں تعلیم حاصل کی۔ پھر اس کے بعد18 سال مختلف جگہوں پر بطور مبلغ سلسلہ خدمت سرانجام دینے کی توفیق پائی ۔ پسماندگان میں ان کی اہلیہ مکرمہ مریم صدیقہ اور چار بچے ہیں جو کہ وقف نو کی سکیم میں شامل ہیں۔ذوالفقار صاحب بہت ہی کامیاب اور محنتی مبلغ تھے ۔ تربیت اور تبلیغ کے کاموں کو نہایت عمدگی سے سرانجام دیتے تھے۔ ہر ایک کے ساتھ نرمی سے بات کرتے اور سب کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھتے، ہمیشہ مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ دوسروں کوملتے ۔ کبھی کسی چیز کا مطالبہ نہیں کرتے تھے بلکہ ہمیشہ دُعاکرنے کی تلقین کیا کرتے تھے اوریہی وہ خاصیت ہے جو ایک واقف زندگی کی روح ہے اور اس میں ہونی چاہئے کہ ہمیشہ اگر کچھ مانگنا ہے تو خدا تعالیٰ سے مانگے اور کبھی مطالبہ نہ کرے اور یہ انتہائی ضروری خصوصیت ہے جو ہر واقف زندگی کو اپنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ موصوف ان مبلغین میں شامل تھے جنہیں کثیر تعداد میں بیعتیں کروانے کی سعادت ملی ۔ 2018ء میں یہاں جلسہ پر آنے کا بھی موقع ملا ۔ نہایت صالح، مخلص اور فرمانبردار تھے۔ علالت کے ایام میں بھی جماعتی خدمات کو ترجیح دیتے تھے۔ آپ کو متعدد بار مختلف یونیورسٹیوں میں لیکچر دینے کا بھی موقع ملا۔ اس کے علاوہ آپ نے صوبہ میں بہت ساری lost generations کے ساتھ رابطہ کر کے اُنہیں جماعت کے بارے میں تعارف کرایا اور پورے صوبے میں اس طرح کی مہم جاری رکھی اور ایک لوکل جماعت سنگیگی کو تقریباً بیس سال کے بعد دوبارہ قائم کرنے کی ان کو توفیق ملی۔ موصوف ڈائلیسز کی وجہ سے ہسپتال میں زیر علاج تھے تو اس حالت میں بھی ایک لوکل اجلاس میں شامل ہوئے وہاں کے خادم نے جب آپ سے پوچھا کہ آپ نے اتنی تکلیف کیوں اُٹھائی تو اس پرآپ نے اُسے جواب دیا کہ جب تک مجھ میں جان ہے مَیں جماعت کے تمام پروگراموں میں شامل ہونے کی کوشش کرتا رہوں گا اگرچہ میں بیمار بھی ہوں لیکن میری خواہش ہے کہ میں ہمیشہ خدمت دین کے کاموں میں مصروف رہوں۔ یہ ہے وہ واقف زندگی کا جذبہ جو ہر ایک واقف زندگی میں ہونا چاہئے نہ یہ کہ ذرہ ذرہ سی بات پر پریشانیوں کا بعض لوگ جو اظہار شروع کر دیتے ہیں وہ اظہار شروع ہو جائے۔

فرمایا : قادیان جانے سے پہلے جب مرحوم بہت زیادہ بیمار تھے تو یہ دُعا کیا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ اتنی عمر دے کہ مَیں قادیان جا سکوں۔ آپ کہتے تھے کہ بیت اللہ میں عمرہ بھی کرنے کی توفیق اللہ تعالیٰ نے دی اور خلیفۂ وقت سے ملاقات کا بھی موقع مل گیا، اب قادیان کی زیارت کی حسرت باقی ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی اُن کی خواہش پوری فرمائی اورقادیان کی زیارت اُنہیں نصیب ہوئی۔ طبیعت میں بہت عاجزی اور انکساری تھی۔ مرحوم بہت ہی پختہ ارادے والے اور وفا کے ساتھ اپنا وقف نبھانے والے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے ۔ ان کی اہلیہ اور ان کے بچوں کو اپنی حفاظت میں رکھے اور خود ہی ان کا کفیل بھی ہو۔

حضور انور نے فرمایا : دوسرے مرحوم جن کا مَیں نے ذکر کرنا ہے وہ ہیں ڈاکٹر پیر محمد نقی الدین اسلام آباد پاکستان کے جو 18۔اپریل کو وفات پا گئے تھے ۔وفات سے کوئی ہفتہ عشرہ قبل ان کو کورونا وائرس کی علامات ظاہر ہوئیں۔ مرحوم کے پسماندگان میں ان کی اہلیہ کے علاوہ ایک بیٹا اور چار بیٹیاں شامل ہیں۔ سب شادی شدہ ہیں اور اپنے اپنے گھروں میں آباد ہیں۔ پیر محمد نقی الدین کے ددھیال اور ننھیال سب صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے۔ آپ کا شجرہ نسب حضرت صوفی احمد جان صاحب سے ملتا ہے ۔ آپ کے دادا حضرت پیر مظہر الحق ؓ اور نانا حضرت ماسٹر نذیر حسین ؓ دونوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اکابر صحابہؓ میں شامل ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ محترم ڈاکٹر صاحب کی والدہ حکیم محمد حسین صاحب مرہم عیسیٰ کی پوتی تھیں۔ ڈاکٹر پیر محمد نقی الدین 1946ء میں پیدا ہوئے، اس طرح تقریباً 74 سال ان کی عمر ہوئی۔ آپ خاندان کے ہمراہ قادیان سے ہجرت کر کے پہلے لاہور آئے پھر میلسی ضلع وہاڑی میں آباد ہوئے۔ 1970ء میں نشتر میڈیکل کالج سے ایم۔بی۔بی۔ایس کیا۔ 1975ء- 76ء میں اسلام آباد شفٹ ہوئے پھریہاں کے سرکاری ہسپتال پولی کلینک میں جاب ملی۔ کافی عرصہ یہاں خدمات بجا لانے کے بعد ملازمت چھوڑ کر ایران چلے گئے۔دو تین سال تک وہاں کام کیا پھر واپس پاکستان آئے یہاں اپنا کلینک کھولا اسلام آباد میں اور گزشتہ پچیس تیس سال سے اپنا کلینک چلا رہے تھے ۔

فرمایا : ڈاکٹر پیر محمد نقی الدین گزشتہ بارہ سال سے زائد عرصہ سے جماعت احمدیہ اسلام آباد میں قاضی کے منصب پر خدمت بجا لا رہے تھے۔ انتہائی خوش اخلاق ، ملنسار، پیار کرنے والے، شفیق، غریب پرور اور ہردلعزیز شخصیت کے مالک تھے۔ ہر ایک سے مسکراتے چہرے سے ملتے۔ ڈاکٹر کی حیثیت سے دن رات مخلوق خدا کی خدمت میں ہمیشہ پیش پیش رہتے۔ جماعت کے غرباء اور نادار مریضوں کے لئے آپ کا کلینک ہمیشہ کھلا رہتا اور آپ اکثر بلامعاوضہ سب کو فیضیاب فرماتے۔ صرف جماعت کے ہی نہیں باقی غیروں کے لئے بھی ان کا دل اور کلینک ہمیشہ کھلا رہتا تھا نافع الناس وجود تھے۔ آپ کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا اور اس میں غیر از جماعت لوگوں کی بھاری تعداد شامل تھی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو قوت بیان بھی ودیعت فرمائی تھی چنانچہ غیر از جماعت دوستوں کو پیغام حق پہنچانے کا کوئی موقع ضائع نہیں جانے دیتے تھے ۔ ان حالات میں بھی اللہ کے فضل سے پیغام پہنچاتے تھے۔ ڈاکٹر نقی الدین فرماتے تھے کہ مَیں اپنے زیر علاج مریضوں کے لئے نہ صرف یہ کہ سستا علاج کرتا ہوں اُن کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آتا ہوں بلکہ بلاناغہ ہر روز دو نفل نماز پڑھتا ہوں دو نفل اداکرتا ہوں اور ان کے لئے دُعا بھی کرتا ہوں۔فرمایا: یہ ہے وہ طریق جو ہر ڈاکٹر کو ہر طبیب کو ہمارے اپنانا چاہئے صرف اپنے پیشے کی مہارت پر ہی اعتماد اور صرف دوائیوں پر یقین نہ ہو بلکہ جہاں علاج کے ساتھ مریض کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آئیں وہاں اُن کے لئے دُعا بھی ضرور کیا کریں اور اگر نفل پڑھیں یہ تو بہت اچھی بات ہے۔

فرمایا : ایک انتہائی فرمانبردار بیٹے، مثالی شوہر، شفیق اور محبت کرنے والے باپ اور بہن بھائیوں اور دوستوں کا بہت خیال رکھنے والے نافع الناس وجود تھے۔ زندہ خدا سے بہت گہرا تعلق تھا بےحد دُعاگو تھے۔غریب کے ہمدرد، بے نفس، انتہائی نفیس اور مشکل سے مشکل وقت میں بھی خدا اور رسول کے احکامات کو سامنے رکھتے۔ حضرت صوفی احمد جان کے خاندان سے تعلق کو نہ صرف اپنے لئے باعث عزت گردانتے تھے بلکہ باقی خاندان کے افراد کو بھی تلقین کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ سے ذاتی تعلق ہونا چاہئے صرف کسی بزرگ کے خاندان کا ہونا تو کوئی کمال نہیں ہے اس لئے اصل چیز یہ ہے کہ تمہارا اپنا تعلق ہو۔ دعوت الیٰ اللہ کا جنون کی حد تک شوق تھا اور بڑے احسن رنگ میں قرآن کریم سے دلیلیں دے کر دعوت الیٰ اللہ کیا کرتے تھے۔جلسہ سالانہ پر غیر از جماعت احباب کو خصوصاً گھر پر مدعو کرتے تھے اور پھر پُرتکلف کھانوں سے اُن کی تواضع بھی کرتے جلسہ ان کو سنواتے اور یوں تبلیغ کا سلسلہ بھی کھل جاتا۔

پیشے کے لحاظ سے ہزاروں کی مسیحائی کرتے، ہزاروں کا مفت علاج کرتے اور کفالت کرتے، مریضوں سے اتنی کم فیس لیتے کہ زیادہ تر غریب ہی آپ کے مریض تھے۔ پھر خلافت سے اس قدر محبت تھی کہ جیسے ہی ایم۔ٹی۔اے پر ایک گھنٹے کا خطبہ آنا شروع ہوا تو گھر پر ڈش کا انتظام کیا فوری طور پہ تا کہ ایم۔ٹی۔اے دیکھنے کے لئے لوگ ہمارے گھر آئیں اور خلافت سے اس محبت کی وجہ سے جلسہ سالانہ کے موقع پر جو اختتامی خطاب ہوتا ہے وہ بھی کئی غیر احمدیوں کو بُلا کر سنواتے۔ ساری بیعت کی کارروائی دکھاتے جلسے کی کارروائی دکھانے کے ساتھ ساتھ کھانے کا بھی اچھا انتظام ہوتا اور کہتے کہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمان ہیں۔ عبادات ،قرآن، دینی علوم اور اخلاقیات ہی محض ان کے پسندیدہ موضوعات ہوتے تھے۔ بدعات کے خلاف ایک ایسی چٹان تھے جس کو کوئی ہلا نہیں سکتا تھا۔ شادی وغیرہ کے موقع پر بدرسومات کو سختی سے روکا انہوں نے۔

فرمایا : غریبوں کا بہت دَرد رکھتے تھے بہت سارے خاندانوں کا ماہانہ راشن اور بچوں کی تعلیم، ادویات اور علاج کی ذمہ داری لے رکھی تھی روزانہ پچاس فیصد سے زیادہ مریضوں کو مفت دیکھتے تھے۔ ان کاپابندی نماز کی عادت پڑنے کا واقعہ دلچسپ ہے۔ کہتے ہیں جب والدہ نے پوچھا کہ نماز پڑھ لی ہے سو گئے تھے انہوں نے کہہ دیا سوئے سوئے بچے تھے کہ ہاں پڑھ لی ہے۔ کہتے ہیں کہ آدھی رات کو والدہ نے آ کر اُٹھایا اور وہ رو رہی تھیں کہ تم نے مجھ سے نماز کے بارے میں جھوٹ بولا ہے کہ تم نے پڑھ لی ہے۔ خدا تعالیٰ نے کشفاً بتا دیا تھا ۔ کہتے ہیں اس دن کے بعد سے ہم نے کبھی نماز نہیں چھوڑی۔ فرمایا: تو یہ تھا اور یہ ہونا چاہئے احمدی ماؤں کا بھی مقام ،فکر تھی بچوں کی تربیت کی ،نمازوں کی اور اس کے لئے دُعا کرتی تھیں ۔ اکثر باتوں کا حوالہ قرآن کریم سے ہی پیش کیا کرتے تھے۔ کہاکرتے تھے کہ اگر خدا سے زندہ تعلق پیدا نہ ہو تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کا حق ادا نہیں ہوتا کیونکہ حضور علیہ السلام کی بعثت کا مقصد ہی خدا تعالیٰ سے زندہ تعلق پیدا کرنا تھا۔اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے۔

حضور انور نے فرمایا : اگلا ذکر ہے مکرم غلام مصطفیٰ کا جو یہاں لندن میں رہتے تھے پھر یہاں ٹلفورڈ میں آ گئے۔ رضاکار کارکن تھے دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کے یہاں یو۔کے میں۔ ان کی 25۔ اپریل کو وفات ہوئی ہے 69 سال کی عمر میں۔ 1983ء میں خلافت ثالثہ کے دَور میں اُنہوں نے بیعت کی تھی اور 1986ء میں یہ لندن آئے اور مسجد میں ٹھہرے اور آتے ہی وقف کی درخواست کی۔ کیونکہ تعلیم ان کی بہت معمولی تھی اور اس وجہ سے شاید وقف تو منظور نہیں ہوا لیکن ایک واقف زندگی کی طرح یہ کام کرتے رہے پہلے تو کچن میں پھر دفتر میں۔ ایک واقف زندگی کی طرح اُنہوں نے کام کیا اور کہا کرتے تھے کہ وقف تو نہیں لیکن مَیں اپنے آپ کو واقف زندگی سمجھتا ہوں۔ تو بہرحال بڑی وفا کے ساتھ انہوں نے اپنا یہ عہد جو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے کیا تھا واقف زندگی کا اس کو پورا کیا، چاہے باقاعدہ وقف میں تھے یانہیں تھے۔پھر حفاظت خاص میں بھی کچھ عرصہ ڈیوٹیاں دیتے رہے۔ 1993ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒنے پی۔ایس آفس میں انہیں ڈیوٹی دی اور اس وقت سے لے کر اب تک بڑی خوش اسلوبی سے یہ اپنی ڈیوٹی سرانجام دیتے رہے۔ مرحوم موصی تھے۔ ان کے پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ دو بیٹیاں اور ایک بیٹا شامل ہیں۔

فرمایا : ان کا ہر قدم خدا تعالیٰ کے لئے ہوتا تھا۔ بےشمار اوصاف کے مالک تھے ایک مخلص شوہر، باپ، بھائی اور دوست تھے۔ اپنے رشتوں کو نبھانے والے، بہت دُور اندیش، ہر ایک کے کام آنے والے، بے لوث خدمت کرنے والے، بہادر اور نڈر انسان تھے۔ خلافت پر مر مٹنے والے وجود تھے۔ مالی قربانی کا بہت شوق تھا۔اپنی ذات پر وہ کنجوسی کی حد تک خرچ کرتے تھے لیکن دوسروں پر خرچ کرنے سے پہلے کبھی سوچتے بھی نہیں تھے۔ ہمیشہ جہاں دین کو فوقیت دی وہاں ایک سچے مؤمن کی طرح دین اور دنیا دونوں کمائی۔مصطفیٰ صاحب اپنی فیملی میں اکیلے احمدی تھے جب انہوں نے بیعت کی تو اپنے ساتھ یہ وعدہ کیا کہ اپنے والد کی وراثت سے کچھ نہیں لینا اور دعا کی کہ اے اللہ! اگر تیرا مسیح سچا ہے اور مَیں نے سچا سمجھ کے بیعت کی ہے مجھے اپنی جناب سے دینا اور کسی کا محتاج نہ کرنا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ خواہش پوری فرمائی اور ثابت کر دیا کہ تم نے جو قدم اُٹھایا ہے بیعت کا وہ حقیقتاً سچ ہے ۔ اپنے گاؤں میں انہوں نے بڑی مسجد بنوائی کہ کبھی نہ کبھی تو یہ لوگ احمدی ہوں گے اور اس کے علاوہ اپنے رشتہ داروں کی بہن بھائیوں کی خود مدد کرتے رہے مختلف طریقوں سے۔ ان کی زندگی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کے قائم کردہ نظام خلافت سے محبت کرنا تھا۔ اللہ تعالیٰ پر کامل درجہ توکل تھا ۔اپنے بیٹے اور بیٹیوں کی برابر تعلیم و تربیت کا فرض بخوبی نبھایا اس میں کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن اس کے ساتھ انہوں نے اولاد سے محبت کے باوجود کبھی حقوق اللہ اور حقوق العباد کو پیچھے نہیں چھوڑا۔ عید ہو یا بیٹی کی شادی ہو یا کوئی اور کام ہو انہوں نے کبھی نماز کو نہیں چھوڑا۔ خدا پر توکل تھا وہ جانتے تھے کوئی کام پیچھے نہیں رہے گا لیکن اگر فکر تھی تو اس بات کی تھی کہ عبادت کی کمی کی وجہ سے کوئی خدا کی ناراضگی نہ آ جائے۔

مصطفیٰ صاحب نے اپنی بیوی کے رحمی رشتوں کو بڑے خلوص سے نبھایا ۔ ساری زندگی خدا تعالیٰ کی عبادت اور خلافت کے قدموں میں خدمت کرتے ہوئے گزار دی۔ بہت مہمان نواز تھے۔ عام دنوں میں تقریباً ہر روز کسی نہ کسی کو بطور مہمان گھر لے آتے تھے اور جلسے کے دنوں میں تو چوبیس گھنٹے مہمانوں کی آمد و رفت رہتی ۔ حضرت مسیح موعودؑ کے مہمانوں کو تو آپ خاص طور پر بہت فوقیت دیتے تھے ہر وقت کہتے تھے میرے دروازے کھلے ہیں ۔ اپنے باقی دنیاوی کاموں اور کاروبار کو اس طرح manage کر رکھا تھا کہ نماز کے وقت میں بھی رکاوٹ نہ بنیں۔ کاموں کو چھوڑ کر مسجد پہنچ جایا کرتے تھے۔

حضور انور نے فرمایا : اللہ تعالیٰ ان تمام مرحومین کے درجات بلند فرمائے۔ جو وفا انہوں نے خداتعالیٰ اور اس کے دین کے ساتھ کی ہے اور جس طرح اپنے عہد بیعت نبھانے کی کوشش کی ہے اللہ تعالیٰ اس سے بڑھ کر ان سے پیار کا سلوک فرمائے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جیسا کہ فرمایا تھا یہ لوگ شہداء میں شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی اولاد کو بھی اپنی حفظ و امان میں رکھے اور ان کی نیکیاں اپنانے اور جاری رکھنے کی توفیق اللہ تعالیٰ عطا فرمائے۔

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 مئی 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 اپ ڈیٹ 04 ۔مئی2020 ء