• 18 اپریل, 2024

اطاعت: اہمیت اور تقاضے

اطاعت اپنی مرضی، خواہش اور ذاتی رائے کو کسی دوسرے کی خاطر چھوڑ دینے اوراُسکی بات پر عمل کرنے کو کہتے ہیں، جس کی اطاعت کی جاتی ہے اُسے مطاع کہا جاتا ہے اور اطاعت کرنے والا مطیع یا اطاعت گذار کہلاتا ہے، موقع محل کی مناسبت سے اطاعت کی مختلف اقسام اور مخصوص حدود و قیود ہوتی ہیں جن کا تعین مطاع اور مطیع کا باہمی معاملہ ہوتا ہے جیسے کسی دفتر میں سب کام کرنے والوں پہ لازم ہوتا ہے کہ وہ ملازمت کے اوقاتِ کار میں دفتر کے انچارج کی دفتری معاملات میں اطاعت کریں،لیکن باقی معمولاتِ زندگی میں دفتر کے انچارج کی اطاعت کی ضرورت نہیں ہوا کرتی بہرحال دفتری معاملات میں عدم اطاعت سے ملازمت ختم ہوجاتی ہے۔ ایک مُلک کے شہریوں پر اس مُلک کے ٹریفک، ٹیکس اور دیگر جملہ قوانین کی اطاعت لازم ہوتی ہے اور عدم اطاعت پرجرمانوں اور سزاؤں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، موجودہ کرونا وائرس کی وبا سے بچاؤ کے ضمن میں متعلقہ محکمہ صحت کی ہدایات اور ایس اوپیز کی اطاعت کرنے والا محفوظ جبکہ عدم اطاعت کرنے والا موت کا شکار ہو سکتا ہے، ایک مذہب کے پیرو ہونے کے ناطے اطاعت کا دائرہ تمام تر معمولاتِ زندگی پر محیط ہوتا ہے، عدم اطاعت کی صورت میں جہنم کا خوف ہوتا ہے اور مذہب کے پیرو کار روزمرّہ جملہ اُمور میں اپنے مذہبی اُصولوں اور احکام پرعمل کرنے سے جنت کی اُمید رکھتے ہیں۔

کائنات میں ہر پیمانہ پہ اطاعت کی کارفرمائی: ہماری زمین کروی شکل رکھتی ہے اور ایک خاص رفتار کے ساتھ سورج کے گرد ایک مقررہ فاصلے پہ ایک بیضوی مدار میں چکرلگا تے ہوئے خلا میں مسلسل محوِ پرواز ہے جبکہ زمین کے باسی اسے ساکن اور سورج چاند کو حرکت کرتا ہوا محسوس کرتے ہوئے اس پر زندگی بسر کر رہے ہیں۔زمین کی گردش کے نتیجے میں سال کے مختلف موسم بنتے ہیں اور مختلف اجناس اور پھل ان موسموں میں پیدا ہوتے ہیں۔ زمین سورج کے گرد چکر لگانے کے ساتھ ساتھ بذاتِ خود بھی ایک خاص رفتار سے اپنے محور کے گرد گھوم رہی ہے۔ زمین کے اس گھومنے کی وجہ سے دن رات بنتے ہیں۔ ہماری زمین کے علاوہ مختلف جسامت کے بعض اور سیارے بھی ہیں جو خلا میں سورج کے گرد مختلف فاصلوں پہ اپنے اپنے مداروں میں مختلف رفتاروں سے اپنے محوروں کے گرد گھومتے ہوئے چکر لگا رہے ہیں۔ہمارا یہ نظامِ شمسی ایک کہکشاں کا بہت ہی چھوٹا سا حصہ ہے اور اس کہکشاں میں محوِ پرواز ہے یہ کہکشاں خلا میں خود ایک بڑی کہکشاں کے گرد گھوم رہی ہے۔ اس طرح کی لاتعداد چھوٹی بڑی کہکشائیں ہیں جو اس وسیع و عریض کائنات میں مسلسل محوِ گردش ہیں اور سب کی سب ایک مربوط و منظم نظام کی کامل اطاعت کر رہی ہیں۔اس اطاعت کی وجہ سے یہ عظیم الشان نظام رواں دواں ہے۔ کائنات کے وسیع و عریض نظام کے علاوہ مادے کے چھوٹے سے چھوٹے ذرے ایٹم کو لیں جو آنکھ سے نظر تک نہیں آتا اِسکے مرکزنیوکلیس میں پروٹان اور نیوٹران کے ذرات ہوتے ہیں،پھر نیوکلیس کے باہر ننھے منھے الیکٹرانوں کے جُھرمٹ ہوتے ہیں جن کی تعداد ہر مخصوص ایٹم کے سائز کی مناسبت سے کم و بیش ہوتی ہے۔ یہ الیکٹران مختلف مداروں میں ان مداروں کے سائز کے مطابق اپنی کم یا زیادہ تعداد کیساتھ ہمہ وقت محوِ پرواز رہتے ہیں۔ الیکٹران نیوکلیس کے گرد اپنے مداروں میں گھومنے کے علاوہ اور کام بھی بجا لارہے ہوتے ہیں۔ ان کاموں میں خود گھومنا بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ الیکٹران خاص شرائط کے تحت اپنے مخصوص مدار سے پھلانگ کر دوسرے مداروں میں چلے جائیں اور پھر واپس اپنے مدارمیں واپس آجائیں تو لیزر اور دیگر ایجادات کیلئے پلیٹ فارم مہیا ہوتا ہے یہ سب کُچھ ایک نظام اور قانون کی مکمل اطاعت کے دائرہ میں رہتے ہوئے ہوتا ہے۔ الغرض چھوٹے بڑے ہر پیمانہ پر درکار مخصوص نظام کی اطاعت ہورہی ہے اور انسانیت اس سے فیضیاب ہو رہی ہے، پھر خود انسانی جسم ہمارے خالق ومالک کی صنّاعی کا ایک حیرت انگیز شاہکار ہے جس میں مختلف نظام باہمی ہم آہنگی سے کامل اطاعت کے تحت اپنے اپنے مفوضہ کام بجا لارہے ہوتے ہیں اور انسان صحت مند اور توانا رہتا ہے، جونہی کہیں اطاعت میں رخنہ آئے انسان بیمار پڑ جاتا ہے مثلاً کینسر میں انسانی جسم کے بعض خلیے (سیل) جسم کے باقی نظام سے بغاوت کرتے ہوئے از خودبڑھنا شروع کر دیتے ہیں اور اپنے حصے سے زیادہ خوراک غصب کرتے ہیں اگر ایسے باغی سیلز والے حصہ کا علاج نہ کیا جائے توپورا انسانی جسم ہلاک ہو جاتا ہے،اس طوریہ ثابت ہوتا ہے کہ کسی بھی نظام کی بقا اور بہترین کارکردگی کیلئے اطاعت کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔

مذہب کے توسط سے اللہ کی اطاعت: اشرف المخلوقات انسان کی پیدائش پر اللہ کے حکم سے فرشتے سجدہ ریز ہوئے مگر ابلیس نے سجدہ سے انکار کر دیا کہ میں انسان سے افضل ہوں،یوں انسانی پیدائش پر اوّلین مرحلہ اطاعت کا پیش ہوا اور فرمانبرداری فرشتوں کا خاصہ اور نافرمانی ابلیسیت کا دوسرا نام ٹھہرا۔ابلیس نے انسانوں کو ورغلانے اور اللہ کی اطاعت کے دائرہ سے باہر نکال کر اپنے ساتھ ملانے کا مشن سنبھال لیا، ابلیس کی بظاہر خوشنما مگر دراصل انتہائی غلیظ،گندی اور خطرناک چالوں سے بچانے کیلئے اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء دُنیا میں بھیجنے کا سلسلہ جاری کیا تا وہ انسانوں کو اللہ کی اطاعت اختیار کرنے کا درس دیں۔ خوش بخت انسان انبیاء کی آواز پر لبیک کہہ کراللہ کی اطاعت اختیار کرکے اُن کی جماعت میں شامل ہوتے رہے۔ دوسری طرف شیطان اور اُسکے پیرومسلسل اپنی کوششوں میں سرگرداں رہتے رہے کہ انبیا کی جماعت کے لوگوں کو بہلا پھسلا کر اللہ کی اطاعت کے دائرہ سے باہر نکال سکیں۔ انبیاء اپنی جماعتوں کو درسِ اطاعت دیتے رہے ہیں۔ انبیاء کی وفات کے بعد اُن کی قائم کردہ جماعت کے سربراہ اور آگے درجہ بدرجہ عہدہ داران اس جماعت کے جملہ افراد کو دائرہ اطاعت کے اندر رہنے کا درس دیتے رہے۔ انبیاء کی جماعتوں کی طرف سے تبلیغی کوششیں بھی جاری رہیں جن کاایک اور مقصد مزید لوگوں کو ابلیس کے چنگل سے نکال کر اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے جُوئے کے نیچے لانا رہا، دُنیا کے سبھی مذاہب اپنے علاقہ اور وقت میں یہ مشن لیکر آتے رہے ہیں یہاں تک کہ دُنیا ایک عالمگیر اور دائمی مذہب کی پیاس محسوس کرنے لگی تب اللہ تعالیٰ نے پیارا مذہب اپنے محبوب رسول ھادی دوجہاں محمد مصطفےٰ ﷺ کے ذریعہ اسلام کی شکل میں نازل کیا، اب اللہ تعالیٰ کی اطاعت ھادی دوجہاں ﷺکے اسوہ حسنہ کی پیروی کرتے ہوئے حقیقی مسلمان بننے سے مشروط ہے۔ دُنیوی اُمور میں مُلکی قوانین پہ عمل کرنا اطاعت کی ایک شکل ہے لامذہب اور دُنیا دارشخص عموماً ایسی اطاعت سزاؤں اور جرمانوں سے بچنے جبکہ مسلمان ایسی اطاعت اللہ تعالیٰ کی اطاعت گردانتے ہوئے بجالاتا ہے۔

اسلام میں اطاعت کا مقام و مرتبہ: دینِ فطرت اسلام جوسب علاقوں اور سب زمانوں کیلئے ہے یہ انسانوں کو ابلیس کے گندے باغیانہ حملوں سے بچا نے اورہر قسم کے خطرات کے طوفانوں سے نکال کر اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے حسین دائرہ میں لانے کی غرض سے نازل ہوا ہے۔اسلام کا عربی ماخذ سَلِمَ ہے جس کے معنی امن، خالص پن، فرمانبرداری اور اطاعت کے ہیں۔ مذہبی اصطلاح میں اسلام کا مطلب اللہ کی رضا پر سر جھکا لینا اور اللہ کے احکام کی فرمانبرداری کرنا ہے۔چونکہ انسان سے کمزوریوں اور خطاؤں کے سرزد ہونے کا احتمال ہمیشہ ر ہتا ہے لہٰذا قدم قدم پہ وہ اللہ تعالیٰ کے رحم اور مغفرت کا حاجت مند ہے۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات جو قُرآنِ کریم اورا حادیث میں مذکور ہیں اُن پہ عمل کرنا اللہ کی اطاعت میں آنے کاہی نام ہے اور جو لوگ شب و روز ہر معاملہ میں کامل طور پہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اختیار کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے رحم اور فضل و کرم کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔ ہر شخص کا اطاعت اختیارکرنے کا معیار مختلف ہوتا ہے اِسی معیارِ اطاعت کی مناسبت سے ہر شخص الہٰی انعامات کا مورد بنتا ہے۔ اطاعت و فرمانبرداری کے تمام طریق اور تفاصیل کااوّلین ماخذ و منبع اللہ تعالیٰ کا پاک کلام قُرآنِ مجید ہے پھر پیغمبرِ اسلام کا نمونہ اور فرمودات جو سنت و حدیث کی شکل میں ہیں وہ سب اطاعتِ الٰہی کا مجسم درس ہیں۔

اسلام میں رضاکارانہ اطاعت، اس کا محر ک جذبہ ایمانی اور محبتِ الہٰی: دُنیوی معاملات میں اطاعت عموماًکسی کے ڈر، رعب یا کسی وقتی لالچ وغیرہ کی بنأ پر باعثِ مجبوری ہوتی ہے۔مگر اسلام میں اطاعت کا جو تصور ہے وہ یکسر مختلف ہے۔ اسلام میں اطاعت اگرچہ ایک بنیادی اورمرکزی حیثیت رکھتی ہے مگر اس ضمن میں کسی قسم کے جبر روا رکھے جانے کا کوئی سوال پیدانہیں ہوتا۔ ایمانیات اور عبادات کے ضمن میں عدم اطاعت کی صورت میں کسی بدنی سزا کا کوئی ادنیٰ سا تصور بھی اسلام میں نہیں ہے۔ ہاں البتہ مومنین کو خبردا ر کرنے اور یاد دہانی کرانے کی غرض سے اطاعت کی ضروت،حکمت اور برکات سے ضرور آگاہ کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ ارشادِ ربانی ہے۔ « تو کہہ! اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت کرو پس اگر وہ پھر جائیں تو اِس (رسول) پر صرف اس کی ذمہ داری ہے جو اس کے ذمہ لگایا گیا ہے اور تم پر اس کی ذمہ داری ہے جو تمہارے ذمہ لگایا گیا ہے اور اگر تم اس کی اطاعت کرو تو ہدایت پا جاؤ گے اور رسول کے ذمہ تو صرف بات کو کھول کر پہنچا دینا ہے»۔(النور۔۵۵) «جو رسول کی اطاعت کرے تو سمجھو کہ اُس نے اللہ کی اطاعت کی اور جو لوگ پیٹھ پھیرگئے تو یاد رہے کہ ہم نے تجھے اُن پہ نگہبان بنا کر نہیں بھیجا «(النساء۔81)۔اسلام کے شرعی قوانین جن سے رو گردانی عدم اطاعت کے زمرے میں آتی ہے اُن کے نفاذ کے سلسلے میں باقاعدہ سزائیں قران کریم میں موجود ہیں اور اُن کا بنیادی تعلق معاشرتی اصلاح سے ہے۔ مثلاً۔ قتل، اغوا، زنا، ڈاکہ، چوری، خیانت وغیرہ جرائم کی سزائیں۔ ایسے جرائم کیلئے دُنیا کا ہر مُلک اور مذہب سزائیں تجویز کرتا ہے۔ جرائم پہ شریعت کی عائد کردہ سزاؤں پہ عمل درآمد کرانا عدالتوں اورحکومتوں کا کام ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت کے زُمرہ میں آتا ہے جو ظالموں کو سزا دینے جبکہ مظلوموں اور کمزوروں کی حفاظت اور داد رسی کی غرض سے ہے تا لوگ امن و امان کے ساتھ محفوظ زندگی گذار سکیں۔

اطاعت کا دائرہ کار اوربرکت: نیکی اور اچھائی کی باتوں کے علاوہ روز مرہ کے معاملات میں بھی اطاعت لازم ہے لیکن اگر کوئی حاکم یا عہدہ دار کسی ایسی بات کا حکم دیتا ہے جو معصیت پہ مبنی ہے اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے زُمرہ میں آتی ہے تو ایسی صورت میں اطاعت کرنی غیر واجب ہو جاتی ہے کیونکہ ایسی بات پہ عمل اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے دائرہ سے باہر نکلنے کے مترادف ہوگا۔ حضرت عبدللہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا امام کی اطاعت اور فرمانبرداری ہر مسلمان کیلئے ضروری ہے خواہ وہ امر اس کیلئے پسندیدہ ہو یا ناپسندیدہ جب تک وہ امر معصیت نہ ہو لیکن جب امام کھلی معصیت کا حکم دے تو اس وقت اسکی اطاعت اور فرمانبرداری نہ کی جائے۔ (ابو داؤد کتاب الجہاد باب فی الاطاعۃ)۔ اطاعت کے نتیجہ میں روز مرّہ کے جملہ اُمور کے فیصلے قرآن و سُنت کی روشنی میں متفقہ طور پہ طے پاتے ہیں اور باہمی اتفاق واتحاد سے طاقت و قوت حاصل ہوتی ہے، اس کے برعکس عدم اطاعت کے نتیجہ میں سب طاقت و رعب جاتے رہتے ہیں اور مایوسی ہاتھ آتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
’’اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت کرتے رہا کرو اور آپس میں اختلاف نہ کیا کرو (اگر ایسا کرو گے) تو دل چھوڑ بیٹھو گے اور تمہاری طاقت جاتی رہے گی اور صبر کرتے رہو اللہ یقیناً صبر کرنیوالوں کے ساتھ ہے‘‘ (سورۃ الانفال:74)۔

اطاعت کا اجر: اطاعت کے اجر کا انحصار اطاعت کے محرک پر ہوتا ہے۔اطاعت کے محرکات مختلف ہوسکتے ہیں۔اطاعت جبری ہوسکتی ہے جیسے ایک قیدی یا غلام اپنے مالک کی اطاعت پر مجبور ہوتا ہے۔ ایک شخص اگر کسی کی اطاعت کرتا ہے تو اُسکی اطاعت اپنی دلی رضا اور ذاتی خوشی کی بنا پربھی ہو سکتی ہے تا جس ہستی کی اطاعت کی جاتی ہے اُسکا مزید پیار ا ور رضا حاصل ہو یا پھر وہ شخص اس لئے اطاعت کرنے پر مجبور ہوگا کہ عدم اطاعت کی صورت میں سزا کا خوف دامنگیر ہوگا۔ بعض صورتوں میں اطاعت کا محرک محض وقتی لالچ اورفائدہ کاحصول ہوا کرتا ہے۔ کسی ہستی کی اطاعت اُسکی محبت و عشق میں مست ہوکر طبعی جوش و جذبہ اورذاتی خوشی سے کرنے کی مثال اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے جو اللہ تعالیٰ کے انبیاء کی جماعتوں میں شامل ہونے اور اُن جماعتوں کے نظام کی اطاعت کی صورت میں ہوتی ہے۔جبری اطاعت کی مثال ایک کمزور بے بس قیدی یاغلام کی اپنے قہّار و جبّار مالک یاآقا کی اطاعت کرنے سے دی جاسکتی ہے جبکہ گدھے کو باپ بنانے کا محاورہ ذاتی مفاد اور لالچ کی خاطر اطاعت کرنے والی صورتِ حال پر صادق آتا ہے۔ایک طالب علم مجبوری، لالچ اور خوف کی وجہ سے اپنے استاد کا مطیع و فرمانبردار بن سکتا ہے کہ اُستاد اُسے فیل نہ کر ے اور یہ کہ اُسے اچھے نمبروں میں پاس کردے۔لیکن اگر ایک دوسرا طالب علم اپنے اُستاد کی دلی عزت واحترام اورمحبت کے جذبہ کے تحت اطاعت و فرمانبرداری کرتا ہے تو بظاہر تو دونوں طالب علم اپنے اُستاد کے فرمانبردار ہیں مگر اُن میں واضح فرق ہوتا ہے اور وقت گذرنے کے ساتھ یہ فرق نمایاں تر ہوجاتاہے۔ اُستاد نے کئی سالوں پہ محیط عرصہ میں زندگی کے مختلف ادوار میں شدید محنت سے حاصل کیا ہوا اپنا قیمتی علم شاگرد کو عطا کرنا ہوتا ہے۔ اُستاد جس کا علم اور تجربہ شاگرد سے کئی گنا زیادہ ہوتا ہے اُس کیلئے اپنے شاگرد کی اطاعت کے محرک کو سمجھنا چنداں مُشکل نہیں ہوتا اور وہ اپنے حقیقی اطاعت گذار طالب علم کو ہر ممکن طریق اور ذریعہ سے اپنے علم سے زیادہ سے زیادہ مستفیض کرنے کی سعی کرتا ہے۔ دوسری طرف بہ امرِ مجبوری اطاعت کرنے والا طالب علم عموماً اپنے اُستاد سے بمُشکل واجبی سا علم حاصل کرتاہے۔دیکھا گیا ہے کہ عمومی طور پہ جو شاگرد اپنے استاد کی اطاعت اور فرمانبرداری میں کمزور ہو گا وہ اپنے استاد کی باتوں کو غور و فکر سے نہیں سُنے گا اوروہ علم حاصل کرنے میں بھی اُسی نسبت سے کمزور ہوگا۔ ایسا طالب علم اکثر صورتوں میں علم کے حصول کا سفر ادھورا چھوڑ جاتا ہے اورعموماً زندگی میں اعلیٰ کامیابی حاصل نہیں کر پاتا۔کسی ادارے میں جب لوگ ملازمت پہ لئے جاتے ہیں تو عموماً اُنہیں اد ارے کے سربراہ کی طرف سے اُن کی تعلیم، تجربے اور کام کی مناسبت سے تنخواہ ملنی شروع ہو جاتی ہے۔ ایک شخص اگر ادارے کے جُملہ اُمور میں سربراہ کی ہدایات کی ہر ممکن اطاعت وفرمانبرداری کرتے ہوئے بھرپورمحنت، لگن اور توجہ سے اپنے مفوضہ کام کو احسن طور پہ ادا کرے تو نہ صرف یہ کہ اُس کی تنخواہ بڑھتی جاتی ہے بلکہ وہ اس ادارے کا ایک اٹوٹ انگ بن جاتا ہے لیکن جو شخص ادارے کے سربراہ کی اطاعت کرنے میں سُست اور لاپرواہ ہو اُسے ملازمت سے فارغ کر دیا جاتا ہے بیشک وہ اعلیٰ قابلیت کا مالک اور محنت کرنے والا ہی کیوں نہ ہو۔

اطاعت کا بے مثال درس پنجوقتہ نماز: اطاعت و فرمانبرداری کا بہترین اظہار نمازِ باجماعت میں ہوتا ہے۔ نماز اطاعت و فرمانبرداری کا عملی درس دیتی ہے۔ نماز میں امام کی کامل پیروی میں سب نمازی ہر رکنِ نماز بجالاتے ہیں۔ پانچوں وقت کی ہر نماز، ہر نماز کی ہر رکعت اور ہر رکعت کا ہر رکن جیسے قیام، رکوع، سجدہ اور باقی سب ارکان ہیں جو نمازی کو روز مرّہ اُمورِ حیات میں اطاعت و فرمانبرداری کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ یہ نماز ہے جو ارکانِ اسلام میں سے ایک ایسی چیز ہے جو مسلمان اور کافر میں تمیز کرتی ہے اس طور نماز کو اس کی اصل روح کے ساتھ پڑھنے والے لوگوں پر یہ عیاں ہوتا ہے کہ اطاعت مسلمان کی اور عدم اطاعت کافر کی پہچان ہے۔

تقویٰ اور اطاعت! باہمی تعلق: مذہب اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جس پہ عمل دُنیوی اور اُخروی فلاح کا ضامن ہے جو تقویٰ کے بجُز ممکن نہیں ہے۔ لہٰذا اسلام کا اصل حاصل اور مغز تقویٰ ہے۔ اگر یہ حاصل نہیں ہوا تو لاف و گزاف کے سوا کچھ نہیں۔ جیسا کہ مسیحِ پاکؑ فرماتے ہیں:

ہر ایک نیکی کی جڑ یہ اتقا ہے
اگر یہ جڑ رہی تو سب کُچھ رہا ہے

(درثمین اُردو)

جہاں تک تقویٰ کا تعلق ہے یہ اطاعت کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا۔ تقویٰ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اختیار کرتے ہوئے بنی نوع انسان کے حقیقی خادم بننے کے نتیجہ میں عطا ہوتا ہے۔ رسولِ کریم ﷺ سے پہلے انبیاء بھی تقویٰ اور اطاعت کی طرف بھرپور توجہ دلاتے رہے ہیں۔ قرآن کریم ان مضامین سے مزّین ہے۔ حضرت نوح ؑ، حضرت ہود ؑ، حضرت صالح ؑ، حضرت لوط ؑ، حضرت شعیب ؑ سبھی اپنی اپنی قوموں کو فاتقواللہ و اطیعون۔ (پس اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور میری اطاعت کرو) کا درس دیتے رہے۔ (سورۃالشعراء: 111، 127، 133، 145، 151، 164، 180)

کرونا وائرس کے موجودہ دور میں اس خطرناک وبا سے بچنے کیلئے ہمیں اپنے خالق و مالک کی طرف جھکتے ہوئے اپناتعلق باللہ مضبوط کرنا چاہیئے، پنجوقتہ نمازوں کو اوّل وقت میں حضور قلب سے ادا کرنے کے علاوہ تہجد اور نوافل کا بھرپور باقاعدہ اہتمام کرنا چاہیئے۔حقوق اللہ کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کا ہر پہلو سے خیال رکھتے ہوئے اپنے جیون ساتھی، بچوں، والدین سے دوستانہ محبت اور باہمی احترام کا مضبوط تعلق ہونا چاہیئے۔ اسی طرح اپنے سبھی رشتہ داروں، عزیز دوستوں، جاننے والے غرباء، مساکین، ضرورت مندوں کی دلی خلوص و پیار اور ایثار کے بھرپور جذبہ سے خدمت کیلئے ہر آن مستعد رہنا چاہیئے اور مسیح ِ پاک علیہ السلام کے للّٰہی ارشاد سچے ہوکر جھوٹوں کی طرح تذلّل اختیار کروکوپلے باندھتے ہوئے باہمی رنجشوں اور کدورتوں کو دل و دماغ سے صاف کرنا چاہیئے اور انا، دکھاوے اور تکبر کے جِنوں سے بچتے ہوئے اپنی زندگی مخلوق خدا کی ہمدردی اور خدمت میں وقف کرنی چاہیئے۔اللہ کی اطاعت میں قرآن کریم کے علوم و عرفان سیکھنے،دوسروں کو سکھانے اورقرآنی تعلیمات پر عمل کرنے سے انشاء اللہ ہم با مراد ہوسکتے ہیں اور اللہ کی حفاظت کے حصار میں آسکتے ہیں۔ایم ٹی اے کی نشریات سے بھرپور استفادہ اور خلیفۂ وقت سے مضبوط تعلق ہمیں اپنے ارد گرد دجالی فتنوں اور جملہ خطرات سے بچا سکتا ہے۔ وباللہ التوفیق

(ڈاکٹر محمدظفر وقار کاہلوں، امریکہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 مئی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 مئی 2021