• 24 جون, 2025

قرآن کریم کی روحانی اور مادی تاثیرات

قسط:5

سورہ ٔ مریم کی آیات کی تاثیر

ابو معمربیان کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے سورۂ مریم کی تلاوت فرمائی جس میں یہ آیت ہے اِذَا تُتۡلٰی عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتُ الرَّحۡمٰنِ خَرُّوۡا سُجَّدًا وَّ بُکِیًّا (مریم:59) یعنی جب ان پر رحمان کی آیات تلاوت کی جاتی تھیں تووہ سجدہ کرتے ہوئے اور روتے ہوئے گرجاتے تھے۔اس آیت پر سجدۂ تلاوت کے بعدحضرت عمرؓ نے فرمایا یہ سجدہ تو ہوگیا لیکن وہ روناکہاں ہے؟ (جس کا اس آیت میں ذکر ہے)(شعب الایمان جلد2 ص364) یعنی انہوں نےتلاوت قرآن پررقت پیدا نہ ہونے پر تعجب کیا۔

حضرت ابن عباسؓ کے متعلق روایت ہے کہ جب سورۂ مریم کی اس آیت کریمہ پر پہنچے تورو پڑے فَلَا تَعۡجَلۡ عَلَیۡہِمۡ ؕ اِنَّمَا نَعُدُّ لَہُمۡ عَدًّا (مریم:85) پس تو ان کے بارہ میں جلدی نہ کر۔ہم ان کا لمحہ لمحہ شمار کررہے ہیں اورپھراپنے آپ کو مخاطب کرکے کہنے لگے۔ایک آخری گنتی تمہاری جان کا نکلنا ہوگااور دوسرا آخری شمار تمہاری اپنے گھروالوں سے جدائی ہے اور ایک اورآخری شمار تمہارا قبر میں داخل ہونا ہے۔

(تفسیر الالوسی جلد12 ص64)

بکر بن عبداللہ المزنی بیان کرتے ہیں کہ جب سورۂ مریم کی یہ آیت نازل ہوئی وَ اِنۡ مِّنۡکُمۡ اِلَّا وَارِدُہَا ۚ کَانَ عَلٰی رَبِّکَ حَتۡمًا مَّقۡضِیًّا (مریم:72) اور تم (ظالموں)میں سے کوئی(بھی) نہیں مگر وہ ضرور اس (جہنم) پر اترنے والا ہے ۔ یہ تیرے رب پر ایک طے شدہ فیصلہ کے طور پر فرض ہے۔

تو صحابیٔ رسولؐ حضرت عبداللہ ؓبن رواحہ گھر چلے گئے اور روناشروع کردیا ۔ آپ کی اہلیہ نے دیکھا تو وہ بھی رونے لگی۔ خادم آیا تو وہ بھی رو نے لگا۔بعدازاں دیگراہلِ خانہ (یہ رونا سن کر) آئے اور سب کےسب رونے لگ گئے۔جب ان کی یہ کیفیت ختم ہوئی توحضرت عبداللہ بن رواحہؓ نے پوچھا تم لوگ کیوں روئے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم تو آپ کو روتا دیکھ کر رو پڑے۔ حضرت عبداللہؓ ؓ نے بتایا کہ (آج)رسول کریم ﷺ پر یہ آیت نازل ہوئی ہےکہ تم میں سے ہر ایک جہنم میں اُترنےوالا ہے اور مَیں تو اس خوف کے مارے رو رہاتھا کہ خدا تعالیٰ مجھے بھی آگ میں نہ ڈال دے ۔

(سیر اعلام النبلاء جلد1 ص237)

حضرت عبداللہ بن رواحہؓ بعد میں غزوۂ مؤتہ میں امیر بناکر بھجوائے گئے۔اللہ تعالیٰ نے اپنے اس منکسر المزاج بندے کو شہادت کے بلند مرتبہ اور حیاتِ ابدی سے نوازا۔

سورۃالفرقان کی آیت کا اثر

حضرت ابو وائلؓ کہتے ہیں کہ ہم حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے ساتھ نکلے ہمارے ساتھ ربیع بن خثیم بھی تھے۔ہم ایک لوہار کے پاس آئے تو حضرت عبداللہؓ وہاں رُک کر آگ میں پڑا لوہے کا ٹکڑا دیکھنے لگے۔ ربیع نے بھی دیکھا ، قریب تھا کہ وہ یہ دیکھ کر گر جاتے ۔پھر حضرت عبداللہؓ وہاں سے روانہ ہوئے تو فرات کے کنارے ایک تنور پر آئے۔حضرت عبداللہؓ نے تنور میں آگ کو بھڑ کتےدیکھا تو اُنہوں نے سورۃ الفرقان کی یہ آیت پڑھی اِذَا رَاَتۡہُمۡ مِّنۡ مَّکَانٍۭ بَعِیۡدٍ سَمِعُوۡا لَہَا تَغَیُّظًا وَّ زَفِیۡرًا (الفرقان:13) یعنی جب وہ (جہنم) اُنہیں ابھی دُور کے مقام پر ہی دیکھے گی تو وہ اُس کی غیظ سے کھولتی ہوئی آواز اور چیخیں سنیں گے۔

یہ سن کر ربیع بے ہوش ہوکر گر پڑے۔ ہم نے اُنہیں اُٹھایا اور اُن کے گھر لے آئے۔ مغرب کے بعد پتہ کیا تو بھی وہ بے ہوش تھے۔ اُس کے بعدکہیں جاکر انہیں افاقہ ہوا تو حضرت عبداللہؓ واپس اپنےگھر لوٹے۔

سورۃ الشعراء کی آیت کا اثر

مشہورتابعی صفوانؒ بن محرز کے متعلق روایت ہے کہ جب بھی وہ سورۃ الشعراء کی یہ آیت تلاوت کرتے تو اتنا روتے کہ ہچکی بندھ جاتی۔ وَ سَیَعۡلَمُ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡۤا اَیَّ مُنۡقَلَبٍ یَّنۡقَلِبُوۡنَ (الشعراء:228)اور وہ جنہوں نے ظلم کیا عنقریب جان لیں گے کہ وہ کس لوٹنے کے مقام پر لوٹ جائیں گے۔

(تفسیر ابن کثیر جلد6 ص176)

سردار قریش عتبہ اورسورۂ حٰم السجدہ کی آیات

قریش مکہ نے ایک دفعہ اپنے ایک سردار عتبہ کو نمائندہ بناکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کی خدمت میں بھجوایا۔ اُس نے کہا کہ آپ ہمارے معبودوں کو بُرا بھلا کیوں کہتے اور ہمارے آباء کو گمراہ کیوں قرار دیتے ہیں؟آپ کی جوبھی خواہش ہےہم پوری کئےدیتے ہیں۔مگرآپ ان باتوں سے باز آجائیں۔ حضورﷺ تحمل اور خاموشی سے اس کی باتیں سنتے رہے۔ جب وہ اپنی بات کر چکا تو آپؐ نے سورۂ حٰم فُصِّلَتْ کی چند آیات تلاوت کیں حٰمٓ ۔تَنۡزِیۡلٌ مِّنَ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۔کِتٰبٌ فُصِّلَتۡ اٰیٰتُہٗ قُرۡاٰنًا عَرَبِیًّا لِّقَوۡمٍ یَّعۡلَمُوۡنَ۔

(حٰم السجدۃ:1 تا 4)

یعنی صاحبِ حمد،صاحبِ مجد۔اس کا نازل کیا جانا رحمان (اور)رحیم کی طرف سے ہے۔یہ ایک ایسی کتاب ہے جس کی آیات کھول کھول کربیان کردی گئی ہیں۔ایک ایسے قرآن میں جو نہایت فصیح وبلیغ ہے۔ اُن لوگوں کے فائدہ کے لئے جو علم رکھتے ہیں ……………

تلاوت کرتے ہوئےجب آپ سورۂ حٰم السجدۃ کی اس آیت پر پہنچے فَقُلْ أَنْذَرْتُكُمْ صَاعِقَةً مِثْلَ صَاعِقَةِ عَادٍ وَثَمُوْدَ یعنی تو اُنہیں کہہ دےکہ مَیں تمہیں عاد وثمود جیسے عذاب سے ڈرا تا ہوں تو مشرک سردارعتبہ نے آپ کو مزید تلاوت سے روک دیا کہ اب بس کریں اورخوف کے مارے اُٹھ کر چل دیا۔اُس نے قریش کو جاکر کہا تمہیں پتہ ہے کہ محمد جب کوئی بات کہتا ہے تو کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔ مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں تم پر وہ عذاب نہ آجائے جس سے وہ ڈراتا ہے۔ تمام سردار یہ سن کر سناٹے میں آگئے۔

(ابن ہشام جلد1 ص292۔السیرة الحلبیة جلد1 ص303)

سورۃ الزخرف کی آیت کی تاثیر

حضرت سفیان ثوری ؓ کے متعلق آتا ہے کہ مکہ کا ایک شخص مسجد الحرام میں عشاء کی نماز کی ادائیگی کیلئے آیاتو اُس نے وہاں سفیان کو دیکھا جو بار بار سورۃ الزخرف کی ایک ہی آیت کےاس پہلے حصہ کی تلاوت کرکے روتے جاتے تھے ۔ اَمۡ یَحۡسَبُوۡنَ اَنَّالَا نَسۡمَعُ سِرَّہُمۡ وَ نَجۡوٰىہُمۡ (الزخرف:81) یعنی کیا وہ گمان کرتے ہیں کہ ہم اُن کے راز اور مخفی مشورہ کو نہیں سنتے؟

کافی دیر ٹھہرنے کےبعد (کہ شاید ابھی تلاوت ختم ہوجائے)وہ شخص وہاں میں سے چلا گیا اور جب صبح کی نماز کیلئےدوبارہ آیا تو کیا دیکھتاہے کہ سفیان ابھی تک اسی آیت کی تلاوت کررہے اور مسلسل روتے جارہے ہیں۔یہاں تک کہ اُس شخص نے کہا اب تو فجر کی نماز کا وقت آپہنچا ہے۔تب اُنہوں نے اس آیت کا دوسرا حصہ پڑھ کرتلاوت مکمل کی بَلٰی وَرُسُلُنَا لَدَیْهِمْ یَكْتُبُوْنَ یعنی کیوں نہیں ! ہمارے ایلچی ان کے پاس ہی لکھ بھی رہے ہوتے ہیں۔ راوی کہتا ہےمیں بھی ان کے ہمراہ وہیں رک گیا ۔اور ان کے ساتھ فجر کی نماز ادا کی۔

(اخبار مکہ للفاکہی جلد2 ص163)

سورۃ الجاثیہ کی آیات کی تاثیر

صحابیٔ رسولؐ حضرت تمیم داری ؓکے متعلق آتا ہے کہ جب وہ سورۃ الجاثیہ کی یہ آیت تلاوت کرتے تو رو پڑتے یہاں تک کہ صبح ہو جاتی۔ اَمۡ حَسِبَ الَّذِیۡنَ اجۡتَرَحُوا السَّیِّاٰتِ اَنۡ نَّجۡعَلَہُمۡ کَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ۙ سَوَآءً مَّحۡیَاہُمۡ وَ مَمَاتُہُمۡ ؕ سَآءَ مَا یَحۡکُمُوۡنَ (الجاثیہ:22) کیا وہ لوگ جوطرح طرح کے گناہ کماتے ہیں انہوں نے یہ گمان کرلیا ہے کہ ہم انہیں ان لوگوں کی طرح بنادیں گےجو ایمان لائے اور نیک اعمال بجالائے(گویا کہ)ان کا جینا اور مرنا ایک جیسا ہوگا؟بہت ہی بُرا ہے جو وہ فیصلے کرتے ہیں۔

(مختصر قیام اللیل جلد1 ص215)

اسی طرح عبدالرحمان بن عجلان کہتے ہیں کہ مجھے ربیع بن خثیم کے ہاں ایک رات گزارنےکاموقع ملا۔ وہ نماز پڑھنے کیلئے کھڑے ہوئے جب سورۂ جاثیہ کی اس آیت پر پہنچے اَمۡ حَسِبَ الَّذِیۡنَ اجۡتَرَحُوا السَّیِّاٰتِ اَنۡ نَّجۡعَلَہُمۡ کَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ۙ سَوَآءً مَّحۡیَاہُمۡ وَ مَمَاتُہُمۡ ؕ سَآءَ مَا یَحۡکُمُوۡنَ (الجاثیہ:22) کیا وہ لوگ جو طرح طرح کے گناہ کماتے ہیں اُنہوں نے یہ گمان کرلیا ہے کہ ہم اُنہیں ان لوگوں کی طرح بنادیں گے جو ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے (گویا کہ) ان کاجینا اور مرنا ایک جیسا ہوگا؟بہت ہی بُرا ہے جو وہ فیصلہ کرتے ہیں۔

وہ اس آیت پر ٹھہر کرمسلسل اس کی تلاوت کرتے رہے ۔یہانتک کہ روتے روتے صبح کردی اور اس آیت سے آگے نہ جاسکے۔

(حلیۃ الاولیاء جلد2ص112)

سورۂ محمدؐ کی آیت کا اثر

حضرت فضیل بن عیاضؓ جب سورۂ محمدؐ کی یہ آیت پڑھتے تو رو پڑتے۔ وَ لَنَبۡلُوَنَّکُمۡ حَتّٰی نَعۡلَمَ الۡمُجٰہِدِیۡنَ مِنۡکُمۡ وَ الصّٰبِرِیۡنَ ۙ وَ نَبۡلُوَا۠ اَخۡبَارَکُمۡ (محمد:32) اور ہم لازماً تمہیں آزمائیں گے یہاں تک کہ تم میں سے جہاد کرنیوالے اور صبرکرنے والے کو ممتاز کردیں اور تمہارے احوال کو پرکھ لیں۔

اور پھریہ دُعا کرتے اَللّٰهُمَّ لَا تَبْتَلِیْنَا فَاِنَّكَ اِذَا بَلَوْتَنَا فَضِحْتَنَا وَهَتَكْتَ اَسْتَارَنَا۔ یعنی اےاللہ! ہمیں آزمائش میں نہ ڈالناکیونکہ اگر تو ہمیں آزمائے گا تو ہم رُسوا ہوکر رہ جائیں گے اور ہمارے پردے چاک ہوجائیں گے۔

(تفسیر قرطبی جلد16ص254)

سورۃ الحجرات کی آیت کی تاثیر

حضرت انسؓ بن مالک سے روایت ہے کہ جب سورۃ الحجرات کی یہ آیت نازل ہوئی۔یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَرۡفَعُوۡۤا اَصۡوَاتَکُمۡ فَوۡقَ صَوۡتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجۡہَرُوۡا لَہٗ بِالۡقَوۡلِ کَجَہۡرِ بَعۡضِکُمۡ لِبَعۡضٍ اَنۡ تَحۡبَطَ اَعۡمَالُکُمۡ وَ اَنۡتُمۡ لَا تَشۡعُرُوۡنَ (الحجرات:3) یعنی اے لوگوجو ایمان لائے ہو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے اُونچی نہ کیا کرو اور جس طرح تم میں سے بعض لوگ بعض دوسرے لوگوں سے اُونچی آواز میں باتیں کرتے ہیں اس کے سامنے اُونچی بات نہ کیا کرو ایسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال ضائع ہوجائیں اور تمہیں پتہ تک نہ چلے۔

اس آیت کےنازل ہونے کے بعد حضرت ثابتؓ بن قیس (جن کی آواز طبعاً اُونچی تھی) اس خوف سے اپنے گھر میں بیٹھ رہےکہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے آواز بلند کرنے سے میرے عمل تو ضائع ہوگئے۔ آنحضورﷺ نےاُنہیں غائب پاکر حضرت سعدؓ بن معاذ سے پوچھا ثابت کا کیا حال ہے کیا وہ بیمار ہے؟ حضرت سعدؓ نے عرض کیا کہ وہ میرے ہمسائے ہیں اور اُن کے بیمار ہونےکی کوئی اطلاع نہیں،پھر وہ حضرت ثابت ؓ کے پاس آئے اور رسول اللہﷺ کے احوال پوچھنے کا ذکر کیا تو اُنہوں نے کہا کہ یہ آیت نازل ہوچکی ہےکہ اپنی آوازیں نبی کی آواز سے اُونچی نہ کرواور تم جانتے ہو کہ میری آواز رسول اللہ ﷺ کے سامنے تم سب سے زیادہ بلند ہوتی ہے میرے تو عمل ضائع ہوگئے۔ حضرت سعدؓ نے نبی کریم ﷺ کے پاس حاضر ہوکر اس کا ذکر کیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جاؤ اسے بشارت دو کہ وہ تو جنّتی ہے۔

(مسلم کتاب الایمان باب مخافۃ المومن)

سورہ ق کی آیت کی تاثیر

حضرت عبداللہؓ بن ابی ملیکہ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نےحضرت ابن عباسؓ کے ساتھ مکہ سے مدینہ اور پھر واپس مکہ کا سفر کیا۔آپؓ کا طریق تھا کہ دو نوافل ادا کیا کرتے تھےاور جب آپ قیام کیلئے (کہیں) ٹھہرتے تو رات کے کسی حصہ میں قرآن کریم کا ایک ایک حرف خوش الحانی سے اورٹھہر ٹھہر کر تلاوت فرماتے جس میں آہ وبکا بھی شامل ہوتی۔خاص طور پر جب آپؓ یہ آیت تلاوت کرتے۔ وَ جَآءَتۡ سَکۡرَۃُ الۡمَوۡتِ بِالۡحَقِّ ؕ ذٰلِکَ مَا کُنۡتَ مِنۡہُ تَحِیۡدُ (ق:20) اور جب موت کی برحق غشی آجائی گی۔یہ وہی ہے جس سے تو گریز کرتا رہا۔

(البدایہ النھایہ جلد8ص334)

سورۃ الذاریات کی ایک آیت اورایک چور کا انجام بخیر

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمدؓ کی درخواست پر حضرت مسیح موعودؑ نے یہ کہانی 5ستمبر 1898 کو بعد نماز عصر سنائی کہ

ایک بزرگ کہیں سفر میں جارہے تھے۔ ایک جنگل سے ان کا گزر ہوا۔ جہاں ایک چور رہتا تھا جو ہر آنے جانے والے والے مسافر کو لوٹ لیا کرتا تھا۔ اپنی عادت کے موافق اس بزرگ کو بھی لوٹنے لگا۔ بزرگ موصوف نےایک آیت پڑھ کر فرمایا تمہارا رزق آسمان پر موجود ہے تم خدا پر بھروسہ کرو اور تقویٰ اختیار کرو چوری چھوڑ دو خدا تعالیٰ خود تمہاری ضرورتیں پوری کردے گا۔ چور کے دل پر اثر ہوا۔ اُس نے بزرگ موصوف کو چھوڑ دیا اور اُن کی بات پر عمل کیا۔ یہاں تک اُسے سونے چاندی کے برتنوں میں عمدہ عمدہ کھانے ملنے لگے۔ وہ کھانے کھا کر برتنوں کو جھونپڑی کے باہر پھینک دیتا۔ اتفاقاً پھر وہی بزرگ کبھی ادھر سے گزرے تو اُس چور نے جو اَب بڑا نیک بخت اور متقی ہوگیا تھا۔ اُس بزرگ سے ساری کیفیت بیان کی اور کہا کہ مجھے وہ آیت بتلائیں (جو آپ نے پڑھی تھی)۔ تو بزرگ موصوف نے یہ آیات پڑھیں وَ فِی السَّمَآءِ رِزۡقُکُمۡ وَ مَا تُوۡعَدُوۡنَ۔ فَوَ رَبِّ السَّمَآءِ وَ الۡاَرۡضِ اِنَّہٗ لَحَقٌّ مِّثۡلَ مَاۤ اَنَّکُمۡ تَنۡطِقُوۡنَ (الذاریات24,23:) اور آسمان میں تمہارا رزق ہے اور وہ بھی ہے جس کا تم وعدہ دیئے جاتے ہو۔ پس آسمان اور زمین کے ربّ کی قسم! یہ یقیناً اسی طرح سچ ہے جیسے تم (آپس میں) باتیں کرتے ہو۔

یہ پاک الفاظ سن کر اُس پر ایسا اثر ہوا کہ خدا تعالیٰ کی عظمت اُس کے دل پر بیٹھ گئی پھر تڑپ اُٹھا اور اسی میں جان دے دی۔

(حیات احمد جلداول ص198)

سورۃ الطور کی آیات

رسول اللہ ﷺ کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہؓ بڑی جرأت اور حوصلہ والی خاتون تھیں۔ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غزوات میں شریک ہوئیں مگر قرآن پڑھتے ہوئے آپؓ پر بھی رقت طاری ہوجاتی تھی۔ ان کے متعلق روایت آتی ہے کہ نماز میں آپؓ نے سورۃالطور کی اس آیت کی تلاوت کی تو رو پڑیں۔ فَمَنَّ اللّٰہُ عَلَیۡنَا وَ وَقٰىنَا عَذَابَ السَّمُوۡمِ (طور:28) پس اللہ نے ہم پر احسان کیا اور ہمیں جُھلسا دینے والی لپٹوں کے عذاب سے بچایا۔

پھر آپؓ نے یہ دُعا کی اللّٰهُمَّ مُنَّ عَلَیْنَا، وَقِنَا عَذَابَ السَّمُوْمِ، اِنَّكَ أَنْتَ الْبَرُّ الرَّحِیْمُ۔ اے اللہ ہم پر اپنا احسان فرما اور ہمیں ہولناک عذاب سے بچا یقیناً تو بھلائی کرنے والا اوربہت رحم کرنے والا ہے۔

(مصنف ابن ابی شیبہ جلد2 ص25۔مختصر قیام اللیل جلد1ص209)

ھشام بن حسان کہتے ہیں کہ مَیں اور مالک بن دینار ایک روز حسن بصری کے پاس گئے تو وہاں ایک شخص سورۃ الطور کی تلاوت کررہا تھا جب وہ ان آیات پر پہنچا اِنَّ عَذَابَ رَبِّکَ لَوَاقِعٌ مَّا لَہٗ مِنۡ دَافِعٍ (الطور:9،8) یعنی یقیناً تیرے ربّ کا عذاب واقع ہوکر رہنے والاہے۔ کوئی اُسے ٹالنے والا نہیں۔ تو حسن اور آپ کے ہم جلیس رو پڑے اور مالک اتنے مضطرب ہوئے کہ ان پرتو غشی طاری ہوگئی۔

(تفسیر قرطبی جلد17 ص62)

سورۃ النجم

حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ میں جب سورۂ نجم پڑھی تو اس میں سجدہ کیا ۔ تمام لوگوں نے بھی سجدہ کیا۔ اس جماعت میں سے ایک شخص نے ایک مٹھی کنکر یا مٹی کی لی اور اُسے اپنی پیشانی کی طرف اُٹھاکر کہا کہ مجھے یہی کافی ہے حضرت عبداللہؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے اس کے بعد اُس شخص کو دیکھا کہ وہ حالت کفر میں مارا گیا۔

(بخاری کتاب سجود القرآن باب ماجاء فی سجود القرآن)

سورۃالواقعہ کی آیت کی تاثیر

حضرت عروہ ؓبن رویم بیان کرتے ہیں کہ جب سورۃ الواقعہ کی یہ آیات نازل ہوئیں تو (جذبات سے مغلوب ہوکر) حضرت عمرؓ (جیسے جری انسان بھی) رو پڑے۔ ثُلَّۃٌ مِّنَ الۡاَوَّلِیۡنَ ۔ وَ ثُلَّۃٌ مِّنَ الۡاٰخِرِیۡنَ (الواقعہ:41،40) یعنی پہلوں میں سے ایک بڑی جماعت ہے اور پچھلوں میں سے بھی ایک بڑی جماعت۔ (جو جنتی ہونگے)

(تفسیر البغوی جلد8 ص16)

سورۂ حدید کی آیت اورحضرت فضیل بن عیاض میں انقلاب

خواجہ فضیل بن عیاض ؒ(متوفی: 187ہجری) ابتداء عمر میں چوروں ڈاکوؤں کے سرغنہ تھے ۔پھر ان کا شمار اولیاءکرام میں ہوا۔ قرآن کی ایک آیت نے ان کے اندر انقلاب برپا کیا۔ کہتے ہیں کہ بہت سے ڈاکو ہر وقت آپ کے پاس جمع رہتےتھے اور اکثر جنگل میں ڈیرے ڈالے پڑے رہتے تھے اور جب کوئی قافلہ ادھر سے گزرتا تھا تو اسے لوٹ لیا کرتے تھے ، آپؒ کے گروہ کے آدمی جب غارت گری کا مال آپ ؒ کے سامنے پیش کرتے تھے تو آپ ؒ حسب پسند کوئی چیز اپنے لئے رکھ کر باقی اپنے ساتھیوں میں تقسیم کر دیتے تھے لیکن اس سرقہ بالجبر اور ڈکیتی کے باوجود آپ ؒ اور آپ ؒ کے گروہ کے لوگ اتنے پکے نمازی تھے کہ وقت پر سب لوگ نماز باجماعت پڑھا کرتے تھے ۔ اور جو شخص نماز نہ پڑھتا اُسے اپنے گروہ سے خارج کردیتے تھے۔ ایک روز ڈکیتی کے ارادہ سے کسی مسافر قافلہ کی جستجو میں نکلے کہ آپ ؒ کے قریب سے ایک قافلہ گزرا جس میں ایک شخص کلام پاک کی تلاوت کر رہا تھا اوراس کی زبان پر یہ آیت تھی اَلَمۡ یَاۡنِ لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنۡ تَخۡشَعَ قُلُوۡبُہُمۡ لِذِکۡرِ اللّٰہِ (الحدید:17) کیا ان لوگوں کیلئے جو ایمان لائے وقت نہیں آیا کہ اللہ کے ذکر اور اس حق (کے رُعب) سے جو اُترا ہے اُن کے دل پھٹ کرگرجائیں۔

یہ آیت سنتے ہی اُن کے دل پر سخت چوٹ لگی جسم پر لرزہ طاری ہو گیا اور کہنے لگے ”فضیل ! کب تک راہزنی کرتا رہے گا؟ اب توبہ کا وقت آگیا ہے“ آپ ؒ نے اسی وقت سچے دل سے توبہ کی اور مکہ معظمہ ہجرت فرمائی اور اولیاء کبار سے فیض حاصل کر کے مسند رشد و ہدایت پر فائز ہوئے اور مرجع خواص و عام بنے ۔

(تذکرۃ الاولیاء ص56)

سورۃالمزمل کی آیات کی تاثیر

ایک روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے سورۂ مزمل کی جب یہ آیات تلاوت کیں تو حضرت عمرؓ جیسے بہادر انسان بھی خوفِ خدا سے رو نے لگے۔

اِنَّ لَدَیۡنَاۤ اَنۡکَالًا وَّ جَحِیۡمًا وَّ طَعَامًا ذَا غُصَّۃٍ وَّ عَذَابًا اَلِیۡمًا (مزمل:13تا14) یقیناً ہمارے پاس عبرت کے کئی سامان ہیں اور جہنم بھی ہےاور گلے میں پھنس جانے والا ایک کھانا ہے اور دردناک عذاب بھی۔

(مختصر قیام اللیل جلد1 ص212)

سورۃ المرسلات کی آیات کی تاثیر

حضرت امام شافعیؒ کے متعلق روایت ہے کہ جب اُن کے سامنے سورۃالمرسلات کی ان آیات کی تلاوت کی گئی تو اُن کےچہرہ کارنگ اُڑ گیااور وہ بہت روئے یہاں تک کہ وہ زمین بوس ہوگئے۔

ہٰذَا یَوۡمُ الۡفَصۡلِ ۚ جَمَعۡنٰکُمۡ وَ الۡاَوَّلِیۡنَ فَاِنۡ کَانَ لَکُمۡ کَیۡدٌ فَکِیۡدُوۡنِ وَیۡلٌ یَّوۡمَئِذٍ لِّلۡمُکَذِّبِیۡنَ۔ (المرسلات:39تا41) یہ ہے فیصلہ کا دن جس کے لئے ہم نے تمہیں اکٹھا کیا اور پہلوں کوبھی۔پس اگرتمہارے پاس کوئی تدبیر ہے تو مجھ پر آزمادیکھو۔ ہلاکت ہے اس دن جھٹلانے والوں پر۔

پھر اُنہوں نے بتایا کہ مجھے ان آیات کی شدت نے خوف خدا کی وجہ سےرونے پر مجبور کردیا تھا اور میری زبان سے بے اختیار یہ الفاظ نکلے: اِلٰهِی اَعُوْذُبِكَ مِنْ مَّقَامِ الْكَذَّابِیْنَ وَاَعْلَامِ الْغَافِلِیْنَ اِلٰهِی خَشَعَتْ لَكَ قُلُوْبُ الْعَارِفِیْنَ وَوَلَهَتْ بِكَ هِمَمَ الْمُشْتَاقِیْنَ فَهَبْ لِی جُوْدَكَ وَجَلِّلْنِی سِتْرَكَ وَاعْفُ عَنِّی بِكِرَمِ وَجْهِكَ یا كَرِیْم

اے میرے معبود ! مَیں کذّابوں کے مقام اور غافلوں کی علامات سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔ اے میرے معبود!عارفوں کے دل تیرے لئے جھکے ہیں اور چاہنے والوں کی ہمتیں تجھ پر ہی فریفتہ ہیں۔پس اپنی سخاوت مجھے عطا کر اور اپنی چادر مجھ پر ڈال دے اور مجھے اپنے نظر کرم سے معاف کر دے۔

(تاریخ دمشق جلد51 ص336)

سورۃ الانفطار کی آیت کی تاثیر

حضرت ابو موسیٰ ؓ اشعری جیسے مجاہدصحابی کے متعلق روایت ہے کہ جب وہ سورۃ الانفطار کی اس آیت کریمہ کی تلاوت کرتے تو رو پڑتے۔ یٰۤاَیُّہَا الۡاِنۡسَانُ مَا غَرَّکَ بِرَبِّکَ الۡکَرِیۡمِ (الانفطار:7) اے انسان!تجھے اپنے ربِّ کریم کے بارہ میں کس بات نےدھوکہ میں ڈالا؟ (یعنی سوائے جہالت کے)

(شعب الایمان جلد2ص365)

سورۃ المطففین کی آیت کی تاثیر

حضرت ابن عمرؓ جب سورۂ مطففین کی تلاوت کرتے ہوئے اس آیت پر پہنچتے تو اتنا رو ئے کہ ناک سے رونے کی آوازیں آنے لگیں۔ یہاں تک کہ بعد کی آیات پڑھ نہ سکے۔

یَّوۡمَ یَقُوۡمُ النَّاسُ لِرَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ

(مطففین:7)

جس دن لوگ تمام جہانوں کے ربّ کے حضور کھڑے ہوں گے۔

(مختصر قیام اللیل جلد1 ص209)

ختم قرآن کریم اور قبولیت دُعا

تلاوت قرآن کریم کی ایک روحانی برکت اور تاثیر یہ ہے کہ اس کا دَور مکمل کرنے پر قبولیت دُعا کا خاص موقع ہوتا ہے۔ حضرت عرباضؓ بن ساریہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا

’’جس کسی نے قرآن کریم کا دَور مکمل کیا تو اس پر اُس کی دُعا قبول ہوگی۔‘‘

(المعجم الکبیرجلد18ص259)

ختمِ قرآن کی دُعا

ختم قرآن کےقبولیت دُعا کے سنہری موقع پر کون سی دُعا کی جائے؟اس بارہ میں حضرت حذیفہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ قرآن ختم ہونے پر یہ دُعا کرتے تھے۔ اَللّٰھُمَّ ارْحَمْنِیْ بِالْقُرْآنِ وَاجْعَلْہُ لِیْ اِمَامًا وَّ نُوْرًا وَّ ھُدًی وَرَحْمَةً اَللّٰھُمَّ ذَکِّرْنِیْ مِنْہُ مَانَسِیْتُ وَعَلِّمْنِیْ مِنْہُ مَا جَھِلْتُ وَارْزُقْنِیْ تِلَاوَتَہ آنَاءَ اللَّیْلِ وَأَطْرَافَ النَّھَارِ وَاجْعَلْہُ لِیْ حُجَّةً یَّا رَبَّ الْعَالَمِیْنَ۔

(احیاء علوم الدین للغزالی جزاول صفحہ278 مطبو عہ بیروت)

ترجمہ:۔ اے اللہ !مجھ پر قرآن کی وجہ اور واسطہ سے رحم فرمااور قرآن کو میرے لئے پیشوا اورنور اور ہدایت اور رحمت بنا دے۔اے اللہ! جو مَیں بھول جاؤں وہ مجھے یاد کروا دے اور جس کی مجھے سمجھ نہیں وہ مجھے سکھا دے اور مجھے رات دن کے اوقات میں اس کی تلاوت کی تو فیق عطا فرما اور اے رب العالمین! قرآن کو میرے لئے حجت بنا دے ۔ آمین

(باقی آئندہ)

قسط نمبر 1۔2

قسط نمبر 3۔4

(حافظ مظفر احمد)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 مئی 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 اپ ڈیٹ 04 ۔مئی2020 ء