• 20 اپریل, 2024

’’ہمارے غالب آنے کے ہتھیار، استغفار، توبہ، دینی علوم کی واقفیت، خدا تعالیٰ کی عظمت کو مدّنظر رکھنا اور پانچوں وقت کی نمازوں کو ادا کرنا ہیں‘‘۔(حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنی کتاب ‘‘نزول المسیح’’ میں فرماتے ہیں کہ
’’خدا نے ابتداء سے لکھ چھوڑا ہے اور اپنا قانون اور اپنی سنت قرار دے دیا ہے کہ وہ اور اُس کے رسول ہمیشہ غالب رہیں گے۔ پس چونکہ مَیں اُس کا رسول یعنی فرستادہ ہوں مگر بغیر کسی شریعت اور نئے دعویٰ اور نئے نام کے بلکہ اُسی نبی کریم خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا نام پا کر اور اُسی میں ہو کر اور اُسی کا مظہر بن کر آیا ہوں۔ اِس لئے مَیں کہتا ہوں کہ جیسا کہ قدیم سے یعنی آدم کے زمانہ سے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک ہمیشہ مفہوم اس آیت کا سچا نکلتا آیا ہے اب بھی میرے حق میں سچا نکلے گا۔‘‘

(نزول المسیح روحانی خزائن جلد 18صفحہ380,381)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یہاں جس آیت کا حوالہ دے رہے ہیں وہ سورۃ مجادلہ کی یہ آیت ہے کہ: کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ۔ اِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ (المجادلہ: 22)

چند دن ہوئے مجھے پاکستان سے کسی نے لکھا، گو کہ مَیں لکھنے والے سے متفق نہیں ہوں کیونکہ جس طرح اس لکھنے والے نے تصویر کھینچی ہے، میرے نزدیک اس بات کو عموم کا رنگ نہیں دیا جا سکتا۔ لکھنے والا لکھتا ہے کہ اس بات کو بہت زیادہ جماعت کے لٹریچر اور اشاعت کے ذرائع میں اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نبی اللہ ہیں۔ کیونکہ لوگ آپؑ کو نبی کہنے سے جھجکتے ہیں۔ میرے نزدیک یہ افرادِ جماعت پر بدظنی ہے۔ اس کو عموم کا رنگ نہیں دیا جا سکتا۔ ہو سکتا ہے کہ اس لکھنے والے کے ساتھ اُٹھنے بیٹھنے والے حالات کی وجہ سے مداہنت کا مظاہرہ کرتے ہوں۔ لیکن یہ وہ چند لوگ ہیں جن پر دنیا داری غالب آ جاتی ہے۔ وہ مصلحتوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشادات کو نہ کبھی دیکھا ہے، نہ پڑھا ہے۔ بلکہ میرے خطبات بھی نہیں سنتے کیونکہ مَیں تو یہ کوشش کرتا ہوں کہ کسی طرح بات سے بات نکلے اور بات سے بات نکالتے ہوئے آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مقام واضح کروں۔ بہر حال اگر کسی کے دل میں یہ بات ہے تو ہر اُس شخص کو جو اپنے آپ کو احمدی کہتا ہے یہ واضح ہونا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق نبی اللہ ہیں۔ اور اس بارہ میں اگر دنیا کے کسی بھی خطے میں رہنے والے شخص کے دل میں، جو اپنے آپ کو احمدی کہتا ہے، انقباض ہے تو اُس کو دور کر لینا چاہئے۔ جیسا کہ خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے اس اقتباس میں فرمایا ہے جو میں نے پڑھا ہے کہ آپ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں مگر بغیر کسی شریعت کے اور نبی کریم اور خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں اور آپ کا نام پا کر اور وَآخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ (الجمعۃ: 4) کی قرآنی پیشگوئی کے مطابق۔

جہاں تک پاکستان کے احمدیوں کا سوال ہے یا انڈونیشیا کے احمدیوں کا سوال ہے اُن کو تو ظلم کی چکی میں پیسا ہی اس لئے جا رہا ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو نبی کیوں کہتے ہیں، نبی کیوں سمجھتے ہیں؟ اس لئے سوائے اِکّا دکّا مداہنت اختیار کرنے والے کے عموم کے رنگ میں پاکستانی احمدیوں کے بارہ میں یہ کہا ہی نہیں جا سکتا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو نبی نہیں سمجھتے۔ بلکہ ہمارے مخالفین تو مبالغہ کرتے ہوئے احمدیوں پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ نعوذ باللہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو آخری نبی مانتے ہیں۔ حالانکہ کوئی احمدی کبھی یہ تصور بھی نہیں کر سکتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کوئی اور آخری شرعی نبی ہو سکتا ہے اور آپ سے بڑھ کر کسی کا مقام ہو سکتا ہے۔ یہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان ہے جو احمدی بیان کرتے ہیں اور جو ہر احمدی کے ایمان کا حصہ ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے وہ بلند مقام عطا فرمایا ہے اور وہ مرتبہ عطا فرمایا ہے جس کے ماننے والے کو اور جس سے عشق کرنے والے کو اور جس کی حقیقی رنگ میں پیروی کرنے والے کو اور جس کا اُمّتی بننا فخر سمجھنے والے کو اللہ تعالیٰ نے نبوت کا مقام عطا فرمایا۔

بہر حال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آپ ہی کی پیروی میں نبی اللہ ہیں۔ اگر ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو نبی اللہ نہ مانیں تو پھر ہمارا یہ دعویٰ بھی غلط ہو گا کہ اسلام کی نشأۃ ثانیہ اور اسلام کا غلبہ احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے ذریعے ہو گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا غلبہ کا وعدہ رسول کے ساتھ ہے جیسا کہ اس آیت میں ظاہر کیا گیا ہے۔ کسی مجدد یا کسی مصلح کے ساتھ نہیں ہے۔ اسلام کے آخری زمانہ میں غلبہ کا وعدہ مومنین کی اُس جماعت کے ساتھ ہے جو ’’وَاٰخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ (الجمعۃ: 4)‘‘ کی مصداق بننے والی ہے۔ تبھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مومنوں کو تاکید فرمائی تھی اور یہ نصیحت فرمائی تھی کہ جب مسیح و مہدی کا ظہور ہو تو خواہ برف کی سِلوں پر سے بھی گزر کر جانا پڑے تو جانا اور جا کر میرا سلام پہنچانا۔ کیوں؟ اس لئے کہ اس سے اپنے ایمان کو بھی مضبوط کرو گے اور اسلام کے غلبہ کی جو آخری جنگ لڑی جانے والی ہے، جو تلوار سے نہیں، جو توپ سے نہیں بلکہ دلائل و براہین سے لڑی جانے والی ہے، اُس میں حصہ دار بن کر میری حقیقی پیروی کرنے والے بن جاؤ گے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بن جاؤ گے۔ حقیقی مومن کہلانے والے بن جاؤ گے۔

پس احمدی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر اس لئے ایمان لائے کہ آپ کے ساتھ جُڑ کر ہم اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان میں بھی مزید پختہ ہوں اور اسلام کے غلبہ کے نظارے بھی دیکھیں۔ پھر یہ بھی یاد رہے کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نبی نہیں تو پھر خلافت بھی نہیں۔ کیونکہ خلافت کا اس لئے نبوت کے ساتھ تعلق ہے کہ خلافت نے منھاجِ نبوت پر چلنا ہے۔ آپ علیہ السلام خاتم الخلفاء تھے اور اس خاتم الخلفاء ہونے کی وجہ سے آپ کو نبی کا درجہ ملا اور اس کے بعد پھر آپ کے ذریعہ سے سلسلہ خلافت شروع ہوا۔ پس جماعت احمدیہ کے نظام خلافت کا جو ہر ایک تسلسل ہے اس کا تعلق اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو نبی تسلیم کر یں، مانیں اور یقین رکھیں۔ ایک مرتبہ کچھ لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کے لئے حاضر ہوئے تو آپ نے اُن کے ایمان کی مضبوطی کے لئے مختلف تفصیلی نصائح فرمائیں جن کا خلاصہ یہ ہے۔ فرمایا کہ:
صرف زبان سے بیعتِ توبہ نہ ہو، بلکہ دل سے اقرار ہو، اور جب یہ ہوگا تو پھر خدا تعالیٰ کے وعدوں کے پورا ہونے کے نظارے بھی دیکھو گے۔ بیعت کرنے والا چاہتا ہے (اور حقیقت میں کا اُس کی یہ خواہش ہوتی ہے) کہ وہ بیعت کر کے اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرے۔ اور یہ نظارے آجکل بھی بیعت کرنے والے دیکھتے ہیں۔ روحانیت میں بڑھتے جاتے ہیں۔ کئی بیعت کرنے والے جو ہیں وہ اپنے خطوط میں یہ ذکر کرتے ہیں بلکہ ایک پاک تبدیلی جو اُن میں پیدا ہوتی ہے، اُسے دوسرے بھی دیکھ کر محسوس کر رہے ہوتے ہیں۔ بیوی بچے حیران ہوتے ہیں کہ یہ کیا تھا اور ابھی کیا ہو گیا ہے؟۔ یہ کیا انقلاب ہے جو اس میں پیدا ہوا ہے۔ تو یہ سچی بیعت ہے جو اس قسم کی پاک تبدیلیاں پیدا کرے۔

پھر ان بیعت کرنے والوں کو آپ نے یہ نصیحت بھی فرمائی کہ کبھی اپنی بیعت کو کسی دنیاوی مقصد سے مشروط نہ کرنا بلکہ اپنے اعمال میں بہتری پیدا کرو اور پھر دیکھو اللہ تعالیٰ بغیر انعام اور اجر کے نہیں چھوڑتا۔ پھر فرمایا کہ بیعت کر کے پریشان نہیں ہونا چاہئے۔ تکالیف آتی ہیں مگر آہستہ آہستہ حقیقی مومن دشمنوں پر غالب آتے جاتے ہیں کیونکہ اُس کا وعدہ ہے کہ مَیں اور میرے رسول غالب آئیں گے۔

(ماخوذ ازملفوظات جلدنمبر3 صفحہ219تا221)

پھر آپ نے یہ بھی فرمایا کہ ’’ہمارے غالب آنے کے ہتھیار، استغفار، توبہ، دینی علوم کی واقفیت، خدا تعالیٰ کی عظمت کو مدّنظر رکھنا اور پانچوں وقت کی نمازوں کو ادا کرنا ہیں‘‘۔ فرمایا کہ ’’نماز دعا کی قبولیت کی کنجی ہے۔ جب نماز پڑھو تو اُس میں دعا کرو اور غفلت نہ کرو اور ہر ایک بدی سے خواہ وہ حقوقِ الٰہی کے متعلق ہو، خواہ حقوق العباد کے متعلق ہو، بچو‘‘۔

(ملفوظات جلدنمبر3 صفحہ221,222)

(خطبہ جمعہ 13؍ مئی 2011ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 مئی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 مئی 2021