• 11 جولائی, 2025

وباء کے دنوں میں فیک نیوز کا رُجحان اور ہماری ذمہ داریاں

سال2019ء کےاواخر میں شروع ہونے والی کورونا وائرس سے پھیلنے والی بیماری نے جلد ہی دُنیا کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کر دیا۔یہاں تک کہ 11 مارچ 2020ء کو اِسے عالمی وبا قرار دے دیاگیا ۔اب تک 1لاکھ سے زائد لوگ اس میں مبتلا ہو کر لقمہ اجل بن گئے ہیں۔ آج کورونا وائرس کا نام اور COVID-19 کی ٹرم بچہ بچہ کی زبان پر ہے۔ خوف کی فضا دامن گیر اور عالمی ماحول سوگوار ہے۔ حکومتیں اپنے عوام کو اِس وباء سے بچانے کے لئے ہر قسم کے اقدام اُٹھانے میں کوشاں ہیں ۔کہیں کامیابی کی موہوم سی اُمید تو کہیں یہ جنگ زوروں پر ہے۔ نہیں کہا جا سکتا کہ کب تک یہ حالات رہیں گے، کتنی جانیں اس کا نوالہ بنیں گی اور کس کس نظام کی صف لپیٹ دی جائے گی۔فی الوقت یہ وباء پھیلتی ہی جا رہی ہے۔

ان دگرگوں حالات کا تقاضا ہے کہ ہم سب یکجان ہو کر ا س کے مقابلے پر آئیں۔ ایک دوسرے کے دست و بازو بن کر اپنی اخلاقی اورمعاشرتی ذمہ داریاں پوری کریں۔انسانیت کی بقا کی جنگ میں متحد ہوں،خوف کو دُور بھگائیں،احتیاط کریں،درست معلومات حاصل کریں اور ہر فیک نیوز سے خود بھی دُور رہیں اور دوسروں کو بھی بچائیں ۔

اس وقت دُنیابھر میں ایمرجنسی نافذ ہے۔میڈیا کے ذریعہ ہماری رسائی دُنیا جہان کی معلومات تک ہے لیکن ان نیوز میں سے سچی اور جھوٹی خبر کی تمیز کرنا بہت ضروری ہے۔ اگر ہرخبر پر کان دھریں گے اور ہر پیغام کو سوچے سمجھے بغیر آگے سینکڑوں لوگوں کو ارسال کرتے رہیں گے تو خود سکون میں ہوں گے نہ دوسروں کو سکون سے رہنے دیں گے۔

بغیر چیک کئے پیغام آگے بھجوانا

آج کل فون اور انٹرنیٹ کا استعمال بہت بڑھ گیا ہے ۔ ہمیں روزانہ سینکڑوں برقی پیغامات وصول ہوتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو شاید ان میں سے پانچ فیصد پیغامات بھی مفید یا ضروری نہ ہوں۔ بہت سارے لوگ یہ پیغامات آگے بھجوانا اپنا فرض سمجھتے ہیں ۔

کوروناوائرس وباء کے ان ایّام میں اَفواہیں پھیلانے کی وباء بھی زوروں پر ہے اور بغیر کسی تصدیق کے قسما قسم کی غلط معلومات روزانہ کی بنیاد پر سوشل میڈیا پر شیئر کی جا رہی ہیں۔ ہمیں یہ سوچنا ہے کہ ہمارے پیارے آقا حضرت محمد ﷺ نے ہمیں بلا تصدیق ہر بات آگے پھیلانے سے منع فرمایا ہے۔ بغیر سوچے سمجھے ہر بات کو شیئر کرنے میں کوئی وقار نہیں بلکہ کسی شخص کے جھوٹا ہونے کی یہ کافی دلیل ہے کہ وہ جو کچھ سنے اُسے بغیر تصدیق کئے آگے پہنچادے۔

آنحضرت ﷺ نے فرمایا۔

کَفٰى بِالْمَرْءِ كذبًا أَنْ يُّحَدِّثَ بِكُلِّ مَا سَمِعَ

(صحیح مسلم ،المقدمۃ)

کہ کسی کے جھوٹا ہونے کے لئے یہ بات کافی دلیل ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات کو آگے بیان کرتا پھرے۔

افواہ پھیلانا بہت بڑی خیانت ہے۔

ہر انسان کا حق ہے کہ اُسے درست معلومات تک رسائی ہو۔جبکہ افواہ پھیلانے والا اس بنیادی حق کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے اور دوسروں کےحقوق میں دخل اندازی کر کے بددیانتی اور خیانت کا مرتکب ہو تا ہے۔ حدیث مبارکہ ہے۔

‏‏‏‏‏‏عَنْ سُفْيَانَ بْنِ أَسِيدٍ الْحَضْرَمِيِّ ‏‏‏‏‏‏قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ كَبُرَتْ خِيَانَةً أَنْ تُحَدِّثَ أَخَاكَ حَدِيثًا هُوَ لَكَ بِهٖ مُصَدِّقٌ ‏‏‏‏‏‏وَأَنْتَ لَهُ بِهٖ كَاذِبٌ۔

(سنن أبی داؤد كِتَابُ الْأَدَبِ بَابٌ فِي الْمَعَارِيضِ)

حضرت سفیان بن اسیدؓبیان کرتے ہیں کہ مَیں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا۔ یہ بہت بڑی خیانت ہے کہ تم اپنے بھائی سے ایسی بات بیان کرو جسے وہ تو سچ جانے اور تم خود اس سے جھوٹ کہو۔

اس سے بڑی خیانت اور کیا ہوگی کہ لوگ آپ کی بات کو سچ سمجھ رہے ہوں جبکہ وہ بے بنیا دہو۔ ایسا کر کے ہم اپنی بددیانتی پر مہر لگاتے اور دوسروں کی تکلیف کا باعث بنتے ہیں۔ سیدنا و مولانا حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے مسلمان کی جامع تعریف یہ فرمائی ہے۔

الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِّسَانِهٖ وَيَدِهٖ۔

(متفق علیہ)

کہ مسلمان تو دراصل ہے ہی وہی جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے محفوظ رہیں ۔اسی حدیث کی ایک دوسری روایت میں مُسْلِمُوْنَ کی جگہ الْنَّاسُ کے الفاظ بھی آئے ہیں۔ یعنی حقیقی مسلمان وہی ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے عامۃ الناس محفوظ رہیں ۔

عصر حاضرمیں لازم نہیں کہ ہم کسی کے سامنے جا کر اُسے ہاتھ یا زبان سے تکلیف دیں ۔بلکہ دُور رہتے ہوئے اور آج کل کے حالات میں قرنطینہ میں رہتے ہوئے،ہاتھوں میں پکڑے فون کے ذریعہ دوسروں کو زیادہ تکالیف پہنچنانے کا اہتمام کیا جا سکتا ہے جو شاید آمنے سامنے بھی ممکن نہ ہو۔ جدید وسائل کے ذریعہ ہزار ہا میل کی دُوری تک ہمارے ہاتھ دوسروں کے گریبان تک پہنچنے لگے ہیں۔ ہمارے آڈیو ویڈیو پیغامات حدود و قیود سے باہر دوسروں کی آزادی میں گھسنے لگے ہیں۔

بغیر تحقیق کے ہر ایک کی بات پر اعتبار کرتے چلے جانا ۔ہر میسج کو ہزاروں لوگوں تک آگے پہنچانے کی خود ساختہ ڈیوٹی نبھانے کی کوشش میں لگے رہنا،بعض اوقات دوسروں کی تکلیف اور اپنے لئے ندامت کا باعث بن جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس قبیح فعل سے روکنے کے لئے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ۔

یٰۤاَیُّہَاالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ جَآءَکُمۡ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوۡۤا اَنۡ تُصِیۡبُوْا قَوۡمًۢا بِجَہَالَۃٍ فَتُصۡبِحُوۡا عَلٰی مَا فَعَلۡتُمۡ نٰدِمِیۡنَ

(الحجرات :7)

’’اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو ! تمہارے پاس اگر کوئی بدکردار کوئی خبر لائے تو (اس کی) چھان بین کر لیا کرو، ایسانہ ہو کہ تم جہالت سے کسی قوم کو نقصان پہنچا بیٹھو۔ پھر تمہیں اپنے کئے پر پشیمان ہونا پڑے۔‘‘

بنیادی حقوق کی پاسداری کرنےوالے اس حکم پر عمل کرکے دوسروں کو بھی تکلیف سے بچا سکتے ہیں اور خود بھی قصوروارٹھہر کر نادم ہونے سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔اگر ہم چاہیں تو چند سیکنڈز میں موصول ہونے والے پیغامات کی تحقیق کر سکتے ہیں۔ غلط پیغام فارورڈ کر کے گنہگار بننے اور شرمندہ ہونے سے بہتر ہے کہ چند سیکنڈز کی ریسرچ کر کے خبرکی حقیقت معلوم کرلی جائے۔

سچ اور صرف سچ

قرآن مجید نے ہمیں ہر حال میں سچ کا دامن تھامے رکھنے کا ارشاد فرمایاہے ۔ بلکہ ایساسچ جسے قول سدید کہا جا سکے ۔ یعنی صاف سیدھی اور کھری بات۔ یہی ایک مومن کی شان ہے ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَقُوْلُوْاقَوْلًاسَدِیْدًا (الاحزاب: 71) اور تم ہمیشہ صاف اور سیدھی بات کیاکرو۔

پھر ہمیں ایک قدم اور آگے چل کر یہ سبق بھی دیا گیا کہ خواہ مخواہ معاملات کی ٹوہ میں لگے رہنا اور کسی اَمر کے متعلق ایسا موقف اختیار کرنا جس کا ہمیں علم نہ ہومناسب نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جو اعضاء ہمیں عطا کئے ہیں ان کے درست استعمال اور کان، آنکھ اور دل وغیرہ کے متعلق سوال کئے جانے سے بھی خبردار کر دیا ہے۔ فرمایا۔ وَ لَا تَقۡفُ مَا لَیۡسَ لَکَ بِہٖ عِلۡمٌ ؕ اِنَّ السَّمۡعَ وَ الۡبَصَرَ وَ الۡفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓئِکَ کَانَ عَنۡہُ مَسۡـُٔوۡلًا (بنی اسرائیل:37) یعنی اور وہ موقف اختیار نہ کر جس کا تجھے علم نہیں۔ یقیناً کان اور آنکھ اور دل میں سے ہر ایک سے متعلق پوچھا جائے گا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ فرماتے ہیں ۔
’’لَاتَقْفُ کے معنی ہیں لَا تَقُل جو صحابہؓ و تابعین سے ثابت ہیں۔ جس چیز کا علم نہ ہو وہ منہ سے نہ نکالو۔ آج کل ایسی بیباکی بڑھ رہی ہے کہ پالیٹکس اور اکانومی کے معنی تک نہیں جانتے اور اپنے اخبار اس کے لئے وقف کرنے پر بیٹھے ہیں۔‘‘

(حقائق الفرقان ،جلد دوم ص 535)

پھر ایسے لوگوں کو جو جھوٹ بولتے اور اَفواہیں پھیلاتے ہیں بڑی سخت وعید کی گئی ہے، اُنہیں لعنتی کہا گیا ہے۔ ایک سعید فطرت کیونکر خدا تعالیٰ کی لعنت مول لینا چاہے گا اور وہ بھی کسی ایسے معاملے میں جس سے کوئی نفع حاصل نہیں۔ جو صرف معاشرے میں بے چینی پیدا کر سکتا اور دوسروں کے لئے نقصان کا باعث ہو سکتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔

لَئِنۡ لَّمۡ یَنۡتَہِ الۡمُنٰفِقُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ مَّرَضٌ وَّ الۡمُرۡجِفُوۡنَ فِی الۡمَدِیۡنَۃِ لَنُغۡرِیَنَّکَ بِہِمۡ ثُمَّ لَا یُجَاوِرُوۡنَکَ فِیۡہَاۤاِلَّا قَلِیۡلًا مَّلۡعُوۡنِیۡنَ ۚ اَیۡنَمَا ثُقِفُوۡۤا اُخِذُوۡا وَ قُتِّلُوۡا تَقۡتِیۡلًا

(الاحزاب: 62،61)

اگر منافقین اور وہ لوگ جن کے دلوں میں مرض ہے اور وہ لوگ جو مدینہ میں جھوٹی خبریں اڑاتے پھرتے ہیں باز نہیں آئیں گے تو ہم ضرور تجھے (ان کی عقوبت کے لئے) ان کے پیچھے لگا دیں گے۔ پھر وہ اِس (شہر) میں تیرے پڑوس میں نہیں رہ سکیں گے مگر تھوڑا۔ (یہ) دھتکارے ہوئے، جہاں کہیں بھی پائے جائیں پکڑلئے جائیں اور اچھی طرح قتل کئے جائیں۔

مومنین کی شان

ایک مومن کی شان تویہی ہے کہ وہ تقویٰ کی راہوں پر قدم مارے اور ہر لمحہ اپنے رب کی رضا پر راضی رہتے ہوئے اس جہان میں زندگی کے ایّام گزارے۔

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں۔
’’چاہئے کہ ہر ایک صبح تمہارے لئے گواہی دے کہ تم نے تقویٰ سے رات بسر کی اور ہر ایک شام تمہارے لئے گواہی دے کہ تم نے ڈرتے ڈرتے دن بسر کیا۔‘‘

(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 ص 12)

اگر ہماری سوچ اس نہج پر چلنا شروع کر دے تو کیسے ممکن ہے کہ ہم ہر سنی سنائی بات کو آگے پھیلا کر اپنے جھوٹے ہونے کا ثبوت خود فراہم کرتے چلے جائیں۔ یقیناً جھوٹ اور ایمان ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے۔مومنین کا ہدف مقرر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔

يٰٓا اَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِهٖ وَلَا تَمُوتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُسْلِمُونَ

(آل عمران : 103)

اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کا ایسا تقویٰ اختیار کرو جیسا اس کے تقویٰ کا حق ہےاور ہرگز نہ مرو مگر اس حالت میں کہ تم پورے فرمانبردار ہو۔

روزمرہ زندگی میں ہمیشہ سچ کو فوقیت دینا، سچائی کا ساتھ دینا، سچوں اور صدیقوں کی حمایت میں کھڑا ہونا بھی مومنین کا امتیاز ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوااللّٰہَ وَ کُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَ (التوبہ: 119) اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور صادقوں کے ساتھ ہو جاؤ۔

عام طور پر اس آیت کا مفہوم یہ لیا جاتا ہے کہ صحبت ِصالحہ کے حصول کے لئے صادقین کے ساتھ ہو جاؤ۔ یقیناً یہ معنی بہت اعلیٰ ہیں اور جماعتِ مومنین کو صحبتِ صالحین سے مستفید ہونے کی ترغیب دی گئی ہے۔ تاہم اس کے یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ اے مومنین کی جماعت! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور سچے لوگوں کی حمایت کرنے کے لئےاور اُن کا ساتھ دینے کےلئے اُن کے ساتھ کھڑے ہو جاؤ۔

اس لحاظ سے ان ایّام میں ہماری یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ معاشرے میں انتشار کو کم کرنے کے لئے خود تو کسی قسم کے جھوٹ کاحصہ نہ بنیں بلکہ جو درست اور سچی خبریں ہیں صرف اُن کا ساتھ دیں ۔

مومنین کی ایک امتیازی شان سچی گواہی دینا ہے

فرمایا۔ وَ الَّذِیۡنَ لَا یَشۡہَدُوۡنَ الزُّوۡرَ (الفرقان: 73) اور یہ وہ (اللہ تعالیٰ کے نیک) بندے ہیں جو جھوٹی گواہیاں نہیں دیتے۔

گواہی کی ایک قسم وہ ہے جو کسی مقدمہ وغیرہ میں دینا پڑتی ہے۔ فی زمانہ گواہی کی ایک صورت یہ بھی پیدا ہو گئی ہے کہ جس پیغام کوہم اپنے سوشل میڈیا ہینڈل یا موبائل فون وغیرہ سے آگے شیئر کرتے ہیں۔ دراصل ہم اس کے گواہ بن جاتے ہیں۔ فون یا کمپیوٹر پر کی گئی ہماری ہر ایک کلک کا حساب رہتا ہے۔ گویا ہمارے دستخط ہو جاتے ہیں اور گواہیاں ثبت ہوتی جاتی ہیں۔ ہم ان معلومات کے ذمہ دار ٹھہرائے جا سکتے ہیں ۔

سچائی کس طرح نیکی کے بچے پیدا کرتی ہے اور جھوٹ کس طرح بُرائی کو جنم دیتا چلا جاتا ہے اس کی ایک جھلک حضرت محمد ﷺ کے اس ارشاد گرامی میں ہے۔

حضرت ابن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا۔
سچائی نیکی کی طرف اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے اور جو انسان ہمیشہ سچ بولے اللہ کے نزدیک وہ صدیق لکھا جاتا ہے اور جھوٹ گناہ کی طرف اور گناہ جہنم کی طرف لے کرجاتاہے اور جو آدمی ہمیشہ جھوٹ بولے ہو اللہ کے ہاں کذّاب لکھاجاتا ہے۔

(مسلم کتاب البر و الصلۃ)

حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں۔
’’بتوں کی پرستش اور جھوٹ بولنے سے پرہیز کرو۔ یعنی جھوٹ بھی ایک بُت ہے ۔جس پر بھروسہ کرنے والا خدا کا بھروسہ چھوڑ دیتا ہے۔سو جھوٹ بولنے سے خدا بھی ہاتھ سے جاتا ہے۔‘‘

پھر فرمایا۔
’’اللہ تعالیٰ نے تو جھوٹ کو نجاست کہا تھا کہ اس سے پرہیز کرو۔ اِجۡتَنِبُوا الرِّجۡسَ مِنَ الۡاَوۡثَانِ وَ اجۡتَنِبُوۡا قَوۡلَ الزُّوۡرِ (الحج: 31) بُت پرستی کے ساتھ اس جھوٹ کو ملایا ہے۔جیسا احمق انسان اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر پتّھر کی طرف سر جُھکا تا ہے ویسے ہی صدق اور راستی کو چھوڑ کر اپنے مطلب کے لئے جھوٹ کو بُت بناتا ہے………اس سے بڑھ کر اور کیا بدقسمتی ہوگی کہ جھوٹ پر اپنا مدار سمجھتے ہیں۔ مگر مَیں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ آخر سچ ہی کامیاب ہوتا ہے۔ بھلائی اور فتح اسی کی ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد چہارم ص 636)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ فرماتے ہیں۔
’’روز مرہ کے جھوٹ ہیں جو گھروں میں چل رہے ہیں۔ گھروں میں جھوٹ کی فیکٹریاں اور کارخانے لگے ہوئے ہیں ۔پس معاشرے کو جھوٹ سے پاک کریں۔ کیونکہ جھوٹ کے بغیر نہ تو ہم مؤحد بن سکتے ہیں نہ توحید کی تعلیم دے سکتے ہیں‘‘

(خطبہ جمعہ 14۔اگست 1992ء،الفضل 21 ستمبر 1992ء)

قرآن مجید میں درج واقعہ میں مومنین کے لئے سبق

سورۂ نورمیں ایک اہم واقعہ بیان ہوا ہے، اس میں ہمارے لئے کئی نشانات ہیں۔ جو غلطی اُس زمانے کے لوگوں سے ہوئی اس پر گرفت بھی کی گئی ہے اور آئندہ ایسی حرکتوں سے باز رہنے کی تنبیہ بھی۔ فرمایا: جب تمہاری زبانیں بولتی چلی جارہی تھیں ایک ایسے معاملے کے بارے میں جس کا تمہیں کوئی حتمی علم نہیں تھا ۔ تم اُسے معمولی خیال کر رہے تھے جب کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ بہت بڑی بات تھی۔

اِذۡ تَلَقَّوۡنَہٗ بِاَلۡسِنَتِکُمۡ وَ تَقُوۡلُوۡنَ بِاَفۡوَاہِکُمۡ مَّا لَیۡسَ لَکُمۡ بِہٖ عِلۡمٌ وَّ تَحۡسَبُوۡنَہٗ ہَیِّنًا ٭ۖ وَّ ہُوَ عِنۡدَ اللّٰہِ عَظِیۡمٌ

(النور :16)

قرآن مجید نے ہمیں یہ تنبیہ بھی کی ہے کہ خبردار جو کچھ تم کہتے ہو اور بولتے ہو وہ سب آن ریکارڈ ہے۔ فرمایا۔ مَا یَلۡفِظُ مِنۡ قَوۡلٍ اِلَّا لَدَیۡہِ رَقِیۡبٌ عَتِیۡدٌ (ق: 19) اور وہ کوئی بات نہیں کہتا مگر اس کے پاس ہی اس کا ہمہ وقت مستعد نگران ہوتا ہے۔

جب کسی نےمنصف کے سامنے گواہی درج کروانی ہو تو اپنے ایک ایک لفظ پر غور کرتا ہے کیونکہ دیا گیا بیان ریکارڈ کا حصہ بن جائے گا۔ جھوٹ ثابت ہونے کی صورت میں سزا بھی مل سکتی ہے اور عزت کا جنازہ بھی نکل جائے گا۔ اسی طرح ہمیں اپنےہر قول کی نگرانی کرنی چاہئےکہ لکھا تو جا رہا ہے۔

جلد بازی نہ کرو

دیکھا گیا ہے کہ بریکنگ نیوز دینے کے شوقین حضرات جلدی میں پیغامات کو آگے پہنچانے میں کوشاں رہتے ہیں ۔بعض اوقات کسی کی بیماری کی حالت کو وفات کی خبر بنا کر پیش کر دیا جاتا ہے ۔ کیا کبھی آپ نے سوچا ہے کہ آپ کا کوئی عزیز بستر مرگ پر زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا ہو۔ آپ اس کی جلد صحت یابی کے لئے دُعائیں اور ہر مناسب تدبیر کررہے ہوں لیکن اچانک آپ کے فون پر تعزیت اور افسوس کے پیغات آنا شروع ہو جائیں ۔ کس قدر تکلیف دہ وہ لمحات ہوں گے۔ کیسا ذہنی تشدد ہے جوہم بغیر سوچے سمجھے چند سیکنڈز میں دوسروں پر کر دیتے ہیں۔ آنخضور ﷺ نے ہمیں ایسی حرکات کرنے سے منع فرمایا ہے۔

قَالَ الْأَعْمَشُ وَلَا أَعْلَمُهٗ اِلَّا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ التُّؤَدَةُ فِي كُلِّ شَيْءٍ اِلَّا فِي عَمَلِ الْآخِرَةِ

(سنن أبي داؤد، كِتَابُ الْأَدَبِ بَابٌ فِي الرِّفْقِ)

حضرت اعمش کہتے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا :کسی کام میں جلد بازی نہیں کرنی چاہئے سوائے اس کے کہ آخرت کا کام ہو ۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ
’’چاہئے کہ تمہاری زبانیں تمہارے قابو میں ہوں۔ ہر قسم کے لغو اور فضول باتوں سے پرہیز کرنے والی ہوں۔جھوٹ اس قدر عام ہو رہا ہے کہ جس کی کوئی حد نہیں۔ درویش، مولوی، قصہ گو، واعظ اپنے بیانات کو سجانے کے لئے خدا سے نہ ڈر کر جھوٹ بول دیتے ہیں۔‘‘

(ملفوظات، جلددوم ص 266)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒفرماتے ہیں ۔
’’قرآن کریم میں بھی اس بات کی بار بار تاکید فرمائی گئی ہے تو جب کوئی افواہ سنو تو خواہ مخواہ اس کو قبول نہ کر لیا کرو اور آگے نہ چلا دیا کرو۔ اِدھر کان میں افواہ پڑی اور زبان نے اُس کو اُچھال دیا،یہ بہت بڑا گناہ ہے اور اس کے نتیجہ میں سوسائٹی میں لوگوں کے متعلق بدروایتیں پھیلتی ہیں اور جھوٹ کے تَنے پھوٹے ہیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ 2 فروری 2001ء۔الفضل انٹرنیشنل 9 تا 15 مارچ 2001ء)

اِنفوڈیمک کی اصطلاح

وبائی ایّام میں روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں اَفواہیں گردش میں آتی ہیں۔ اس قسم کی اَفواہوں کے لئےبین الاقوامی ادارہ صحت نے ایک نئی ٹرم متعارف کروائی ہے جسے ’’اِنفوڈیمک‘‘ کہا جاتا ہے۔ ایپی ڈیمک (وباء) اور انفارمیشن (معلومات) کے امتزاج سے بننے والی اس ٹرم کی وضاحت کرتے ہوئے ماہرین کہتے ہیں کہ بعض اوقات کسی وباء کی نسبت اس سے متعلق اَفواہیں اور غلط معلومات زیادہ تیزی سے پھیلتی ہیں، جس سے بہت زیادہ نقصان ہوتا ہے۔

حالیہ وباء کے دنوں میں پھیلائی جانے والی اَفواہوں کی چند مثالیں

کورونا وائرس کے ساتھ ساتھ پوری دُنیا میں اَفواہوں اور فیک نیوز کی وباء بھی پھیل چکی ہے۔ جس کی سینکڑوں مثالیں سامنے آچکی ہیں۔ صرف چند ایک کا ذکر کیا جاتا ہے۔

2۔ اپریل کو برمنگھم اور Merseyside کے علاقوں میں بعض لوگوں نے 5G موبال سگنلز کے کھمبوں کوآگ لگا دی۔اس کی بنیاد صرف معاشرے میں گردش کرنے والی یہ اَفواہیں تھیں کہ اس ٹیکنالوجی کی وجہ سے کورونا وائرس پھیل رہا ہے۔ جبکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بارے میں کوئی ثبوت نہیں ہے ۔ اُنہوں نے کہا کورونا وائرس تو اُن علاقوں میں بھی پھیل رہا ہے جہاں 5G ٹیکنالوجی استعمال ہی نہیں ہو رہی۔

(بی بی سی)

عام طو رپر ہم یہ تصور نہیں کر سکتے، پڑھے لکھے ترقی یافتہ معاشرے میں بھی لوگ اس قدر اَفواہوں پر کان دھر سکتے ہیں۔ لیکن فیک نیوز کی وجہ سے ایک ہیجان پیدا ہونا فطری عمل ہے اور لوگ معاملات اپنے ہاتھ میں لے کر انتشار کا باعث بن جاتے ہیں ۔

آئیوری کوسٹ مغربی افریقہ کا ایک ملک ہے۔باقی افریقن ممالک کم وسائل کے باوجوداس وباء کو روکنے کے لئے کوششیں کر رہے ہیں ۔ ایسی ہی ایک کوشش آئیوری کوسٹ میں کی گئی اور مفاد عام کی خاطر کورونا وائرس کے ٹسٹ کے لئے حکومت نے ایک سنٹر قائم کیا ۔ لیکن بعض اَفواہ سازوں نے یہ خبر مشہور کر دی کہ اس سے ہمارے علاقے میں وائرس پھیل جائے گا۔ چنانچہ لوگوں کے ایک ہجوم نے اس سنٹر کو جو اُن کے مفاد کی خاطر بنایا گیاتھا حملہ کر کے گرا دیا ۔ اس واقعہ کو کورونا وائرس سے متعلقہ پہلی پبلک ہنگامہ آرائی کہا جا رہاہے۔

بعض ممالک میں کورونا وائرس سےمتعلق جھوٹی اَفواہیں پھیلانے والے گرفتار بھی کئے گئے ہیں۔ایک صاحب نے تو ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر ڈال دی کہ آج رات تمام لوگ اپنے دروازے کھڑکیاں اور روشن دان بند رکھیں کیونکہ رات کو کورونا وائرس آسمان سے ہم پر گرے گا۔

عرب میڈیا کے مطابق مصر میں سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر کورونا وائرس سے متعلق گمراہ کن معلومات پھیلا کر لوگوں میں خوف وہراس پیدا کرنے والوں پر ایک لاکھ پاؤنڈ سے 3 لاکھ پاؤنڈ تک کا جرمانہ اور 2 سال قید کی سزا ہوسکتی ہے جب کہ موبائل اور کمپیوٹر بھی ضبط کرلئےجائیں گے۔

سچائی کا اظہار ایک بنیادی خُلق ہے۔جس کی توقع ہر انسان سے کی جاتی ہے۔مذاہب نے سچ بولنے کی طرف تفصیل سے توجہ دلائی ہے ۔غیر مذہبی معاشرہ بھی سچ کو بنیادی خُلق سمجھتا ہے۔جس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ فطرت کی آواز ہے۔ بے بنیاد اَفواہیں اور جھوٹی خبریں پھیلانا اخلاقیات سے گری ہوئی حرکت سمجھی جاتی ہے۔ جس کی توقع کسی مومن سے تو بہرحال نہیں کی جا سکتی۔ ان تکلیف دہ ایّام میں ہمیں اپنے مولیٰ کے حضور تمام دُکھی انسانیت کے لئے دُعا کرنی چاہئے نہ کہ جھوٹی خبریں پھیلا کر اُن کے دُکھوں میں اضافے کا باعث بننا چاہئے۔

ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ اس وباء کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔
’’آخری حربہ دُعا ہے اور یہ دُعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کے شر سے بچائے۔ اُن تمام احمدیوں کے لئے بھی خاص طور پر دُعا کریں جو کسی وجہ سے اس بیماری میں مبتلا ہو گئے ہیں………عمومی طور پر ہر ایک کے لئے دُعا کریں۔ اللہ تعالیٰ دُنیا کو اس وباء کے اثرات سے بچا کے رکھے۔ جو بیمار ہیں اُنہیں شفاء کاملہ عطا فرمائے اور ہر احمدی کو شفا عطا فرمانے کے ساتھ ساتھ ایمان اور ایقان میں بھی مضبوطی پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔‘‘

(الفضل انٹرنیشنل 10۔اپریل 2020ء)

(چوہدری نعیم احمد باجوہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 مئی 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 اپ ڈیٹ 04 ۔مئی2020 ء