عبادت میں جو خلقت ہے، یہ روزوں کی بدولت ہے
سجی مولا کی جنت ہے، یہ روزوں کی بدولت ہے
جو شیطاں بھی مقید ہے تو دوزخ بھی مقفل ہے
نظر بند ان کی قوت ہے، یہ روزوں کی بدولت ہے
یہ روزہ ہے مری خاطر، میں خود اس کی جزا ہوں گا
خدا کی جو زیارت ہے، یہ روزوں کی بدولت ہے
جو نفرت کی کمر توڑی، عداوت کو بھلا ڈالا
محبت کی اشاعت ہے، یہ روزوں کی بدولت ہے
امیروں کو غریبوں کی صفوں میں لا بٹھایا ہے
اخوت ہی اخوت پے، یہ روزوں کی بدولت ہے
بیک آواز اٹھتے ہیں، بیک آواز چلتے ہیں
بہت اعلیٰ یہ وحدت ہے، یہ روزوں کی بدولت ہے
قرآن پاک اترا تو تقدس مل گیا اس کو
بکثرت اب تلاوت ہے، یہ روزوں کی بدولت ہے
امیرانہ روش چھوڑی، غریبانہ ہوئے سارے
ہر اک نیکی میں سبقت ہے، یہ روزوں کی بدولت ہے
خوشا ماہ صیام آیا، فراز ! اتنا یقیں پھر سے
مرا ایماں سلامت ہے، یہ روزوں کی بدولت ہے
(اطہر حفیظ فراز)